سوال نمبر 3 (اس الجھن کے بارے میں کہ رسول اللہ ﷺ کو عام مسلمانوں سے زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت کیوں تھی۔ یہ اعتراض اسلام کے بارے میں انجیلی ویب سائٹوں پر شد و مد سے اٹھایا جاتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مجھے یہ سوال مقامی مسلمانوں کی بہ نسبت بیرون ملک پیدا ہونے والے مسلمانوں سے زیادہ مرتبہ موصول ہوا:
قرآن مجید میں نبی ﷺ کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ جتنی چاہیں عورتوں سے شادی کر سکتے ہیں، جب کہ اہل ایمان کو زیادہ سے زیادہ چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے۔ میرے ذہن میں اکثر یہ بات آتی ہے کہ’’ یہ تو سہولت پیدا کرنا ہوا! “کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو اس معاملے میں استثنا کیوں دیا گیا؟
اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو تین تین، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمھیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمھارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرینِ صواب ہے۔ (سورة النساء: 3)
اے نبی ﷺ ! ہم نے تمھارے لیے حلال کر دیں تمھاری وہ بیویاں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں، اور وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے تمہا ری ملکیت میں آئیں، اور تمھاری وہ چچا زاد اور پھوپھی زاد اور ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں جنھوں نے تمھارے ساتھ ہجرت کی ہے، اور وہ مومن عورت جس نے اپنے آپ کو نبی ﷺ کے لیے ہبہ کیا ہو اگر نبی ﷺ اسے نکاح میں لینا چاہے یہ رعایت خالصتًا تمھارے لیے ہے، دُوسرے مومنوں کے لیے نہیں ہے۔ ’’ہم کو معلوم ہے کہ عام مومنوں پر ان کی بیویوں اور لونڈیوں کے بارے میں ہم نے کیا حُدُود عائد کیے ہیں۔ (تمھیں ان حُدُود سے ہم نے اس لیے مستثنیٰ کیا ہے) تاکہ تمھارے اوپر کوئی تنگی نہ رہے، اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ (الاحزاب: 50)
اس کے بعد تمھارے لیے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں، اور نہ اِس کی اجازت ہے کہ اِن کی جگہ اور بیویاں لے آؤ خواہ اُن کا حسن تمھیں کتنا ہی پسند ہو البتہ لونڈیوں کی تمھیں اجازت ہے۔ اللہ ہر چیز پر نگراں ہے۔ (الاحزاب: 52)
قرآن مجید میں ان احکام کی وجوہ بیان نہیں کی گئی، اگرچہ آیات کے شان نزول اور بعض احادیث و آثار سے کچھ اشارے ضرور ملتے ہیں۔ میں جو بھی وضاحت پیش کروں وہ قیاس محض ہی ہوگا۔ میں نے خدا اور قرآن پر ایمان ایک ایسے تجربے کے ذریعے حاصل کیا جو قرآن مجید کی ان جزوی باتوں سے متاثر نہیں تھا۔ اب میں ان آیات کو جب بھی پڑھتا ہوں تو ایک مسلمان کی حیثیت سے پڑھتا ہوں، جس سے مجھے یہ معلوم ہوتا ہے کہ میں ان کے پس پردہ الہی حکمت کو مکمل طور پر کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ میں اس سوال کا جواب دینے میں “علم” کا دعوے دار نہیں ہوں، بلکہ میں اسے سمجھنے کی پوری کوشش کروں گا۔ چوں کہ یہ آیات رسول کی ازواج (اللہ ان سے راضی ہو) سے متعلق ہیں، اس لیے بہتر ہوگا ان شادیوں کے پس منظر پر ایک اجمالی نظر ڈال لی جائے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں جنسی بے راہ روی عام تھی، خاص طور پر مردوں میں اور جہاں کے ماحول میں ہر سمت ایسے مرد و خواتین کی بھرمار تھی جن میں جنسی اختلاط کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی، محمد ﷺ 25 سال کی عمر تک مجرد رہے اور بھرپور جوانی کے اس دور میں آپ نے شادی کی بھی تو ایک ایسی خاتون سے جو عمر میں ان سے پندرہ سال بڑی تھیں اور بیوہ تھیں۔ آئندہ 25 برس تک حضرت خدیجہؓ رسول اللہ ﷺ کی واحد بیوی رہیں۔ جب ان کا انتقال ہو گیا اور کچھ عرصہ گزر گیا تب رسول اللہ ﷺ نے حضرت سودہؓ سے شادی کی جن کی عمر چالیس برس تھی۔ ان کے شوہر کا چند ماہ قبل انتقال ہوا تھا۔ اسی دوران رسول اللہ ﷺ نے اپنے قریبی دوست اور پہلے خلیفہ کی بیٹی حضرت عائشہﷺ سے بھی شادی کی، لیکن ان کی رخصتی تقریباً چار سال کے بعد ہوئی۔
اس کے بعد مدینہ کو ہجرت پیش آئی اور قریش مکہ اور ان کے حلیفوں کے ساتھ آٹھ سالہ کشمکش کا دور شروع ہوا۔ ان نازک برسوں کے دوران بہت سے مسلمان جنگوں میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ اور پیچھے رہ جانے والے اصحاب کے لیے ضروری تھا کہ شہدا کے یتیم بچوں کو اپنے زیر کفالت لے لیں۔ (النساء: 3)۔ جب عمرؓ بن خطاب کی بیٹی حضرت حفصہؓ کے شوہر غزوۂ بدر میں شہید ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے دل جوئی کے لیے ان سے نکاح کرلیا اور یوں اپنے سب سے قریبی جاں نثاروں میں سے ایک کے ساتھ خاندانی رشتہ قائم کرلیا۔ اگلے سال رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ بنت خزیمہ سے نکاح کیا جن کے شوہر غزوۂ احد میں کام آگئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ سے نکاح کے چند ماہ بعد ہجرت کے تیسرے سال، حضرت زینبؓ کا تیس سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ ایک سال بعد آپ نے حضرت ام سلمہؓ سے شادی کی جن کے شوہر غزوۂ احد ہی میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ بنت جحش سے جن حالات میں شادی کی اس کا ذکر گذشتہ سطور میں آچکا ہے۔ کچھ عرصہ بعد رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے ابتدائی دور میں اسلام لانے والی صحابیہ حضرت ام حبیبہؓ سے بھی نکاح کیا جنھوں نے اپنے شوہر عبیداللہ کے ساتھ حبشہ ہجرت کر لی تھی۔ عبیداللہ وہاں جاکر مرتد ہوگئے اور عیسائی مذہب اختیار کرلیا اور اسی حالت میں ان کی موت ہوگئی۔ اس شادی کے ذریعے رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہؓ کے والد ابو سفیان کو بے دست و پا کر دیا، جو قریش مکہ کے سردار اور اسلام کے سخت دشمن تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے چھ اور سات ہجری کے دوران اپنے دشمنوں کی تین بیواؤں حضرت جویریہؓ، حضرت میمونہؓ اور حضرت صفیہؓ سے شادی کی، جو گویا ان کے قبیلوں کے ساتھ امن و اتحاد کی طرف ایک قدم تھا۔
مندرجہ بالا آیات ان کی ترتیب نزول کے اعتبار سے درج کی گئی ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سورہ نساء کی آیت3 کسی مرد کی ایک وقت میں بیویوں کی تعداد کو چار تک محدود کرتی ہے؛ احزاب کی آیت 50 نبی ﷺ کو اس حد سے استثنا کی خصوصی اجازت دیتی ہے؛ اور آیت 52 انھیں مزید شادیوں سے روکتی ہے، اور اس طرح گویا ان کے باقی مشن کے دوران نبی کے گھرانے کو مستحکم کرتی ہے۔ ان آیات کی تفسیر ان کے شان نزول کی تفصیلی ٹائم لائن سے آسان ہوجاتی ہے۔ تاہم، روایات سے زیادہ معلومات نہیں ملتیں اور، جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، ان میں بھی سے زیادہ تر اختلاف پایا جاتا ہے۔
یہ بات تقریبًا متفق علیہ ہے کہ سورہ نساء کی آیت 3 غزوۂ احد کے فوراً بعد 3 ہجری میں نازل ہوئی، لیکن باقی دو آیات کب نازل ہوئیں اس پر اختلاف ہے۔ بہت سے مفسرین کا خیال ہے کہ احزاب:52 کا زمانہ احزاب:50 کے کچھ ہی عرصہ بعد کا ہے۔ لیکن اگرچہ ان آیات میں محض ایک آیت کا فصل ہے، تاہم سیاق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزول کے درمیان وقت کا وقفہ خاصا رہا ہوگا، ورنہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ﷺ کو پہلے تو زیادہ شادیاں کرنے کی اجازت دے دی گئی ہو اور ایک مختصر وقفے کے بعد یہ رخصت واپس لے لی گئی ہو۔ اس ظاہری تناقض کو عام طور پر یہ کہہ کر حل کیا جاتا ہے کہ احزاب:50 رسول اللہ ﷺ کو زیادہ عورتوں سے نکاح کی اجازت کے بجائے انھیں طلاق سے روکتی ہے۔ بہرحال، یہ خیال کہ یہ دونوں آیات تقریباً ایک ہی زمانے میں نازل ہوئی ہوں گی، دیگر مسائل پیدا کرتا ہے۔ کیوں کہ اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے احزاب:52 کی خلاف ورزی نہیں کی تو ہمیں یہ فرض کرنا ہوگا کہ یہ 7 ہجری میں ان کی آخری شادی کے بعد نازل ہوئی تھی، لیکن اس کا مطلب ہوا کہ کئی برسوں تک ان کی اتنی بیویاں رہیں جتنی کی سورہ نساء میں اجازت دی گئی تھی جب کہ ابھی سورہ احزاب کی استثنا والی آیت (50) نازل نہیں ہوئی تھی۔
یہ تمام الجھنیں اور تضاد اس صورت میں باقی نہیں رہتے اگر ہم یہ مان لیں کہ آیت احزاب:52، آیت 50 کے فوراً بعد نازل نہیں ہوئی۔ اس صورت میں ہمارے پاس ایک زیادہ واضح ٹائم لائن آجاتی ہے۔ بہت سی دیگر سورتوں کی طرح سورہ احزاب بھی مختلف اوقات میں چھوٹے چھوٹے حصوں میں نازل ہوئی۔ لیکن تقریباً تمام علما اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا زیادہ تر حصہ سورۂ نساء کے بعد نازل ہوا اور بڑے حصےکا نزول پانچ ہجری میں ہوا۔ یعنی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی حضرت زینبؓ بنت جحش سے شادی سے قبل کسی زمانے میں چار سے زائد بیویاں نہیں تھیں، کیوں کہ زینبؓ بنت خزیمہ، حضرت ام سلمہؓ سے نکاح سے پہلے انتقال کر چکی تھیں۔ چوں کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ نبی ﷺ نے احزاب:50 میں دی گئی چھوٹ حاصل کرنے سے پہلے بیک وقت چار سے زیادہ ازواج نکاح میں نہیں رکھی ہوں گی جس کی اجازت نساء 3 میں دی گئی ہے۔ اس لیے ہم بہ آسانی قیاس کرسکتے ہیں کہ احزاب:50 اسی موقع پر نازل ہوئی ہوگی جب احزاب:37 نازل ہوئی تھی یا شاید اس سے کچھ عرصہ پہلے نازل ہوئی ہوگی۔ احزاب:50 کا استثنا حاصل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت زینبؓ بنت جحش اور ان کے بعد مزید پانچ خواتین سے نکاح کیا، یہاں تک کہ 7 ہجری میں احزاب:52 میں انھیں مزید شادیاں کرنے سے منع کر دیا گیا۔ خلاصہ کلام یہ کہ النساء :3 سے احزاب:50 تک (یعنی آیت استثنا کے نزول تک) نبی ﷺ کی چار ازواج مطہرات تھیں۔ اس کے بعد، انھوں نے مزید پانچ خواتین سے شادیاں کیں، اس طرح تعداد بیک وقت 9 ہوگئی۔ پھر احزاب:52 اتری، جس میں نبی ﷺ کو مزید کسی اور عورت سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا۔
یہ سلسلہ زمانی (chronology) ہمیں دو سوالوں کی طرف لے جاتا ہے۔ احزاب:50 کے استثنا کا مقصد کیا تھا؟ اور تقریبا دو سال بعد احزاب:52 کی ممانعت کی کیا وجہ تھی؟ پہلے سوال پر یہ اعتراض خارج کیاجاسکتاہے کہ احزاب:50 کا بنیادی مقصد رسول اللہ ﷺ کو عورتوں میں مشغول کرنا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو احزاب:52 کے نزول کے ساتھ نبی ﷺ کو مزید بیویاں حاصل کرنے سے کیوں روکا جاتا؟ احزاب:50 کے نزول کے بعد رسول اللہ ﷺ کے ذریعے نکاح کے لیے مخصوص خواتین کا انتخاب کرنا ہمارے نقطہ نظر کی تائید کرتا ہے۔ ملحوظ رہے کہ حضرت زینبؓ بنت جحش مطلقہ تھیں اور باقی چار عورتیں بیوہ، جن میں سے بعض کے بچے بھی تھے۔ اس کے علاوہ حضرت زینبؓ اور حضرت ام حبیبہؓ کی عمر تیس سال سے متجاوز تھی اور حضرت میمونہؓ رسول اللہ ﷺ سے شادی کے وقت اکیاون سال کی تھیں ،جو اس زمانے کے لحاظ سے خاتون کے شباب کا زمانہ بالکل نہیں ہوا کرتا تھا۔
اس طرح اگر احزاب:50 کا مقصد اگر رسول کی نفسانی خواہش کے لیے عورتیں فراہم کرنا ہوتا تو آپؐ نے اس موقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ کیوں نہیں اٹھایا، جب کہ آپ کے منصب پر فائز کوئی بھی شخص بہ آسانی حسین سے حسین تر، جوان اور کنواری لڑکیوں کا ایک بڑا حرم حاصل کر سکتا تھا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے پہلے اور بعد ، مشرق وسطی کے بہت سے بارسوخ مرد وں کا عمل رہا۔
رسول اللہ ﷺ کی آخری پانچ شادیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ احزاب:50 میں استثنا کا بنیادی مقصد رسول اکرم ﷺ کو ایک قدیم اور انتہائی موثر سفارتی آلہ فراہم کرنا تھا۔ ہم اس سے قبل ام المومنین حضرت زینبؓ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی شادی کے بعض سماجی، اخلاقی اور قانونی مضمرات پر گفتگو کر چکے ہیں۔ دشمنوں کی بیوائوں، حضرت میمونہؓ اور حضرت صفیہؓ ، سے شادی کرنا اپنے مخالفین کے ساتھ امن و اتحاد قائم کرنے کا ایک قابل احترام طریقہ تھا۔ بایں ہمہ، رسول اللہ ﷺ کا ام المومنین حضرت ام حبیبہؓ کے ساتھ نکاح کرنا ان کی آخری پانچ شادیوں میں سے سیاسی طور پر سب سے زیادہ بااثر رہا۔ ام حبیبہؓ کے والد ابو سفیان قریش کے سردار تھے ۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ان کی بیٹی سے شادی کے بعد ان کے قبیلے کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف مزید کوئی حملہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ اگلے چند برسوں میں مسلمانوں اور قریش کے درمیان باقی تمام تنازعات سفارت کاری کے ذریعے حل کیے گئے۔ خصوصاً ، یہ ابو سفیان ہی تھے جنھوں نے 8 ہجری میں مکہ مکرمہ کی پرامن فتح کے لیے ذاتی طور پر مذاکرات میں حصہ لیا تھا۔
یہ تصور کہ احزاب:50 کا بنیادی مقصود رسول اللہ ﷺ کو اہم سیاسی آلے سے فائدہ دلانا تھا، ان کی آخری پانچ شادیوں کے حالات سے مطابقت رکھتا ہے ؛ اور احزاب:52 میں نبی ﷺ کو مزید شادیاں کرنے سے منع کردیا گیا کیوں کہ یہ آیت ایسے دور میں نازل ہوئی تھی جب امن قائم ہوچکا تھا اور اس طرح کی سفارت کاری کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی۔ روایات میں اس آیت کی دیگر اہمیتیں بھی بیان کی گئی ہیں جو مندرجہ بالا وضاحت سے مطابقت رکھتی ہیں، تاہم میں نے خود کو یہاں اس سوال میں پیش کردہ الجھن کو رفع کرنے تک محدود کر رکھا ہے۔
سوال نمبر 4 (حجاب کے بارے میں ایک مرد نو مسلم کی جانب سے، کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس سلسلے میں مجھے امریکی خواتین کی طرف سے بہت سے سوالات موصول ہوئے)
میں ایک نومسلم امریکی ہوں اور میری شادی اردن کی ایک مسلمان خاتون سے ہوئی ہے۔ میری بیوی اپنے سر کو نہیں ڈھانپتی اگرچہ وہ مانتی ہے کہ اسلام اسے ایسا کرنے کا پابند بناتا ہے اور وہ امید کرتی ہے کہ اسے سر ڈھکنے کی ہمت اور توفیق ملے۔ تاہم، میں مطمئن نہیں ہوں۔ محمد اسد، مراد ہوف مین اور دیگر نے قرآنی احکامات کی مروجہ رسم و رواج اور شائستگی کے معیارکے مطابق تشریح کے جو دلائل دیے ہیں وہ مجھے مناسب لگتے ہیں۔ مجھے لگا کہ آپ نے اپنی کتاب ‘اسٹرگلنگ ٹو سرینڈر ’ میں روایتی نقطہ نظر کی حمایت کی ہے، جب کہ ‘ایون اینجلس آسک ’میں آپ نے امریکی مسلم برادری پر زور دیا ہے کہ وہ خواتین پر سخت روایتی لباس پر عمل پیرا ہونے لیے دباؤ نہ ڈالیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اب آپ کا مسلم خواتین کے پردے کے مسئلے پر کیا موقف ہے۔ کیا آپ اب بھی مانتے ہیں کہ مثالی طور پر انھیں روایتی لباس اختیار کرنا چاہیے؟
میرا خیال ہے کہ میں نے اپنی پچھلی دو کتابوں میں مسلم خواتین کے لباس کے سلسلے میں کسی بھی پالیسی کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے بلکہ جدید دور میں اس کی از سر نو تشریح کے حق میں اور اس کے خلاف بعض عمومی دلائل کو اجاگر کیا ہے نیز ان کے بعض حسن و قبح پر روشنی ڈالی ہے۔ میں نے خود کو کسی بھی نقطہ نظر سے وابستہ نہیں کیا کیوں کہ میں نہیں کہہ سکتا تھا کہ ان میں سے کوئی بھی موقف ناقابل قبول یا غیر منطقی ہے۔ میں نے یہ ضرور کہا تھا کہ اگرچہ مسلم خواتین کی اکثریت روایتی پردہ نہیں کرتی، تاہم ان میں سے بیشتر مسلّمہ ڈریس کوڈ کی پاسداری کرتی ہیں، اور میری رائے یہ ہے کہ یہ صورت حال جلد تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔ مجھے آخری نکتے کے بارے میں اتنا یقین نہیں ہے، کم از کم امریکہ میں، لیکن مجھے اب بھی لگتا ہے کہ روایتی ڈریس کوڈ اور بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں تشریح نو کے لیے بحث و گفتگو کا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں موصول ہونے والے ای میل کی بڑی مقدار کی بنا پر، میں نے سوچا کہ مجھے روایتی نقطہ نظر سے شروع کرتے ہوئے بحث کے دونوں پہلوؤں کو دوبارہ سامنے لانا چاہیے۔
قرآن مجید میں مردوں کے حیا دار لباس کے سلسلے میں کوئی واضح ہدایت موجود نہیں ہے، البتہ عورتوں کے سلسلے میں تین تین براہ راست آیات موجود ہیں۔ ذیل کی آیات ملاحظہ کریں:
اے نبیﷺ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے۔ اور اے نبیﷺ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اس کے جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے لونڈی غلام، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ (النور 30-31)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں: صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں۔ ان کے بعد وہ بلا اجازت آئیں تو نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر، تمھیں ایک دوسرے کے پاس بار بار آنا ہی ہوتا ہے اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنے ارشادات کی توضیح کرتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اُسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح اُن کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں۔ اِس طرح اللہ اپنی آیات تمھارے سامنے کھولتا ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔ اور جو عورتیں جوانی سے گزری بیٹھی ہوں، نکاح کی امید وار نہ ہوں، وہ اگر اپنی چادریں اتار کر رکھ دیں۔ تو ان پر کوئی گناہ نہیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش کرنے والی نہ ہوں۔ تاہم وہ بھی حیاداری ہی برتیں تو ان کے حق میں اچھا ہے، اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ (النور58-60)
اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو بے قصور اذیت دیتے ہیں انھوں نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا وبال اپنے سر لے لیا ہے۔ اے نبی ﷺ ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلوّ لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ اگر منافقین، اور وہ لوگ جن کے دلوں میں خرابی ہے اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمھیں اٹھا کھڑا کریں گے، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے۔ (احزاب 58-60)
محمد اسد اپنے ترجمہ و تشریح قرآن The Message of the Quran میں بتاتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب قبائلی عورت کا روایتی لباس ایک آرائشی اوڑھنی یا جلباب — جو ان کی پیٹھ پر لٹکی ہوتی تھی اور سامنے سے ان کے بال دکھائی دیتے تھے —ایک لمبا عبایا — جس میں سامنے کا منہ زیادہ کھلا ہوتا تھا جس سے ان کے سینے نظر آتے تھے — کمر پر ایک اسکرٹ باندھی جاتی تھی۔ اور مختلف قسم کے زیورات، جیسے ہار، انگوٹھیاں، بالیاں، بازو بند اور پازیب وغیرہ۔ یہی طرز لباس جزیرہ نما عرب کے کچھ بدوؤں میں جدید دور تک برقرار رہا اور پچھلی صدی کے اوائل میں یورپی سیاحوں نے اس کی تصویریں بھی کھینچیں۔ قرآن کریم نے مومن عورتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے سینوں کو اوڑھنی یا جلباب سے ڈھک لیا کریں۔ (خمار، جمع خُمُر) (النور :31) اور جب عوامی مقامات پر ہوں تو اپنے بیرونی لباس میں سے کچھ اپنے اوپر کھینچ لیا کریں (احزاب :59) یہ مومن عورتوں کے لیے کم سے کم تکلیف کے ساتھ ایک حیا دار لباس تھا۔
فقہا نے بعد میں خواتین کے لباس پر تفصیل سے ہدایات وضع کیں، ڈھیلا ڈھالا لباس جس سے خاتون کے بدنی خال و خد نمایاں نہ ہوپائیں، جب کہ صرف چہرہ، ہتھیلیاں اور پیر کھلے رہیں۔ صحابہ و تابعین کے دور میں خواتین کے ڈریس کوڈ پر اولین بحثوں کا مرکز یہ تھا کہ آیا عورت کو چہرے کا پردہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ جمہور کی رائے میں چہرے کے پردے سے رخصت ہے، لیکن یہ مسئلہ اب بھی عالم اسلام کے بعض حصوں میں اختلافی ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ خواتین کے لباس سے متعلق زیادہ صحیح احادیث موجود نہیں ہیں۔ بخاری و مسلم میں اس سلسلے میں کوئی حدیث نہیں پائی جاتی۔ دیگر کتب احادیث میں قرآن میں جو احکام دے دیے گئے ان کے علاوہ کوئی خاص اضافہ نہیں ملتا۔ مندرجہ ذیل حدیث کو اکثر بیان کیا جاتا ہے، لیکن محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے:
’’ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ ان کی بہن اسماء ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسے لباس میں آگئیں جس کے اندر سے ان کا بدن جھلک رہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی نظریں پھیر لیں اور ان سے کہا، ‘‘اے اسماء، جب عورت حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے جسم کے فلاں فلاں حصے کے سوائے کوئی چیز ظاہر نہیں ہونی چاہیے اور آپ نے اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔ “
بایں ہمہ مسلم خواتین کے لباس پر واضح احادیث کی عدم موجودگی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ روایتی ڈریس کوڈ کی نسبت رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے نہیں ہے؛ بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہ اس امر کا اشارہ ہے کہ اس موضوع پر کبھی کوئی بڑا اختلاف نہیں رہا، سوائے عورت کے چہرے کے پردے کے۔ بالفاظ دیگر، اس مسئلے پر اختلاف کی عدم موجودگی اس امر کی تائید ہے کہ روایتی ڈریس کوڈ، جسے بعد میں کچھ توسیع دی گئی، ایک مسلّمہ سنت ہے جس پر اجتماعی طور پر نسل در نسل عمل ہوا۔
روایتی کوڈ کی تاریخیت کو غلط ثابت کرنے کی کوشش شاید مفید نہ ہو۔ بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں تشریح نو کے حق میں استدلال کے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اس کے بجائے، یہ ثابت کرنا ہوگا کہ خواتین کے لباس پر احکام، جیسا کہ محمد اسد اور دیگر نے زور دیا ہے، “اپنے زمانے کے پابند” ہیں—یعنی کسی زمانے میں رائج عرف و حالات پر ان کا انحصار ہے۔ یہ ثابت کرنا آسان نہیں ہے۔ دلیل لانی ہوگی کہ یہ احکامات ساتویں صدی عیسوی کی عرب ثقافت کی ان خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مخصوص زمانے اور مقام کے لیے مخصوص ہیں اور جن کا نفاذ آج یا تو ان احکامات کے ظاہری مقاصد کے مغائر ہوگا یا غیر ضروری۔
زیادہ تر مسلمان اس کوشش کی اس بنیاد پر مذمت کریں گے کہ الٰہی احکامات کی تشریح نو نہیں کی جاسکتی بلکہ ان پر اسی طرح لفظ بہ لفظ عمل کیا جانا چاہیے جس طرح قرن اول کے مسلمانوں نے ان کو سمجھا تھا۔ لیکن روایت پسند مسلمان بھی شاید اس بات کو تسلیم کریں گے کہ بعض الٰہی احکامات کے بارے میں کچھ اولین رسپانسز میں ایڈجسٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، جنگ کے لیے مناسب تیاری رکھنے کے حکم کو لے لیں:
اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے اُن کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدل تمھاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمھارے ساتھ ہرگز ظلم نہ ہوگا ۔(الانفال 60)
کوئی بھی جدید مسلمان فوجی کمانڈر جنگ سے پہلے گھوڑوں کو جمع کرنے پر اصرار نہیں کرے گا، حالاں کہ یقینی طور پر اس آیت کا اصل مفہوم یہی تھا۔ اس کے بجائے، تقریبًا تمام مفسرین اس سے یہ مفہوم اخذ کرتے ہیں کہ جنگ کی تیاری کے لیے دستیاب بہترین ہتھیاروں کے حصول کی ضرورت ہے، تاکہ فتح آسان ہو اور مخالف کے دلوں میں قوت کا رعب بیٹھ جائے (ان دُوسرے اعداء کو خوف زدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے)۔
آیت (النور :29) جو اس عبارت سے فوراً پہلے ہے جس میں مومن عورتوں کو اپنے سینے پر کپڑا (خمر)ڈالنے کی ہدایت کی گئی ہے، یہ ہدایت قدیم خانہ بدوش ماحول میں سمجھ میں آتی ہے ،تاہم جدید دور میں یہ ماحول باقی نہیں رہا۔
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔ البتہ تمھارے لیے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ ایسے گھروں میں داخل ہو جاؤ جو کسی کے رہنے کی جگہ نہ ہوں اور جن میں تمھارے فائدے (یا کام) کی کوئی چیز ہو، تم جو کچھ ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو سب کی اللہ کو خبر ہے۔ “ (النور 27-29)
اس دور میں یہ مشورہ نہیں دیا جا سکتا ہے، سوائے سیکیورٹی کے نقطہ نظر سے، کہ لوگوں کے لاوارث پڑے یا خالی گھروں کو استعمال کرلیا جائے۔
تقریبًا تمام مسلمانوں کے نزدیک مومن عورتوں کے لیے حجاب پہننے کا سب سے مضبوط ثبوت سورہ نور کی آیت 30 میں ہے کہ’’ اپنے سینوں پر کپڑا (خمار)ڈال لو “ جو واضح طور پر اوڑھنی کی طرف اشارہ ہے۔ روایتی کوڈ میں تجدید کے حامی اس امر پر اعتراض کر سکتے ہیں کہ قرآنی احکامات میں ساتویں صدی کی عرب ثقافت کا حوالہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس ثقافت کو عالمگیر بنادیا جائے۔ مثال کے طور پر سورہ انفال 60 میں گھوڑوں کو جمع رکھنے کا حکم اسے مسلم فوجی تیاریوں کا مستقل حصہ نہیں بناتا۔ اسی طرح قرآنی احکام میں غلامی اور غلامی کے بہت سے تذکروں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ پائیدار اسلامی شعار ہے۔ اگرچہ قرآن میں مردوں کے لباس کا واضح طور پر ذکر نہیں کیا گیا ہے، تاہم مستند روایات میں مردوں کے لباس کے بارے میں متعدد اصول دے دیے گئے ہیں، جیسے مندرجہ ذیل روایت میں اس وقت مردوں کے ازار (تہبند) کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت سے نہیں دیکھے گا جو غرور اور تکبر کی وجہ سے اپنے ازار کو گھسیٹتا ہوئے چلے۔
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنا کپڑا (پاجامہ یا تہبند وغیرہ) تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا بھی نہیں، اس پر ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا کہ میرے کپڑے کا ایک حصہ لٹک جایا کرتا ہے۔ البتہ اگر میں پوری طرح خیال رکھوں تو وہ نہیں لٹک سکے گا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آپ تو ایسا تکبر کے خیال سے نہیں کرتے (اس لیے آپ اس حکم میں داخل نہیں ہیں)۔
جدید دور کے بعض مسلمانوں کے نزدیک مسلمان مردوں کے لیے ساتویں صدی عیسوی کے عربوں کی طرح لباس پہننا ضروری ہے۔ لیکن ایسا کم لوگ سمجھتے ہیں۔
تجدید پسندوں کے نزدیک عورتوں کے لباس کے سلسلے مں ہدایات وقتی اصلاحات تھیں اور’’ ان کو عمومی اور مستقل احکام کے معنوں میں نہیں لیا جانا چاہیے، بلکہ یہ ہدایات وقت اور معاشرتی ماحول کے بدلتے ہوئے پس منظر میں اخلاقی رہ نما اصول ہیں۔ “جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کی عورتیں ایک لمبا عبایا پہنتی تھیں جس کے سامنے کا حصہ کھلا ہوتا تھا، جس سے ان کے سینے ظاہر ہوجاتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سورہ النور کی آیت 31 کامرکز ِتوجہ سینوں کو ڈھانپنے پر ہے، اگرچہ اس آیت اور سورہ نور کی آیت 60 میں زینت (زیورات) کے اظہار کا بھی ذکر ہے۔
یقینی طور پر دیگر نسوانی پرکشش خصوصِات کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ روایتی کوڈ میں تجدید پسندوں کا کہنا ہے کہ آیت النور :31 کی لفظی تشریح عورت کی زینت اور خاص طور پر اس کے سینوں کو ’’ اس کے شوہر، باپ، سسر، اس کے بیٹوں، شوہرکے بیٹوں، بھائی، بھائیوں کے بیٹوں، بہنوں کے بیٹوں، اس کے میل جول کی عورتوں، اس کے لونڈی غلاموں، ان زیردست مرد وں جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور ان بچوں جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ “پر ظاہر کرنے کی رخصت ہے۔ اسی طرح النور :60 کی لفظی قراءت خواتین کو کسی کی موجودگی میں نسبتًا بے لباسی (اپنے [بیرونی] لبادے کو اتارنے) کی حالت میں ظاہر کرنے کی اجازت دیتی ہے، بشرطیکہ ان کی نیت اپنی زینت کی نمائش کرنا نہ ہو، حالاں کہ قرآن نے مشورہ دیا ہے کہ ”پرہیز کرنا ان کے لیے بہتر ہے۔ “یقینًا آج زیادہ تر مسلمان ان رخصتوں کے لفظی اطلاق پر زور نہیں دیں گے، کیوں کہ یہ موجودہ سماجی اصولوں کے خلاف ہیں۔ ایک قدیم قبائلی معاشرے میں ،جس نے حال ہی میں لباس میں نمایاں تبدیلیاں کی ہوں، آج کے معیار کے مطابق، خواتین کو ان حالات میں ”ے لباسی اختیار کرنے “کی اجازت دینا یقینی طور پر اباحیت ہے۔ تاہم یہ حقیقت کہ زیادہ تر جدید مسلمان ان رخصتوں کے لفظی رسپانس سے بے چینی محسوس کریں گے، اس بات کی غماز ہے کہ وہ قرآن کے ابتدائی مخاطبین کے مروجہ رسم و رواج سے متعلق ہیں۔ تجدید پسند حضرات ان احکامات میں غلاموں، رسول اللہ ﷺ کی بیویوں اور بیٹیوں، دوپہر میں قیلولے کے روایتی لباس (جب آپ دوپہر کی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے اتار دیتے ہیں) اور خاص طور پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے لباس (مثلا خمر، جلباب) کا ذکر کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا ہدایات کی از سر نو تشریح کی دلیل مضبوط تو ہے لیکن اس سے خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اگر عورتوں کے لباس کے احکامات کا مقصد کوئی مستقل ضابطہ قائم کرنا نہیں ہے، بلکہ عصر حاضر کے معیارکے مطابق حیا کو فروغ دینا ہے، تو قرآن مجید یقینی طور پر مسلم خواتین کو معتدل لباس پہننے کی ہدایت دے کر اس کو زیادہ موثر انداز میں پورا کر سکتا تھا۔ اسلامی فکر کے نقطہ نظر سے یہ کوئی معمولی اعتراض نہیں ہے، کیوں کہ مسلمانوں نے طویل عرصے سے قرآن کے ایجاز یعنی اس کی بے نظیر کفایت لفظی اور فصاحت و بلاغت کو تسلیم کیا ہے اور تجدید پسندوں کی طرف سے پیش کی جانے والی یہ تشریح اس کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ اس کے باوجود تجدید پسند یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ اگرچہ قرآن اگلی نسلوں میں پہنچا، لیکن اس کے اولین مخاطب دور نبوی کے مسلمان تھے اور اس نے اس دور کی فوری ضروریات پر توجہ دی اور پھر ان کے تجربات سے اس کی تعلیم آئندہ نسلوں میں منتقل ہوئی۔ اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو قرآن کے احکامات کو یقینی طور پر اس ماحول میں لفظ بہ لفظ لیا جانا تھا جن سے اصل مخاطبت تھی اور ایسا اس معاشرے کی اصلاح اور اسے اسلام کے لیے موزوں وسیلہ بنانے کے لیے انتہائی ضروری تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے تشریعی قوانین کو مختلف سیاق و سباق عموم دینے کے لیے واضح اور عملی ماڈل بھی فراہم کرنا مقصود تھا۔ اس لحاظ سے قرآن مجید کے تمام احکام بشمول غلاموں اور لونڈیوں کے بارے میں، رسول اللہ ﷺ کی ذاتی زندگی کے بارے میں، جنگ کی تیاری سے متعلق، اور عورتوں کے لباس جیسے تمام احکام کی آج بھی ویسی ہی اہمیت ہے، حالاں کہ ان میں سے بعض پر ان کی مکمل جزئیات کے ساتھ عمل کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہے۔
تجدیدپسندانہ نقطہ نظر پر ایک اور اعتراض یہ ہے کہ اس کا استعمال تقریبًا کسی بھی قرآنی حکم کو کم زور کرنے کے لیے کیا جاسکتا ہے، کہ ہمارے زمانے اور رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے درمیان فرق کو بڑھا چڑھا کر پیش کرکے، کسی بھی فرمان الہی کو موجودہ رجحانات اور اخلاقیات کے مطابق ڈھالنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تجدید پسند دلیل دیں گے کہ ان کا مقصد کسی فرمان الہی کو کم زور کرنا نہیں ہے بلکہ ان کی ان خصوصیات میں تمیز کرنا ہے جو ساتویں صدی کے عربوں کے لیے مخصوص تھیں اور آج ان کے ظاہری مقاصد کا حصول قطعاً غیر ضروری ہے۔ روایت پسند اس کا رد یوں کر سکتے ہیں کہ اگرچہ قرآن نے جنسی استحصال کو روکنے کے لیے خواتین کے لباس کا ایک کوڈ مقرر کیا ہے، جب کہ تجدید پسند حضرات کی طرف سے معاصر اقدار کی روشنی میں تشریح نو کرکے کسی کوڈ کا مطالبہ گویا کسی کوڈ کا مطالبہ نہیں ہے؛ یعنی ایسا اخلاقی کوڈ جو اخلاقیات میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ایڈجسٹ ہوتا رہے، بے حد غیر مؤثر ہوتا ہے۔ مزید برآں، یہ دلیل بھی پیش کی جا سکتی ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں نسوانی حیا کا معیار زیادہ تر جدید مغربی معاشروں کی بہ نسبت بے حد کم تر تھا۔ اس کے باوجود قرآن مجید نے مومن عورتوں کو لباس میں نمایاں تبدیلیاں کرنے کا پابند کیا ہے۔ لہٰذا اگر قرآن نے یہ تبدیلیاں زیادہ کھلے معاشرے میں عمل میں لائیں تو پھر ہم کس بنیاد پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج ایسا کرنا بہت انتہا پسندانہ یا غیر ضروری ہوگا؟ تجدید پسندجواب میں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے مطابق جس طرح کا لباس درکار ہے اس کا علم قدیم عربوں کو نہیں تھا، مثلاً جب قرآن کہتا ہے کہ” مناسب لباس پہننے والی خواتین کو [پاک باز] سمجھا جائے گا اور انھیں تنگ نہیں کیا جائے گا“تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پاک باز عورتوں کا عوامی لباس تھا۔ روایت پسند حضرات اس بات کی تردید یہ کہہ کر سکتے ہیں کہ روایتی کوڈ یقینی طور پر معاصر مسلمانوں کے لیے نامعلوم نہیں ہے۔
اگرچہ مزید دلائل اور جوابی دلائل درج کرنا ممکن ہے، تاہم میں یہیں رکتا ہوں، کیوں کہ میرا مقصد بحث کے کچھ اہم نکات کو اجاگر کرنا تھا۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2024