دعوت دین کی منصوبہ بندی

اللہ رب العالمین نے انسانوںکوپیداکرکے جہاں ان کی زندگی کی بقاوتسلسل کے لیے سازوسامان فراہم کیا،وہیں ان کی ہدایت ورہنمائی کے لیے ہرزمانے میں انبیاء  کرام کومبعوث فرمایا۔سب سے آخرمیں نبی کریمﷺ  تشریف لائے،آپ کے بعد قیامت تک کے لیے کوئی نبی نہیں آنے والاہے۔اب اس دنیامیں ایک ہی مستند،محفوظ اورعنداللہ مقبول دین ’’اسلام ‘‘ہے: ان الدین عنداللہ الاسلام۔ یہ دین انسانی زندگی کے تمام انفرادی واجتماعی گوشوںپر محیط ہے، انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جواس کے دائرے سے خارج ہو۔یہ دین عدل وقسط پر مبنی ایک نظام زندگی کا پورانقشہ پیش کرتاہے جودنیامیںحیات طیبہ اورآخرت میں اللہ کی رضا اورجنت کے حصول کا ذریعہ ہے۔

نبی کریم ﷺ  اورمنصوبہ بندی

نبی کریمﷺ  کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کا ہرکام منصوبہ بند، حکمت وتدبراورفہم وفراست سے لبریزہوتاتھا۔آپ ﷺ  نے جنگ بدرکے موقع پرجومنصوبہ بندی کی وہ سیرت کی کتابوںمیں محفوظ ہے کہ سب سے پہلے آپ ﷺ  نے دوخبررساں مقررکیے جنھیں ملک شام سے آنے والے کارواںکی آمدکی اطلاع دینے پر مامورکیا۔مدینہ سے روانہ ہوئے توآپﷺ  نے شمال کی بجائے مدینہ کے جنوب کی طرف کوچ کیا تاکہ وہ دشمن تک پہنچنے سے پہلے کسی محفوظ مقام پرپہنچ سکیں۔آپﷺ  نے مناسب جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے کنویں کے قریب پڑاؤڈالا۔دشمن کی تعدادمعلوم کرنے کے لیے ایک نگراں دستہ بھیجا۔ دوآدمیوںکوگرفتارکرکے ان سے دشمنوںکی تعدادکے ساتھ یہ بھی معلوم کیاکہ کون کون سے سردارآئے ہوئے ہیں۔آپﷺ  کے اصحاب کی تعداد۳۱۳تھی،مختلف حصوںمیں انھیں تقسیم کیا،فوج کا مقدمہ ،میسرہ،میمنہ وغیرہ ترتیب دیا،اس کے سردارمقررکیے،پھراحتیاطی تدابیراختیارکیں،ایک جھونپڑی تیارکی تاکہ آپ وہاں سے فوج کی حرکات پر نظررکھ سکیں اوراس جھونپڑی کی حفاظت کا بھی انتظام کیا۔ دو تیز رفتار اونٹنیاں تیار رکھیں تاکہ حالات خراب ہوں توحفاظتی تدابیرپر عمل درآمدکیاجاسکے۔ پھراللہ کے حضور سربہ سجودہوے اوروہ تاریخی دعاکی:

’’اے اللہ ! اگریہ چھوٹی سی جماعت ہلاک ہوگئی توتیری عبادت کرنے والاکوئی نہیں ہوگا‘‘۔

اس کے بعد باہرنکلے ،فوج کو خطاب فرمایا،ان کے دلوںمیں ولولہ انگیز جذبہ پیداکیا۔ یہ کچھ تفصیلات ہیں جوجنگ سے پہلے کی منصوبہ بندی کی مختصرتصویرپیش کرتی ہیں۔ بدر کے میدان میں کیسے جنگ ہوئی،اس کے بعد کیاواقعات پیش آئے یہ اوراس کے علاوہ سیرت کے مختلف واقعات میں آپﷺ  کی فہم وفراست اورمنصوبہ بندی کے نادرنمونے ملتے ہیں۔ دعوت دین کا کام تواس کے بغیرہوہی نہیں سکتا۔

دعوت دین کا کام منصوبہ بندی چاہتاہے

دعوت دین کاکام ایک غیرمعمولی کام ہے اورا س ملک میں کام کرنے کے لیے ہمیں ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ہمیں مرحلہ وار،اس کی میعاداورمقدارمقررکرکے آگے بڑھنا ہوگا اوردرمیانی مدت میں ٹھہرکرجائزہ لیناہوگا کہ ہم نے جواہداف مقررکیے ہیں کیاوہ کافی ہیں؟ اور جوذرائع اختیارکررہے ہیں کیاوہ مفیداورنتیجہ خیزثابت ہورہے ہیں؟اس میں کمی یاخامی ہو تو اس کودورکرکے آگے بڑھنا چاہیے ،اہداف کا تعین اوراحتساب کا عمل دونوںساتھ ساتھ جاری رہنا چاہیے۔

منصوبہ بندی میں ترجیحات﴿PRIORITIES﴾مقررہوتے ہیں،جوکام کومرحلہ وارکرنے میں مدددیتے ہیں۔بعض کام اولین اہمیت کے اورناگزیرہوتے ہیں ،اس کے بغیر منصوبہ کی طرف پیش قدمی نہیں ہوسکتی۔منصوبہ بندی میں بعض امورکی منصوبہ بندی طویل المیعاد ﴿Long Term﴾بنیادوںپر کی جاتی ہے اوربعض امورکی ایک قریبی متعین میعادکے لیے کی جاتی ہے۔یہ بھی ضروری ہے کہ منصوبہ بندی باقاعدہ اورزمانے وحالات کے تقاضوںکے مطابق ہو۔ دعوت دین کا آخری مرحلہ اوراس کی تکمیل اظہاریادین اسلام کے غلبے کی صورت میں ہوتی ہے، یہ ہماراہدف ہے جوایک طویل ،صبرآزمااورنتیجہ سے بے پرواہوکرکرنے کاکام ہے۔ یہاں چند گزارشات دعوت کی منصوبہ بندی کے متعلق پیش کی جارہی ہیں۔

داعی افراد کی تیاری

سب سے پہلا اوربنیادی کام یہ ہے کہ امت مسلمہ کے ہرفردمیں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ داعی ہے اورا س پیغام کا امین ہے جواس کے نبیﷺ  نے اس کے سپردکیاہے۔ آپﷺ  نے اپنے آخری حج میں اس کے ذمے یہ کام کیاتھا کہ وہ تمام انسانوںتک اپنے قول وعمل کے ذریعے اللہ کا پیغام بالکل اسی طرح پہنچائے،جس طرح خودآپﷺ  نے اس تک پہنچایاتھا۔دعوت کاکام کسی ایک فرد یا جماعت کا نہیں بلکہ پوری امت کاہے اوریہ امت داعی امت ہے،اسے خودکواورتمام انسانوں کوجہنم کی آگ سے بچانااورجنت کی ابدی کامرانیوں سے ہم کنارکراناہے۔ امت مسلمہ نے اپنے دور زوال میں اس کام سے غفلت برتی،جس کی وجہ سے آج اسے ذلت اورنکبت سے دو چار ہونا پڑ رہا ہے۔ دعوت کی تڑپ اوراس پیغام کو پہنچانے کی فکراگرامت کے ہرفردمیں پیدا ہو جائے تودعوت کا یہ کام بہتے ہوئے پانی کی طرح اپنی راہیں خودمتعین کرلے گا اورغیب سے نصرت خدا وندی حاصل ہوگی۔ اس کے لیے سب سے پہلے ہمیں اس امت میں داعیوں کا ایک گروہ تیار کرنا ہوگاجودعوت کی تڑپ رکھتے ہوں، دعوت کے مزاج ومنہاج کوبھی سمجھتے ہوںاوراس راہ کی آزمائشوںکوصبروہمت سے انگیزکرسکتے ہوں۔ہماری سب سے اہم ترجیح صلاحیت اورصالحیت والے افرادکی تیاری Human Resources ﴾ ﴿Developmentہونی چاہیے۔وقت سرمایہ اورمحنت اس قسم کے افرادتیارکرنے میں لگائے جائیں۔

مدعوقوم کی نفسیات ،نظریات اوررجحانات سمجھنے کی ضرورت

دوسری اہم بات مدعوقوم کی نفسیات،نظریات اوررجحانات کوسمجھنا ہے۔فریق ثانی کی پسند اورناپسند کوجاننا ہے۔ اس کے لیے ان کی مذہبی کتابوںکامطالعہ ان کی اپنی زبان میں کرناہوگا۔آج ہندوسماج اپنے مذہبی سرچشموں اوردھارمک گرنتھوں سے بہت دور جاپڑاہے۔ اسے سمجھنے کے لیے خود اس سماج سے قریب ہونے کی ضرورت ہے، ذاتی روابط سے اسے جاننے کی کوشش ہونی چاہیے۔مثال کے طورپر آج عیسائی اداروںمیں جوعیسائی مبلغ تیارہوتے ہیں۔ ان کے نصاب میں دیگرمذاہب کے تعلق سے اسباق ہوتے ہیں اورچند ہفتے ان مبلغین کومتعلقہ مذہب کی سوسائٹی میں رکھ کرحقیقی صورت حال کی جان کاری حاصل کرائی جاتی ہے۔ اس قسم کا ایک گروپ چندسال پہلے جامعہ دارالسلام عمرآبادبھی آیاتھا۔

مدعوقوم کی زبان سے اچھی طرح واقفیت اوراس پر عبورحاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا معاملہ یہ تھا کہ ’’یخاطب کل قبیلۃ بلسانہا ویحاورہا بلغتہا‘‘ آپ ہر قبیلہ سے اس کی زبان میں گفتگوفرماتے اوراسی زبان کے محاورے استعمال فرماتے تھے۔

دعوت کے کام کی اہمیت کے پیش نظراردوزبان ہی کافی نہیں ہے ۔بلکہ مقامی زبانیں خصوصاً انگریزی زبان سیکھنے اوران میں ادبی کمال پیدا کرنے کی سخت ضرورت ہے۔موجودہ دور میں کسی قوم کے رجحانات اورنظریات کو جاننے کے لیے شماریاتی جائزے ﴿Statical Survey﴾کرائے جاتے ہیں۔اس فن نے بڑی ترقی کی ہے اورالیکشن کے موقع پر چند افراد کے ذریعے پورے نتیجے کا ادراک کرلیاجاتاہے۔اس قسم کے اداروں کے ذریعے سے بھی مدعو قوم کی نفسیات اوررجحانات کو سمجھاجاسکتاہے۔ اس کے علاوہ نومسلم حضرات کے حالات زندگی سے بھی اس کا پتا لگایاجاسکتاہے۔

غیرمسلموں سے تعلقات موجودہ دورکی ضرورت

دعوت دین کاکام اس بات کا متقاضی ہے کہ غیرمسلموں سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ نفرت ،اجنبیت اورتعصب کی جودیواریں برسوں سے کھڑی ہوئی ہیں انھیں منہدم کرکے بے لوث انسانی روابط قائم کیے جائیں۔ ہم دنیوی امورومعاملات کے لیے مختلف حیثیتوں سے روابط رکھنے پر مجبور ہیں،لیکن ہمارے درمیان برسوں سے غیرمسلم بھائی بہن رہتے ہیں،تعلقات بھی مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں مگردینی نقطۂ نظر سے ہم نے ان تک پیغام حق کبھی نہیں پہنچایا۔ ان کے دکھ دردمیں کام آنا، ان کی خوشیوںمیں شامل ہونا،انھیں مفید مشورے دینااوران کے اعتماد اورحسن ظن کوحاصل کرنا ضروری ہے۔اس سلسلے میں تحفے تحائف کا لین دین بھی مفید اور مؤثرثابت ہوسکتاہے۔بعض مشہوراہل علم جیسے ابومیسرہؒ  ،عمربن میمونؒ  اور عمربن شرجیلؒ  کے بارے میں منقول ہے وہ صدقۂ فطرسے عیسائی راہبوں کی مددکیاکرتے تھے۔  فقہاء  نے غیرمسلموں کو قربانی کا گوشت دیناجائز اور موجودہ حالات میں مستحب اورمستحسن قراردیاہے ۔ تعلقات میں خوشگواری پیداکرنے اورروابط قائم کرنے کے جوبھی ذرائع اور معروف طریقے ہوں انھیں بھرپوراستعمال کرناچاہیے۔

اسلام اورمسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ

اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے کئی قسم کی غلط فہمیاں غیرمسلموں کے اندرپائی جاتی ہیں دعوت دین کی منصوبہ بندی میں ان غلط فہمیوں کودورکرنا بھی بہت ضروری ہے۔ اس لیے کہ ﴿الناس اعداء لماجہلوا﴾’’لوگ اس چیز کے دشمن ہوتے ہیں جسے وہ نہیں جانتے‘‘۔ برادران وطن میں اسلام کے عدم مطالعہ ،انگریزوں اورفرقہ پرستوں کے غلط اورجھوٹے پروپگنڈے اور خود مسلمانوں کے غلط کرداراوررویے کی وجہ سے بہت ساری غلط فہمیاں پیداہوگئی ہیں۔ مثلاً: جہاد، کافراور تعددازدواج جیسی اصطلاحیں اورپھر ۱۱ستمبر۲۰۰۱ کے بعداسلام کودہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش وغیرہ۔شریعت کے معانی یہ سمجھ لیے گئے ہیں کہ چورکاہاتھ کاٹا جائے اورزانی کو سنگسار کیاجائے،حالانکہ شریعت اسلامی انسانی زندگی میں مصالح کے حصول اور مفاسدکے ازالے کاذریعہ ہے۔اسی طرح ایک غلط تصور’’وحدت ادیان‘‘کاہے کہ تمام مذاہب ظاہری فرق کے باوجودحقیقت میں ایک ہیں۔وہ ایک ہی مشترک منزل کی طرف جانے کے متعددراستے ہیں۔اس معاملے میں ہمیں اسلام کی صحیح ترجمانی کرنی ہوگی اوراسلام کودین حق اور نجات کا واحد حل ثابت کرنے کی حکمت ودانائی سے کوشش کرنی چاہیے۔مذاہب کے اختلاف کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا احترام ﴿Respect﴾ کرنے اورایک دوسرے کوسمجھنے اورآپس کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔

مناظرہ کے بجائے مکالمہ کی ضرورت

اسلام اورمسلمانوں کے تعلق سے غلط فہمیوںکودورکرنے کے لیے انفرادی روابط، وفود کے ذریعے ملاقاتیں ،بالمشافہ گفتگوئیں، سمپوزیم، سمینار، تقاریر و خطابات، کارنر میٹنگیں وغیرہ کا اہتمام کرنا ہوگا۔ ﴿Inter Faith Dialouge﴾یعنی مختلف مذہبی لیڈروں اورقائدین کے درمیان مذاکرات بھی اس سلسلے میں مفید اورمؤثرثابت ہوسکتے ہیں۔ مستشرقین اورآریہ سماجیوں نے ماضی میں اسلام اورپیغمبر اسلامﷺ  پر رکیک حملے کیے توہمارے علماء  کرام نے عیسائی پادریوں اور ہندو رہنماؤں سے مناظرے کیے اورکئی ایک کوشکست بھی دی۔اس قسم کے مناظروں سے اسلام کی عظمت ورفعت اورمسلمانوںمیں اعتماد اورحوصلہ توپیداہوتاہے لیکن فریق ثانی کو اسلام کا قائل نہیں کرایا جاسکتا، کیوں کہ مناظرے میں ایک فریق ہارتااوردوسراجیتتاہے جب کہ دعوت کا کام دلوں اور دماغوں کومتأثرکرنا اورمدعوکے دل میں داعی سے انس پیداکرنا اوراس کے دل و دماغ میں سوالات پیداکرکے اسے سوچنے اورغوروفکرکرنے کا موقع دینا ہے۔اس لیے آج کے دور میں مناظرہ ﴿Debate﴾کے بجائے مکالمہ﴿Dialogue﴾کی ضرورت ہے مکالمے ومذاکرے میں فریق کے دلائل کوسننا ،اس کے اچھے نکات کی تعریف کرنااوربعض اختلافی باتوںپر دلائل کے ساتھ گفتگوکرنا ضروری ہے۔مکالمے میں اپنی بات کوپوری سوجھ بوجھ کے ساتھ پیش کرنا ایک فن ہے اوراپنی بات کی مؤثراندازمیں ترسیل کرنا﴿Effective Communication﴾دور جدید کا ایک آرٹ ہے ۔ ہماری دعوتی منصوبہ بندی میں اس قسم کے ماہرین کو تیارکرنا بھی ضروری ہے۔

بیعت عقبہ ثانی کے بعد رسولﷺ  نے مدینہ کے سرداروں کی فرمائش پر کہ ان کے پاس ایسا معلم بھیجیں جوانھیں اسلام کی تعلیم دے،آپﷺ  نے مصعب بن عمیرؓ  کوبھیجاجوبہت ہی مخلص اور ماہر نفسیات صحابی تھے،لوگوں کواسلام پرآمادہ کرنے کی غیرمعمولی صلاحیتیں ان میں موجودتھیں۔

مشترکہ امورمیں غیرمسلموں کے ساتھ تعاون

دعوت دین کومؤثربنانے میں غیرمسلموں سے تعاون اورمشترک امورمیں مل جل کر کام کرنے کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔بھلائیوں کے فروغ، برائیوں کے ازالے،سماجی ا ور معاشی مسائل کے حل کے لیے برادران وطن سے باہمی تعاون واشتراک کی صورتیں پیداکرنے کی ضرورت ہے۔ تعاونوا علی البروالتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان کے تحت رشوت خوری، شراب جوااورخواتین پر ظلم وستم وغیرہ جیسے منکرات صحت وصفائی ،عفت وپاکیزگی اورمکمل خواندگی وغیرہ جیسے مسائل میں ہمیں ان کے ساتھ مل کرکام کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ اس سے برادران وطن کو یہ احساس دلایاجاسکے گا کہ اسلام ساری انسانیت کاخیرخواہ ہے اوریہ دین رب العالمین کا ہے اوراس کے پیغمبررحمۃ للعالمین ہیں۔ان مشترک کاموں کی وجہ سے روابط بڑھیں گے ۔ ایک دوسرے کوسمجھنے، غلط فہمیوںکودورکرنے کا موقع ملے گا اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر سامنے آئے گی کہ یہ انسانوں کے حقیقی خیر خواہ ہیں،جس سے دعوت دین کے کام میں بڑی مدد ملے گی۔

سیرت رسولﷺ  میں ’’حلف الفضول‘‘کا ذکرآتاہے جوجاہلیت کے دورمیں طاقت ور ظالموں سے انصاف کے حصول کے لیے قابل ذکر مشترکہ ادارہ تھا اورخود نبی اکرمﷺ  نے خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اگراس قسم کی تنظیم پھربنے تواس میں شامل ہونا آپﷺ  پسند فرمائیں گے۔

دعوت اورخدمت خلق

دعوت دین کی منصوبہ بندی میں ایک اہم کام خدمت خلق کواس کا صحیح مقام دیناہے۔ آج مسلمانوں کی زیادہ ترتوجہ عالی شان مساجدکی تعمیروغیرہ جیسے امورتک ہی محدودہیں،جب کہ بھوکوں کو کھاناکھلانا،ننگوں کوکپڑاپہنانا،قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے انسانوں کواس سے چھٹکارادلانا، نادار بن بیاہی لڑکیوں کے نکاح کا انتظام کرنا،بیواؤں کی مددکرنا، ارضی وسماوی آفات اور وبائی امراض کے وقت بلاتفریق مذہب وملت فائدہ پہنچانا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔ آج جب کہ تعلیم اور علاج معالجہ ایک نفع بخش تجارت کی حیثیت اختیارکرچکاہے اورصرف اونچے طبقے کے لوگوں تک ہی اس کا فائدہ پہنچ رہاہے،اس میدان میں آگے بڑھ کرخدمت خلق کے ذریعے دعوت دین کے لیے نرم گوشے پیداکیے جاسکتے ہیں۔دوسری اقوام،خاص طورپر عیسائی برسوں سے یہ کام کررہے ہیں اورا سکے اچھے اثرات بھی سماج میں ظاہرہورہے ہیں ، یہاں تک کہ چند سال پہلے مشہورانگریزی ہفت روزہ ’’OUT LOOK‘‘میں آزادی کے بعد ہندوستان کی نامور ہستی کی نشاندہی کرنے کے لیے قارئین سے کہا گیا تواکثرلوگوں نے ’’مدرٹریسا‘‘کانام لیا، حالانکہ وہ ہندوستانی نہیں تھی ۔یہ محض اس لیے کہ اس نے بیماروں، لاچاروں اوربے گھروںوغیرہ کے لیے بے مثال خدمت کی تھی، جس کی وجہ سے عوام نے مذہب ومسلک سے بلند ہوکراس کے نام کی تائیدفرمائی۔

دین کا جامع تصورپیش کیاجائے

اس بات کی بھی سخت ضرورت ہے کہ ملت میں رائج ’’تصوردین‘‘کوکتاب وسنت کے مطابق صحیح رخ دیاجائے۔عام طورپر دینداری اسی کوسمجھاجاتاہے کہ آدمی ذکروعبادات کا اہتمام کرے اوردنیوی کاروبارسے دوررہے ۔یہ تصوردراصل عجمی تصوف اورعیسائی رہبانیت کاہے۔ اس کے برعکس رسول اکرمﷺ  کاارشادہے:المومن الذی یخالط الناس ویصبرعلی اذاہم خیرمن المؤمن الذی لایخالط الناس ولایصبرعلی اذاہم ﴿ابن ماجہ﴾’’وہ مسلمان جو عوام سے میل جول رکھتا ہے اوران کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کوبرداشت کرتا ہے وہ یقینا اس مسلمان سے بہتر ہے جو نہ عوام سے روابط رکھتا ہے اورنہ ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرتاہے‘‘۔فرمان رسولﷺ  میں لفظ’’الناس‘‘قابل غورہے۔

دعوت اسلامی کے سلسلے میں یہ بات بھی ضروری ہے کہ امت مسلمہ کے مزاج میں خیر پسندی اور خیرخواہانہ جذبات کے فروغ کی پیہم کوشش کی جائے۔ جذباتی ردعمل کی بجائے مسائل کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیاجائے، عجلت پسندی کے بجائے دوراندیشی سے کام لینے کی عادت ڈالی جائے۔ اسی طرح یہ بات بھی ضرو ری ہے کہ اختلافی اورفروعی مسائل میں لوگوں کے ساتھ نرمی برتی جائے اوراساسی واصولی باتوں کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔آپ ﷺ  نے حضرت معاذؓ  کو یمن بھیجتے ہوئے فرمایاتھا:تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہوجواہل کتاب ہیں،انھیں پہلے توحیدورسالت کی دعوت دینا،جب وہ مان لیں کہ اللہ ایک ہے اورمحمدﷺ  اس کے رسول ہیں تو پھر انھیں بتاناکہ ان پر اللہ نے زکوۃ کوفرض کیاہے. ﴿متفق علیہ﴾ یوں آپ ﷺ نے بتدریج کام کرنے کی ہدایت فرمائی۔اسی طرح مسلکی، گروہی اورجماعتی تعصبات اوراختلافات سے بلند ہوکر مبادیات دین کی طرف دعوت کا رخ کیاجائے۔دین کوآسان بنا کرپیش کیاجائے اورافراط و تفریط کی بجائے راہ اعتدال کی طرف توجہ مرکوزکی جائے۔

دعوت دین کے کام میں قرآن وسنت سے رہنمائی

قرآن حکیم کتاب دعوت ہے اورنبی کریمﷺ  داعی اعظم ﷺ ہیں۔دعوت دین کے لیے خالص دعوتی نقطہ نظرسے قرآن حکیم کا مطالعہ کرنا چاہیے۔آیات کے نزول کا پس منظراورداعی اعظم ﷺ کا اس سلسلے میں اسوہ وعمل پیش نظررہناچاہیے۔مثال کے طورپر موسی ؑ  اورہارون ؑ فرعون جیسے جابربادشاہ کے سامنے دعوت حق دینے کے موقع پر اللہ کی ہدایت کہ نرمی سے بات کرو،حضرت یوسف ؑ کا قیدخانے میں قیدیوں کے ساتھ دعوتی گفتگو کرنا،حضرت ابراہیم ؑ  کا اپنے باپ اورقبیلے کے لوگوں کے ساتھ رویہ اورحضرت یونس ؑ  کے واقعہ کے پس منظروغیرہ کوسامنے رکھنے سے ہمیں دعوتی کاموںمیں رہنمائی حاصل ہوگی۔

قرآن حکم کی طرح اسوۂ رسولﷺ  سے بھی روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔آپﷺ  نے مختلف کاموں کے لیے خودمشرکین وکفارسے بھی مختلف مواقع پرمددحاصل کی ہے۔ مثلاً: آپﷺ  مطعم بن عدی کی حمایت میں مکہ میں داخل ہوئے ، عبداللہ بن اریقط کوہجرت کے پرخطر سفر کے لیے رہنما بنایااورغزوۂ بدرکے بعد دوسری بارنجاشی کے دربارمیں عمربن امیہ المضری کو سفیر بنا کر بھیجا۔ اس طرح کیا آج ہم بھی اپنے دعوتی کاموںکے لیے مشرکوںاورکافروں سے مدد حاصل کرنہیں سکتے؟ عقبۂ ثانی کے بعدآپﷺ  نے بارہ آدمیوں کو جو بارہ قبیلوں کے نمائندے تھے ، اپنی طرف سے نقیب یا سردار مقرر کیااوران میں سے ایک کوان کا سردار بنایا۔ ان کی فرمائش پر حضرت مصعب بن عمیرؓ  کودین کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا۔کیااس سے دعوت کے لیے تنظیم کی ضرورت کا احساس نہیں پیداہوتا؟

دعوت دین اورخواتین

دعوت دین کی منصوبہ بندی میں جہاں مردوںکاحصہ ہے وہیں خواتین کے لیے بھی بھرپور منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔پہلی وحی کے بعد حضرت خدیجہؓ  کی تسلی کے کلمات ،اللہ کی قسم اللہ آپﷺ  کو رسوانہیں کرے گا آپﷺ  کنبہ پرورہیں، بے کسوںکا بوجھ اٹھاتے ہیں لوگوںکوکمانے کے قابل بناتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اورحق کی باتوںپر لوگوں کی مددکرتے ہیں۔حضرت ام سلمہؓ  کا حدیبیہ کے موقع پر نبیﷺ  کومشورہ دینااورحضرت عائشہ ؓ کا فقیہانہ کارنامہ اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ کار نبوت کی تکمیل و ترویج میں خواتین کا بھی بڑااہم رول رہاہے۔مکہ سے ہجرت حبشہ کی ساری داستان اورنجاشی کے دربار میں کفارمکہ کے سفیروں کی آمد، ان کی ریشہ دوانیوںکی تفصیلات ،نجاشی اورحضرت جعفرطیارؓ  کے مکالمہ کے متأثرکن واقعات کا خاکہ کھینچاہے ، اس کو حضرت ام سلمہؓ  نے روایت کیا ہے جو تاریخ دعوت و عزیمت کا درخشاں باب ہے۔ اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقع پر جومشورہ حضرت ام سلمہؓ  نے آپ ﷺ کو دیا ہے اس سے بھی ان کی ذہانت ،معاملہ فہمی اور غیرمعمولی صلاحیتوںکا اندازہ ہوتاہے۔سوال یہ ہے کہ کیا آج آپ ایسا رول خواتین کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ ﴿ابن ہشام ﴾

دورزوال میں بھی اس کی شاندارمثالیں ملتی ہیں مثلاً،آٹھویں صدی ہجری میں تاتاری قبائل اسلامی ممالک میں داخل ہوئے اورانھوں نے بغدادکی عظیم مسلم سلطنت کو تاراج کرکے رکھ دیاسارے عالم اسلام پر دہشت چھاگئی ۔ چنگیز خان کے بعد اس کے پوتے ہلاکوخان کی سرکردگی میں یہ طوفان پھر اٹھا، اس کے سپاہی ممالک اسلامیہ سے مسلم خواتین کو لونڈیاں بناکرلے گئے۔ ان حالات میں غازان شاہ کے بھائی والجاتیوخان کواس کی مسلمان بیوی ہی نے مشرف بہ اسلام کیا تھا، جس کی بدولت ایلخانی حکومت ایک اسلامی حکومت بنی۔چغتائی خاندان مسلمانوں کا سب سے بڑادشمن تھا، مگر ہلاکوخان کی مسلمان بیوی نے اسے سب سے پہلے اسلام سے متعارف کیا اور اسی کے اثرسے مبارک شاہ اور براق خان مسلمان ہوئے۔تاتاری فوجوں کے ہزارہا سپاہی اپنے ساتھ جن مسلم خواتین کولے گئے تھے، انھوں نے اسلام کوچھوڑکراپنے کافر شوہروں کے مذاہب کو اختیار کرنے کے بجائے اپنے شوہروںاوران کے اکثربچوںکومسلمان کرلیااورانہی کی بدولت تمام بلاد تاتار میں اسلام پھیل گیا۔آج بھی یوروپ اورامریکہ میں خاص طورپر۱۱ستمبرکے بعد اور خودوطن عزیز میں مردوں سے زیادہ خواتین ، اسلام کی دعوت قبول کررہی ہیں۔انہیں اسلام میں اپنی عزت وعفت کی حفاظت اورحقوق کے حصول کی رو شنی اورپرسکون خاندان کی چاشنی نظر آتی ہے۔

دعوت دین کے مختلف طریقے

دعوت دین کے منصوبہ میں سماج کے مختلف طبقوں کے لیے الگ الگ اندازسے اثراندازہونے کی ضرورت پر بھی غوروخوض کرناہوگا۔وطن عزیزکی ایک قابل لحاظ تعدادناخواندہ اورکم تعلیم یافتہ لوگوںپر مشتمل ہے ،جنھیں لکھنے پڑھنے سے کوئی، دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے لیے اسلام کے مختلف پہلؤوںکوسی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کے ذریعہ اجاگرکیاجاسکتاہے ۔اسی طرح پڑھے لکھے احباب کے لیے ان کے ذہن وفہم کوسامنے رکھ خاص لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے اور Book Fairsمیں اسلامی کتابوںکی تشہیروفروخت ،اہم مقامات جیسے لائبریریوں اور ہوٹلوں میں اسلام کے تعلق سے مختلف کتابوںکی فراہمی نیز میڈیا کے اصحاب سے دوستی کرکے بھی مفیدنتائج برآمدکیے جاسکتے ہیں۔ سماج کے مختلف طبقوں کے لیے اسلام کے مختلف پہلودلچسپی اورکشش کاباعث بن سکتے ہیں اور بن رہے ہیں۔ مثلاً کمزوراوردبے کچلے ہوئے طبقوں کواسلام کا تصورمساوات اوراونچے اہل دانش واہل ثروت طبقے کوتوحید،رسالت وآخرت کے علاوہ اسلام کے نظام عدل کی بات متأثرکرسکتی ہے اور اسلام کایہ پہلو عالمگیریت ﴿Globalisation﴾ اورمادیت کی دوڑکے تناظرمیں خاصا اہمیت کا حامل ہے۔

جدیدذرائع ابلاغ﴿Modern mass Communication﴾نے دعوت دین کو وسیع طور پر پہنچانے کااچھاذریعہ فراہم کیاہے۔ رسول اکرمﷺ  نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ایک دور آئے گا کہ اسلام ہرکچے پکے گھرمیں پہنچے گا۔آج ایسا ممکن ہے،لیکن ان جدیدذرائع میں فحاشی ، عریانی اور گندگی کی بھر مار اوراختلاط مردوزن کی وجہ سے دیندارطبقوںمیں اس کے استعمال کے سلسلے میں کافی تر دد پایا جاتا ہے، ہمیں اس معاملے میں شرح صدرکے لیے اسوۂ رسولﷺ  سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ نے ’’ عکاظ ‘‘کے میلے میں پہنچ کراپنی بات رکھی۔ اسی طرح آپﷺ  نے کوہ صفا پر چڑھ کر ’’یاصباحا‘‘کی آوازبلندکی لیکن اسی دورمیں اس کام میں جو قباحت موجودتھی اسے دور کرکے اس ذریعہ کااستعمال کیا۔یعنی ’’نذیرعریاں‘‘﴿برہنہ ڈرانے والا﴾ جاہلیت میں کوئی اہم خبر دینی ہوتی تواس پہاڑی پر ایک شخص بالکل برہنہ ہوکرلوگوںکواس سے آگاہ کرتا۔آپﷺ  نے کپڑے اتارے بغیراس ذریعہ ٔ پیغام رسانی کو دعوت دین کے لیے استعمال کیا۔ آج بھی ہمیں جدیدذرائع وسائل کودنیوی قباحتوں سے پاک کرکے وحی الٰہی اور پیغام محمدی ﷺ  کو دنیاکے سامنے پیش کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

دوراندیشی اورمستقبل بینی کی ضرورت

دعوت دین کی منصوبہ بندی جہاں دردمندی چاہتی ہے،وہیں دوراندیشی اورمستقبل بینی کی بھی دعوت دیتی ہے ۔سیرت نبوی کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ نبی اکرمﷺ  نے افراد ، حالات اور ضروریات کے پیش نظرمختلف فیصلے کیے ،ان سب میں دعوت وعمل کے لیے بڑی رہنمائی ملتی ہے۔ بعض قبائل کے قبول اسلام کے واقعات اس کی تائید میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔ لیکن افسوس اس نبوی دوراندیشی اورمستقبل بینی کوبھول جانے کی وجہ سے مسلمان اسلام کی ترویج واشاعت کی راہ میں خود رکاوٹ بن گئے اوربن رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں خود مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ سینکڑوں سال کی حکمرانی کے باوجودوہ اکثریتی طبقہ کو یہ نہیں بتاسکے کہ اذان کا صحیح مفہوم کیا ہے اورمسلمان مسجدمیں کیسے عبادت کرتے ہیں؟ کیا یہ جرم عظیم نہیں ہے؟ اورکیا اس کے بارے میں اللہ کے پاس پوچھ نہیں ہوگی؟ملک کے غیرمسلم اللہ کے حضورکیایہ شکایت نہیں کریں گے کہ مسلمانوں نے اس دین کوچھپائے رکھا؟

ہمارا ملک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑاجمہوری ملک ہے ۔یہاں مسلمانوںکو دستوری سطح پر بنیادی حقوق حاصل ہیں۔جان ومال ،عزت وآبروکا تحفظ اورعقیدہ وعبادت کی آزادی میسر ہے۔ عائلی قوانین نکاح،طلاق ،وراثت اوروقف وغیرہ جیسے معاملات میں اسلامی قوانین پر عمل کرنے کی اجازت قانوناً حاصل ہے۔دنیوی تعلیم کا نظم کرنے اوردینی تعلیم کے لیے مدارس قائم کرنے کا حق بھی ہم رکھتے ہیں۔ ازروئے دستور﴿دفعہ:۲۵﴾ہم آزادنہ اپنے ضمیر کی آواز پر چل سکتے ہیں،کسی بھی مذہب پر عقیدہ رکھ سکتے اوراس پر عمل پیراہوسکتے ہیں اورا س سے بڑھ کراس کی تبلیغ بھی کرسکتے ہیں۔

فسطائی طاقتوں کا مقابلہ کیسے کیاجائے؟

کہا جاسکتا ہے کہ خوداس ملک میں ایک فسطائی طاقت موجودہے جواکثریتی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔وہ مضبوط اورمتحدہے۔منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام اورمسلمانوںکا استیصال کرنے یا انھیں اچھوت بنانے یا اپنے میں انضمام کرنے کی منظم کوشش کررہی ہے۔تبدیلی ٔ مذہب پر پابندی لگانے کی بات بھی کی جارہی ہے۔لیکن اس کے باوجودہم دیکھتے ہیں کہ اکثریتی طبقے کے بڑے حصے کو معاشرتی اونچ نیچ ،معاشی ناانصافیوںاورسماجی واجتماعی عدل کے فقدان نے اپنے آبائی مذہب سے متنفرکردیاہے اوروہ دین حنیف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔بعض دینی جماعتوں اور تحریکوں نے اس ملک میں کچھ کوششیں کی ہیں اس کے نتائج بہت امیدافزاہیں۔

فسطائی قوتوںکی کوشش ہے کہ سماج میں کشمکش کی صورتحال باقی رہے ۔ اقلیتوں اور خاص طورپر مسلمان خوداپنی بقاوتحفظ کے چکرمیں پھنسے رہیں۔کمزوراورکچلے ہوئے طبقے اورسماج کے پسماندہ افراد اسلام کے حیات بخش پیغام کی طرف متوجہ نہ ہوسکیں۔ملت اسلامیہ کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ ان مذموم منصوبوں سے باخبررہیں اورملت کوجذباتی اورہنگامی طرز عمل اختیار نہ کرنے دیں۔ ردعمل ﴿Reaction﴾ اورانتقامی جذبہ﴿Retaliation﴾سے اوپر اٹھ کراپنی حکمت عملی طے کریں۔ برادران وطن کے اندراسلام اورمسلم مخالف عناصرکی تعدادبہت زیادہ نہیں ہے۔ ان کے تعلق سے ہمارا رویہ وہی ہوناچاہیے جو اللہ کے رسولﷺ  کا تھا ۔ آپﷺ  نے وقت کے ابوجہل کے لیے بھی ہدایت کی دعا کی تھی اور ابوطالب سے ان کی قوت اورمددحاصل کی تھی اور آخری وقت تک ان کی ہدایت کی کوشش کرتے رہے۔ اکثریتی طبقے کا ایک بڑاحصہ جس میں سیکولر جمہوری قوتیں اور غیرجانب دار افراداورجماعتیں ہیں۔ اقلیتوںاورمسلمانوںپر کیے جانے والے مظالم کی مذمت کے ساتھ ان کے حقوق کے لیے لڑبھی رہے ہیں۔ اس قسم کے ابوطالبوں کو برقرار رکھنا اورانھیں دین حق سے قریب کرکے ابوبکرؓ بنانے کی منصوبہ بند سعی وجہد کرنا ضروری ہے۔

آخرمیں سب سے اہم بات یہ کہنی ہے کہ دعوت کی منصوبہ بندی کے لیے ملت کے ہر فرد کو اپنے اندرداعی ہونے کاشعور اوراس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اپنے قول وعمل میں صحیح اسلامی کردار کی تصویربننے کاعزم ،اپنے خاندان اورپھراپنے مسلم معاشرے کوتضادات سے پاک کرکے ایک مثالی معاشرہ بنانے کی سعی وجہد اورملک کے مختلف افرادکواپنی ذاتی وشخصی پسند و ناپسند اورمختلف جماعتوں،مسلکوںاورطبقوں کواپنے محدوددائرے سے باہرنکل کر اتحاد فکر و عمل کا نمونہ بننے کی طرف پہل کرنے کی ضرورت ہے اوراولین فرصت میں ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے۔

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223