مسلم سیاسی فکر کی تاریخ مرتب کرنے والوں میں مشہور مستشرق اِرون آئی جے روز نتھال کی خدمات ممتاز ہیں۔ ان کی معروف زمانہ تحقیق کا نام ہے:
Political Thought in Medieval Islam: An Introductory Outline.
یہ کتاب کیمبرج یونیورسٹی سے پہلی بار ۱۹۵۸ء میں شائع ہوئی ۔مصنف کتاب کے مقدمے میں اظہار کرتے ہیں کہ دنیا کے بڑے مذاہب میں اسلام نوخیز ترین مذہب ہے۔ وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کا گہوارہ اور اس کا مصدر جزیرۃ العرب ہے مگر اپنے افکار و عقائد اور الہٰیات میں یہودیت اور عیسائیت سے بڑی حد تک سروکار رکھتا ہے اور شریعت اور احکام میں یہودی طرز معاشرت سے بڑی مماثلت رکھتا ہے۔ انہیں یہ کہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی کہ ‘‘محمد ﷺ ، اسلام کے بانیہیں جن کی پرورش اور تربیت یہودیوں اور عیسائیوں سے راست تعامل کے سائے میں ہوئی۔’’(۱)
روز نتھال تاہم اقرار کرتے ہیں کہ محمد ﷺ کی تعلیمات میں اور مسلم قانون اور مراسم عبادت میں یہودیت اور عیسائیت کے عناصر کی آمیزش کے باوجود ‘‘اسلام خارجی عناصر کے ایک مجموعے ہی کا نام نہیں ہے کیوںکہ محمد ﷺ نے اپنی شخصیت کی تشکیل اپنے مشاہدات، ملاحظات اور افکار و مباحث کی روشنی میں کی۔ ان عناصر کی منتقلی میں عرب روایات اور اوصاف کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے۔’’
فاضل مصنف کی بحثوں کا رخ یہ ہے کہ صحراے عرب سے اسلام ایک طاقت ور مذہب کی شکل میں نمودار ہوا۔ اس نے عرب کے آس پاس کے علاقوں پر نظر ڈالی۔ اس کے مذہبی جوش اور حوصلے نے اس کی توانائی اور قوت میں اضافہ کیا اور مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں پر، متنوع عقائد و مذاہب اور روایات پر اسے فتح دلائی۔ مفتوح اقوام اور تہذیبوں سے تصورات اور اداروں کو مستعار لینے میں اسلام نے کبھی بخل سے کام نہ لیا۔ اس نے خارجی ثقافتوں سے تعامل کیا اور ان کی مفید تعلیمات اور افکار کو اپنی میراث میں جذب کیا۔ روز نتھال یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس تعامل اور افادہ و استفادہ کے عمل میں اسلام نے کبھی اپنے تشخص کا سودا نہیں کیا خواہ انضمام و تحلیل اور ترکیب کے بجائے بار آور اور پُر امن بقاے باہم وجود میں آیا ہو۔
روز نتھال صراحت کرتے ہیں کہ محمد ﷺ کی تعلیمات اور ان کی تشریحات و تعبیرات کے محوری رخ نے اسلام کو وہ تنطیم، توافق اور استحکام عطا کیا جس نے اس کی استفادہ کی صلاحیت کو قابو میں رکھا اور انتہائی ترقی یافتہ اقوام اور تنظیمات کے عناصر کو عرب تاسیس میں اس طرح پرو دیا کہ خارجی اثرات تحلیل ہوکر رہ گئے اور عرب تاثیر غالب رہی۔ اولین مرحلہ میں جزیرۃ العرب کی یہودیت اور عیسائیت کو اصولوں اور مراسم میں معرکہ آرائی کرنی پڑی، ایران میں زردشت کے مذہب نے دوسراچیلنج فراہم کیا ، اسی طرح ساسانی افکار اور طرز حکومت نے بھی اپنے اثرات مرتب کیے۔ رومی باز نطینی تہذیب نے منتظمین ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بہت کچھ فراہم کیا۔ ہندوستانی و ایرانی ادب، یہودی و رومن قانون،یونانی طب اور علوم طبیعیہ وغیرہ نے اسلامی تہذیب کی تشکیل میں کردار ادا کیا۔ ‘‘ یہ بات اسلام کی عظمت اور شوکت کے لیے کچھ کم اہم اور باعث کشش نہیں ہے کہ اس نے ان تمام اجنبی عناصر سے مطابقت اور ہم آہنگی اختیار کی اور انہیں اپنے ماحول میں گھریلو سکون فراہم کیا۔ لا الہٰ إلّا اللّٰہ محمدٌ رسول اللّٰہ کے کلمے نے جادوئی تاثیر دکھائی۔ اس نے اسلام کے وسیع اور کشادہ گھر کے دروازے اہل کتاب کے لیے کھول دیے۔’’(۲)
سیاسی فکر کی درجہ بندی
روز نتھال تسلیم کرتے ہیں کہ اسلام ایک مذہبی طرز زندگی کا نام ہے جو متنوع اور مختلف عناصر کا مجموعہ ہے اور یہ سارے عناصر عقیدہ توحید سے ہم رشتہ اور منسلک ہیں۔ قرآن اور حدیث شریعت کے بنیادی مآخذ ہیں۔ اس شریعت نے اسلام کے ماننے والوں کو ایک کڑی میں پرو رکھا ہے۔ مسلمان، خواہ عرب ہوں، ایرانی ہوں یا ترک، سب اس عقیدہ میں شریک اور متحد ہیں۔ فاضل مصنف تاہم اسلام کی سیاسی فکر پر خارجی اثرات کو غالب عنصر کی حیثیت میں دیکھنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں قرون متوسطہ کے مذہبی فلسفہ کا مرکزی مسئلہ عقیدہ اور عقل کے درمیان توافق پیدا کرنا تھا۔ ارسطو کی نظریہ کاری کے مطابق، جس کا منبع افلاطون کے نظریات ہیں، آدمی اپنی فطرت میں ایک سیاسی وجود ہے اور اس کا لازمی تقاضا ہے کہ الہامی شریعت اور قوانین انسانی کے درمیان واضح خط ِ فاصل قائم کردی جائے۔ اس عقیدہ نے قرون وسطیٰ کے تمام مفکرین کو ، خواہ ان کا تعلق یہودیت سے رہا ہو یا عیسائیت اور اسلام سے، متفکر اور پراگندہ رکھا۔ مسلمانوں میں تحریک اعتزال نے جو نظریات اور روایات عقلیت کی بنیادوں پر استوار کیں ان کا سراغ فاضل مصنف خارجی افکار اور روایات میں لگاتے ہیں اسی طرح مسلمان فلاسفہ نے جو خدمات عقل و نقل کے درمیان توافق اور تطبیق کے میدان میں پیش کیں اُن کا سہرا بھی وہ یونانی سریانی تہذیب و فلسفہ کے سر باندھتے ہیں۔ انہیں اس تحریک تعقل و تفلسف میں قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی تاثیر دکھائی نہیں دیتی۔(۳)
اسلامی سیاسی فکر کی اس تاریخ نگاری میں، جس میں بیشتر مصنفین ، دانش ور اور قلم کار شریک ہیں ، سب سے بڑا اشکال روز نتھال کی تبویب اور مفکرین کی درجہ بندی کے تئیں ان کے قائم کردہ منہج پر پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے پہلے سے قائم کردہ مفروضات کی بنیاد پر ایک مخصوص فریم ورک تشکیل دیا ہے اور اسی کے اندر تمام مفکرین اسلام کو فٹ کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دراصل نتیجہ ہے مغرب کی سیاسی فکر کی تاریخ کے تناظر میں اسلام کوبھی سمجھنے کی کوشش کا اور مغربی عینک سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے کا۔
اسلام کی سیاسی فکر میں ادارۂ خلافت اور اس کے اوصاف، فرائض اور حقوق و اختیارات کی بحثوں کو ہمیشہ محوری مقام حاصل رہا ہے۔خلافت راشدہ سے لے کر آج کی جدید جمہوری حکومتوں کے دور تک تمام مفکرین نے ان امور سے بطور خاص بحث کی ہے کیوں کہ اس کی جڑیں قرآن و حدیث کے نصوص میں موجود ہیں اور ان سے کوئی نظریہ ساز بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ تاہم اس کی ماہیت ، تنظیم، عمومی ظاہری ہیکل اور تطبیق ہر دور میں مفکرین کے ہاں معرض بحث رہی ہے اور بدلتے حالات، نئے تقاضوں اور خارجی اثرات سے استفادہ پر مستقل زور دیا جاتا رہا ہے۔ اس طرح مفکرین سیاسیات اسلامی نے سیاسی استحکام، مرکزیت اور امن و قانون کی بحالی و بالادستی پر سب سے زیادہ زور دیا اور انہیں اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے۔ وہ اسلام کی آدرش حکومت کی نظریہ کاری کرنے، اس کے لیے علمی و فکری سطح پر راہ ہموار کرنے اور قلمی و عملی جہاد کرنے کے باوجود لاقانونیت، فکری و سیاسی انتشار، طوائف الملوکی اور نراج کے حامی کبھی نہیں رہے۔ یہ بات مغرب کے مفکرین کی فہم سے بالا تر ہے اور وہ مسلمان مفکرین کی اس حکمت و فراست کی تحسین کبھی نہ کرسکے۔
روز نتھال، اسلام کے عمومی مزاج اور اسلامی تہذیب کی روح کو پوری طرح سمجھ نہ پانے کی وجہ سے ، سیاسی مفکرین کی طبقہ سازی پر اُتر آئے اور انہیں مسلم سیاسی فکر کے ارتقا میں کسی ارتباط، تسلسل، تنظیم کا سراغ نہ لگ سکا۔ بعض مفکرین انہیں خلیفہ اور اس کے فرائض سے دلچسپی لیتے نظر آئے جبکہ دوسرے افادی سیاست (Utilitarianism) کے علم بردار ٹھہرے۔ مسلم فلاسفہ اور ان کے سیاسی افکار میں مصنف کو افلاطونی ورثہ کی کارفرمائی تو دکھائی دے گئی مگر قرآنی عقلیات کی تاثیر وہ محسوس نہ کرسکے۔ اس فکری اضطراب سے شاید ہی کوئی مغربی مصنف یا مستشرق محفوظ رہ سکا ہو۔
مزعومات مغرب
اسلامی سیاست اور مسلم مفکرین کے سیاسی افکار پر مغرب کی جانب سے متعدد اشکالات قائم کیے جاتے ہیں اور ان میں سے بیشتر اس کے مزعومہ تصورات اور مفروضہ نظریات کی پیداوار ہوتے ہیں یا پھرصلیبی ذہن کی کارفرمائی کی وجہ سے یہ محقق اسلام کے خلاف متعصبانہ رویہ اپناتے اور اس کے تئیں علم و تحقیق کے نام پر اپنی نفرت و عداوت کا اظہار کرتے ہیں۔ بعض مستشرقین ایسے بھی ہیں جو بظاہر علمی دیانت اور تحقیقی متانت کا رویہ اختیار کرتے ہیں مگر منظم و مربوط مطالعہ کی کمی، اسلامی میراث کی تمام ابعاد و جہات سے ناواقفیت اور بسا اوقات عربی زبان پر عبور اور دسترس کے فقدان کی وجہ سے غلط نتائج ِ بحث تک پہنچتے اور غلط فہمی ، ژولیدہ فکری اور ابہام کا ذریعہ بنتے ہیں۔
مغربی مفکرین اور قلم کاروں کا بالعموم ایقان یہ ہے کہ چونکہ وہ سائنس و ٹکنالوجی ، علوم و معارف اور سیاسی و فوجی قوتوں کے مالک ہیں اور دنیا کا بیشتر حصہ سیاسی، معاشی، تمدنی طور پر ان کے زیرنگیں ہے اس لیے اُنہی کی تہذیب بالادست ، آفاقیت سے متصف، ترقی یافتہ ، انسانیت نواز اور امن و آشتی پیدا کرنے والی تہذیب ہے اور صرف اُسی تہذیب کے اندر بقا، دوام، تسلسل اور نافعیت کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ دوسری تہذیبیں پسماندہ، ظلمت پسند، رجعیت کی علم بردار، ترقی و روشن خیالی کی مخالف اور نفع رسانی اور آفاقیت سے محروم ہیں اس لیے انہیں بقا اور دوام حاصل نہیں ہوسکتا۔ ان ثقافتوں اور تہذیبوں نے تاریخ کے بعض ادوار میں کچھ خدمات انجام دی ہوں گی اور انسانیت کو کچھ فیض پہنچایا ہوگا مگر اب ان کا وجود اور عدم وجود دونوں برابر ہے۔ ماضی میں موثر عوامل اور تاریخ کے اوراق پریشاں کے طور پر ان کا مطالعہ تو کیا جاسکتا ہے، ان پر بحث و تحقیق ہوسکتی ہے، ان کے تاریخی کردار کو اجاگر کرنے کے لیے متخصصانہ معاہد اور اکیڈمیاں قائم کی جاسکتی اور انہیں شاہانہ مالی امداد بھی دی جاسکتی ہے مگر آج کی دنیا میں ان کا کوئی قابل ذکر کردار نہیں ہے اور وہ از کار رفتہ ہوچکی ہیں۔
مغرب کا دوسرا مزعومہ یہ ہے کہ اس کی تاریخ ہی عالمی تاریخ ہے اور اس تاریخ کی کشاکش سے جو فکر نمودار ہوئی وہی عالمی فکر ہے۔ اس کی تاریخ میں مذہب اور علم کے درمیان جو جنگ برپا ہوئی اور اس کے نتیجے میں مذہب کو ریاست اور معاشرہ سے بے دخل کردیا گیا، کلیسا نے دانشوروں اور سائنس دانوں کی تکفیر و تفسیق کی جو مہم چلائی اس کے خلاف زبردست ردّعمل رونما ہوا اور نشأۃ ثانیہ کے نام پر بے قید اور لامذہب افکار و نظریات کا ریلا یوروپ میں آیا اور سیاسیات ، معاشیات، عمرانیات، تعلیم، آرٹ، فنون لطیفہ اور دوسرے علوم کے میدانوں میں ملحد اور بے دین مفکرین، دانشوروں اور سائنس دانوں کی جو کھیپ کی کھیپ نکلی وہی منہج علم و تحقیق، آزادیٔ فکر اور اباحی روّیہ ہی انسانیت کی معروج ہے۔ اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا ماڈل، کوئی مختلف منہج اور اپروچ انہیں راس نہیں آتا۔ وہ اُسی عینک سے پوری تاریخ کو اور افکار و نظریات کے تمام ورثوں کو دیکھنا ضروری تصور کرتے ہیں۔ ‘بنیاد پرستی’ کی اصطلاح اور اس کا اطلاق ایک واضح مثال ہے۔
بُنیاد پرستی کا الزام
‘بنیاد پرستی’واضح طور پر عیسائی مذہب اور اس کی تاریخ کا ایک امر واقعہ ہے، اسے اسلام کے نظریے اور تحریک کے تناظر میں دیکھنا قرین انصاف نہیں ہے۔ ماضی قریب کی مغربی تاریخ میں یہ اصطلاح امریکہ کے ان انجیلی لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے جو بائبل کی لفظی تعبیر کے علم بردار اور کنواری مریم ؑ کے بطن سے حضرت عیسی ؑ کی ولادت پر ایمان رکھتے تھے۔ ان لوگوں کی نظر میں نہ صرف ذاتی سیرت و کردار مسیحی اخلاقیات پر مبنی ہونا چاہیے، بلکہ سماجی اور اجتماعی زندگی کی بنیاد بھی مسیحی اخلاقیات ہے۔ انہوں نے مغربی زندگی اور ثقافت کے بعض پہلوئوں پر کڑی نکتہ چینی کی اور انہیں مسیحی اخلاقیات سے کھلا انحراف قرار دیا۔ ان گروہوں کو مخالفین نے انتہا پسند اور جنونی قرار دیا، اس لیے ان کے لیے ‘بنیاد پرست’ کی اصطلاح منفی معنوں میں استعمال ہونے لگی۔
پروفیسر خورشید احمد بجا طور پر کہتے ہیں کہ اس واضح مسیحی اصطلاح کو مسلمانوں پر چسپاں کرنا نہ صرف غلط اور بد نیتی پر مبنی ہے، بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی قابل نفریں ہے۔ اسلام میں مادی اور روحانی زندگی کے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے۔ روحانی اور دینی زندگی ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ اسلام میں سیاست اور مذہب میں اس قسم کی کوئی مغائرت نہیں ہے جیسی عیسائی دنیا میں موجود ہے۔ قرآن خدا کا کلام ہے اور مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ وہ اس کے ایک ایک لفظ پر ایمان رکھتا ہے۔ پورے قرآن پر ایمان ضروری ہے اور اس میں سے کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔(۴)
مسلمانوں کی پوری تاریخ اس خونی کشمکش سے خالی ہے۔ امام دائود بن خلف ظاہری (۲۴۱-۲۹۷ھ)، امام ابن حزم ظاہری (۳۸۴-۴۵۶ھ) اور ان کے پیروکار مفکرین اور مصنفین نے قرآن و حدیث اور اسلامی نصوص کے ظاہر اور متبادر مفہوم اور تشریحات کی وکالت کی، دوسری طرف معتزلہ نے نری عقلیت اور استدلال و برہان پر زور دیا جبکہ اشاعرہ و ماتریدیہ نے اسلامی نصوص کی تفہیم عقل و نقل دونوں کی مدد سے کی۔ فلاسفۂ اشراق اور متصوفین نے علم باطن اور عرفان کو اپنی گفتگو کا موضوع بنایا مگر یہ ساری بحثیں اور مناظراتی مسائل منہج تک محدود تھے اسلام کے بنیادی اقدار و عقائد کی تفہیم میں مختلف اور متنوع مناہج اور طُرق کا استعمال کیا گیا۔ خود وہ تعلیمات اور اقدار ہر دور میں مسلم رہیں جن کی تبلیغ و ترسیل کے لیے وحی کا نزول ہوا تھا۔ پوری اسلامی تاریخ میں نہ تو انہیں چیلنج کیا گیا نہ ان کی معنویت و افادیت پر کوئی سوالیہ نشان لگا۔ اسی لیے بنیاد پرستی قسم کی کوئی کشاکش اسلام کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی ، مگر مغرب کا اصرار ہے کہ مسلمانوں کی ہر اس علمی و سیاسی جدوجہد کو وہ بنیاد پرست قرار دے جس کے تانے بانے قرآن و سنت کی طرف رجوع سے ملتے ہوں۔
بنیاد پرستی کی اوپر جو تشریح کی گئی اس کی صراحت انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کی درج ذیل عبارت سے ہوتا ہے۔ مقالہ نگار کہتا ہے:
Fundamentalism, conservative movement in American Protestantism arising out of the 19th century and emphasising as fundamental to Christianity the literal interpretation and absolute inerrancy of the srciptures, the imminent and physical Second Coming of Jesus Christ, the Virgin Birth, Resurrection, and Atonement. Fundamentalism came into its own in the early 20th century in opposition to modernist tendencies in American religious and secular life. In the late 20th century the movement was represented by numerous church bodies, educational instititions, and special-interest organisations.(۵)
ایک خالص عیسائی اصطلاح جو بیسویں صدی کے آغاز کی مسیحی دنیا کی اندرونی کشمکش سے عبارت تھی، کس طرح عالمگیر رواج پاگئی؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے جو علوم سیاسیات و عمرانیات کے طلبہ کو پریشان کرتا ہے۔ جان وال نے اپنے ایک مقالہ میں اعتراف کیا ہے کہ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں دوسرے معاشروں میں احیائی تحریکیں اٹھیں تو اس اصطلاح کا انطباق بعض دانشوروں نے ان پر بھی کردیا۔ اس زد میں پہلے ہندو اور یہودی مساعی آئیں اور انہیں بنیاد پرست قرار دیا گیا۔ ۱۹۹۲ء میں مشہور مصنف Ernest Gellnerنے لندن سے طبع شدہ اپنی تصنیف Postmodernism, Reason and Religionمیںایک نئی اصطلاح وضع کی ’روشن خیال سیکولر بنیاد پرستی’ (Enlightenment Secular Fundamentalism)کی جس کا مطلب تھا کہ ایک ایسی صورت حال جس میں اضافی اقدار کو مسترد کردیا جائے اور مذہب کے عمل دخل کو بھی تسلیم نہ کیا جائے۔ آگیچل کر بیسویں صدی کے اواخر میں بلاتکلف اسلامی تحریکوں کو بنیاد پرست کہا جانے لگا(۶)۔ دوسری واضح ترمثال اسلامی سیاست پر تھیاکریسی کے خالصتہً یہودی/عیسائی تصور اور ظاہرہ کا اطلاق ہے۔
اسلام اور تھیاکریسی
تھیاکریسی کی اصطلاح عام طور پر ایک ایسی ریاست کے لیے بولی جاتی ہے جو مذہب پر قائم ہو، جس میں سارا اختیار ایک ایسے فردیا گروہ کے ہاتھ میں ہو جو یا تو اپنے آپ کو مظہر خدا سمجھے یا اس سے براہ راست رہنمائی حاصل کرنے کا دعویٰ رکھتا ہو۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے قدیم یہودی مورخ جو زیفس نے وضع کی اور اس سے مقصود وہ انداز حکومت تھا جو بنی اسرائیل کی زندگی میں رائج تھا۔ ان حکومتوں میں سیاسی اقتدار یا تو براہ راست ایک مخصوص مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں ہوتا یا یہ گروہ اقتدار کے تخت پر متمکن ہونے والوں کی حفاظت اور پاسبانی کے فرائض سر انجام دیتا۔ خدا کے احکام حاصل کرنے کا طریقہ اُن کے ہاں یہ تھا کہ وہ سب مل کر اپنے میں سے ایک انسان کا انتخاب کر لیتے اور پھر اُسے یہ حق تفویض کردیتے کہ وہ اکیلا ان کی طرف سے خداوند تعالیٰ سے ہم کلام ہوکر اُس کا منشا معلوم کرکے انہیں اس سے آگاہ کرے۔ ان احکام کی بجا آوری سوائے اس طبقہ کے سب پر لازم ہوتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ بادشاہ بھی اپنے آپ کو اس ‘‘نوازش خداوندی’’ کا حقدار سمجھنے لگا۔ اور اس طبقہ میں یہ ہمت نہ رہی کہ وہ حکمراں کے کسی قول یا فعل پر لب کشائی کی جرأت کرے۔ البتہ فرماں روا کے مرنے کے بعد ایک مجلس منعقد کی جاتی اور اس میں اُس کے اعمال کو جانچ کر یہ فیصلہ کیا جاتا کہ ایا مرنے والا بادشاہ جنت کا مستحق ہے یا جہنم کا۔ ان لوگوں کا یہ فیصلہ اس کے جانشین کے لیے بہت بڑی اہمیت رکھتا(۷)۔
یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہوداہ خود کسی ابر آلود رات میں بجلی کی چمک کے ساتھ انہیں اپنے احکام سے نوازتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں خدا کی مرضی معلوم کرنے کا ایک طریقہ اور تھا۔ ان کا کاہن اِعظم خیمۂ عبادت میں قدس الأقدا س کے اندر جاتا جہاں تابوت ایک پردہ کے پیچھے رکھا ہوتا۔ یہ مقام الہام ربّانی کا مرکز خیال کیا جاتا تھا۔ وہاں پہنچ کر اس پر یہوداہ کے احکام منکشف ہوتے۔ وہ اُن احکام سے لوگوں کو روشناس کراتا اور لوگوں پر ان کی اطاعت فرض ہوتی۔ جدید مصنف بلنچلی بڑی خوبی سے ان احکام کو حاصل کرنے کے طریقہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتا ہے:
‘‘ قانون الٰہی ایک سونا منڈھے ہوئے صندوق میں رکھا رہتا، جس کی دو کربی حفاظت کرتے اور جس کی تعظیم الہام ِ ربّانی کے مرکز کی حیثیت سے کی جاتی تھی۔ تابوت خیمہ کے اندر ایک پردہ کے پیچھے قدس الأقد اس میں رہتا تھا اور کاہنوں کی طرف سے پورے اہتمام سے اس کی نگرانی ہوتی تھی۔ یہیں کاہن ِ اعظم یہوداہ کے احکام معلوم کرتا اور لوگوں کو مطلع کرتا۔’’
‘‘قاضی جو قبائل میں شریعت کی تنفیذ پر مامور تھے ، وہ یہ کام خدا کے نام پر سر انجام دیتے تھے، کیوں کہ قانون سازی کا حق صرف اللہ کے لیے مخصوص تھا۔ اگر کوئی معاملہ ان کے سامنے ایسا آجاتا جس کا فیصلہ ان کے لیے مشکل ہوتا تو اس میں ان کے لیے ضروری ہوتا کہ لادیوں کے ذریعہ خدا کی مرضی معلوم کریں۔’’(۸)۔
یہی صورت حال تقریباً عیسائیوں کی تھی ۔ یوروپ کا پاپائی نظام سینٹ پا ل کامرہون تھا جس نے موسوی شریعت کو لعنت قرار دے کر مسیحیت کی بنیاد صرف اُن اخلاقی تعلیمات پر رکھی تھی جو نئے عہدنامہ میں موجود ہیں۔ ان اخلاقی تعلیمات میں کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جس پر ایک تمدن اور ریاست کا نظام چلایا جاسکے۔ اس لیے جب انہیں ایک نظام حکومت قائم کرنا پڑا تو ان کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنی مرضی سے ، اپنی خواہشات کے مطابق قوانین وضع کرکے نفاذ کریں اور پھر کہیں کہ سب خدا کی طرف سے ہے۔
ان مظاہر میں قدر مشترک یہ ہے کہ عنان اقتدارپر قابض افراد عام انسانوں سے بلند و بالا ہونے کے ساتھ حاکمیت کے حقوق بھی رکھتے تھے۔ وہ مافوق البشر ہونے کے دعویدار ہی نہیں تھے بلکہ اپنے کو مستقل بالذات شارع اور قانون ساز بھی سمجھتے تھے۔ اسلام ایسے کسی مذہبی انتظام کی حمایت نہیں کرتا۔ اسلام میں حکمرانی کا اختیار کسی کو اس کے مذہبی منصب کی بنیاد پر نہیں دیا گیا۔ معاشرہ کے تمام افراد کا یہ حق ہے کہ جن پر انہیں اعتماد ہو اور جو اسلام سے کھلی وابستگی رکھتے ہوں، اقتدار کی باگ ڈور ان کے حوالے کریں۔ سیاسی قیادت یہاں خدا اور عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس نظام میں قانون کی حکمرانی ہے اور یہ حکمرانی حکمراں طبقہ پر بھی اسی طرح ہے جس طرح عوام الناس پر ہے۔ جمہوری عمل کو اس نظام میں مرکزی حیثیت حاصل ہے اور خلیفہ خود قانون سازی اور پالیسی کے تمام اہم فیصلوں میں مجلس شوریٰ کی اکثریت کی رائے کا پابند ہے۔ اسے کسی بھی حیثیت میں آمریت اور خود مختاری کی اجازت نہیں ہے۔ مگر مغرب برابر پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہے کہ اسلامی سیاست محض تھیاکریسی ہے اور اس میں ذہنی و فکری استبداد، ظلمت پسندی، خیالات پر قدغن، علم پر پابندی پائی جاتی ہے۔
مغرب اپنے انہی مزعومات و مفروضات کی بنا پر اسلامی تاریخ کے ہزار سالہ سفر کو ‘قرون مظلمہ’ (تاریک صدیاں) کا نام دیتا ہے اور اس پورے عرصے میں علم و فن کی جو شمعیں روشن ہوئیں، تہذیب و تمدن کے جو منارے تعمیر ہوئے اور سائنس و فلسفہ کا جو یوگ دان ہوا اسے نظر انداز کرتا اور چشم پوشی کا مظاہرہ کرتا ہے(۹)۔
حواشی و تعلیقات
۱- Rosenthal, Erwin I.J., Political Thought in Medieval Islam, Cambridge, 1962, p.01.
۲- نفس مصدر،ص۲
۳- نفس مصدر ، ص۵۔
۴۔ پروفیسر خورشید احمد، امریکہ- مسلم کی بے اطمینانی (۱۱؍ستمبر سے پہلے اور بعد) ، ترتیب ، سلیم منصور خالد، منشورات ، لاہور، ۲۰۰۲ء، ص ۴۷
۵۔ The New Encyclopaedia Britannica (Micropaedia), 15th Edition, Vol.5, p.51
۶۔ دیکھیے جان او وال کا مقالہ فنڈ امنٹلزم در
The Oxford Enclopedia of the Modern Islamic World, Oxford University Press, Vol.2, 1995, pp 32-34.
۷۔ عبدالحمید صدیقی، اسلام اور تھیاکریسی، لاہور، اردو پریس، مکتبہ چراغ راہ، جنوری ۱۹۵۵ء، س ۳۰-۳۲
۸۔ Bluntschli, J.K., The Theory of the State, pp 350-351
۹- اس مقالہ کے یہ نکات راقم کی درج ذیل کتاب سے ماخوذ ہیں۔ بعض دوسرے مزعومات مغرب پر بھی اس کتاب میں بحث کی گئی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: فلاحی عبیداللہ فہد ، اسلام کی سیاسی فکر اور مفکرین (پہلی صدی سے شاہ ولی اللہ دہلوی تک) ، القلم پبلی کیشنز ، ستمبر ۲۰۱۱ء ص۲۲-۴۷
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020