چند ماہ قبل (اکتوبر ۲۰۱۹)، اشارات کے صفحات میں رائے عامہ کی تشکیل اور ہمواری سے متعلق کچھ معروضات پیش کی گئی تھیں۔رائے عامہ کی کوئی بحث ذرائع ابلاغ یا میڈیا کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ رائے عامہ کی درست رخ پر تشکیل کے لیے میڈیا کا صحیح فہم اور شعور بھی ضروری ہے اور اس پر مناسب توجہ بھی۔ میڈیا کا موضوع ہمارے علمی و فکری حلقوں کے لیے کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر مسلسل بحث کے باوجود، اس کے سلسلے میں درست رویہ تشکیل نہیں پاسکا ہے۔
رائے عامہ اور میڈیا
صنعتی انقلاب کے بعد ہی سے میڈیا کی اہمیت تیزی سے بڑھنے لگی اور رائے عامہ کی تشکیل میں اس کا رول نہایت اہم ہوتا گیا۔ اس صدی کے آغاز میں یہ بات کہی جاتی تھی کہ میڈیا کے سات اجزا ( پرنٹ میڈیا، آڈیو ویڈیو ریکارڈز، سنیما، ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سیل فون) کا عوامی ذہن بنانے میں سب سے اہم اور کلیدی رول ہے۔گذشتہ دودہوں میں، میڈیا کی ایک بالکل نئی قسم نے جنم لیا جسے ہم عرفِ عام میں سوشل میڈیا کہتے ہیں یعنی ویب ۲ (web 2.0)سے متعلق وہ انٹرنیٹ اپلی کیشن جن کے ذریعہ ایک عام آدمی اپنا مواد تخلیق کرسکتا ہے اور اسے آزادانہ طور پر، سامعین و ناظرین کی ایک تعداد تک پہنچا سکتا ہے۔اب دنیا میڈیا کی آٹھویں بڑی قسم کی طرف تیزی سے پیش رفت کررہی ہے جسے ’اضافہ شدہ حقیقت‘(augmented reality) کہا جاتا ہے ۱؎۔ ہولوگرام اور ہولولینس جیسی ترقی یافتہ ٹکنالوجی کے ذریعہ میڈیا کا مواد اس طرح سامنے لایا جاتا ہے کہ استعمال کرنے والے کے لیے یہ پیشکش حقیقی دنیا کے تجربے (real life experience) کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ میڈیا کی تخلیق کردہ فرضی دنیا استعمال کرنے والے کے پانچوں حواس پر اثر انداز ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کا لاشعور اُسے اس فرضی دنیا کا حصہ بنادیتا ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا پر خصوصاًانسٹاگرام جیسے پلیٹ فارموں پر اس صورت حال کے ابتدائی تجربات شروع ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آگمینٹیڈ رئیلٹی کا آنے والا انقلاب انٹرنیٹ سے بھی کہیں زیادہ ہمہ گیر ہوگا اور گہرے نفسیاتی اور سماجیاتی اثرات کا حامل ہوگا۲؎۔ مستقبل کے میڈیا سے متعلق ان باتوں کو پیش کرنے کا مقصد اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ میڈیا کا چیلنج آنے والے دنوں میں اور شدت اختیار کرے گا۔ اس لیے اس پر بھرپور توجہ دینی ضروری ہے۔ رائے عامہ کی درست رخ پر تشکیل کا کام میڈیا پر بھرپور توجہ کے بغیر آج بھی ممکن نہیں ہے،آئندہ اور بھی دشوار ہوتا جائے گا۔
سماجی ترغیب و تشویق (social persuasion) ماس میڈیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ میڈیانے انسانوں کے درمیان راست سماجی تعلقات نہایت کم زور کردیئے ہیں اور ایک پڑھے لکھے آدمی کوراست معلومات کے حصول کے معاملے میں نہایت کاہل بنادیا ہے۔ وہ اپنے آس پاس ہونے والے واقعات کی بھی راست معلومات حاصل کر نے کی کوشش بہت کم کرتا ہے اور اس کے لیے اس کا میڈیا پر انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔شہروں میں ایسے واقعات عام ہیں کہ محلے میں ہونے والے قتل کے واقعے کی معلومات پڑوسیوں کو اخبار یاٹی وی سے ملتی ہے۔ چنانچہ لوگوں کو کیا معلومات ملنی چاہئیں اور کیا نہیں، کن باتوں کو اہمیت دی جانی چاہیے اور کن کو نہیں، لوگوں کو کن باتوں پر سوچنا چاہیے اور کن پر نہیں، ان سب امور پر میڈیا کا کنٹرول خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صحیح اورغلط اور اچھے اور برے سے متعلق عوام کی رائے (value judgment) بالعموم میڈیا کے ذریعہ تشکیل پاتی ہے۔ جن کے پاس میڈیا ہے، ان کے پاس گویا رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کا لائسنس ہے۔سوشل میڈیا کے چلن سے پہلے تک میڈیا بالعموم حکومتوں یا طاقت ور سرمایہ داروں کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ چنانچہ رائے عامہ پر ان کا کنٹرول بھی بہت طاقت ور اور ہمہ گیر ہوا کرتا تھا۔
جمہوری معاشروں میں بظاہر میڈیا آزاد ہوتا ہے۔ لیکن چومسکی اور دیگر متعدد تجزیہ نگاروں نے واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری معاشرے، قدیم معاشروں سے زیادہ انسانی فکر اور سوچ پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ مثلا چومسکی نے امریکی میڈیا کے بارے میں لکھا ہے:
’’امریکی میڈیا کسی استبدادی ریاست کے پروپگنڈہ سسٹم کے طور پر کام نہیں کرتا۔یہ پر جوش مباحث، تنقید، اور اختلاف رائے کی نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ یہ سب کچھ ان اصولوں اور مفروضات کے دائرے کے اندر ہو جن پر امریکی خواص کا اتفاق رائے (elite consensus) ہے۔خواص کے اتفاق رائے کا یہ نظام اس قدر طاقت ور ہے کہ بغیر کسی شعور کے ہر شخص اس سے خود کو ہم آہنگ کرنے پر مجبور ہے۔‘‘ ۳؎
چومسکی نے جدید میڈیا کا پروپگنڈہ ماڈل واضح کیا ہے کہ مذکورہ مقصد کے حصول کے لیے کیسے موضوعات کا انتخاب کیا جاتا ہے؟مسائل اور ایشوز کو فریم کیا جاتا ہے، معلومات کی چھانٹی کی جاتی ہے، کیسے طے کیا جاتا ہے کہ کس بات پر زور دیا جائے اور کس بات کو کس لب و لہجہ میں بیان کیا جائے۔ اور کیسے اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ مباحث طے شدہ سرحدوں سے کبھی تجاوز نہ کریں۔۴؎
کسی معاشرے میں جب میڈیا کا اثر بڑھ جاتا ہے تو واقعات اور احوال اپنے حقیقی تناظر سے محروم ہوجاتے ہیں۔شعور کی حرکت اور فہم و ادراک کی تشکیل کا عمل فرد کی اپنی خودی و لاشعور کی بجائے، ایک بیرونی مصنوعی تناظر کے تابع ہوجاتا ہے۔احوال و واقعات سے وہ وہی مطلب اخذ کرتا ہے جو میڈیا کرانا چاہتا ہے۔ اس طرح بظاہر مکمل آزادی ضمیر کے باوجود، اس کا ضمیر ایک بیرونی قوت کے تابع ہوجاتا ہے۔اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ(اے اللہ ہم کو سچ بات کو سچ دکھا اور اس کے اتباع کی توفیق عطا کر اور جھوٹ کو جھوٹ دکھاا ور اس سے اجتناب کی توفیق عطا کر) اس دعا میں جس عظیم نعمت کی خواہش کی گئی ہے، ایک میڈیا گزیدہ معاشرہ، اس سے محروم ہونے لگتا ہے۔
انسانوں کی معلومات، اُن کی رائے اور ان کے ضمیر پر یہ غیر معمولی کنٹرول، جدید تہذیب کی لعنتوں میں سے ایک ہے۔ حریتِ فکر اور آزادی ضمیر، انسانی عز و شرف کی اہم ترین بنیادوں میں سے ہے۔ تہذیب جدید نے ان پر کئی طرح کے پہرے بٹھا رکھے ہیں اور ان پہروں کا سب سے اہم اور کارگر واسطہ میڈیا ہی ہے۔ جو کام پرانے زمانوں میں، ظالم حکمرانوں کے استبدادی پنجے بھی پوری طرح نہیں کرسکے،دور جدید کی ٹکنالوجی اور ٹکنالوجی کے ذریعہ چلنے والے میڈیا نے آسانی سے کردکھا یا ہے اور انسانوں کو بظاہر بھر پور آزادی دے کرکیا ہے۔
میڈیا اور تہذیبی استعمار
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ میڈیا کی یلغار اور اُس کا کنٹرول سسٹم صرف وقتی سیاسی مسائل تک محدود ہے۔ اگرچہ وقتی سیاسی اور معاشی مفادات، اس کنٹرول سسٹم کے اہم محرکات میں شامل ہیں لیکن اس کی گہری نظریاتی اور تہذیبی بنیادیں بھی ہیں۔میڈیا کی پوری اسکیم میں نہایت خاموش اور غیر محسوس طریقے سے مغربی قدروں اور فلسفہ حیات کی ترویج کا سامان موجود ہے۔معصوم اور بے ضرر محسوس ہونے والے بچوں کے کارٹونوں کے ذریعہ بھی اختلاط مرد و زن،کھلے عام بوسہ بازی وغیرہ جیسی دسیوں ایسی باتیں بچوں کے معصوم لاشعور میں نقش ہوجاتی ہیں جن کا گہرا تعلق بنیادی تہذیبی قدروں سے ہے۔ حجاب کے بارے میں میڈیا کی مسلسل یلغار کے ذریعہ یہ ذہن بنایا جاتاہے کہ یہ عورت پر ظلم اور مرد کے تسلط کی علامت ہے۔ جہاد کے بارے میں یہ ذہن بنایا جاتا کہ آج دنیا بھر میں دہشت گردی کے لیے اسلام کا یہ اہم رکن ذمہ دار ہے، بلکہ جہاد کا مطلب ہی دہشت گردی ہے اور ’جہادی‘ ایک گالی ہے۔لباس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ اس کا اولین مقصد ستر کی حفاظت ہے۔يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ( اے اولاد آدم ہم نے تم پر لباس نازل کیا تاکہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہاری آرائش ہو۔الاعراف؛ آیت ۲۶) جبکہ میڈیا سے لباس کا جو تصور قائم ہوتا ہے اُس میں لباس، حسن کی نمائش اور اسٹیٹس کے اظہار کا ذریعہ اور فیشن کی علامت قرار پاتا ہے۔میڈیا کے دھیمے زہر کا اثر یہ ہوتا ہے کہ اس سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کے لیے بھی دھیرے دھیرے ستر کی حفاظت کا مقصد غیر اہم ہونے لگتا ہے اور بے حیائی اور نیم عریانی میں کوئی تکلف محسوس نہیں ہوتا۔وہ اپنے تہذیبی حصار اور اپنی معاشرتی سر حدوں سے پرے، میڈیا کی تخلیق کردہ ایک اجنبی مصنوعی دنیا میں رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اس کا اثر قبول کرنے لگتے ہیں۔ اس اجنبی دنیا کی تہذیبی قدریں، سیاسی مزعومات، معاشی مفادات اور لائف اسٹائل سے متعلق ترجیحات وہی ہوتی ہیں جو میڈیا کی پسندیدہ تہذیب یعنی مغربی تہذیب کی ہوتی ہیں۔ہمارے ملک میں اب یہی رول یہاں کا میڈیا، دائیں بازوکے عناصر کی سیاسی وتہذیبی ترجیحات کی خاطر ادا کررہا ہے۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے میڈیا کا یہ رول عالمی میڈیا سے زیادہ شدید، جارح اور استبدادی ہے۔ آنے والے برسوں میں،جب آگمینٹیڈ رئیلٹی میڈیا کی سب سے بڑی حقیقت بن کر سامنے آئے گی تواس وقت یہ چیلنج کس قدر پیچیدہ ہوجائے گا، اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید نے نضر بن حارث کے ایک خاص کیرکٹر پر تبصرہ کیا ہے جو لوگوں کو دین حق سے دور کرنے کےلیے لہو الحدیث لے آیا تھا۔وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ (اور انسانوں میں سے کوئی ایسابھی ہے جو کلام دلفریب خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر بھٹکادے۔لقمان؛ آیت ۶) تفریحی میڈیا کا ایک سرسری جائزہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ دور جدید کا نضر بن حارث ہے۔یہ ہمارے بچوں کے اندر خواب پیدا کرتا ہے تو سیلیبریٹی بننے کا خواب پیدا کرتا ہے۔ وہ فلمی اداکاروں اور کشتی اور باکسنگ کے اکھاڑہ بازوں میں اپنا آئیڈیل تلاش کرتے ہیں۔ کارٹون کے بے جان اور خیالی کیرکٹر ان کے خوابوں اور تمناؤں کے مرکز بننے لگتے ہیں۔یہ کوئی معمولی نقصان نہیں ہے، اس سے تعمیرِ شخصیت کے عمل کی سمت ہی بدل جاتی ہے۔
کئی تجزیہ نگاروں نے۵؎ واضح کیا ہے کہ میڈیا اکثر معاشروں میں یہ صورت حال بھی پیدا کردیتا ہے کہ لوگ جھوٹ کے عادی بن جاتے ہیں۔ وہ جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر بھی اس کا اثر قبول کرتے ہیں اور اس کی بنیاد پر اپنا رویہ تشکیل دیتے ہیں۔ جھوٹ ان کے لیے ایک نارمل چیز بن جاتا ہے۔ قرآ ن مجید نے بنی اسرائیل کے بگاڑ کے دور کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ وہ سَمّٰعْونَ لِلکَذِبِ اَکّٰلْونَ لِلسّْحتِ( جھوٹ سننے والے اور حرام کے مال کھانے والے ہیں۔سورہ مائدہ آیت ۴۲) مبالغے کے صیغے میں سمّاع کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ جھوٹ کو جھوٹ سمجھ کر بھی آسانی سے قبول کرلیتے تھے اور اس کے عادی ہوچکے تھے۔ یہ کسی معاشرے کے اجتماعی ضمیر کی موت ہوتی ہے کہ وہ جھوٹ سننے اور قبول کرنے کا اس حد تک عادی ہوجائے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میڈیا کا اثر صرف اس بات تک محدود نہیں ہے کہ اب صحیح باتیں معلوم نہیں ہورہی ہیں، یا کچھ قدریں پامال ہورہی ہیں یا کسی معاملہ میں رائے عامہ غلط رخ پر تشکیل پارہی ہے، بلکہ یہ پستی کی طرف لے جانے والے ایک مکمل تہذیبی انقلاب کی راہ ہموار کررہا ہے۔ صرف سوچ نہیں بدل رہا ہے بلکہ سوچنے اور دیکھنے کا زاویہ اور ذہن کا سانچہ بدل رہا ہے۔وجودیات (ontology) اور قدریات (axiology) کے پیمانے بدل رہا ہے۔ فرد اور سماج کی نفسیات اور لاشعور کو متاثر کررہا ہے۔اس طرح میڈیا، صرف رائے عامہ پر نہیں بلکہ رائے عامہ کے پیراڈائم پر اثر انداز ہورہا ہے۔
یہ مختصر جائزہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ رائے عامہ کی درست سمت میں تشکیل کے لیے میڈیا پر توجہ کس قدر ضروری ہے اورمیڈیا پر درست توجہ کے لیے کس قدر گہرے شعور اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا
سوشل میڈیا سے یہ توقع تھی کہ وہ اس صورت حال کو بدلے گا۔ سوشل میڈیا کئی پہلوؤں سے مین اسٹریم میڈیا سے بہت مختلف ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پر سیاسی اور سرمایہ دارانہ طاقتوں کا ویسا کنٹرول نہیں تھا جیسا مین اسٹریم میڈیا پر تھا۔
آج سے تیس چالیس سال پہلے اہل اسلام کو شکوہ تھا کہ ماس میڈیا پر بڑے بڑے سرمایہ دار قابض ہیں۔ سرمایہ دارانہ استعمار ساری دنیا میں اسلام کو اپنے لیے رکاوٹ سمجھتا ہے۔چنانچہ دنیا ٹی وی کی اسکرین پر اسلام کے مخالفین کو ہی دیکھتی ہے۔ ریڈیو پر انھی کو سنتی ہے۔ اخباروں میں انھی کو پڑھتی ہے۔ اہل اسلام اگر کچھ سنانا اور پڑھانا چاہیں تو ان کے وسائل اس بیش قیمت میڈیا پر دسترس کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ آج سوشل میڈیا نے اس دیرینہ شکایت کو ختم کردیا ہے۔ اب وہ دور نہیں رہا جب دنیا میڈیا کے پروڈیوسروں اورصارفین میں بٹی ہوئی تھی، جب میڈیا میں بولنے والے کچھ وی آئی پی لوگ تھے اور باقی سب عوام اور سننے والے تھے، لکھنے والے کچھ نہایت بااثر لوگ یعنی نام ور مصنفین تھے اور باقی دنیا صرف پڑھنے والی تھی،جب چند لوگ معلومات تخلیق کرتے تھے اور باقی سب اس کا استعمال کرتے تھے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا انسانوں کے بیچ اس ناہمواری کو دور کرنے والے (leveller) کے روپ میں سامنے آیا اور بظاہر اس نے یہ تفریقات مٹادیں۔اب ہر انسان کے پاس میڈیا ہے۔ اب معلومات اور میڈیا مشتملات کے پروڈیوسر اور صارفین الگ الگ نہیں ہیں۔ ہر صارف میڈیا پروڈیوسر بن سکتا ہے۔ ایک گھریلو خاتون، گھر میں بیٹھے بیٹھے ایسی باتیں لکھ سکتی ہے جو ساری دنیا کو متوجہ کرسکیں۔ایک اسکول کا بچہ، اپنے ٹیب کے ذریعہ ایسا ویڈیو بنا سکتا ہے جو ساری دنیا میں ہنگامہ مچادے۔طاقت ور لوگوں کی لاکھوں روپیوں کے صرفہ سے منعقد پریس کانفرنس سے زیادہ، ایک غریب آدمی کا مفت کا ٹویٹ لوگوں کی توجہات کا مرکز بن سکتا ہے۔ ایک لڑکی فیس بک پر پوسٹ کرکے، ایک بڑے انقلاب کا آغاز کرسکتی ہے۔اس جہان نو میں ہر آدمی رپورٹر ہے اور ایڈیٹر بھی، اس طرح خبروں کی پہرے داری ممکن نہیں رہی۔ ہر آدمی تجزیہ نگار ہے اوراس کے تجزیے کی اشاعت روکنے والاکوئی نہیں، اس طرح خیالات و افکارپر قدغن لگانا آسان نہیں رہا۔
آج فیس بک کا استعمال کرنے والوں کی تعدادتقریباً ڈھائی بلین ہوچکی ہے۔ یعنی فیس بک اگر کوئی ملک ہوتا تو دنیا کا سب سے بڑا ملک ہوتا۔بلاشبہ اس ذریعے سے انسانیت کے بہت بڑے حصے تک اپنی بات پہنچانا انتہائی آسان ہوگیا ہے۔سوشل میڈیا نے بے آوازوں کو آواز بخشی ہے، اوریہ ممکن بنایا ہے کہ اگر پیغام میں طاقت اور کشش ہے تو وہ وسائل اور دولت کے سہارے کے بغیر محض اپنی اندرونی کشش اور طاقت کے بل پر پھیلے اور اثر انداز ہو۔ یہ اسلام اور اہل اسلام کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔اہل اسلام کی اصل طاقت پیغام کی طاقت ہی ہے۔ اُن کے پاس خدا کا پیغام ہے جو اپنے اندربے پناہ کشش رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس اصل طاقت کو بروئے کار لانے کے مواقع کئی گنا بڑھا دیے ہیں اور امکانات کی ایک وسیع دنیا کے دروازے کھول دیے ہیں۔ اس کی وجہ سے بجا طور پر یہ امید کی جانے لگی تھی کہ اسلام کے حوالہ سے میڈیا کا منظر نامہ اب تیزی سے بدلے گا۔ لیکن ہم اگلی سطروں میں واضح کریں گے کہ یہ امید بوجوہ پوری نہیں ہوسکی۔ اور آج اسلام کے حوالہ سے میڈیا کا منظر نامہ پہلے سے کہیں زیادہ آلودہ ہے اور سنجیدہ توجہ کا متقاضی ہے۔
لیکن دھیرے دھیرے صورتِ حال بدلنے لگی۔ ا ب سوشل میڈیا پر بھی استحصالی اور استبدادی طاقتوں نے مختلف طریقوں سے کنٹرول حاصل کرنا شروع کردیا ہے۔سوچ کے پیراڈائم کی تبدیلی میں اب اہم کردار سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا بھی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا کے برخلاف یہاں میدان بہت زیادہ وسیع اور امکانات لامحدود ہیں۔ عام آدمی کے لیے بھی اور استحصالی طاقتوں کے لیے بھی۔جھوٹی خبریں، بلکہ جھوٹی تصویریں اور ویڈیو بھی یہاں آسانی سے مقبول کیے جاسکتے ہیں۔ادراک کی انجنیرنگ (perception engineering) اور ادراک کا انتظام (perception management) انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اہم فنون ہیں۔ماہرین فن اپنے گاہکوں کے تجارتی، سیاسی یا نظریاتی مقاصد کی خاطر لوگوں کے فہم و ادراک پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔اس کی متعدد تکنیکیں ہیں اور یہ اب بڑا ترقی یافتہ فن بن چکا ہے۔
اسلام اور میڈیا، گذشتہ ربع صدی میں
اسلام کے خلاف میڈیا کی جنگ بہت پرانی ہے۔ اس موضوع پر بہت پہلے ایڈورڈ سعید نے اپنی چشم کشا کتاب۶؎ میں تفصیل سے تجزیہ کیا تھا کہ میڈیاکیسے ساری دنیا میں اسلام کے تعلق سے منفی رائے پیدا کررہا ہے اور کیسے اسلام کے بارے میں دنیا کے کروڑوں انسانوں کے خیالات منصوبہ بند طریقے سے متاثر کیے جارہے ہیں۔
سعید کی اس کتاب کے بعد دنیا کے حالات بہت بدل گئے اور ا ب اسلام پر میڈیا کی یہ یلغار بہت تیز ہوگئی۔ تین دہوں قبل جب انٹرنیٹ کا آغاز ہوا تو یہ امید بندھی تھی کہ اس آزاد میڈیا پر اہلِ اسلام کی سرگرمی نسبتاً آسان اور زیادہ موثر ہوگی اور وہ خیالات اور افکار کو مثبت طور پر متاثر کرنے میں کامیاب بھی ہوں گے۔ ابتدا میں اس کے روشن آثار بھی نظر آنے لگے تھے۔ لیکن اس کے بعد بتدریج اسلام کی حامی مثبت اور معتدل آوازیں کم زور ہوتی چلی گئیں اور اسلام مخالف اور اسلاموفوبیا عناصرکا اسلام کے حوالے سے ہورہے مباحث پر غلبہ بڑھتا گیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا بھی ساری دنیا میں اسلام کے تعلق سے منفی سوچ کو فروغ دینے کا اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے۔۷؎۔یہ کام کس بڑے پیمانے پر اور کس قدر منظم طریقے سے ہورہا ہے، اس پر کئی اسٹڈیز ہوچکی ہیں ۸؎۔ان اسٹڈیز کے مطالعہ سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی اسلام دشمن طاقتیں بھی انھی خطوط پر آگے بڑھ رہی ہیں اور بڑے پیمانے پر اسلام کے مخالف رائے بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس کے مقابلے میں اہل اسلام کی سوشل میڈیا سرگرمی اول تو بہت کم اور ناکافی ہے اور جو کچھ ہے وہ زیادہ تر غیر سنجیدہ ہے۔ کم تعلیم یافتہ اور غیر تربیت یافتہ نوجوان بڑی تعداد میں بے مصرف کاموں میں مصروف ہیں۔ جو سنجیدہ سرگرمی ہے اس کا بڑا حصہ معذرت خواہانہ،اورمدافعانہ مباحث پر مشتمل ہے۔ اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے جو اسلام پر چو طرفہ حملوں سے پریشان ہوکر معذرت خواہانہ اور مدافعانہ انداز اختیار کرنے لگے ہیں۔ اسلام کے بنیادی اصولوں پر سیریس مصالحت، حد سے زیادہ مرعوبیت اور مداہنت اس ردِ عمل کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ ان کی مضحکہ خیز سطح کی معذرت خواہی، اسلام کے وقار کو مجروح کرتی ہے، اسلام مخالفین کے تاثر کو مستحکم کرتی ہے اور اسلام کی دعوت کے کام کو نقصان پہنچاتی ہے۔انٹرنیٹ پر اب ایسے خیالات بہت جلد نمایاں ہوجاتے ہیں۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر وہ لوگ بھی اب بہت فعال ہیں جو اسلام کی نہایت انتہاپسندانہ تعبیر کرتے ہیں، غیر شرعی تشدد کی حمایت کرتے ہیں،مسلکی تعصب اور فقہی آرا میں عدم برداشت کے رویے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ غیر مسلموں کے سلسلے میں ان کا رویہ نہایت جارحانہ ہوتا ہے۔ڈائیلاگ کے بجائے ایسے مونولاگ میں یقین رکھتے ہیں جس میں مخاطَب کی سوچ اور اس کے مزاج کے لحاظ کے بغیر اپنی بات جبر کے لہجے میں بیان کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ لوگ اسلام کی وہی ترجمانی کرتے ہیں جو اسلام کے دشمن چاہتے ہیں۔یہ لوگ بھی بالآخر اسلام کی دعوت اور اس کی امیج کو نقصان ہی پہنچاتے ہیں اور بجائے رائے عامہ کو مثبت طور پر متاثر کرنے کے، منفی اثرات پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، یعنی اسلام کے خلاف عوامی رائے کو اور زیادہ مستحکم کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا سرسری تجزیہ بھی یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام کی حمایت میں اٹھنے والی معقول، تعمیری، مبنی بر اعتدال اور اسلام کی صحیح ترجمانی کرنے والی آوازیں بہت کم ہیں اور مذکورہ بالا آوازوں کےانبوہ میں پوری طرح دبی ہوئی ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں دنیا کے بعض ممالک میں اسلامی تحریکوں پر جو آزمائشیں آئی ہیں اس کا اثر انٹرنیٹ پر بھی پڑا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی درجنوں ویب سائٹیں یا تو بند ہوچکی ہیں یا سست رفتار ہوگئی ہیں۔ یہ اس وقت اہل اسلام کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے جس کا بھرپور طریقے سے سامنا کرنے کی اور اس صورتِ حال کو جلد از جلد بدلنے کی کوشش ہم سب پر فرض ہے۔
مطلوب اقدامات
اس بحث سے معلوم ہوجاتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کو رائے عامہ کی درست تربیت کا ذریعہ بنانا انتہائی ضروری لیکن بڑا چیلنجنگ کام ہے۔ اس کام میں خاصی تاخیر ہوچکی ہے۔ زمانہ بہت آگے نکل چکا ہے اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ میڈیا کی جب بھی بات آتی ہے، لوگ چینل یا اخبارنکالنے کی بات شروع کردیتے ہیں۔ اس حقیقت کے علاوہ کہ چینل یا کوئی بااثر اخبار شروع کرنا اور چلانا بڑا چیلنجنگ کام ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہ کئی ضرورتوں میں سے محض ایک ضرورت ہے۔ بہت سے کام بہت آسانی سے فوری طور پر بھی شروع کیے جاسکتے ہیں اور ان کے ذریعے اثر بھی پیدا کیا جاسکتا ہے۔
1۔ سب سے پہلی ضرورت افراد کار کی ہے۔اس وقت میڈیا پر اثر اندازی کے لیے کئی طرح کی صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔ اچھا لکھنے اور بولنے والے درکار ہیں۔ مختلف زبانوں میں مہارت رکھنے والے درکار ہیں۔صرف اچھا لکھنا او ر بولنا کافی نہیں ہے۔ وہ ذہانت بھی درکار ہے جس کے ذریعے مناسب وقت پر مناسب بات مناسب پیرائے میں کہی جاسکے۔ سیدھی باتوں کے ساتھ بالواسطہ طریقوں سے بھی ذہن و خیال پر اثر انداز ہونے کا ہنر مطلوب ہے۔جدید میڈیا بات کہنے کے بھی کئی طریقے اور اصناف چاہتا ہے۔ لکھنے کے علاوہ بولنا، بولنے کے ساتھ ویڈیو، گرافکس، میم، وغیرہ ذرائع کا مؤثر استعمال کرنا، فلم،کارٹون،آرٹ، کامیڈی، ڈاکیومنٹری وغیرہ جیسی اصناف کو بروئے کار لانا، یہ سب لیاقتیں درکار ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ان سب کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ہوچکے ہیں۔ شدید ضرورت ہے کہ ان صلاحیتوں کے فروغ کی سنجیدہ کوشش کی جائے، ان صلاحیتوں کے حامل نوجوانوں کی ہمت افزائی کی جائے، انہیں آگے لایا جائےاور کوشش کی جائے کہ آئندہ چند برسوں میں میڈیا کو درکار متنوع صلاحیتوں کے حامل افراد کی ایک معقول تعداد ہماری صفوں میں موجود ہو۔
2۔ سوشل میڈیا کے سلسلے میں امت کے ہر حلقے میں شور و غوغا تو بہت ہے لیکن سنجیدہ کام بہت کم ہیں۔ اس کام میں سنجیدگی اور گہرائی اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک امت کے ذمہ دار لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اور اِس ضرورت کا احساس اُن کے اندر نہیں پیدا ہوتا کہ انہیں اس میڈیم کا استعمال کرکے ملک کی عام آبادی سے بات چیت کرنی ہے۔ اب وہ دور نہیں رہا جب سوشل میڈیا محض نوجوانوں کا پلیٹ فارم ہوا کرتا تھا۔ دنیا بھر کے معمر، تجربہ کار قائدین، مصنفین اور دانش وران اور مصلحین و مذہبی رہ نما اب یہاں فعال اور سرگرم ہیں اورخیالات و افکار کی سنجیدہ کشمکش کے لیے بھی یہ میدانِ کارزار بن چکا ہے۔ لیکن دوسری طرف جب ہم اسلام کے داعیوں، علما اور ملی قائدین کی میڈیا اور سوشل میڈیا سرگرمی دیکھتے ہیں تو بہت ہی مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ ٹوئٹر جو سنجیدہ مباحث اور رائے عامہ کی تشکیل کے لیے اہم ترین پلیٹ فارم مانا جاتا ہے، اس پر ہمارے ملک میں بزرگ مسلم رہ نماؤں کی سرگرمی تقریباً صفر ہے۔نوجوان ضرور کوشش کررہے ہیں اور بعض لوگ بہت اچھی کوشش بھی کررہے ہیں۔وہ ہمارے محسنین ہیں اور شکریے کے مستحق ہیں لیکن جب تک وہ لوگ، جو وسیع حلقۂ اثر رکھتے ہیں اور لوگوں کے فکر و خیال پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سرگرم نہیں ہوں گے منظر نامہ نہیں بدلے گا اور اس محاذ پر سرگرم نوجوانوں کی درست اور متوازن رہ نمائی بھی نہیں ہوسکے گی۔
3۔ ایک اہم مسئلہ سوشل میڈیا پر بحث و گفتگو کے انداز اور لب و لہجے کا ہے۔کمیونکیشن سائنس میں اب یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بعض صورتوں میں گفتگو اور تبادلۂ خیال سے مخالف نقطۂ نظر بجائے بدلنے کے اور مستحکم ہوتا ہے۔ اسے سوشل سائیکولوجی کی اصطلاح میں ’رویہ کی تفریق‘(attitude polarisation) کہتے ہیں۔ رویے کی تفریق یہ ہے کہ دو گروہ، متضاد خیالات میں شدت کے اعتبار سے اُس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ ہر ایک ہر واقعے کی اپنی سوچ کے مطابق تاویل کرنے لگتا ہے اور دونوں گروہوں کے درمیان نہ صرف بامعنی ڈائیلاگ ناممکن ہونے لگتا ہے بلکہ ایک گروہ کی جانب سے پیش ہونے والا ہر استدلال،دوسرے گروہ کی مخالف رائے کو اور مستحکم کرتا ہے۔ ۹؎۔سی اے اے پر احتجاج ہوتا ہے توسی اے اے کے مخالفین کی رائے مستحکم ہوتی ہے کہ سی اے اے غلط ہے اور جتنا احتجاج ہوتا جاتا ہے، اس کے حامیوں کی یہ رائے اور مستحکم ہوتی جاتی ہے کہ یہ عین ملک کے مفاد میں ہے۔اس وقت اسلام کے حوالے سے دنیا بھر میں یہی صورت حال ہے اور ہمارے ملک میں تو یہ صورت حال بے حد شدید ہے۔ اس لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت فرقہ پرست قوتوں کی عین کوشش یہی ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ انتہاپسندانہ خیالات اور لب و لہجہ اختیا ر کریں۔ وہ جتنی شدت پسند زبان اختیار کریں گے، اتنا ہی ان کا فائدہ ہوگا۔ایسے موقعوں پر شدید لب و لہجے سے جذبات کی تسکین ضرور ہوتی ہے،اپنے نقطۂ نظر کے حامیوں کی حمایت بھی حاصل ہوجاتی ہے، لیکن رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کا مقصد ہرگز حاصل نہیں ہوتا۔ اس مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ مسلمان خاموش ہوجائیں یا معذرت خواہانہ اورمدافعانہ لب و لہجہ اختیار کریں، بلکہ حل یہ ہے کہ وہ اس صورت حال کا شعور حاصل کریں اور مذاکرات کا وہ انداز اختیار کریں جو رویے کی تفریق کی اس کیفیت کے مناسبِ حال ہو۔ رویہ کی تفریق کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا انداز کیا ہو، اس پر آئندہ کسی وقت ہم تفصیل سے لکھیں گے۔ اس وقت اس مسئلے کی طرف صرف متوجہ کرنا پیش نظر ہے۔
4۔ ہمارے ملک میں سوچ اور خیال کا اور گروہی مفادات کا اس قدر تنوع ہے کہ ایک زبان اور ایک ڈسکورس پورے ملک کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے بالکل کافی نہیں ہے۔ کمیونکیشن سائنس میں یہ بحثیں موجود ہیں کہ اکیسویں صدی کے میڈیا کی اہم خصوصیت ڈی میسی فکیشن (demassification) ہے۱۰؎۔ یعنی اب میڈیا سارے عوام کو ایک ساتھ مخاطب کرنے کے بجائے عوام کے مختلف طبقات کو الگ الگ مخاطب کرتا ہے۔
اس سمت میں گذشتہ چند برسوں میں میڈیا کے اپروچ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں وہ ششدر کردینے والی ہیں۔ پہلے ملک کے سارے عوام کو اکائی مان کر مخاطب کیا جاتا تھا، اسے براڈ کاسٹنگ (broadcasting) کہا جاتا تھا۔ اس کے بعد وہ دور شروع ہوا جس میں میڈیا نے نیروکاسٹنگ (narrowcasting) پر توجہ دی یعنی عوام کو مختلف طبقات میں بانٹ کر ہر ایک کو الگ مخاطب کرنا۔ بچوں کو الگ، خواتین کو الگ، دیہاتیوں کو الگ، شہروں میں رہنے والوں کو الگ، ہر نقطۂ نظر اور مکتب خیال کے حاملین کو الگ، ہر ذات اور سماجی گروہ کو الگ۔ایک ہی گروپ کے اخبارات میں انگریزی اخبار کی پالیسی الگ ہوتی ہے، ہندی کی الگ اور اردو کی الگ۔ اب میڈیامیں وہ عمل شروع ہوا ہے جسے کمیونکیشن سائنس دان ’انتہائی شخصی کاری‘(hyperpersonalisation) کہتے ہیں۔ یعنی ایک ایک فرد کی مخصوص دل چسپیوں، رجحانات، خیالات وغیرہ کو سامنے رکھ کر اس کے لیے مخصوص میڈیا مواد اسے فراہم کرنا۔ نیگرو پونٹ نے بہت پہلے پیشین گوئی کی تھی کہ بہت جلد میڈیا ہر ایک کو ’میرا روزنامہ‘ (daily me) فراہم کرے گا۔۱۱؎۔ یہ پیش گوئی بہت آب و تاب کے ساتھ پوری ہورہی ہے اور اندازہ ہے کہ مستقبل قریب میں، یعنی آگمینٹیڈ رئیلٹی کے آنے والے دور میں، یہ صورت حال بہت شدید ہوجائے گی۔
ایک طرف ہر فرد کو انفرادی طورپر مخاطب بنانے کی یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف ہمارے بولنے اور لکھنے والوں کے لیے اپنے سوا سارا ملک یا تو ’ہندو‘ ہے یا’برادرانِ وطن‘ کا واحد اور یک رنگ زمرہ۔ اب زیادہ سے زیادہ فرق پیدا ہوا ہے تو سنگھی اور غیر سنگھی کا فرق ہے۔ دائیں بازو کا رجحان رکھنے والوں میں بھی خیال و فکر کی اور شدت پسندی کی مختلف سطحیں ہیں۔ اسی طرح سیکولر کہلائے جانے والوں میں بھی سوچ کی کئی دھارائیں پائی جاتی ہیں اور پھر دلتوں،آدی باسیوں، اور دیگر پسماندہ ذاتوں کے بے شمار طبقات ہیں جن میں خیالات کے بڑے فرق پائے جاتے ہیں۔ اس حقیقت کے بھرپور ادراک کے بغیر نہ مناسب میڈیا اسٹریٹجی بن سکتی ہے اور نہ رائے عامہ کو متاثر کرنے میں ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔خود اسلامی تحریکوں کے کارکنوں میں بھی یہ صورت حال دیکھنے کو ملتی ہے کہ وہ فرق نہیں کرپاتے کہ کون سی بات کہاں کہنے کی ہے۔ تنظیمی اجلاسوں کی تقریروں کو بھی پورے جوش کے ساتھ سوشل میڈیا پر عام کردیا جاتا ہے۔ یہ نیرو کاسٹنگ کے مطلوب شعور کی واضح کمی کی علامت ہے۔
نیرو کاسٹنگ اور ہائپر پرسنلائزیشن کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم مخاطب کے خیالات کا ہی نہیں بلکہ اس کے جذبات کا بھی گہرا شعور حاصل کریں۔ اس کے دماغ سے سوچنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ مختلف طبقات اور ان کے افکار و خیالات کا گہرا مطالعہ، اُن کی تاریخ، اُن کے اعتقادات، اُن کے رسوم، اُن کی سماجی صورت حال، ماضی قریب کی اُن کی سماجی و سیاسی تحریکات، اس وقت ان کی سیاسی، سماجی، روحانی اور تہذیبی وابستگیاں جیسے امور کا گہرا مطالعہ درکار ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کے تبصرے اور مباحث بھی ان باتوں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر اپنی پوسٹوں پر ہورہے مباحث کو بھی ہم سنجیدگی سے پڑھیں، تبصرہ کرنے والوں کی درجہ بندی کرکے اس سے ان کے خیالات و جذبات کو جوڑیں تو اس مسلسل مشق سے بھی اپنے مخاطبین کے بارے میں ہمارا شعور پختہ ہوگا۔
حواشی
۱ؔ؎John Peddie; Augmented Reality: Where We Will All Live? Springer; CA USA; 2017; pp 128-140
۲؎ ان اثرات کو سمجھنے کے لیے دیکھیے ایک نہایت دل چسپ کتاب
Mel Slater et. al (edited); The Impact of Virtual and Augmented Reality on Individuals and Society; Frontiers Media; October 2019
یہ کتاب سائیکلوجی کے جرنل Frontiers in Psychologyکے کچھ نہایت چونکادینے والے مضامین کا مجموعہ ہے۔
۳؎Edward S. Herman and Noam Chomsky;Manufacturing Consent:The Political Economy of the Mass Media; Pantheon Books,2002; page 302
۴؎ اس تفصیل کے لیے مطالعہ فرمایئے کتاب محولہ تحت ۳؎
۵؎مثلاً
Dorota Probucka; Truth and lies in journalism: A dispute concerning the accurate presentation of information; in Ethics & Bioethics (in Central Europe) 2018, 8 (1–2) 81–89
۶؎Said, Edward W. Covering Islam: How the media and the experts determine how we see the rest of the world (2ND Edition). Random House, 1997
۷؎Chao, En-Chieh. “The-Truth-About-Islam.Com: ordinary theories of racism and cyber Islamophobia.” Critical Sociology 41, no. 1 (2015): 57-75.
۸؎ Ekman, Mattias. (2015). Online Islamophobia and the politics of fear: manufacturing the green scare. Ethnic and Racial Studies. 38. 1-17.
۹؎Juan Dubra & Jean Pierre Benoit; Attitude Polarization: Theory and Evidence; Documentos de Trabajo/Working Papers 1503, Facultad de Ciencias Empresariales y Economia. Universidad de Montevideo; 2015.
۱۰؎Chaffee, S. H and Metzger, M. J. 2001. The end of mass communication? Mass Communication and Society, 4(4): 365–379.
۱۱؎Negroponte, N; Being digital; Knopf; New York:1995
مشمولہ: شمارہ مارچ 2020