ہندوستان میں اسلام کا پرامن فروغ

کسی قوم کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرنا تحریف کی بدترین شکلوں میں سے ہے۔ اگر اس تحریف کے پیچھے فرقہ وارانہ منافرت کا فروغ اور اسلاف کے ناکردہ گناہوں کی سزا اخلاف کو دینے کی بُری نیت کار فرما ہو تو یہ عمل اور شنیع ہوجاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں ہندوستانی مسلمانوں بلکہ مناسب الفاظ میں ملک ہندوستان کو اپنی تاریخ کے سلسلے میں اِسی طرح کی بد ترین کوششوں کا سامنا ہے۔

یہ کتنا بڑا اخلاقی المیہ اور تاریخ کے ساتھ مذاق ہے کہ ہمارے پُرکھوں نے تو اسلام کی روشنی کو اپنی عقل و فطرت سے پہچانا، اسلام کی روشن تعلیمات اور اس پر عمل کرنے والوں کے اعلی کردار سے متاثر ہوکر اسلام کو اپنی قیمتی گم شدہ متاع جانا، اسے سینے سے لگایا اور اپنی آنے والی نسلوں کو منتقل کیا، لیکن اب ان کے بارے میں یہ جھوٹ تراشا جائے اور اسے پروپیگنڈے کے ذریعے پھیلایا جائے کہ انھوں نے زور زبردستی کے نتیجے میں اسلام قبول کیا تھا۔

تحریف کتنی ہی بڑی ہو اور پروپیگنڈا کتنے ہی زور و شور سے کیا جائے، تحریف کا جواب بہ ہر حال تحقیق سے دیا جاسکتا ہے اور حقائق کو سامنے لاکر پروپیگنڈے کی عمارت کو زمین بوس کیا جاسکتا ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈے کا ایک ہی جواب ہوسکتا ہے اور وہ ہے حقیقت بیانی۔

تحریف اور پروپیگنڈے کے خلاف احتجاج کا فائدہ تو ہوتا ہے مگر اسی وقت جب کہ احتجاج کی پشت پر حقائق کی زبردست قوت موجود ہو۔ جھوٹے بیانیے کو کتنا ہی زیادہ پھیلادیا جائے لیکن سچے بیانیے کے لیے اسپیس ہمیشہ رہتا ہے اور سچ کے علم برداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کا بہتر استعمال کریں۔

ہندوستان میں اسلام کی دعوت پہنچی اور ملک کے کونے کونے میں پھیل گئی، یہ ایک حقیقت ہے۔ ہندوستان کے بڑے خطے پر مسلم حکم رانوں کی طویل عرصے تک حکومت رہی، یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا ہندوستان میں اسلام اقتدار کے زور سے پھیلا یا مسلمانوں کے عقائد و اعمال سے متاثر ہوکر لوگوں نے اپنے دل کی رضامندی کے ساتھ اسے قبول کیا۔

اپنے آبائی مذہب کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ مذہب کی تبدیلی کسی خوف یا لالچ کے بغیر ہو، یہی انسانی شرف کا تقاضا ہے۔ ہر شخص کو اپنے دین کی تبلیغ کا حق حاصل ہے۔ یہ تبلیغ پُر امن اخلاقی ذرائع سے ہو، یہ ضروری ہے۔

جہاں تک اسلام کا مزاج ہے تو وہ دلائل کی بنیاد پر دین کو اختیار کرنے کا مطالبہ کرتا اور جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں رکھتا ہے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ بھی اس کی شہادت دیتی ہے کہ ملک عرب میں مخالفین کی انتہائی پر تشدد مخالفت کے باوجود صرف دلیل کی قوت سے اسلام پورے عرب میں پھیل گیا۔ اس لیے قیاس یہی کہتا ہے کہ ہندوستان میں بھی اسلام اپنی ذاتی تاثیر کی بنیاد پر پھیلا، نہ کہ کسی زور زبردستی کی بنا پر۔ تاہم اس قیاس کو تاریخی حقائق سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

ابھرتے ہوئے تاریخ نگار سید عبیدالرحمان نے بڑی عرق ریزی سے ایسے تاریخی حقائق کو جمع کیا ہے جن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ہندوستان میں اسلام پر امن ذرائع سے پھیلا ہے، سیاسی اور عسکری قوت کا اسلام کی تبلیغ میں کوئی قابل لحاظ کردار نہیں ہے۔ موجودہ دور میں یہ تحقیقی کاوش ملک و ملت کی ایک اہم اور فوری ضرورت کی تکمیل ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب ایک بڑی علمی و تصنیفی تحریک کا آغاز بنے گی۔

اس کتاب نے اس عظیم تاریخی حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ ہندوستان کے کئی بہت بڑے علاقے وہ ہیں جہاں اسلام خوب پھیلا جب کہ اشاعت اسلام کے لیے وہاں تلوار کا ایک بار بھی استعمال نہیں ہوا۔ یہ کتاب تاریخی حوالوں کے ساتھ اس پر زور دیتی ہے کہ ہندوستان کے بہت بڑے حصے میں اسلام صوفیوں اور تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ اس پر مصنف کی یہ وضاحت بھی اہم ہے کہ صوفیوں اور تاجروں نے اپنے روحانی اور مادی اثرات کو راست تبلیغِ اسلام کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ ان کے حسنِ کردار سے متاثر ہوکر لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

یہ کتاب آغاز سے اختتام تک خوش گوار تاریخی انکشافات پر مشتمل ہے۔ جیسے یہ انکشاف کہ ملک کی بعض ریاستوں میں خود راجاؤں اور مہا راجاؤں نے اپنی رعایا کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی۔

کہا جاسکتا ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے بیسویں صدی کے آغاز میں صحیح علمی نہج پر اشاعت اسلام کی تاریخ لکھنے کی جو ابتدا کی تھی اور جس کام کو آگے بڑھانے میں خود مسلمانوں کی طرف سے بڑی کوتاہی ہوئی، سید عبیدالرحمان نے اس سلسلے کو علمی سنجیدگی کے ساتھ کچھ آگے بڑھایا ہے۔ یہ بہت بڑا اور ضروری کام ہے اور مسلسل توجہ اور متعدد محققین کی شمولیت چاہتا ہے۔

یہ کتاب دست یاب حقائق پر مبنی معروضی مطالعہ ہے یا اس میں معذرت خواہانہ کیفیت کے ساتھ سلیکٹیو اپروچ کو اختیار کیا گیا ہے؟اس کا فیصلہ کتاب کےقارئین خود کرسکیں گے۔

مشمولہ: شمارہ مئی 2024

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223