اسلام میں علم کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے، اُسے کوئی اور چیز نہیں پا سکتی۔ اسلام کے نزدیک علم ایمان کا رہنما ہے، عبادت کی کلید ہے، مشعل راہ ہے۔ علم امام اور عمل اس کا تابع ہے۔ اس بات کی دلیل کے لیے یہی کافی ہے کہ رسول کریم ﷺ پروحی الٰہی کی جو اولین آیات نازل ہوئیں وہ ’پڑھنے‘کا حکم دیتی ہیں، یعنی :
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِی خَلَقَ۱ۚ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۲ۚ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۳ۙ الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۴ۙ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یعْلَمْ۵ۭ (العلق۹۶:۱-۵)
’’پڑھو (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘‘
’پڑھنا‘ ہی علم کی کنجی ہے۔ اور قلم علم کو نقل کرنے کا آلہ ہے، یہ علم کو ایک شخص سے دوسرے تک اور ایک نسل سے دوسری نسل تک اور ایک قوم سے دوسری قوم تک منتقل کرتا ہے۔ عہد حاضر میں قلم کی جگہ پریس نے لے لی ہے۔ یہ عہد حاضر کا قلم ہے۔ قرآن میں سے سب سے پہلے جو کچھ نازل ہوا وہ قرأت تھی۔ اور یہ خالی پڑھائی نہ تھی بلکہ یہ اللہ کے نام کے ساتھ پڑھنا تھا۔ یعنی ایمان کے گہوارے میں علم سے بہرہ ور ہونا۔ قرآنِ مجید نے بہت سی آیات میں علم کی اہمیت بیان کی ہے۔ چند بطور مثال درج کی جاتی ہیں:
قُلْ ہَلْ یسْتَوِی الَّذِینَ یعْلَمُوْنَ وَالَّذِینَ لَا یعْلَمُوْنَ۔(الزمر۳۹:۹)
’’ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟‘‘
یرْفَعِ اللہُ الَّذِینَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۰ۙ وَالَّذِینَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۰ۭ (مجادلہ ۵۸:۱۱)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا۔‘‘
شَہِدَ اللہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۰ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ۰ۭ (اٰلِ عمران۳:۱۸)
’’اللہ نے خود اس بات کی شہادت دی ہے کہ اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، اور یہی (شہادت) فرشتوں اور سب اہل علم نے بھی دی ہے۔ وہ انصاف پر قائم ہے۔
ایسی آیات تو بہت ہیں جو علم، فکر، تدبر، غور و خوض، دلائل و براہین، وغیرہ کے حوالے سے کلام کرتی ہیں۔ ان سب کا مقصود علم اور اس کے ذرائع شعبوں کی تحسین ہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ انبیا وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑتے، وہ اپنے پیچھے علم چھوڑتے ہیں۔ جس شخص نے بھی اس علم کو حاصل کیا اس نے بہت بڑی چیز حاصل کر لی۔‘‘ ایسی احادیث بھی بہت ہیں جو علماء کی شان کو بیان کرتی ہیں۔ اسلام میں یہی وہ بنیاد ہے جس پر علم کی تحریک اٹھی اور اس کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ خواہ یہ علم دین کا تھا یا دنیا کا۔ ہمارے علما کا کہنا ہے کہ ہر وہ علم جس کی امت کو اپنے دین یا دنیا کے اعتبار سے ضرورت ہو، اس میں تبحر اور تفوق حاصل کرنا امت کے اوپر فرضِ کفایہ ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ دینی علما اور دنیاوی علما برابر مقام پر فائز ہوں۔ ابن عبدالبر نے علم کی ایک قسم ’اعلیٰ علم‘ بیان کی ہے، یعنی نبوت اور ہدایت الٰہی کا علم۔ یہ علم امت کے تشخص، اس کے عقاید، اور اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کی حفاظت کا کام کرتا ہے۔ یہ علم امت کو قرآن کے آداب اور نبوت کے اخلاق سے آراستہ کرتا ہے۔ اس علم کی اپنی ہی شان ہے۔ ہمارے نزدیک علم اور دین، اور دینی علوم اور دنیاوی علوم کے درمیان کوئی تصادم نہیں۔ ہمارے نزدیک علم دین ہے اور دین علم ہے۔ دنیاوی علوم (طب، فلکیات، طبیعیات) کے بہت سے ماہرین علمائے دین تھے۔ مثلاً ابن رشد کو دیکھیے کہ تقابلی فقہ میں ان کی بہت اہم کتاب ہے جس کا نام ’’بدابۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد‘‘ ہے۔ دوسری طرف وہ فلسفہ میں ارسطو کے نظریات کے سب سے بڑے شارح ہیں۔ فلسفہ میں ان کی بہت سی مشہور کتابیں اور رسالے ہیں۔ طب میں ان کی کتاب ’الکلیات‘ ہے، جو لاطینی میں ترجمہ ہو کر کئی صدیوں تک یورپ میں طب کا مرجع اور ماخذ بنی رہی۔ امام فخر الدین رازی مشہور مفسر ’المحصول فی علم الاصول‘ و ’المحصل فی افکار المتقدمین و المتأخرین‘ کے مصنف ہیں۔ ان کے بارے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ طب میں امام کی شہرت ان علوم سے کچھ کم نہ تھی۔ رگوی دورانِ خون (Pulmonary Circulation) کے دریافت کنندہ ابن نفیس کے حالات امام تاج الدین سبکی نے اپنی کتاب ’طبقات الشافعیۃ‘ میں لکھے ہیں۔ یعنی انھیں ایک شافعی فقیہ شمار کیا ہے۔ لہٰذا ہمارے ہاں وہ تصادم نہیں ہے جو یورپ میں علم اور دین کے درمیان پیدا ہوا۔ ہمارے ہاں تو علم نے دین کی سرپرستی میں نشوونما پائی اوردین علم کی تحسین کرتے ہوئے عام ہوا اور دین کا علم اپنے وسیع شعبوں کے ساتھ غالب رہا۔ ہمارے ہاں دینی علم درحقیقت محض ایک علم نہیں ہے، بلکہ علوم القرآن بھی اس کا حصہ ہے اور علوم السنہ بھی اسی کا حصہ۔ علوم السنہ تو درجنوں علوم پر مشتمل ہے۔ یعنی علم حدیث میں غریب الحدیث کا علم، فقہ الحدیث کا علم، حدیث میں ناسخ اور منسوخ کا علم اور رجالِ حدیث کا علم شامل ہے۔ رجالِ حدیث کا علم تو بہت وسیع ہے۔ اس میں صحابہ اور تابعین کے حالات، ان کے طبقات اور ثقہ شخصیات، اور مجروح شخصیات کا علم ہے۔ اسی طرح علومِ فقہ، اصولِ فقہ، اصولِ تصوف اور علم کلام وغیرہ ہیں۔
دینی اور دنیاوی علوم کی اہمیت
قرآنِ کریم نے اہل علم کی رفاقت و صحبت اور اُن کے مقام و مرتبے کو بڑی اہمیت دی ہے۔ حدیث نبوی میں بھی ایسا ہی ہے۔
قرآنِ کریم کی بعض آیات پڑھتے ہوئے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں طبیعیاتی یا انسانی علوم مراد ہیں یا دینی علوم مثلاً :
وَہُوَالَّذِی جَعَلَ لَكُمُ النُّجُوْمَ لِتَہْتَدُوْا بِہَا فِی ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ۰ۭ قَدْ فَصَّلْنَا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یعْلَمُوْنَ۹۷ (الانعام۶:۹۷)
’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کر دی ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں نجوم (ستارے) اور اشیاء سے مراد علم دین نہیں ہے
وَمِنْ اٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ اَلْسِنَتِكُمْ وَاَلْوَانِكُمْ۰ۭ اِنَّ فِی ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّــلْعٰلِمِینَ۲۲ (الروم:۲۲)
’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے۔‘‘
اس آیت عالمین (علم رکھنے والے) سے مراد یعنی زبانوں اور رنگ و نسل کے اختلاف کاعلم رکھنے والے ہیں۔
اِنَّمَا یخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا۰ۭ (فاطر:۲۸)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘
یہ آیت بھی کائناتی اور انسانی علوم کے تناظر میں آئی ہے۔
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً۰ۚ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا۰ۭ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِیضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیبُ سُوْدٌ۲۷ (فاطر:۲۷)
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔‘‘
یہاں پرعلم نباتات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ(فاطر۳۵:۲۸)
’’اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔‘‘
اس آیت میں علم حیوانات اور علم انسان کی طرف اشارہ پایاجاتاہے۔
یہ سارے علوم رکھنے والے علماء اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہاں کچھ علما کائنات، حیات اور انسان کے اسرار کے ماہر علما ہیں۔ یہ وہ علم ہے جس کے بارے میں ہمارے علما کا کہنا ہے کہ اس کا سیکھنا فرض ہے۔ طب، انجینئرنگ، فزیالوجی، کیمیا اور حیاتیاتی علوم ایسے ہیں کہ امت ان کے اندر گہرا رسوخ پیدا کیے بغیر نہ ترقی کر سکتی ہے اور نہ اپنے دفاع کی صلاحیت حاصل کر سکتی ہے بلکہ خود اپنی ذاتی ضروریات بھی پوری نہیں کر سکتی۔
یہ فطری امر ہے کہ ان علوم کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرتے ہیں۔ ایک کتاب کا عنوان ہے (الطب محراب الایمان )کیونکہ جب ایک طبیب اور ڈاکٹر انسانی جسم اور ان اشیاء پر غورو خوض کرے گا تو یہ چیز اُس کے لیے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور اس کی معرفت کاباعث ہو گی۔ علماء کہتے ہیں کہ دنیاوی علوم کا سیکھنا فرضِ کفایہ ہے۔ اگر امت کے کچھ افراد بھی ان علوم کو اس قدر حاصل نہیں کرتے جو امت کی ضروریات پوری کر سکے تو ساری امت گناہ گار ہو گی۔ لیکن ایک علم وہ بھی ہے جس سے مراد علم نبوت لیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک حدیث ہے: ’’انبیاء درہم و دینار وراثت میں چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ علم ورثے میں چھوڑتے ہیں۔ جو شخص بھی اس علم کو حاصل کرے گا گویا اس نے بہت بڑی نعمت کو حاصل کر لیا۔‘‘ یہ علم نبوت ہے۔ اور انبیاء کے وارث تو علمائے دین ہی ہیں، یعنی عقیدہ شریعت اور اخلاقیات کے علماء، جو اللہ کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر انھیں صراطِ مستقیم پر گامزن کرتے ہیں۔ یہی وہ علم ہے جس کا تذکرہ ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں آیا ہے۔ ’’اس علم کا حامل بعد کے اُن عادل افراد میں سے ہو گا جو اس علم کو مبالغہ آمیزوں کی مبالغہ آرائی، باطل پسندوں کے بطلان اور غلوپسندوں کے غلو سے محفوظ رکھے گا۔‘‘ مختصر یہ کہ ہر علم سے مراد علم دنیا نہیں اور ہر علم سے مراد علم نبوت بھی نہیں ہے۔ بلکہ کچھ خاص اہل علم ہی انبیاء کے وارث ہیں۔ اور یہ وہی ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم نبوت کی وراثت پائی اور آپؐ نے یہ وراثت اپنے سابق انبیائے کرام سے حاصل کی۔ یعنی :
اُولٰۗىِٕكَ الَّذِینَ ہَدَى اللہُ فَبِہُدٰىہُمُ اقْتَدِہْ۰ۭ (الانعام:۹۰)
’’اے نبیؐ وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستے پر تم چلو۔‘‘
مختلف ماہرین کی حیثیت
اسلام اور امت کی تاریخ میں واعظین اور فقہاء کے درمیان ایک امتیاز قائم تھا۔ دورِ حاضر میں ٹھوس علمی فضا کے فقدان کے باعث امت کے بیشتر لوگ ان ناموں میں فرق نہیں کرتے۔ لیکن ماضی میں ایسا بھی رہا کہ ایک شخص عالم دین واعظ بھی ہوتا اور فقیہ بھی۔امام ابن الجوزی کا شمار اُن عظیم ترین واعظین میں ہوتا ہے جن کی مجلس وعظ میں ہزاروں انسان شریک ہوتے اور امام کے واعظ کی تاثیر سے دل گداز اور آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔ لیکن امام ابن جوزی کا شمار فقہاء، محدثین اور مصنفین کی اس صف میں بھی ہوتا ہے جو دائرۃ المعارف طرز کے لوگ ہوتے ہیں۔ امام ابن جوزی حنبلی فقہا میں سے تھے۔ آپ کی وفات 597ھ میں ہوئی۔ عالم، داعی، مفکر، فقیہ اور امام وغیرہ۔ میرے خیال میں ہر ایک دوسروں کی طرح عالم ہی ہے۔ یعنی داعی اُسے کہتے ہیں جو لوگوں کو مخصوص انداز میں دعوت دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کوئی داعی لوگوں سے خطاب کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتا ہے، کہ وہ اسٹیج پر کھڑا ہو اور اپنے جوشِ خطابت کے ذریعے دلوں کو ہلا کر رکھ دے۔ اور ایک داعی وہ بھی ہے جو فکر آخرت اور خوفِ خدا جیسے موضوعات پر درس دینے میں بہترین مہارت رکھتا ہے اور وہ اپنے اندازِ خطابت سے لوگوں کے جذبات کو متحرک کر کے اُن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی اطاعت کی طرف مائل کر ڈالتا ہے۔ لیکن یہی داعی اسٹیج پر آ کر عام خطاب کی قدرت نہیں رکھتا۔ اسی طرح بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اُن میں سے کوئی گہرے علمی لیکچر نہیں دے سکتا اور کوئی تقریر اور خطاب کی تو صلاحیت نہیں رکھتا مگر قلم کے ذریعے وہ یہ کام بہت اچھا کر سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی مقرر ایسا بھی ہوتا ہے جو قلم پکڑ کر لکھنے لگے تو اس کا ہاتھ کانپنے لگتا ہے اور اگر وہ کچھ لکھے تو اُس میں کوئی علمی گہرائی نہیں ہوتی۔ اسی طرح فقیہ کا معاملہ ہے۔ فقیہ سے مراد وہ عالم ہے جو فقہ کا علم رکھتا ہو۔ شرعی احکام کو اُن کے تفصیلی دلائل کی روشنی میں جانتا ہو۔ اس کے پاس ایسا وسیع ذخیرۂ علم ہوتا ہے کہ لوگ جب اُس سے مسائل پوچھیں تو وہ اُنھیں تسلی بخش جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کوئی فتویٰ پوچھے تو فتویٰ دے سکتا ہے۔ پھر فقیہ کے بھی کئی درجات ہیں۔ مثلاً کوئی کسی ایک خاص مذہب میں فقیہ ہے۔ کوئی محقق فقیہ ہے جو احکام اخذ کرنے اور انھیں درجہ بہ درجہ بیان کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن ہر داعی فقیہ اور مفتی نہیں ہوتا۔ لوگ اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر مقرر فقیہ اور مفتی ہوتا ہے۔ وہ پیچیدہ مسائل کے لیے بھی انہی سے رجوع کرتے اور فتویٰ پوچھتے ہیں۔ حالانکہ یہ اُن کا مقام نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے واعظ اور مقرر اپنی علمی حیثیت کو نہیںسمجھتے اور ایسے مسائل میں بھی دخل اندازی کرتے ہیں جن کو وہ اچھی طرح واضح ہی نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ بغیر علم کے لوگوں کو فتوے دیتے ہیں۔ اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔
فتوے کی کئی اقسام اور درجات ہیں۔ ایک فتویٰ روزمرہ مسائل میں ہوتا ہے۔ یہ معمولی اور عام مسائل ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہر وہ عالم کچھ بتا سکتا ہے جو تھوڑا بہت دینی علم رکھتا ہو۔ مثلاً وضو، نجاست، طہارت اور نماز وغیرہ کے مسائل ۔ ہر وہ عالم جس نے باضابطہ کسی مدرسے میں پڑھا ہو وہ ان کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر مسائل جو گنجلک اور پیچیدہ قسم کے ہوں وہ کسی امام مسجد یا عام واعظ کے بس کی بات نہیں کہ وہ ان کو سمجھ سکے۔ ایسے عالم کے لیے ان مشکل مسائل کے بارے میں لاعلمی کا اقرار اور اظہار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اُسے پورے اعتماد سے یہ کہہ دینا چاہیے کہ میں اس بارے میں نہیں جانتا، میں کسی سے پوچھ کر بتاؤں گا یا میں اس بارے میں مطالعہ کر کے جواب دوں گا۔ ایسا کہنا کوئی عیب نہیں۔ دراصل ہر وہ شخص جو امام مسجد یا خطیب مسجد ہو ضروری نہیں کہ وہ لوگوں کے تمام سوالات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس کے لیے تو مسائل کے بارے میں پوری آگاہی اور واقفیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسائل کے لیے یہ تعلیم ہے کہ وہ بہت باخبر اہل علم سے مسئلہ پوچھے۔ سائل بہٖ خبیرًا یعنی یہ مسئلہ پوچھنے والے کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی اچھے عالم سے مسئلہ پوچھے۔ یہ تعلیم قرآنِ مجید کی حسب ذیل آیات سے سامنے آتی ہے:
وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ(فاطر:۱۴)
’’حقیقت حال کی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔‘‘
وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ
وَلَوْ رَدُّوْہُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِی الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِینَ یسْتَنْۢبِطُوْنَہٗ مِنْھُمْ۰ۭ (النساء:۸۳)
’’اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آ جائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔‘‘
فَسْـــَٔـلُوْٓا اَہْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۴۳ۙ (النحل:۴۳)
’’اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔‘‘
ایک اعتبار سے تو میں فقیہ کو بھی فقہ کا عالم نہیں کہتا۔ مثلاً کوئی تفسیر کا عالم ہے جو قرآنِ مجید کی تفسیر کرتا ہے۔ لیکن جب آپ اُس سے حدیث کے بارے میں پوچھیں تو معلوم ہو گا کہ وہ حدیث کا اچھا علم نہیں رکھتا۔ اسی طرح کوئی فقہ کا علم رکھتا ہے مگر حدیث کا علم نہیں رکھتا۔ میں نے تو کبار علمائے فقہ ایسے بھی دیکھے ہیں جو احادیث سے ناواقف ہیں۔ یہ بسااوقات انتہائی ضعیف، موضوع یا ایسی احادیث ذکر کر جاتے ہیں جن کی کوئی اصل ہی موجود نہیں۔ دراصل ان فقہاء کا احادیث کے ساتھ کم واسطہ ہے۔ میں اسی بنیاد پر فقہ اور حدیث کے درمیان ربط و تعلق پیدا کرنے پر زور دیتا ہوں۔ یہ نکتہ ہماری اصلاحی دعوت میں شامل ہے۔ علمائے سلف میں سے امام سفیان بن عیینہ وغیرہ نے کہا ہے کہ اگر اقتدار ہمارے ہاتھ میں ہو تو ہم اُس محدث کو جو فقہ سے دور ہو اور اُس فقیہ کو جو حدیث سے ناواقف ہو، کوڑے ماریں گے! کیونکہ اِن دونوں چیزوں کے درمیان ربط و تعلق خصوصاً آج کے دور میں نہایت ناگزیر ہے۔ میں نے اُصولِ دین کالج سے سند فراغت حاصل کی ہے۔ اس میں ہم تفسیر، حدیث، اصول فقہ، اسلامی تاریخ، علم عقاید، علم کلام، منطق، اخلاقیات اور فلسفہ وغیرہ سب علوم پڑھتے تھے۔ اب آج کے دور میں یہ سب علوم الگ الگ شعبوں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔ حدیث کا شعبہ الگ، تفسیر کا شعبہ الگ، عقیدہ اور دعوت کے شعبے الگ الگ بن گئے ہیں۔ اگر آپ ان علوم کے طلبہ سے کسی دوسرے علم کے بارے میں پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ واللہ ہم اس بارے میں نہیں جانتے۔ میں تو شعبۂ تفسیر کا طالب علم ہوں، میں حدیث کے بارے میں نہیں جانتا۔ حدیث کا طالب علم عقیدے کے علم سے ناواقفیت کا اظہار کرے گا۔ ان علوم کے درمیان دوری پیدا کر دی گئی ہے۔ علیحدگی علوم کے اس سیلاب نے یہ صورتِ حال پیدا کر دی ہے کہ طالب علم ایک شعبے کا عالم بن کر نکلتا ہے مگر باقی اسلام کے بارے میں وہ لاعلم ہوتا ہے۔ دورِ حاضر میں اس کیفیت کو اختصاص (Specialization) کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن ماضی میں تو ان علوم کے دائرۃ المعارف طرز کے لوگ موجود رہے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہے عنایت فرما دے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فضل آج بھی ممکن ہے کہ علماء کو عنایت ہو۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2014