انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ ڈیٹا جھوٹ نہیں بولتا ہم اس میں ایک اضافہ کرنا چاہیں گے کہ ڈیٹا جھوٹ تو نہیں بولتا لیکن اس سے جھوٹ بلوایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ موجودہ دنیا میں کسی بھی پالیسی کو طے کرنے کے لیے، کوئی بھی قدم اٹھانے کے لیے اور کسی بھی فیصلے کو لینے سے پہلے ڈیٹا کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ جدید دنیا میں اسے حقیقت پسندی اور جذبات سے پرے ہونے کے لیے سب سے اہم وسیلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ساری دنیا میں ڈیٹا کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ حکومت، پالیسی ساز ادارے، بڑی این جی اوز اور دنیا میں اپنے ایجنڈے کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے کام کر رہے افراد اور ادارے ڈیٹا پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ بگ ڈیٹا جدید دنیا کی سب سے اہم کرنسی کے طور پر ابھرا ہے۔ آج کل کے دور میں ڈیٹا سائنس، ڈیٹا انالٹکس حتی کہ ڈیٹا سائنٹسٹ جیسی اصطلاحیں بہت تیزی سے معروف ہوتی جا رہی ہیں۔
پیو ریسرچ ساری دنیا میں معروف ادارہ ہے جو مختلف جہتوں میں ڈیٹا کو جمع کرنے، اس کا تجزیہ کرنے، اس سے نتائج اخذ کرنے اور اپنی رپورٹوں کے ذریعے پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے مشہور اور معروف ہے۔ پیو ریسرچ کے سلسلے میں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہر ادارے کی طرح اس کے اپنے مسائل ہوسکتے ہیں اور اس ادارے کو بھی سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیو ریسرچ کے ڈیٹا کو دنیا کے بڑے حصے میں معتبر مانا جاتا ہے اور بہت سے ممالک میں اس ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے بہت سے پالیسی اقدامات طے کیے جاتے ہیں۔
9 جون 2025 کو پیو ریسرچ نے ایک غیر معمولی رپورٹ شائع کی ہے جس نے عیسائی مذہبی حلقے میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے یہ رپورٹ 2010 تا 2020 کے دوران ساری دنیا میں ہوئی مذہب کے حوالے سے پوری دنیا میں ہورہی تبدیلیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس رپورٹ کے مشمولات بڑے غیر معمولی ہیں اور بعض پہلوؤں سے بہت زیادہ چونکا دینے والے ہیں۔
یہ رپورٹ پوری دنیا میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد، دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والے مذہب اور مختلف فلسفہ ہائے حیات کو ماننے والے افراد کے بارے میں اعداد و شمار پیش کرتی ہے۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والی چیز جو عیسائیت کے حوالے سے ہے وہ یہ کہ عیسائیت کے ماننے والے پوری دنیا میں کم ہوئے ہیں۔ یعنی عیسائیت کو چھوڑ کر یا تو ان افراد نے دوسرے مذاہب کو قبول کیا ہے یا وہ ننس (Nones) میں شامل ہو گئے ہیں۔ ننس کی اصطلاح بڑی دل چسپ ہے۔ پیو ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق ننس یا مذہبی طور سے ناوابستہ لوگ وہ ہیں جو اپنے آپ کو کسی مذہب سے منسوب نہیں کرتے۔ یا تو وہ ملحد (Atheist) ہیں یا پھر وہ لا ادری (Agnostic) ہیں یا وہ کسی ساختی مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عیسائی افراد نے بڑی تعداد میں عیسائیت کو چھوڑ کر یا تو الحاد کو اختیار کیا یا وہ دیگر مذاہب میں شامل ہوئے۔ اس بات کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ عیسائیت کے ماننے والوں میں کمی ان کی شرحِ پیدائش کم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ ملتا ہے اور شماریات کی روشنی میں رپورٹ میں یہ صاف بتایا گیا ہے کہ ہر ایک فرد جو عیسائیت میں داخل ہوا ہے اس کے بدلے میں تین افراد نے یا تو عیسائیت کو چھوڑ کر اسلام کو قبول کیا ہے یا وہ عیسائیت کو چھوڑ کر ملحد ہو گئے ہیں۔
اسلام کے حوالے سے دوسرا سب سے دل چسپ اور غیر معمولی انکشاف یہ ہوا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے اور اسلام قبول کرنے والوں یا اسلام کے ماننے والوں کی تعداد پچھلے 10 برسوں میں 347 ملین تک بڑھی ہے۔ یہ بڑھوتری دونوں اعتبار سے ہے یعنی ایک جانب تو بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام کو بحیثیت دین اپنایا ہے وہیں دوسری طرف ان کی شرح پیدائش میں اضافہ ہوا جس کی بنیاد پر یہ بڑھوتری دیکھنے کو ملی ہے۔ مزید دل چسپ حقائق سامنے آسکتے ہیں اگر الگ کرکے یہ دیکھا جائے کہ شرحِ نمو میں اضافہ کتنا ہے اور دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کرنے والے کتنے ہیں۔ لیکن رپورٹ میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
رپورٹ کا تیسرا سب سے اہم پہلو جو سارے مذاہب کے ماننے والے کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ لا ادری، ملحد اور ساختی مذاہب کے نہ ماننے والوں کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ملحدین یا جدید الحاد کے حاملین کے غیر معمولی پروپیگنڈے نے آخر کار اپنا اثر دکھایا ہے۔ شمالی امریکہ میں سب سے زیادہ یہ تعداد بڑھی ہے اور اس کے بعد آسٹریلیا میں 17 فیصد تک یہ تعداد بڑھ چکی ہے یعنی اس ڈیٹا نے اس بیانیے پر زبردست اور کاری ضرب لگائی ہے کہ جدید الحاد محض ایک فیشن کے طور پر ابھرا تھا اور اب وہ دم توڑ چکا ہے۔ ہمارے بعض مفکرین اور علماء کی جانب سے بھی بار یہ بات آتی رہی کہ جدید الحاد کوئی خاص چیلنج نہیں ہے، جدید الحاد کی تحریک قابل توجہ اثرات نہیں رکھتی، جدید الحادی فکر محض ایک شوشہ ہے اور اس میں کوئی خاص علمی اپیل یا کشش نہیں ہے۔ بعض مفکرین نے یہاں تک کہا کہ جدید الحاد کا کوئی مقدمہ ہی نہیں بنتا ہے۔ لیکن پیو ریسرچ کے اس غیر معمولی ڈیٹا نے اس پورے بیانیے کی کمر توڑ کر رکھ دی اور یہ حقیقت بے نقاب کی کہ ان دس برسوں میں جدید الحادی تحریک کے غیر معمولی اثرات بطور خاص نئی نسل پر پڑے ہیں۔ جدید الحادی تحریک نے غیر معمولی طور پر نئی نسل کو متاثر کیا اور ان دس برسوں میں پیو ریسرچ کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا نے اس بات کو صحیح ثابت کردیا۔ چنانچہ وہ محققین اور مفکرین جو بارہا جدید الحادی تحریک اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں کو لے کر بولتے اور کہتے آرہے تھے کہ اس تحریک کا اثر ضرور ہوگا، وہ صحیح ثابت ہوئے اور وہ تمام لوگ جو جدید الحادی تحریک کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پائے اور اس کے اثرات کا صحیح اندازہ نہیں لگا پائے وہ اس علمی محاکمے میں صحیح اندازہ لگانے میں ناکام قرار پائے۔
اس سلسلے میں زیادہ اہم باتیں سامنے آسکتی ہیں اگر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ ننس یا اپنے آپ کو کسی بھی مذہب سے وابستہ نہ کرنے والے افراد کن مذاہب کو چھوڑ کر جدید الحادی تحریک سے متاثر ہوکر اس صف میں شامل ہوئے۔
البتہ ایک چیز جو قدرے اطمینان کا باعث ہوسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ زیادہ تر الحاد کے ماننے والے غیر مسلم ممالک میں بڑھے ہیں اور مسلم ممالک میں ان کی تعداد تقریبًا وہی رہی ہے۔ لیکن یہاں ایک باریک نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ وہ یہ کہ زیادہ تر مسلم ممالک میں الحاد کو لے کر غیر معمولی حساسیت پائی جاتی ہے یعنی زیادہ تر ممالک میں اسلام کو چھوڑ کر کسی اور مذہب میں داخل ہونے کی سزا موت ہے۔ اس لیے مذاہب کے بعض ماہرین یہ کہتے ہیں کہ الحاد جدید سے متاثر ہوکر مسلمانوں کی جدید نسل بھی بہت تیزی سے الحاد کی طرف یا لا ادریت کی طرف جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ سماجی سطح پر غیر معمولی حساسیت، نسبتًا مضبوط خاندانی نظام اور سماج کے ذریعے الحاد کے اظہار پر سخت رد عمل کے پیش نظر بہت سے افراد اس کی ہمت نہیں کر پاتے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کا اظہار کرپائیں۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی معقولیت جدید ذہن کو بہت آسانی سے مطمئن کرسکتی ہے شرط صرف یہ ہے کہ جدید ذہن کے انداز میں اسلام کی تعلیمات کو ان تک پہنچایا جائے۔
جدید الحادی تحریک کے اثرات کو اس حوالے سے بھی محسوس کیا جاسکتا ہے اور جسے پیو ریسرچ کی رپورٹ میں موجود ڈیٹا سے مستنبط بھی کیا جاسکتا ہے، کہ پہلے پوری دنیا میں صرف پانچ ممالک ایسے تھے جہاں پر کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے لاادری اور کسی بھی ساختی مذہب کا انکار کرنے والے اکثریت میں تھے لیکن 2010 سے 2020 کے درمیان کئی اہم ممالک میں ننس یا کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے افراد اکثریت میں ہوگئے ہیں۔
پیو رپورٹ کے مطابق 35 ممالک میں پانچ فیصد سے زیادہ ان افراد میں اضافہ ہوا ہے۔ مزید یہ کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے افراد پانچ فیصد سے زیادہ کم نہیں ہوئے یعنی ان کا اضافہ زیادہ ہے۔
نیوزی لینڈ، نیدرلینڈ، اروگاوے، چین، نارتھ کوریا، شیز ریپبلک، ہانگ کانگ، ویتنام، مکاؤ اور جاپان وہ ممالک ہیں جہاں پر اب کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے اکثریت میں پائے جاتے ہیں۔
کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے افراد میں چین سب سے زیادہ آگے ہے۔ دنیا کے تقریبًا 67 فیصد افراد جنہوں نے کسی بھی مذہب کو نہ ماننے کا دعوی کیا ہے وہ چین میں موجود ہیں۔
یہ منظر نامہ ان افراد کے لیے غور طلب ہے جو انسانیت کے عالم گیر پیغام کو ساری دنیا میں پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ خدا کو نہ ماننے والے سب سے زیادہ افراد ایک ملک میں موجود ہیں ان تک خالق حقیقی کا پیغام کس طرح پہنچایا جائے؟ اس کی کیا اسٹریٹجی ہو؟ اس پر اس رپورٹ کے حوالے سے بہت غیر معمولی کام انجام دیا جا سکتا ہے۔ ایک گلوبلائزڈ دنیا میں کسی پیغام کو سب تک پہنچانے کا سب سے آسان، مؤثر اور کم خرچ طریقہ کیا ہے؟ خالق حقیقی نے انسانی عقل کو غیر معمولی اختراعی صلاحیت عطا کرکے یہ طریقہ ہم تک پہنچا دیا ہے۔ مواصلاتی انقلاب نے اس بات کو بہت آسان کردیا ہے کہ آپ کہیں بھی بیٹھ کر اس خالق حقیقی کا پیغام ان تمام لوگوں تک پہنچاسکتے ہیں جو ابھی تک اس سے نابلد ہیں۔ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں خصوصی توجہ دی جائے۔ چین کئی اعتبار سے انتہائی منفرد ملک ہے۔ وہاں کا سیاسی، معاشی اور ثقافتی منظرنامہ پوری دنیا میں اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی مذہبی تاریخ اور ثقافتی تاریخ غالبًا دنیا کی سب سے پرانی مذہبی اور ثقافتی تاریخوں میں سے ایک ہے۔ ان پہلوؤں کو نظر میں رکھتے ہوئے وہاں پر دعوت دین کے کام کے سلسلے میں کیا حکمت اپنائی جا سکتی ہے اس پر غور وفکر کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ پیو ریسرچ نے اس بات کی وضاحت کردی ہے کہ ہمارے تمام کام دنیا کے ان علاقوں میں مرکوز ہیں جہاں غالبًا کسی مذہب کو نہ ماننے والے افراد بہت کم ہیں اور وہ وہاں پر بالکل مرکوز نہیں ہیں جہاں اللہ کے پیغام کو ماننے والے قلیل تعداد میں موجود ہے اور اس پیغام سے نا آشنا سب سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔
ایک اور دل چسپ پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے افراد میں سب سے تیز اضافہ آسٹریلیا میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے بعد چلی میں اور اس کے بعد ارو گاوے میں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم دیکھیں کہ ان تینوں ممالک میں جدید الحادی تحریک کے چلتے الحاد میں اضافے سے نمٹنے کے لیے اور پیغام حق کو ان تمام لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ اسی طریقے سے امریکہ میں بہت تیزی سے یہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ پوائنٹ سکیل پر پیو ریسرچ نے امریکہ میں کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کے اضافے کو 13 پوائنٹ پر رکھا ہے یعنی آسٹریلیا 17 چلی 17 ارو گاوے 16 اور ریاست ہائےمتحدہ امریکہ 13۔ اس طریقے سے ریاست ہائےمتحدہ امریکہ میں ہونے والے تمام تر اعلی معیاری کاموں کے باوجود وہاں پر ہم جدید الحادی تحریک کا مقابلہ اتنے موثر طریقے سے نہیں کر پائے جتنے موثر طریقوں سے ہم سمجھتے رہے کہ ہم نے کیا ہے۔ پیو ریسرچ کے ڈیٹا نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
اسی طریقے سے دوسرا اہم پہلو برادران وطن کے حوالے سے ہے۔ پیو ریسرچ کے مطابق ہندوستان میں اور ساری دنیا میں ہندو دھرم کے ماننے والے افراد اور ان کا تناسب پچھلے 10 سال میں یکساں رہا ہے یعنی نہ وہ کم ہوا ہے اور نہ وہ بڑھا ہے۔ لیکن اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ برادران وطن میں لفظ ہندو کو لے کر بہت سی فلسفیانہ بحثیں ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہندو ازم اپنے آپ کو دوسرے ساختی مذاہب کی طرح کوئی ساختی مذہب نہیں مانتا۔ اسی طرح عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ہندو دھرم دراصل ان کوششوں کا نام ہے جو انسان اپنے آپ کو پہچاننے میں اور اپنے کام کو پہچاننے میں کرتا ہے اور یہ کسی خاص کتاب اور کسی خاص پیغمبر پر منحصر نہیں ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں موجود افراد مختلف قبیلوں، مختلف دیوی دیوتاؤں، مختلف فلسفوں اور مختلف دیگر چیزوں کے ماننے والے ہیں۔ لیکن عام طور پر پچھلے 200 سال سے ہندو مذہب میں ہونے والی احیائی تحریکوں کے نتیجے میں ہندوستان میں بطور خاص اعلی طبقے والے ہندوستان میں بڑی چالاکی سے سب لوگوں کو ہندو قرار دے دیا گیا ہے۔ حالانکہ عام طور پر بین الاقوامی اکیڈمیا میں اس طرح کے باریک نکات پر کم کام ہے۔ ویسے تو بہت کچھ ہے لیکن پھر بھی بہت کم ہے۔ اسی لیے اس طرح کے اہم باریک نکات، کہ ہندو کسے کہتے ہیں؟ عام طور پر اس طرح کے سروے کے دوران خاطر میں نہیں لائے جاتے۔ سروے میں چونکہ یہ رپورٹ مختلف ممالک کے سروے کا بھی استعمال کرتی ہے، اس لیے ان رپورٹوں میں جن میں ہندوستان شامل ہے، عام طور پر شماریات کے دوران تمام افراد چاہے وہ قبائل ہوں یا وہ دلت ہوں یا کسی اور فلسفے کو ماننے والے ہوں یا کسی دیوی دیوتا کو نہ مانے والے ہوں انھیں بھی ہندو لکھ دیا جاتا ہے یا وہ اپنے آپ کو ہندو لکھوا دیتے ہیں اور اس طریقے سے شماریاتی اعتبار سے جب اس سروے کی بنیاد پر پیو ریسرچ جیسے ادارے اپنے ڈیٹا کی بنیاد رکھتے ہیں تو وہ غلطی یہاں بھی در آتی ہے۔ بہرحال پوری دنیا میں اس وقت صرف 10 ممالک میں قابل لحاظ حد تک ہندو پائے جاتے ہیں۔ پیو ریسرچ کے مطابق اس وقت دو ممالک میں ہندو اکثریت میں پائے جاتے ہیں ایک نیپال اور دوسرا ہندوستان۔
رپورٹ کے مطابق جہاں کہیں بھی ہندو آبادی میں اضافہ ہوا ہے وہ کسی دوسرے مذہب سے یا کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والوں کے ہندو مذہب میں داخلے کی وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ وہ ہجرت کرنے والوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ یعنی ہندوستان اور نیپال سے یا دیگر ممالک سے ہندو ہجرت کر کے کسی بھی دوسرے ملک جیسے امریکہ یا یورپ کے بہت سے ممالک میں پہنچے اور اس طرح وہاں یہ اضافہ محسوس ہوا ہے۔
عام طور پر یہ محسوس کیا جاتا رہا کہ جاپان چین اور دیگر ممالک میں بدھ مذہب میں اضافہ ہورہا ہے یا بدھ مذہب کی فلاسفی پر یقین رکھنے والے افراد بڑھ رہے ہیں۔ لیکن پیو ریسرچ کی اس تحقیق نے واضح طور پر بتایا کہ 2010 سے 2020 کے بیچ میں ساری دنیا میں تقریبًا پانچ فیصد بدھ مذہب کے ماننے والوں میں کمی ہوئی ہے۔ یہ گراوٹ پوری دنیا میں عمومی طور پر دیکھنے کو ملی ہے۔ سب سے زیادہ یہ گراوٹ ایشیا پیسیفک میں دیکھنے کو ملی۔ اسی طرح سے لاطینی امریکہ میں اور کیریبین (Caribbean) میں بھی گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ کسی زمانے میں ایک طاقتور فلسفے کے طور پر ابھرنے والے اور دنیا کے قدیم ترین فلسفے میں سے ایک بدھ مذہب اب رو بہ زوال ہے۔ تاہم تھائی لینڈ، میانمار اور چین وغیرہ میں ابھی بھی قابل لحاظ حد تک بدھشٹ آبادی رہتی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ملیشیا جہاں پر اسلام پسند حکومتیں رہی ہیں وہاں بھی بدھشٹوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔
اسلام کے حوالے سے 2010 سے 2020 کے دوران اسلام کے ماننے والوں میں عالمی آبادی کے تناظر میں 24 سے 26 فیصد تک اضافہ ہوا۔ اس طرح وہ دعوی جو عام طور پر مختلف مقررین اور مصنفین اپنی تحریروں میں کرتے رہے اسے ایک بار پھر پیو ریسرچ کے ذریعے توثیق حاصل ہوئی کہ پوری دنیا میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام ہے۔ حتی کہ کیریبین جہاں پر سب سے کم مسلمان آبادی پائی جاتی ہے وہاں بھی چھ فیصد اضافہ ہوا ہے حالانکہ وہاں پر غیر مسلم آبادی کا اضافہ دس فیصد ہے۔
خلاصہ کلام
پیو ریسرچ کی رپورٹ کئی چونکا دینے والے انکشافات کرتی ہے۔
سب سے بڑا اور اہم انکشاف یہ ہے کہ جدید الحاد کے ماننے والوں کی طرف سے اور مختلف الحاد کے شیڈ رکھنے والے افراد کی طرف سے یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ مذہب کے مقابلے میں الحاد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن نہ صرف یہ کہ اس دعوے کی تردید ہوئی بلکہ الحاد جدید اورلاادری تحریک کے سرخیل جس مذہب سے سب سے زیادہ نالاں ہیں، جس مذہب کو سب سے زیادہ برا بھلا کہتے ہیں، جس مذہب کی مخالفت میں انھوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا چھوڑی، وہی مذہب اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتار سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔
دوسرا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پیو ریسرچ رپورٹ نے ان تمام اندیشوں کو درست ثابت کردیا جو بعض مذہبی محققین و مفکرین پیش کرتے آرہے تھے وہ یہ کہ جدید الحاد گو کہ اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے لیکن اس کے اثرات سے نوجوان نسل محفوظ نہیں ہے۔ مواصلاتی انقلاب نے تحریکوں کو اس بات کا موقع فراہم کردیا ہے کہ طبعی موت مرجانے کے بعد بھی ان کے افکار، ان کے افراد، ان کے ہیرو، ان کے آئیڈیل انٹرنیٹ کی دنیا میں زندہ رہیں اور اس طریقے سے وہ ایک مستقل خطرہ بنے رہیں۔ چنانچہ اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ دس برسوں کے اندر مذہبی افراد گو کہ بڑھے ہیں لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پہلے یہ ہوا کرتا تھا کہ سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب اسلام، سب سے زیادہ کسی مذہب کے ماننے والے عیسائی تیسرے نمبر پہ سب سے زیادہ کسی مذہب کو ماننے والے ہندو اور چوتھے نمبر پر بدھسٹ اور دیگر فلسفہ حیات کے ماننے والے اور اس کے بعد لا ادری، الحاد یا ساختی مذاہب کو نہ ماننے والوں کا نمبر آتا تھا۔ اب اسلام اور عیسائیت کے فورا بعد ننس کا نمبر آنے لگا ہے۔ مذہبی افراد کے لیے یہ ایک سوچنے کا مقام ہے۔
تیسرا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ رپورٹ جدید الحاد اور اس کے تمام تر شیڈ کو مذہب کے لیے ایک خطرے کے طور پر پیش کرتی ہے یعنی ہم لوگوں کو جدید الحادی تحریک کے خلاف انٹلیکچول اور دیگر سرگرمیوں کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ جدید الحاد کی نئی نسل کے معصوم ذہنوں کو متاثر کرنے والی صلاحیتوں کا ادراک کرنا ہوگا۔ جدید الحاد کے ذریعے استعمال کی جانے والی تمام تر مواصلاتی تکنیکوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ جدید الحاد کی پرکشش اور قائل کرنے والی پرفریب تکنیکوں اور پیشکشوں کا ادراک کرکے ان کا مناسب توڑ کرنا ہوگا۔ بطور خاص عیسائیت کو ماننے والے افراد اس ضمن میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ لیکن پیغام ربانی کے ماننے والے ابھی اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔ بلکہ وہ اب بھی اسی بحث میں الجھے ہیں کہ کیا واقعی جدید الحاد اتنا خطرناک ہے یا وہ اتنے بڑے پیمانے پر موجود ہے یا اس کی فلسفیانہ بنیادیں اتنی زیادہ مضبوط ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جدید الحاد کو اس کے تمام تر شیڈ کے ساتھ سمجھا جائے اور علمی سطح پر دلائل سے اسے رد کیا جائے اور معصوم ذہنوں کو مسموم ہونے سے بچایا جائے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025