اللہ تعالیٰ نے انسان کو مشاہدہ کرنے والی آنکھ اور سوچنے سمجھنے والا دماغ عطا کیا ہے، جن کی مدد سے وہ کائنات اور خود اپنے وجود میںیاد دہانی کروانے والی آیات (نشانیوں) کا اِدراک کرسکتا ہے۔ اگر ایک غیر متعصب ذہن کے ساتھ وہ صرف اپنے وجود کا جائزہ لے، تو اس کا فطری رویہ اپنے خالق و مالک کے حوالے سے شکر اور حمد کے علاوہ نہیں ہو سکتا۔بہت سے اہل نظر کے لیے طلوعِ صبح اورغروبِ آفتاب کا منظر ہی قبول حق کے لیے کافی ہوتا ہے اور ان کا پورا وجود انسانوں اور کائنات پر احسانات کرنے والے رب ، الرحمٰن اورالرحیم کے اعتراف عظمت میں روبہ سجود ہو جاتا ہے اور وہ بے اختیار پکار اُٹھتے ہیں کہ ھَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ۔
دوسری جانب ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں جو تابناک سورج کی روشنی میں بھی بصیرت اور قلب کی روشنی سے محروم رہتے ہیں۔ وہ جانتے بوجھتے حق کا اعتراف نہیں کرتے اور یوںوہ اپنے نفس پر کھلا ظلم کرتے ہیں۔ اسلام اور ایمان کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ ایک صحت مند جسم ، روشن دماغ اور دردمند دل رکھنے والا شخص ان تینوں صلاحیتوں پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک جانب ہرقسم کے شرک سے بیقراری اور دوسری جانب توحید خالص کے اقرار و اعتراف کے ساتھ اپنے سارے وجود کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بندگی میں دے کر اسلام میں پورے کا پورا داخل ہوجائے (اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَـآفَّاۃً)۔
اسی احسانِ الٰہی کے حوالے سے انسان کو شعورِ حیات دیا گیا اور اسی احسانِ الٰہی کی بنا پر انسان کے لیے ایک عالم گیر اخلاقی ضابطہ مرتب کر کے وحی الٰہی کے ذریعے اس کے حوالے کر دیا گیا، تاکہ وہ آنکھ ، کان ، دل و دماغ رکھنے کے باوجود اندھوں اور بہروں کی طرح زندگی نہ گزارے، بلکہ احساسِ جواب دہی کے ساتھ اپنے مشاہدے ، بصارت و بصیر ت اور قلب و ذہن کی ہم آہنگی (synergy) کے ذریعے اپنے بنیادی انسانی فرائض کو پورا کر سکے ۔یہ ادایگی فرض رنگ و نسل کی تفریق سے بلند ہے۔ اس میں جغرافیائی قومیت یا مذہبی اور مسلکی اختلاف کا کوئی دخل نہیں ہے ۔یہ ہر ذی حیات انسان کے لیے، وہ مرد ہو یا عورت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے بصارت، سماعت اور شعور کی صلاحیت کی اخلاقی جواب دہی ہے: اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلاً o (بنی اسرائیل ۱۷:۳۶) ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘۔
اسلامی تحریکات اس بنیادی شعور اور جواب دہی اور احتساب کے احساس کی بنیاد پر یہ سمجھتی ہیں کہ اس دور میں اقامتِ دین ان پر ایک فریضہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ دین کی جدوجہد تحریکات اسلامی کا باطن بھی ہے اور ظاہر بھی اور ان دونوں کے درمیان میں کوئی حدِّ فاصل نہیں کھینچی جاسکتی ۔ ان کی حیات، نمو اور ارتقا کا براہِ راست تعلق اقامتِ دین کے ایک جامع اور کلی تصور کے ساتھ وابستہ ہے ۔ یہ تصورخودمتحرک ہے، حتیٰ کہ اگر وقتی طور پر ایک اسلامی تحریک سکڑتی بھی نظر آرہی ہو، تب بھی یہ تصور متحرک رہتا ہے ۔ یہ حرکی تصور، تحریک اسلامی کے ضمیر کو بار بار جھنجوڑتا ہے اور اپنی منزل، طریق کار اور حکمت عملی کے حوالے سے بار بار یہ سوچنے پر آمادہ کرتا ہے کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ہیں تو دیکھا جائے کہ کمی یا نقص کہاں پر ہے ؟
اسی بنا پر ان تحریکاتِ اسلامی میں، جو بظاہر تیزی کے ساتھ منزلیں سر کرتی نظر نہ آرہی ہوں، کارکنوں کی سطح پر اضطراب کا اظہار ایک فطری امر ہے۔ ان کے ہاں یہ احساس کہ اصل کرنے کا کام نہیں ہو رہا ، تربیت میں کمی آرہی ہے ،ترقی نہیں ہو رہی ہے، ایثار و قربانی کا جذبہ کم ہو رہا ہے ، قیادت میں فیصلوں کے ساتھ چلنے کے بجاے فیصلے نافذ کرنے کا سا انداز پیدا ہو رہا ہے، یا پھر یہ شکایت کہ ضرورت سے زیادہ فروتنی اور اپنے آپ کو کم تر سمجھا جارہا ہے، یا پھر اپنی قوت کے بارے میں یہ غلط احساس پیدا ہو گیا ہو کہ ہم جب چاہیں شاہراہیں روک کر اپنی قوت کو منوا سکتے ہیں ، اسی طرح دوسروں کے مقابلے میں خود کو زیادہ صاحب تقویٰ اور صاحب علم سمجھنا وغیرہ وغیرہ۔ غرض یہ کہ بے شمار اچھے پہلو ہوں یا بعض کم زوریاں ، ان کا پایا جانا، ان پر باہمی مکالمہ کرنا درحقیقت زندگی کی علامت ہے۔ان تمام احساسات و جذ بات کا وجود بنیادی طور پر تحریک اسلامی کے متحرک ہونے کی دلیل ہے۔ اگر تحریک جامد اور ساکت ہوتی تو کارکن ہوں یا قیادت یا دعوت کے مخاطب ، ان میں یہ اضطراب نہ پایا جاتا۔ اضطراب کا پایا جانا ہی حیات کا ثبوت ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت حنظلہ ؓ کے دل میں تھا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے ہیں تو جو دل کی کیفیت ہوتی ہے وہ اس سے مختلف ہوتی ہے جو گھر پر یا بازار میں پائی جاتی ہے اور جسے دونوں اصحابِ رسولؐ نے نفاق سے تعبیر کیا تھا ۔
تحریک اسلامی ہر دور میں اس کیفیت سے دوچار رہی ہے اور رہے گی، کیوں کہ اس کے تحریک ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کا ہر آنے والا دن پہلے دن سے بہتر ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کا قلبِ مضطرب سوتے جاگتے اسے پکار پکار کر کہتا کہ کہیں اس میں نفاق تو نہیں آگیا ہے ۔ یہ احساس اسے اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے ، اپنے احتساب اور اپنی ترجیحات کے جائزے کی طرف متوجہ کرتا ہے ۔
یہ خیال کہ بعض تحریکات پر سیاست غالب آگئی ہے اور تعلق باللہ ، للہیت ، تقویٰ و احسان مفقود ہو گئے ہیں، ایک قابل قدر احساس ہونے کے باوجوداس حقیقت کو نظر انداز کرنا ہے کہ سیاسی سرگرمی اور سیاسی تبدیلی کا مقصد کیا ہے؟ یہ جدوجہد اقامتِ دین اور حاکمیت الٰہیہ کے لیے کی جاری ہے یا محض سیاسی سرگرمی ہے؟ کیااس کا مقصد سینٹ یا پارلیمنٹ میں علامتی وجود کو برقرار رکھنا ہے، یا اقامتِ دین کے لیے ان ایوانوںمیں مؤثر کردار ادا کرنا ہے، جو قوم و ملک کی قسمت سے انصاف بھی کرسکے اور عوام پر ظلم اور ان کے استحصال کے مرتکب عناصر سے پنجہ آزمائی بھی کرسکے؟ کسی بھی اسلامی تحریک کو اس نوعیت کے سوالات پر باربارغور کرنا چاہیے اور جذبات سے بلند ہو کر، نفع ونقصان کا بے لاگ جائزہ لینا چاہیے اور تحریکی سفر کے مراحل کو منزل سمجھنے کی غلطی نہ کرنی چاہیے۔
ہمارے لیے اصل میزان قرآن وسنت ہیں۔ ان کی رہ نمائی اور روشنی میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ذاتی اور اجتماعی احتساب اور اپنی حکمت عملی پر مسلسل غور وفکر کا عمل جاری رکھیں اور ظن و گمان سے بچتے ہوئے یہ کام انجام دیں کہ بہت سے گمان اور ظن گناہ کے دائرہ میں آتے ہیں (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ) (الحجرات۴۹:۱۲)۔ یاد رہے تحریکی کارکنوں اور قیادت کے درمیان شفافیت اور احتساب کا مسلسل عمل اور باہمی اعتماد ہی سفر کے جاری رہنے کی ضمانت ہے۔تحریک اسلامی کا ارتقائی سفر (Progressive Process ) کسی ایک مرحلے کے پیمانے سے نہیں ناپا جاسکتا۔ یہ اسلامی تحریک مکہ مکرمہ سے حبشہ اور مدینہ پہنچی اور مدینہ منورہ سے پوری دنیا کے لیے ایک عالم گیرتحریک کی شکل اختیار کر گئی ۔ اس کے تاریخی مراحل میں مکی دور ہو یا حبشہ کی ہجرت کا دور یا آخر کار ہجرت مدینہ منورہ اور قیام حاکمیت الٰہی، یا وہ فکری، اخلاقی، سیاسی اور ہمہ پہلو انقلاب، جو دین کی تکمیل کے اعلان کا باعث بنا۔ ان تمام تاریخی مراحل میں قیامت تک کے لیے وہ رہ نمااصول موجود ہیں جن کا صحیح شعور و ادراک تحریکات اسلامی کو صراط مستقیم پر رکھنے کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔
مکی و مدنی اَدوار: تحریک کا ارتقائی سفر
یہ تصور کہ مکی اور مدنی ادوار مکمل طو ر پردو الگ اکائیاں ہیں ، تحریک اسلامی کے ارتقائی سفر کے تناظر میں غیر عقلی نظر آتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں حاکمیت الٰہی کے قیام کے بعد یہ فاصلے ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔اب دین کی حکمت: یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآئُ ج وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ o (البقرہ ۲:۲۶۹) ’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘— جسے رب کریم نے بارہا اپنے ایک انعام کے طور پر قرآن کریم میں دُہرایا ہے، کے پیش نظر تحریکی قیادت کی ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ عین مدنی دور کے دوران مکی حکمت عملی کو کس طرح استعمال کیاجائے اورعین مکی دور سے گزرتے ہوئے مدنی دور کی کسی حکمت عملی پر کیسے عمل کیا جائے؟ گویا ایک مرتبہ نظام اسلامی کے قیام کے بعد تاریخی زاویے سے یہ دونوں اَدوار الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں کیے جا سکتے۔
دورِ حاضر میں تحریک اسلامی کی حکمت عملی اور اسٹرے ٹیجی بناتے وقت دونوں ادوار میں اختیار کی گئی حکمت عملی اور نظام تربیت سے بیک وقت مدد لینی ہو گی۔ اب دعوت اسلامی کے وسیع تر تناظر میں اقامتِ دین کے جامع مقاصد کے پیش نظر حکمت عملی وضع کی جائے گی، جس کے لیے دونوں ادوار سے مناسب حد تک استفادہ کرنا ہو گا۔اس نکتے کو سمجھنے میں اللہ رب العزت کی اس حکمت عملی میںبھی بڑی رہ نمائی ہے کہ قرآن پاک میں جہاں مکی اور مدنی سورتوں کی نشان دہی کردی گئی ہے، وہیں قرآن کی ترتیب نزول قرآن کے مطابق نہیں،بلکہ اللہ کی ہدایت کے تحت اس ابدی اور آفاقی ہدایت کو اس طرح مرتب فرمایا گیا ہے کہ مدنی آیات کے ساتھ ساتھ مکی دور کی آیات کوپیوست کر دیا ہے۔
اس پس منظر میں تحریک اسلامی پر ایک ارتقائی سفرکے زاویے سے غور کیا جائےتو چاہے اس نے اپنے کارکنوں اور قیادت کوفکری طور پر اقامتِ دین کے وسیع تر تصور سے آگاہ کر دیا ہو اور قرآن و سنت ، فقہ ، تفسیر اور اعلیٰ اسلامی ادب سے پوری طرح واقف کرا دیا ہو، اس کے باوجود ہرکارکن اور قائد کو ہر لمحے جائزہ لینا ہو گا کہ اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے، تو اس کا سبب کیا ہے ؟
ہم نے آغا ز میں سوال اٹھایا ہے کہ کمی، کوتاہی یا نقص کہاں ہے ؟ اس کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں خود اپنے کردار اور ترجیحات کاجائزہ لینا ہوگا۔ نیز یہ دیکھنا ہو گاکہ جو افرادی قوت پیش نظر تھی اس میںمطلوبہ خصوصیات پیدا ہوئیں یا نہیں؟ اس بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ کیا افرادی قوت اسی معیار پر تیار ہورہی ہے جو ہم چاہتے تھے اور کیا ہماری حکمت عملی اور حصولِ مقصد کے ذرائع، مطلوبہ نتائج (Outcome) کے لیے مفید ثابت ہوئے؟ یا جو ذرائع ، حکمت عملی اور طریقے اختیار کیے گئے ہیں ان سے وہ معیارِ مطلوب (End Product) حاصل نہیں ہواجس کی خواہش اور طلب دل و دماغ میں پائی جاتی تھی ۔ اگرہماری خواہش یہ ہو کہ ہم فصل آنے پر اعلیٰ قسم کے آم کا مزا لیں، جب کہ ہم نے درختوں میں نہ قلم لگایا ہو، نہ ارد گرد پھیلے ہوئے کیڑوں مکوڑوں کو دور کیا ہو اور محض تخمی پودا لگا کر اعلیٰ آموں کے خواب دیکھتے رہیں تو اس کے نتیجے میں ہمارے تصور اور نتائج میں کبھی بھی یگانگت نہیں ہو سکتی۔
مکی دور مدینہ پہنچ جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتا ۔ فکری بنیادوں کی آبیاری پر ہی تحریک کی اٹھان کا انحصار ہوتا ہے ۔چنانچہ مدنی دور کے مطالبات میںچاہے سیاسی محاذ پر بین الاقوامی قانون کی تدوینِ جدید ہو یا مسلمانوں میں باہمی تعلق و اخوت کا قیام ، یا مدینہ کے دفاعی نظام کا مستحکم کرنا شامل ہو، اسی طرح ان تمام ریاستی مطالبات کے ساتھ ، تعمیر سیرت ، فکری بلوغت ، تعلق باللہ، توحید کا صحیح شعور ، عدلِ اجتماعی کا فہم ، اقامتِ دین کی بنیاد ، عبادات، انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ وہ پہلو ہیں جو تحریک کا قلب و روح ہوتے ہیں۔ ان پر اگر شعوری طور پر کام نہ کیا جائے تو ممکن ہے کہ تحریک عوام کا ایک ہجوم اپنے گرد جمع کر لے اور ایوانِ نمایندگان میں اچھی خاصی تعداد میں کام یاب ہو کر بھی آجائے ، لیکن وہ اپنا اصل مقصد حاصل نہیں کر سکے گی ۔ اس کی کام یابی تعداد پرمنحصر نہیں ہے، بلکہ ان باشعور افراد کی تیاری اس معاشرتی تبدیلی پر منحصر ہے جو وقت کے ہر امتحان میں پوری اُترے اور تحریک ہوا کے رخ سے بے پروا ہو کر شاہین کی طرح اپنے ہدف کی طرف سفر کو جاری رکھ سکے۔
قرآن کریم کا دیا ہوااٹل اصول ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے صالح افراد کی جماعت ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی جماعت، جو چاہے تعداد میں مختصر ہو ، اگر اس کا کردار اور تربیت معیاری ہو گی تو اسے ایک کثیر جماعت پر غالب آنا چاہیے ۔ اصل ضرورت ان افراد کی ہے جو منزل کا واضح تصور رکھتے ہوں، ان کی سیرت اُسوہ نبویؐ کی عکاسی کرتی ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کی امداد پر بھروسا کرتے ہوئے اپنی جان ، مال، علم ،چیز کو صرف اللہ کی رضا کے لیے بازی پر لگانے کے لیے آمادہ ہوں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ (انعام۶:۱۶۲-۱۶۳)
یہی قرآنی اصول بنی اسرائیل کے لیے تھا ، یہی امت مسلمہ کے لیے ہے ۔تحریک اسلامی کی قیادت اور کارکنوں کو ہر لمحے اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ وہ ان دونوں پہلوؤں میں کس حد تک توازن و اعتدال برقرار رکھ سکی ہے اور کہاں پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔
دورِ جدید اور فکری تقاضے
فکری غذاکے سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ جب تک تحریکی فکر میں نئے سوتے پھوٹتے رہیں گے ، تحریک کی اثر انگیزی اور وسعت میں اضافہ ہو گا ۔ اس کی فکر طاغوتی مادہ پرستانہ فکر کے مقابلے میں اپنی برتری تسلیم کرائے گی ۔لیکن اگر یہ فکری سوتے خشک ہونے لگیں تو تحریک بھی ایک سوکھے درخت کی طرح اپنی جگہ قائم تو رہے گی، لیکن امت مسلمہ اس کی گھنی چھاؤں اور اس کے میٹھے پھل سے محروم رہے گی۔اس لیے تحریک کو علمی اور فکری میدان میں مسلسل ترقی کی فکر کرنی ہو گی۔
یہ خیال بھی بے بنیاد ہے کہ دور جدید میں تحریک اسلامی کے فکری رہ نماؤں نے جن خیالات کا اظہار کیااور جو حل تجویز کیے وہ وقت اور جغرافیائی سرحدوں میں محدودہیں۔ اگر امام حسن البنا بالاکوٹ یا لاہور میں پیدا ہوتے تو ان کی دعوتی زبان اُردو ہی ہوتی ، اسی کے محاورے ان کی نوک زبان پر ہوتے ، ایسے ہی اگر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ترکی میں پیدا ہوتے تو ان کی تحریری زبان ترکی ہی ہوتی۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ امام غزالیؒ نے بغداد یا قاہرہ میں بیٹھ کر عربی زبان میں جن خیالات کا اظہار کیا اورشاہ ولی اللہ دہلوی نے دہلی میـں بیٹھ کر عربی اور فارسی میں جو کچھ تحریر کیا ان کے مخاطب نہ صرف عربی سمجھنے والے افراد تھے، بلکہ آج تک ان کی فکر کی تازگی اور دینی حکمت سوچنے سمجھنے والے افراد کو متاثرکرتی ہے ۔ کیا اقبال محض پاکستانیوں کے لیے پیدا ہوئے تھے یا ان کی قدر ان کی جائے پیدائش والوں سے زیادہ وسط ایشیا کے افراد نے کی اور کر رہے ہیں ۔
پھر یہ بنیادی مقدمہ کہ کیا فکر (Thought) وقت کے ساتھ ساتھ ماضی کا حصہ بن جاتی ہے ؟ قرآن وحدیث کو زمان و مکان کی محدودیت اور کسی علاقے یا وقت میں قید کر دینا ایک انتہائی مریضانہ ذہنیت ہے، جو غیر شعوری طور پر مغرب کی لادینی اور استشراقی فکرسے متاثر بعض مسلمان دانش ور پیش کررہے ہیں۔یہ بالکل اُسی طرح ہے، جس طرح مغرب میں ہر تھوڑے عرصے میں ایک ’دانش وارانہ ‘نعرہ بلند ہوتا ہے کہ: ’’ماضی کے تصورات اب پرانے ہو گئے ہیں اس لیے نئے نظریات کی ضرورت ہے‘‘۔
جس طرح مغرب میں جدیدیت کے بطن سے نو جدیدیت (Post Modernism) کی ولادت ہوئی اور جس طرح مغرب نے تاریک دور (Dark Ages) سے دور عقلیت (Rationalism) میں قدم رکھا، اور بالخصوص آگسٹ کومے، ہیگل اور کانٹ کے تصورات کی روشنی میںعیسائیت کی جگہ عقلیت ، اباحیت، آزاد روی، مادیت پرستی اور دیگر تصورات کو ’روشن خیالی‘ کے زیرعنوان فخریہ طور پر اختیار کیا گیا، بالکل ایسے ہی ان مغربی فکر سے متاثر ’دانش وروں‘ کے خیال میںمسلم اہل فکر کو بھی قرآن و حدیث کو جدیدیت کی چھلنی سے گزارناچاہیے ۔ یہ وہ سادہ لوحی پر مبنی گم راہی ہے جو آج بعض مسلم دانش ور شعوری یا غیر شعوری طور پر اسلام اور تحریکات اسلامی کے قائدین کی فکرکے حوالے سے وقتاً فوقتاً دُہراتے رہتے ہیں۔
یہ ’مسلم دانش ور‘ سمجھتے ہیں کہ حق و صداقت کے معیارات کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل ہونا چاہیے اور ہر دور میں ایک ’من پسند نو تراشیدہ اور شتر بے مہار اسلام‘ وجود میں آنا چاہیے ۔اپنی اس خواہش کے باوجود یہ لوگ اگر سنجیدگی سے اسلامی قانون سمجھانا چاہتے ہیںتوائمہ اربعہ کے حوالے کے بغیر بات مکمل نہیںکر سکتے۔ دوسری طرف دورِ جدید کی تحریکات اسلامی کے مؤسسین کے حوالے سے ہدیات پائی جاتی ہے کہ ان کی فکر آج بھی ویسی ہی تازہ، کارآمد اور Relevant ہے جیسے ۸۰برس قبل تھی۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مغربی جامعات یا مغربی نظام تعلیم میں تربیت پانے والے اکثر مسلمان مصنفین یہ نعرہ بلند کرنے لگے ہیں کہ:’’ چوں کہ وہ Post Modernism [مابعد دورِ جدیدیت] عہد میںبس رہے ہیں، اس لیے تحریکات اسلامی کو بھی ایک بالکل نئی فکری بنیاد کی ضرورت ہے‘‘۔ بہ ظاہریہ بات بہت دل پسند معلوم ہوتی ہے اور اسے اور بھی معتبر بنانے کے لیے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں اس کی لسان /زبان میں انبیاؑ کے ذریعے اپنا پیغام اور ہدایت بھیجی۔ اس کا واضح مفہوم یہی نظرآتا ہے کہ ہر دور کے حالات کی رو شنی میں، وہ اسلوب جو اس دور میں زیادہ مؤثر ہو استعمال کیا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب کیسے لیا جاسکتا ہے کہ ہر نئے دور کے لحاظ سے نبی کی دعوت بھی مختلف ہو،یاہر دور میں توحید ، رسالت اور آخرت کا ایک نیا تصور پیش کیا جائے ؟ قرآن نے یہ بات قیامت تک کے لیے طے کر دی ہے کہ تمام انبیا ؑکی دعوت دو نکات ہی پر مبنی تھی، اللہ کی مکمل بندگی اور طاغوت کا مکمل رداور مخالفت:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶ ) ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیج دیا، اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کر دیا کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(مزیدملاحظہ ہو:الزمر ۳۹:۱۷)
تحریکاتِ اسلامی کی دعوت انبیا ؑ کی دعوت ہے ۔ یہ اللہ کی مکمل حاکمیت اور نظامِ عدل کے قیام کی دعوت ہے، جس میں کسی نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ تاہم، حکمت عملی اور ترجیحات ہر دور کے لحاظ سے متعین کی جائیں گی۔جہاں تک دعوت کا تعلق ہے، اسے قرآن اور سنت رسولؐ کی شکل میں مکمل کر دیا گیا:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط ( المائدہ۵:۳)’’آج میں نے تمھارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ۔‘‘
تحریکات کی زندگی کا تعلق فکر کی تازگی کے ساتھ ہے۔ لیکن بعض افکار صدیا ںگزر جانے کے باوجود تازہ رہتے ہیں۔آج غالب کوانتقال کیے ڈیڑھ سوبرس گزر چکے ہیں۔ کیا اس کے باوجود اردو شعر و ادب کا کوئی طالب علم یہ کہہ سکتا ہے کہ غالب کا دور گزر گیا ہے، اس لیے اب غالب کا مطالعہ کرنے کے بجاے نو آموز شعرا کے کلام پر اکتفا کیا جائے اور ادبی سفر اور ادبی نقد کا آغازصرف جدید شعرا کے کلام سے کیا جائے ؟اس تخیل کو وزن دینا تو دُور کی بات، ایسی بات کہنے والے کی عقل کو ناقص سمجھا جائے گا۔
یہاں جس بات کی ضرورت ہے وہ یہ کہ فکر مودودی ہو یا فکر اقبال یا فکر امام حسن البنا، اس کو مصادر کی روشنی میں سمجھ کر آگے بڑھانے کے لیے وہ زاویے اور وہ راستے تلاش کیے جائیں، جن کی طرف ان فکری قائدین نے اشارے کیے ہیں اور جن کی تفاصیل وہ بیان نہ کر سکے، یا ایسے پہلو جو کسی بنا پر ان کی نگاہ سے اوجھل رہ گئے۔ لیکن یہ اسی وقت ہو گا جب ان کی فکر کو ہضم کر کے حکمت دعوت کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک کے ارتقائی سفر کے مطالبات کی روشنی میں حل تلاش کیے جائیں۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2017