ذرائع پیداوار کی ملکیت اور اسلام

اسلامی نقطہ نظر سے اجتماعی ملکیت کے خلاف چند اہم دلائل موجود ہیں۔ ان دلائل کا صریح تقاضا یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میں تمام ذرائع پیداوار کو قومی مکیت قرار دے دینے کا اصول نہ اختیار کیا جائے۔ اس کے علاوہ اسلامی زندگی کی داخلی قوتیں اس بات کی ضمانت دیتی ہیں کہ استحصال کے ازالہ، پیداواری نظام سے نراج دور کرنے اور دولت کی منصفانہ تقسیم عمل میں لانے کے مقاصد اجتماعی ملکیت کے بغیر بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

(الف) آزادی اور جمہوریت کے لیے انفرادی ملکیت کی ضرورت

تمام ذرائع پیدائش کو اجتماعی ملکیت بنالینے کا اصول افراد سے وہ معاشی طاقت سلب کر لیتا ہے جو ان کو آزادانہ رائے رکھنے، اس کے اظہار اور اس کے حق میں منظّم جد و جہد کرنے کے لیے درکار ہے۔ معاشی طاقت کا سلب کر لینا افراد کے ہاتھوں سے سیاسی طاقت بھی سلب کر لینے یا اسے بے انتہا کم زور اور غیر مؤثر بنادینے کو مستلزم ہے۔ اس بات کی اہمیت دو وجوہ سے اسلامی معاشرہ کے لیے بہت بڑھ جاتی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہر مسلمان فرد اللہ اور صرف اللہ کی مخلصانہ بندگی کا مکلف ہے۔ یہاں تک کہ خود ‘‘اسلامی ریاست’’اگر الہی دستور زندگی سے صراحةً منحرف ہوکر کافرانہ روش اختیار کرے تو افراد کے لیے لازمی ہے کہ اللہ کی اطاعت کو جس کے تقاضے ان کا اپنا ضمیر قرآن و سنت کی روشنی میں متعین کرے گا، حکومت وقت کی اطاعت پر بالا رکھیں۔ دوسری وجہ یہ ہے که اسلامی معاشرہ میں اہم اجتماعی امور کا فیصلہ باہمی مشورہ کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ سیاسی نظام کا یہ جمہوری مزاج اسلامی معاشرہ کے لیے ایک دینی ضرورت ہے۔ افراد کو ذرائع پیداوار اور آزاد روزگار سے محروم کر کے ان کے ہاتھوں سے معاشی اور سیاسی طاقت سلب کرلینے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ آزادی ضمیر سے محروم ہوجائیں اور ان کا حق مشورہ بے اثر ہوجائے۔ یہ بات اسلام کے منشا کے خلاف ہے اور ایسی حالت میں اسلامی زندگی اپنے صحیح مزاج کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتی۔

شوری پر مبنی نظام کا تقاضا ہے کہ افراد کو آزادانہ رائے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔ ہر فرد کو اس بات کا حق حاصل ہو کہ وہ قرآن و سنت کے علم اور اجتماعی مصالح کے فہم کی روشنی میں حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کرسکے یا کسی زیر غور مسئلہ میں حکم ران افراد کی رائے سے ہٹ کر رائے قائم کر سکے۔ پھر اسے اپنی اختلافی رائے کے اظہار، اس کے دلائل کی وضاحت اور مناسب ذرائع سے کام لیتے ہوئے اسے مؤثر بنانے کی کوشش کرنے کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اگر سماج کے اکثر افراد حکومت کی کسی پالیسی سے اختلاف رکھتے ہوں تو ان کو اس بات کے مواقع حاصل ہونے چاہئیں کہ وہ حکومت کے فیصلہ پر اثر انداز ہوسکیں اور اُسے رائے عامہ کے مطابق تبدیل کرسکیں۔ بدرجہ آخر انھیں حکومت چلانے والے افراد کو بدل دینے کا موقع بھی حاصل ہونا چاہیے۔ افراد کو عمال حکومت پر نگرانی رکھنے، ان کا احتساب کرنے اور ضرورت پڑنے پر ان پر سخت سے سخت تنقید کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔

جب تمام ذرائع پیداوار ریاست کی ملکیت ہوں گے سماج کے تقریبًا تمام افراد ریاست کے تنخواہ دار یا وظیفہ خوار کی حیثیت سے کام کریں گے اور ہر شخص کی روزی کا انحصار ایک ایسے خزانہ پر ہوگا جس کی کنجیاں ہمیشہ عمّال حکومت کے ہاتھوں میں رہیں تو جمہوریت کے یہ تقاضے پورے نہیں ہوسکیں گے۔ حکومت کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ کسی فرد میں اختلاف کی بو سونگھتے ہی اسے ستانا شروع کردے اور یہ بات بیشتر افراد کو اختلاف کرنے سے باز رکھے گی۔ حکومت کے لیے یہ بہت آسان ہوگا کہ وہ اختلافی رائے کے اظہار کے مواقع ختم کردے۔ ایسا کرنے کے لیے وہ اختلاف کرنے والے افراد کو معاشی مشکلات میں بھی مبتلا کرسکتی ہے اور اظہار رائے اور اشاعت افکار کے ذرائع پر کنٹرول بھی کرسکتی ہے۔ جب تمام ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں ہوں تو دوسری صنعتوں کی طرح ذرائع نشر و اشاعت اور وسائل حمل و نقل بھی حکومت کے قبضہ و اختیار میں ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ عوام کے سامنے اختلافی رائیں لانے، حکومت پر تنقید کرنے اور اصلاح حال کے لیے منظم کوشش کرنے کے لیے ان ذرائع و وسائل کا استعمال ناگزیر ہے۔ اگر حکومت افراد کو ان کے آزادانہ استمال کا موقع نہ دے تو جمہوریت باقی نہیں رہ سکتی۔

جمہوریت کے تقاضے اسی وقت پورے کیے جاسکتے ہیں جب معاشرہ میں افراد کی ایک بڑی تعداد اپنی معاشی زندگی میں حکومت کی دست نگر نہ ہو اور اس کی دو وقت کی روٹی کا انحصار حکومت کی تنخواہ یا وظیفے پر نہ ہو۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب آزادانہ کسب معاش کے مواقع حاصل ہوں اور افراد پیدائش دولت کا کاروبار کرسکتے ہوں۔ اس کے لیے بہت سے ذرائع پیدائش کا اجتماعی ملکیت سے باہر ہو نا ضروری ہے۔ فرد کی سیاسی طاقت کا انحصار اس پر ہے کہ وہ معاشی طور پر حکومت وقت سے بے نیاز ہو کر بھی زندہ رہ سکے اور ترقی کرسکے۔ جو فرد معاشی طور پر کسی کا دست نگر ہو وہ اس کے خلاف کسی سیاسی طاقت کا حامل نہیں ہوسکتا۔ سماج میں بہت سے ذرائع پیدائش دولت اور بہت سے مواقع روزگار کا حکومت کے پورے قبضہ و اختیار سے باہر ہونا اس بات کی ضمانت ہوگا کہ بہت سے افراد آزادانہ رائیں قائم کریں اور اس کا اظہار کریں۔ اسی شکل میں یہ ممکن ہوگا کہ حکومت وقت کا کوئی ملازم یا قومی صنعتوں میں کام کرنے والا کوئی مزدور، اگر حکومت کی پالیسیوں کو غلط سمجھے اور اس کا ضمیر ان پالیسیوں کے نفاذ میں تعاون کے لیے آمادہ نہ ہو تو وہ حکومت کی چاکری ترک کرکے نجی کاروبار کے دائرہ میں روزگار حاصل کرلے۔ سچی آزادی ضمیر اور حقیقی جمہوریت کے لیے کسب معاش کا ایک وسیع میدان ضروری ہے، جہاں کوئی بھی فرد حکومت سے بے نیاز ہوکر اپنی روزی کما سکے۔

دنیا کی بعض قوموں نے یہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے کہ وہ زندگی کے کسی ایک شعبہ کو غیر معمولی اہمیت دے کر اس کی کسی قدر کے مبالغہ آمیز تصور کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے لیے ایک ایسا طریقہ اختیار کرتی ہیں جو دوسرے شعبوں سے متعلق بنیادی اور اہم ترین قدروں کو بھی پامال کر دیتا ہے۔ معاشی فلاح، مساوات اور ازالہِ استحصال کے مقاصد کے لیے بنیادی سیاسی قدروں کی پامالی اشتراکی سماج کی نمایاں صفت ہے۔ اسلام میں اس غیر متوازن پالیسی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بنیادی مصالح کا تحفّظ کرنے والی قدروں کی نشان دہی قرآن و سنت میں کردی گئی ہے، ان کے متناسب اور متوازن نفاذ کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اور قرآن و سنت میں اس نفاذ کے اصولی طریقے بھی واضح کر دیے گئے ہیں۔ اسلام میں معاشی مفادات کے تحفظ یا معاشی ترقی کے لیے انفرادی آزادی اور جمہوریت کی کامل قربانی نہیں دی جاسکتی۔

(ب) اخلاقی اور روحانی ارتقا کے تقاضے

تمام ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت اور معاشی طاقت کا تمرکز افراد کے اخلاقی اور روحانی ارتقا میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس شکل میں فرد کی اخلاقی ترقی کے مواقع کم ہو جاتے ہیں اور بعض روحانی مفاسد کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ عام افراد کے اخلاقی اور روحانی ارتقا کی ایک اہم شرط یہ ہے کہ ان کو اپنا مقام بڑی حد تک محفوظ معلوم ہو اور وہ مسلسل بھیانک اندیشوں کا شکار نہ رہیں، اگر فرد کو ہمیشہ اپنی جان چلی جانے یا آزادی چھن جانے یا ضروریات زندگی سے محروم کر دیے جانے کا اندیشہ لاحق رہے تو اسے وہ سکونِ خاطر نہیں نصیب ہوسکتا جس کا ایک کم سے کم معیار انسان کے روحانی امور کی طرف متوجہ ہونے یا اپنی شخصیت کے لطیف تر پہلوؤں کی پرورش میں لگنے کے لیے ضروری ہے۔ ایک ایسے معاشرہ میں جہاں معاشی اور سیاسی طاقتیں حکومت کے ہاتھوں میں مرکوز ہوں۔ اس طرح کے حالات پیدا ہونے کا اندیشہ بہ نسبت دوسرے معاشروں کے زیادہ ہوتا ہے۔ جب تک ایک کلّیت پسند حکومت انصاف پر قائم رہے افراد کی آزادی کا احترام کرے اور بلالحاظ نظریہ و مسلک ہر فرد کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کا اہتمام کرے تب تک افراد کو سکون و اطمینان میسر رہے گا۔ لیکن اگر کبھی حکومت کا مزاج بگڑ جائے اور وہ کسی مخصوص فرد یا گروہ پر ظلم و زیادتی کرنے پر اتر آئے تو ا فراد اضطراب و بے چینی کا شکار ہو کر اس سکونِ خاطر سے محروم ہوجائیں گے۔ ایسا ہونے کا امکان ایک کلّیت پسند معاشرہ میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں انسانی ضمیر کی قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے اور خطرات کی شدّت اسے غلامانہ ذہنیت میں مبتلا کرکے ارباب اقتدار کا بندہ بن جانے پر آمادہ کردیتی ہے۔ ایک کلّیت پسند ریاست کے معاشی اور سیاسی دباؤ کے باوجود انسانی ضمیر کا پاکیزہ اور موحّد رہ جانا اتنا بڑا کام ہے جس کی چند غیر معمولی افراد سے توقع کی جاسکتی ہے مگر عام انسانوں سے اس کی توقع رکھنا زیادتی ہے۔ انسانیتِ عامّہ کے روحانی مفاد کا تقاضا ہے کہ ایسے حالات رونما ہونے کا امکان باقی رکھا جائے۔ فرد کو کسب معاش کے لیے آزادانہ ذرائع پیدائش میسّر ہونے کا روحانی فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی قوّتِ بازو سے اپنی ضروریات پوری کر کے ساری دنیا کی غلامی سے آزاد رہ سکتا ہے اور اپنے ضمیر کو دوسرے انسانوں یا انسانی اداروں کی مرضی کے تابع بنانے سے انکار کرسکتا ہے۔ اگر فرد کو یہ حق حاصل رہے تو وہ کسی بگڑی ہوئی حکومت کے دور میں بھی اپنی چھوٹی سی دُنیا میں توحید پر قائم رہنے اور ایک پاکیزہ فضا برقرار رکھنے میں کام یاب ہو سکتا ہے۔

انسان کی اخلاقی صفات کو عملی جامہ پہن کر اچھے کاموں کی شکل میں ظاہر ہونے کے لیے کچھ ذرائع و وسائل، کسی حد تک طاقت و اختیار اور کسی نہ کسی ‘‘مواد’’کی ضرورت پڑتی ہے۔ لطف وکرم، مواساة و ہمدردی، خدمت و ایثار، تعاون و دست گیری اور دوسرے اخلاق حسنہ کے اظہار کے لیے فرد کی ملکیت ذرائع و وسائل کا کام کرتی ہے۔ ایک اچھے انسان کی ملکیت میں جو ذرائع پیدائش ہوں وہ اس کی اچھی صفات کے اظہار کا ذریعہ اور دوسرے انسانوں کے لیے باعث رحمت بن سکتے ہیں۔ موجودہ سماج میں اگر ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت استحصال اور ظلم کا ذریعہ بن جاتی ہے تو اس کی ذمہ داری بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ آج کا انسان اخلاق حسنہ سے عاری ہے۔ اس کے باوجود اس بگڑے ہوئے معاشرہ میں بھی ایسے افراد مل جاتے ہیں جو اپنے سرمایہ اور کاروبار کوسماجی بہبود اور اجتماعی فلاح کا خادم بنا کر رکھتے ہیں۔ برے افراد کو ان ذرائع سے محروم کرنا، ان ذرائع پر ان کے قبضہ و اختیار کو محدود اور مقید کر دینا درست ہو سکتا ہے لیکن اچھے افراد کو ان ذرائع سے محروم کردینا اچھائی کے ساتھ ظلم ہے۔ اس سے سماج کو بھی نقصان ہوتا ہے اور خود ان افراد کے اخلاقی ارتقا میں رکاوٹ ہوتی ہے۔

اسلام کو اس بات پر اعتماد ہے کہ وہ انسانوں میں اچھی صفات پیدا کرنے اور ان کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے میں کام یاب ہوسکتا ہے۔ اس لیے ابتدا ہی سے ایک اصول موضوعہ کے طور پر یہ بات نہیں تسلیم کی جاسکتی کہ افراد کو ذرائع پیدائش کی ملکیت سے محروم کر دیا جائے۔ صحیح طریقہ یہ ہوگا کہ ان ذرائع سے انھی افراد کو اسی حد تک محروم کیا جائے جو اچھے نہ بن سکیں، ان ذرائع کو مضرت رساں طریقوں سے استعمال کریں، باوجود تنبیہ کے اپنے طرز عمل کی اصلاح نہ کریں۔ یہ حقیقت پسندانہ پالیسی اسلام کے اس مزاج سے بھی ہم آہنگ ہے کہ فرد کی اخلاقی تربیت اور اس کا تزکیہ اہم ترین مقصد ہے اور اس کے لیے بیش از بیش مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں۔ اگر افراد کے تزکیہ اور ان کی اخلاقی تربیت کے لیے ایک ساز گار فضا پیدا کرنے کی خاطر ہمیں معاشی مفادات کو کسی حد تک قربان بھی کرنا پڑے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا۔

(ج) استحصال بے جا کا امکان کم کرنے کی مؤثر تدابیر

اوپر ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت استحصال کا صرف ’امکان‘ پیدا کرتی ہے، اسے لازمی نہیں بنا دیتی۔ اس حقیقت کی روشنی میں کسی نظام زندگی کے لیے اصل مسئلہ یہ ہے کہ امکان کے باوجو د استحصال کو واقع ہونے سے روکا کس طرح جائے۔ استحصال کا امکان موجود ہوتے ہوئے اس بات کا اہتمام کہ عملًا استحصال نہ ہو دو طرح سے کیا جاسکتا ہے، اور یہ اہتمام مکمّل اسی وقت ہوسکتا ہے جب بیک وقت ان دونوں طریقوں سے فائدہ اُٹھایا جائے۔

ایک طرف تو اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ انسان کو انسان بنایا جائے تاکہ وہ اخلاقی محرکات کے تحت استحصال سے باز رہے۔ یہ داخلی تربیت انسان کو حیات و کائنات کے بارے میں صحیح نقطہ نظر کی تعلیم دے کر، اسے ایک بالاتر ہستی کے حضور جواب دہی کا احساس دلا کر اس میں اجتماعی شعور بیدار کر کے اور ایک اچھا اخلاقی طرز عمل اختیار کرنے کے روحانی جمالیاتی اور عام سیاسی اور معاشی نتائج کو سامنے لاکر کی جاسکتی ہے۔ انسانوں کو ایک خاندان کے افراد ہونے کا شعور اور اس بات کا احساس عطا کرنا چاہیے کہ ان کے مقاصد مشترک ہیں۔ یہ تربیت سماج کے تمام افراد کی ہونی چاہیے تاکہ جو فرد کاروبارِ زندگی میں جس حیثیت سے بھی حصہ لے انسان کی طرح حصہ لے۔ اس کتاب کے پہلے باب میں ہم نے اجمالاً وہ نقطہ نظر واضح کیا ہے جو اسلام بالخصوص ملکیت کے باب میں انسان کو عطا کرتا ہے۔ اگر ایک جدید ریاست اپنے نظام تعلیم و تربیت اور ذرائع نشر و اشاعت -پریس سینیما، ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ- کو اس نقطہ نظر کی تعلیم کے لیے استعمال کرے تو بڑی حد تک ایک اچھی اخلاقی فضا پیدا کی جاسکتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ معاشرہ کے جو افراد سیاسی یا معاشی طور پر دوسرے افراد سے زیادہ طاقتور ہوں گے وہ ان کے استحصال سے باز رہیں گے۔

دوسری طرف اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ اخلاقی طور پر تربیت یافتہ سماج میں سے چند بہترین افراد کو منتخب کر کے سماج پر احتساب و نگرانی کا ایک نظم قائم کیا جائے۔ اس نظم کا کام یہ ہو کہ جہاں جہاں جسے بھی استحصال کے مواقع حاصل ہوں اس پر کڑی نگاہ رکھے اور جو فرد یا گروہ حرص و ہوس کا شکار ہوکر استحصال کی طرف مائل ہو اس کا ہاتھ پکڑے۔ یہ نظم کاروباری سرگرمیوں، تجارت و صنعت، اور عام کاروباری معاہدوں کو ایسے ضابطوں کا پابند بنائے کہ استحصال کے مواقع کم سے کم ہوجائیں۔ یہی نظم معاشرہ میں اجارہ دارانہ اتحاد اور معاشی طاقت کے غیرمعمولی تمرکز کو بھی روکے تاکہ ایسا نہ ہوکہ چند ہاتھوں میں اتنی طاقت جمع ہوجائے کہ اس پہ قابو پانا مشکل ہوجائے۔

آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے کہ بیک وقت یہ دونوں طریقے اختیار کرنا کیوں ضروری ہے۔ اگر صرف اخلاقی تربیت پر بھروسا کیا گیا تو یہ ممکن ہے کہ کوئی ایک فرد یا چند افراد حرص و ہوس کا شکار ہوکر استحصال شروع کردیں، پھر اس کے رد عمل اور تقلید کے نتیجہ میں برائی کا ایک چکر چل پڑے جسے روکنے کے لیے کوئی بااقتدار ہستی نہ موجود ہو۔ انسان کوئی مشین نہیں کہ ایک خاص انداز پر تربیت پانے کے بعد خود اس انداز کو نہ بدل سکے اور ہمیشہ اسی طرز عمل پر قائم رہے جو اسے سکھایا گیا تھا۔ پھر تمام انسانوں کو یکساں تربیت دی بھی نہیں جاسکتی۔ نہ معاشرہ سے شرپسند افراد کو بالکل ختم کیا جاسکتا ہے۔ انسانوں کی تربیت ہمیشہ ناقص اور غیر مکمل رہتی ہے۔ اس طرح صرف احتساب و نگرانی کے ایک صاحب اقتدار نظام پر بھی پورا بھروسا نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اگر خود معاشرہ کی عام اخلاقی تربیت نہیں کی گئی تو نظم احتساب کے لیے بھی قابل اعتماد افراد نہیں مل سکیں گے۔ اگر ناتربیت یافتہ اور خام افراد سماج کے بااقتدار نگراں بن بیٹھے اور خود استحصال کرنے یا استحصال کرنے والوں کا ساتھ دینے پر اتر آئیں تو سماج کی عام اخلاقی پستی کے سبب ان کو بدلنے کی عام ضرورت محسوس ہونے، اصلاح حال کی کوشش کی جانے اور ان افراد کو بدل کر بہتر افراد لانے کا کوئی امکان نہ باقی رہے گا۔ برعکس اس کے اگر دونوں طریقے ساتھ ساتھ اختیار کیے جائیں تو دہرا فائدہ ہوگا۔ انفرادی اخلاقی کوتاہیوں کی تلافی اور سماج کو ان کے مضر اثرات سے بچانے کا اہتمام قانونی پابندیوں اور اجتماعی کنٹرول کے ذریعے ہوگا، اور احتساب و نگرانی کے نظم کو بہترین کارکن مل سکیں گے جن کو سماج کا اخلاقی شعور راہ راست پر رکھنے اور بوقت ضرورت بدل دینے پر قادر ہو گا۔

اسلام نے اس مسئلہ کا حل اسی طرح کیا ہے۔

(اسلام کا نظریہ ملکیت، ص 132 تا ص 140)

مشمولہ: شمارہ جنوری 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223