زرخیز اور بنجر‘ یہ دو کیفیات ہیں جن سے زمین کے زندہ یا مردہ ہونے کا پتا چلتا ہے۔زمین پر ہریالی اورلہلہاتے باغ ‘زندگی کا ثبوت ہیں جبکہ خار دار درخت و صحرا‘ مردہ ہوجانے کی علامات۔ زمین کی پرُبہاررونقیں ‘ نظام کائنات کی ہم آہنگی کی وجہ سے ہیں۔آسمان سے برسنے والے پانی اور اندرون زمین بہنے والے آبی ذخائر سے استفادہ کی جیتی جاگتی مثال ہر وہ پود ااور درخت ہے جو زمین کی سطح پرنمودار ہوتا ہے اور اپنے وجود سے دیکھنے والوں کو مسرت و شادمانی کا پیغام دیتا ہے۔
اسی پیرائے میں اگر انسانی دل کی بات کی جائے تو زندہ اور مردہ انسانوں کے امتیاز کا بخوبی علم ہوسکتا ہے۔جو انسان‘ اپنے پیدا کرنے والے خالق کی مرضی پہچانے‘ اپنے پہلومیں موجوددل کواس کی جانب متوجہ کرلے تو بلاشبہ وہ صحیح معنوں میں انسان ہے۔ اس کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔
وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ …. (الاعراف:۵۸)
’’ جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے‘‘۔
اس کے برعکس ‘ اگر انسانی دل اورخالق کی مرضی کے درمیان ہم آہنگی نہ ہوتو وہ انسان بھی مردہ او ر اسکا دل بھی۔اس کا وجود خبیث کہلائے گا۔ جب تک زمین پر رہے گا ‘ظلم و ناانصافی کا پیکر بنا رہے گا۔ جس طرح بنجر زمین سے کانٹوں کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘ ایسے مردہ انسان سے بھی اچھے اعمال سرزد نہیں ہوتے۔
وَالَّذِیْ خَبُثَ لاَ یَخْرُجُ إِلاَّ نَکِداً …. (الاعراف:۵۸)
’’ اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا‘‘۔
زمین پر زندگی کے دلکش نمونے ‘ زمین اور آسمان کے درمیان ہم آہنگی کا نتیجہ ہیں۔انسانی زندگی کی پر رونق بہاریں اور حیات آفریں جلوے‘ اندرون میں موجود قلب کو کائنات بنانے والے خالق کی مرضی سے ہم آہنگ کرنے کا نتیجہ ہیں۔ یہ زندگی ایک سعی ہے‘ اندرون و بیرون کے درمیان ہم آہنگی کی تلاش اور ایک بامعنی اور مربوط تعلق کے قیام کی۔جیسے زمین پر بہار کیلئے ہوائوں کی ضرورت ہے‘ویسے ہی خالق کائنات نے انسانی زندگی میں حقیقی بہار کے لئے پیغمبروں کا سلسلہ تروتازہ ہوا کے مانند جاری و ساری کیا:
وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْراً بَیْنَ یَدَیہ رَحْمَتِہِ….(الاعراف:۵۷)
’’ وہ اللہ ہی ہے جو ہوائوں کو اپنی رحمت کے آگے آگے خوشخبری لئے ہوئے بھیجتا ہے‘‘۔
مالک دوجہاں نے انسانوں کی راہنمائی اور رہبری کے لئے اپنی پسند و ناپسندکا اظہار بڑے واضح اور صاف انداز میں فرمادیا۔قرآن مجید‘ رب کریم کی پسند و ناپسند کا آئینہ ہے۔ جس قدر انسان اپنی زندگی کو ‘اللہ کی پسند کے مطابق سنوارے گا‘اسی قدر اس کی زندگی پر بہار زندگی ہوگی۔جس قدر گہرا اور مربوط تعلق قرآن مجید سے ہوگا‘اسی قدر گہرائی وگیرائی اس کی سوچ و فکر میں آئے گی‘اور اسی مناسبت سے اس کے اعمال وسعت اختیار کرتے چلے جائیں گے ۔ گرچہ اس کے اعمال زماں ومکاں میں محدود ہوں گے ‘ لیکن وہ اپنے نتائج و اثرات کے لحاظ سے صدیوں تک دلوں کو گرماتے رہیں گے۔
قرآن مجید‘ اللہ تعالیٰ کا انسانیت کے لئے عظیم تحفہ ہے جس کا کوئی اور متبادل نہیں ہوسکتا۔ یہ ان تمام خزانوں اور جائدادوںسے بہتر ہے جنہیں انسان جمع کرنے کی کوشش میں اپنی ساری زندگی کھپا دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں کامیابی و کامرانی کا حصول اورترقی پذیر تعمیر بس اسی کتاب سے ممکن ہے۔لہٰذا اس کتاب سے تعلق ‘اس کی غیر معمولی خصوصیات کے پیش نظر اس کی عظمت کے شایان شان ہونا چاہئے۔قرآن مجید کا انتہائی جامع تعارف‘ حضرت علیؓ سے روایت کردہ اس حدیث سے ہوتا ہے‘رسول اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
عن قریب ایک بڑا فتنہ سر اٹھائے گا‘حضرت علیؓ نے عرض کیا ‘اس سے نجات کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ آپؐ نے فرمایا اللہ کی کتاب قرآن مجید سے۔اس میں تمہارے اگلوں کی سرگزشت ہے۔جو کچھ بعد میں آنے والا ہے اس کی خبر ہے اور جو کچھ تمہارے درمیان پیدا ہوگا اس کا فیصلہ ہے ۔اور یہ ایک دوٹوک کتاب ہے۔کوئی ہنسی دلگی نہیںہے‘ جو سرکش اسے چھوڑدے گا ‘اللہ تعالیٰ اس کی پشت کی ہڈی توڑدے گا۔اور جو کوئی اس کے سواکسی اور کو رہنمائی کا ذریعہ بنائے گا‘ اللہ تعالیٰ اسے گمراہ کردے گا۔ اللہ تعالیٰ کی مضبوط رسی یہی ہے۔حکمت سے بھری ہوئی کتاب یہی ہے۔اللہ کی سیدھی راہ یہی ہے۔اس کے ہوتے ہوئے خواہشیں گمراہ نہیں کرتیں۔زبانیں لڑکھڑاتی نہیں۔کتنی بار بھی پڑھو اس سے سیری نہیں ہوگی۔اس کے عجائب حکمت کبھی ختم نہیں ہوں گے۔اس کے سنتے ہی جنات پکار اٹھے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن پاک سنا ہے‘جو ہدایت کی طرف بلاتا ہے۔تو ہم اس پر ایمان لائے ‘ جس نے اس کی سند پر کہا سچ کہا۔جس نے اس پر عمل کیا وہ اجر پائے گا۔جس نے اس کی مدد سے فیصلہ کیا ‘اس نے عدل کیا۔جس نے اس کی طرف دعوت دی اس نے صراط مستقیم کی دعوت دی۔(ترمذی)
قرآن مجیدسے گہرا تعلق ایمان کا لازمی تقاضہ ہے‘ امن و ترقی کے لئے ضروری شرط ہے۔اس کتاب سے ملنے والی ہدایت کی حیثیت انسانی زندگی میں غذا کی سی ہے۔ جبکہ خدائے بزرگ و برتر نے انسانوں کے لئے ایک بڑا ہی عظیم الشان دسترخوان بچھا دیا ہے جس میںروح کو لگنے والی بھوک وپیاس کے لئے تسکین کا سامان ہے:
اِنَّ ھذَا الْقُرآنَ مَأْدُبَۃُ اللّٰہِ-
’’بے شک یہ قرآن اللہ کا دسترخوان‘‘۔
یہ الٰہی دسترخوان ہے جو دعوت عام کے پیغام کے ساتھ بچھا دیا گیا ہے۔ہر انسان اس دعوت کا مخاطب ہے۔دسترخوان پر موجود تمام چیزیں‘تمام انسانوں کے لئے یکساں دستیاب ہیں۔اس میں ہدایت ہے ‘موعظت ہے‘شفا ہے اور ان سب چیزوں میںلذت اور مٹھاس ہے۔ اس دسترخوان سے خوب سیر ہوکر استفادہ کرنا ‘ اس کا اہم ترین مطالبہ ہے۔ہر ایک شخص کو پوری آزادی حاصل ہے کہ اس سے بھرپور استفادہ کرے،بلکہ ایسے استفادے کی ترغیب دلائی گئی ہے: فَاقْبَلُوْ مَادُوْبَۃُ مَاسْتَطَعْتُمْ کہ جیسی بھوک اور پیاس ہے اسی مناسبت سے استفادہ کرو۔ یہی ایک واحد سہارا ہے جوکبھی نہ چھوٹنے والا ہے۔ الْعُرْوَۃُ الْوُثْقیٰ ہے۔ جس خدا نے تمہارے لئے آسمان کا چھت بنایا اور پانی برسایا اسی خدا نے ایک مضبوط سہارا تمہارے لئے چھوڑا ہے حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْن۔یہ ایک رحمانی رسی ہے۔ جس کا ایک سرا خود اس خدا کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا زمین والوں کے لئے ہے:
ِِِ طَرَفُہٗ بَیَدِاللہ وَطَرَفَہ‘ بِیَدِیْکُمْ-
’’قرآن کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھ میں ہے‘‘۔
قرآن مجید میں قرآن سے تعلق کے بیان کردہ طریقے تدریجی اور ارتقائی نوعیت رکھتے ہیں۔پرکشش اور فطری تعلیمات سے یہ اپنی طرف انسانوں کی توجہ مبذول کراتا ہے ان تعلیمات کے مطابق انفرادی واجتما عی زندگیوں کی تعمیرکاقوی محرک بنتا ہے۔ قرآن مجید سے تعلق کے ارتقائی مراحل کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔
(۱) شخصی تعلق
وسیع و عریض کائنات کے معمولی حصہ زمین پر انسان اپنا ایک وجود رکھتاہے۔دنیا میں آنے والا ہر انسان‘ دنیا سے تعلق قائم کرتا ہے۔ اس تعلق کو آفاقی وسعت اس وقت حاصل ہوتی ہے جبکہ وہ اپنے حقیقی خالق کو پہچان کر اس پر ایمان لاتا ہے‘اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔اس کتاب سے شخصی تعلق کا تقاضہ ہے کہ اس کو دل سے تسلیم کیا جائے‘اور اس کی تعلیمات سے ذہنی و فکری ہم آہنگی یقینی بنائی جائے۔
ساری کائنات انسان کی خدمت میں لگی ہے۔ زمین کی گردش ‘آسمانوں کا نظام‘دنیا کی شادابی‘ یہاں کے آبی ذخائر‘ جنگلات و کانیں….انسان سے خموشی کے ساتھ سرگوشی کرتے ہوئے احسا س دلاتے ہیں کہ یہ سب کچھ اسی کی خدمت میں لگے ہیں۔اس کی مادی وفطری ضروریات کی تکمیل کا سامان کررہے ہیں۔ انسان قرآن تعلق قائم کرتا ہے،اس کی آیات کی تلاوت اِنسان کی رب سے سرگوشی ہے۔ خدا اور بندے کے درمیان یہ اعلان کردیا گیا کہ اس کتاب میںخود اس کا ذکر موجودہے:
لَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَیکُمْ کِتَاباً فِیْہِ ذِکْرُکُمْ….(الانبیا:۱۰)
’’لوگو! ہم نے تمہارے طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے‘‘۔
یہ بڑا واضح اور مدلل ذکر ہے‘انسان کے وجود کا ‘ مقصد پیدائش کا‘سابق او رموجودہ حالات کا‘ کامیابی اور ناکامی اور ترقی و زوال کا۔ قرآن کریم کی تعلیمات سے استفادہ کے لئے ضروری ہے کہ اسے بڑی مضبوطی سے تھاما جائے۔ قرآن کریم اپنی آفاقی تعلیمات اور غیر معمولی تاثیر کے سبب اس قدر بھاری ہے کہ اس کو بڑی قوت سے تھامنا چاہئے۔جو کچھ احکامات دیئے گئے ہیں‘انہیں بجالانا‘ان کے مطابق انفرادی و اجتماعی زندگیاں سنوارنااولوالعزمی کے کاموں میں سے ہے۔
خدائے بزرگ و برتر نے انسانوں کو احسن تقویم پرپیدا فرمایا،اسے ہدایت دی تاکہ انسان رہنمائی کا محتاج نہ رہے اور صحیح راستے کی تلاش میں در در کی ٹھوکریں نہ کھاتا پھرے۔ خالق کی پہچان اور شکر گزاری کا رویہ اختیار کرنا انسان کے اختیار میں ہے۔ یہی اس کی فطرت ہے ، اسی میں اس کا امتحان ہے۔ اس امتحان میں کامیابی کے لئے انسان کو کان ‘آنکھیں اوردل عطا کئے گئے۔ قرآن سے تعلق کا تقاضہ ‘ انہیں اعضاء کا صحیح استعمال ہے۔ ساری کائنات ‘ انسانی مشاہدے کیلئے سامان مہیا کرتی ہے۔ ہر آن خدا کی قدرت کے کرشمے نظر آتے ہیں۔ کہکشائوں کی گردشیں ‘ بادلوں کی گرج‘ بجلی کی چمک‘ سورج اور چاند کی روشنی‘آسمان سے برستا پانی‘ لہلہاتے باغ‘رنگ برنگ کے پھل و پھول‘پرندوںکی چہچہاہٹ…..غرض ہر سو نظارے دیکھنے اور سننے کی دعوت دیتے ہیں۔قرآن کریم زمین اور آسمان کے جلوں کا انتہائی دلنشین پیرائے میں ذکر کرتا ہے۔ سَبَّحَ لِلّٰہِ مَافِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ….(الحدید :۱)
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو زمین اور آسمانوں میں ہے-تاریخ میں ایسے واقعات سامنے آتے ہیں کہ بعض انسانوں کے سامنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی دعوت پیش نہیں کی گئی لیکن وہ قدر ت کے انہیں کرشموں کو دیکھ کر اپنی فطرت کی طرف لوٹ آئے اور اپنے حقیقی خالق کو پہچان لیا۔ ایک جاپانی خاتون کے قبول اسلام کے واقعہ میں یہی حقیقت عیاں نظر آتی ہے‘جب اس نے کہا:
I returned to Islam, the religion of our inborn nature
میں اسلام کی طرف لوٹ آئی‘ اس دین فطر ت کی جانب جس پر ہم پیدا ہوئے ہیں۔
غرض خدا کی بخشی ہوئی انہیں صلاحیتوں سے انسانوں نے اپنے خالق کو پہچانا ہے۔ جن لوگوں نے غیر اسلامی نظریے کو چھوڑ کر اسلامی نظریہ کواختیار کیا ہے‘ان کی کاوشوں کا یہی خلاصہ ہے:
Engaging in critical thinking and intellectual reasoning have led people to change their non Islamic faiths
لوگوں کا تنقیدی فکرکا حامل بننا اور عقل و دانش کا استعمال کرنا ہی ان کے غیر اسلامی عقائد میں تبدیلی کا سبب بنا ہے۔
قرآن مجید سے شخصی تعلق ‘ تمام فیوض و برکات سے استفادہ کے لئے راہیں ہموار کرتا ہے ۔ ایسے تعلق کےلئے کوشش بھی ہو اور لبوں پر دعا بھی جاری رہے –
اللّٰہُمَّ اجْعَلْـہُ لِیْ ٓ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً-
’’اے اللہ اسے میرا امام بنا اور نور‘ہدایت اور رحمت کا ذریعہ بھی۔ اور تمنا بھی ہو کہ یہ شخصی تعلق آخرت میں حجت کا ذریعہ بنے‘‘-
وَاجْعَلْـہُ لِیْ حُجَّـۃً یَّارَبَّ الْـعَالَمِیْنَ –
’’ اوراے دو جہانوں کے رب اس کتاب کو میرے لئے حجت بنادے‘‘۔
(۲) تلاوت اوراتباع
قرآن سے ایمانی تعلق‘ اس کی طرف رجوع کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ انسانی زندگی میں ہمہ جہت بہار ‘ قرآن سے وابستگی میں مضمر ہے۔ قرآن مجید سے وابستگی حسن و جمال کا ذریعہ ہے۔یہ حسن و جمال ہرفرد کو اتنا عزیز ہوکہ اس کےلئے اللہ کے سامنے ہاتھ اٹھنے چاہئیں:
اللّٰھُمَّ زَیِّنْ قُلُوْبِنَا بِتِلاَوَۃِ الْقُرْآن۔
’’ اے اللہ قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعہ ہمارے دلوں کو( اپنی اطاعت و فرمانبرداری کے جذبہ سے) مزین کردے ‘‘
اَللّٰھُمَّ جَمِّلْ بِہٖ وَجْھِنَا۔
’’اے اللہ اس کتاب کے ذریعہ ہماری شخصیتوں کو خوبصورت بنادے‘‘۔
یہی حسن و جمال فرد میں بالغ النظری‘ وسعت قلبی اور وسیع الفکری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
عِصْمَۃٌ لِّمَنْ تَمَسَّکَ بِہٖ۔
’’جو اس کتاب کو تھام لے اس کے لئے عزت وشان ہے‘‘
قرآن مجید سے تعلق کا تقاضا اس کی تلاوت ہے۔
اُتْلُ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ… (العنکبوت:۴۵)
’’جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے ‘‘۔
اس آیت کے ذریعہ پوری امت کو متوجہ کیا گیا کہ کتاب کی تلاوت کی جائے۔جب قاری ‘ اللہ کے کلام کے ساتھ اپنی آواز ملاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ ایک بامعنی سفر کی شکل میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ قرآن کا منشا و مدعا اور قاری کا قلب و ذہن ‘ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ پھر قرآن کریم سے رہنمائی ملتی ہے کہ عبادات کوکس خشوع وو خصوع سے ادا کرنا ہے ‘معاملات کو خوش اسلوبی سے انجام دینا ہے‘ رشتہ داریوں اور تعلقات کو احسن انداز سے استوار رکھناہے….. یہ سب الٰہی منصوبے کے تحت ہونے لگتا ہے۔ بشرطیکہ قاری کا قلب اللہ کے خوف سے لبریز ہو اور اس کا ذہن دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ عمل کا خواہاں ہو۔
تلاوت کا عمل ‘میدان عمل میں لازماً مصروف رکھے گا۔ اگر کوئی شخص قرآن کے پڑھنے کے باوجود حرکت و عمل کا خوگر نہ بنے تو اس کی تلاوت اس کے کسی کام نہ آئی۔ یہ تو اس کلام کا شاہکار ہے کہ اس کے نازل ہوتے ہی حرکت و عمل کے ایک لامتناہی سلسلہ کا آغاز ہوااور آج سارے جہاں میں اہل ایمان کی موجودگی اسی کا تسلسل ہے۔
إِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللہ أَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَأَنفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرّاً وَّعَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّن تَبُوْرَ۔ (الفاطر:)
’’جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیںاور نماز قائم کرتے ہیں‘اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ‘یقینا وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا۔ ‘‘
تلاوت سے عمل کا جذبہ ‘بے لوث نیت سے مربوط ہوجاتا ہے۔بے نفسی ‘عمل کی پہچان بن جاتی ہے۔عمل کرنے والا کبھی آپے سے باہر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا عمل اسے غرور و تکبر میں مبتلا کرتا ہے۔
فَمَنِ اہْتَدَی فَإِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہِ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَا أَنَا مِنَ الْمُنذِرِیْنَ۔ (النمل:۹۲)
’’ پس جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لئے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبردار کردینے والا ہوں‘‘۔
اللّٰہُمَّ ارْزُقْـنِـیْ تِلَاوَتَـہٗ ٰ اٰنَآئَ الَّـیْلِ وَ اٰنَآئَ النَّـھَارِ
’’اے اللہ مجھے یہ سعادت نصیب فرما کہ دن اور رات اس کی تلاوت کروں‘‘۔
(۳) قدر واحترام
جن چیزوں سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے‘ ضروری ہے کہ ان کے سلسلے میں وہ احترام کا رویہ اختیار کرے اور ایسا ماحول ہو جو اسے احترام سکھائے۔ سعادت مند اولاد والدین کا ادب و احترام کرتی ہے۔ وسائل ہوں تواسراف سے بچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ادب و احترام کا یہ رویہ اختیار کرنا مقصود ہے اور اگر اختیار نہ کیا جارہا ہو تو اس کی یاددہانی کرانا مطلوب ہے۔جب قرآن مجید سے ہدایت و رہنمائی لی جائے ‘اس کے ذریعے جنت کا حقدار بننے اور جہنم سے نجات پانے کی راہوں کا پتا لگالیا جائے تو اس کی حد درجہ قدر اور احترام ہونا چاہئے۔ سابق میں جو قومیں تباہ ہوئیں ان میں یہی ادب و احترام والی خصوصیت ناپید ہوگئی تھی۔ قرآن مجید نے جگہ جگہ ان کی تصویر کشی کی ہے کہ: وَمَا قَدْرُوْا اللہِ حَقَّ قَدْرِہٖ- (الانعام:۹۱) یعنی انہوں نے نہ ہی اللہ کی قدر کی اور نہ ہی اس کی کتاب کی۔نازل شدہ کتاب کو مسخ کرنے اور اپنی پسند کے مطابق اس میںتحریفات کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔
قرآن مجید کے احترام کے معنی محض آنکھوں سے لگانے اور طاقوں میں سجانے کے نہیں ہیں۔بلکہ حقیقی احترام یہ ہے کہ اس کی قدر کی جائے ‘ اس کا حق پہچانا جائے۔ بڑی خوش دلی سے تلاوت کی جائے۔خوب ٹھہر ٹھہر کر ترتیل سے پڑھا جائے۔حضرات صحابہ کرامؓ کا معمول تھا کہ جب کسی آیت کی تلاوت فرمایا کرتے تودرمیا ن میں کبھی تلاوت منقطع نہیں کرتے جب تک کہ وہ آیت مکمل نہ کرلیتے۔اور جب اللہ کاکلام سنایا جارہا ہو تو حکم ہے کہ :
فَاسْتَمِعُوْا لَہُ وَاَنْصِتُوا۔ (الاعراف:۲۰۴)
’’بڑی توجہ اور انہماک کے ساتھ سنا جائے اور خاموشی اختیار کی جائے ‘‘۔
کوئی اور مشغولیت اور کوئی اورسبب ‘ بے توجہی کا سبب نہ بنے۔ جب کبھی رسول اکرم ﷺ مسجد نبوی میں خطبہ کے دوران ارشاد فرماتے – یٰـآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰ امَنُوْا- یا – یٰـآ اَیُّھَا النَّاسُ- تو قریبی ہجرے میں موجود صحابیاتؓ اپنے کام کاج چھوڑ کر آپؐ کی طرف متوجہ ہوجاتیں۔ اس کتاب کی قدر میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جو کچھ اس سے پڑھا اور سمجھا جائے‘ اس کا جیتا جاگتا نمونہ بننے کی کوشش کی جائے۔زندگی کے نشیب وفراز میں ‘جس طرح کے مراحل بھی پیش آئیں ‘ بس لبوں پر یہ التجا جاری رہے:
اَللّٰٰـھُمَّ ذَکِّرْ نِیْ مِنْـہُ مَا نَسِیْـتُ-
’’ اے اللہ جو میںبھول جائوں اس کتاب کے ذریعہ میری یاددہانی فرما‘‘۔
وَعَلِّمْنِیْ مِنْـہُ مَا جَھِلْـتُ۔
’’ اورجب میں گمراہ ہوجائوں تواس قرآن عظیم سے میری تعلیم وتربیت فرما ‘‘۔
(۴) تدبر وتفکر
اجتماعی احساس بڑا خاص احساس ہوتا ہے۔ جو کام انفرادی طور سے انجام دیا جاتا ہے وہی اگراجتماعی صورت میں انجام دیا جائے تو اسکا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔عبادات کے جوطریقے بیان ہوئے ہیں‘ ان کی اصل مٹھاس اور لذت‘ اجتماعی التزام میں مضمر ہے۔ چاہے بات باجماعت نماز کی ہو کہ کعبہ کے طواف کی۔ صفا و مروا کے درمیان کی جانے والی سعی ہو یا عید گاہ کی جانب نماز عید کے لئے بڑھنے والے قدم ‘ ہر ایک عمل‘ اجتماعی حیثیت میں اپنی ایک الگ مٹھاس او ر مزہ رکھتا ہے۔ قرآن کریم انسان کی اسی فطرت کے مطابق قلب وذہن متاثر کرتا ہے۔ آیات پر غور و فکر سے ایک آفاقی احساس دل میں کروٹیں لینے لگتا ہے۔دل یہ سوچ کر جھوم جاتا ہے کہ جس خدا کی بندگی کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے اس کی تسبیح میں کائنات کا چپہ چپہ مصروف ہے۔ بات چاہے کہکشائوں کی ہو کہ سورج و چاند کی‘ سب کے سب ‘ اپنے رب کے باندھے ہوئے حساب کے پابند ہیں۔ لمحہ بھر کے لئے بھی کسی کی مجال نہیں کہ ضابطہ کی خلاف ورزی کرے۔ یہ کتاب توجہ مبذول کراتی ہے کہ دیکھو جس کتاب کو تھامے ہوئے ہو‘ جس کی آیات زبان سے ادا کرنے کا شرف حاصل کرر ہے ہو‘ وہ ایسے مدبر اور منتظم کی جانب سے نازل کردہ ہے جس کی حکمرانی ہر سو ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیز پر محیط ہے:
وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلاَّ یَعْلَمُھَا- (الانعام:۵۹)
’’ درخت سے گرنے والا کوئی پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو‘‘۔
دعوت غور و فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کو جو صلاحیتیں دی گئی ہیں‘ انہیں بروئے کار لایا جائے۔ آنکھوں کو نظر آنے والی تمام اشیاء کی جانب چاہے آسمان و زمین ہوں‘ ستارے و سیارے ہوں کہ لہلہاتے کھیت ‘ چاہے گرجنے والے بادل ہوں یا زمین پر چرندوپرند کی چلت پھرت‘ ہر ایک کی جانب یہ کتاب بڑے دل پذیر انداز سے متوجہ کرتی ہے۔کان ‘آنکھیں اور دل اسی غرض کے لئے دیئے گئے ہیں کہ ان کا استعمال کرکے منعم حقیقی کی مرضی جانی جائے۔ اس سے بڑی ناشکر اور کیا ہوگی کہ انسان قدر ت کے کرشموں سے کوئی سبق نہ لے۔
قرآن مجید انسانی قلب کو قلب سلیم بنانے کے لئے ماضی کے جھرکوں کا بڑا سبق آموز مشاہدہ کراتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کی حیرت انگیز باتیں جامع اور واضح انداز میں بیان کرتا ہے اور دعوت عام دیتا ہے کہ دنیا میں گھومنا پھرنا ‘ اسی مقصد کے لئے ہونا چاہئے۔ یہ دیکھنے ‘ سمجھنے اور جاننے کے لئے کہ دنیا میں بڑی بڑی قوموں اورطاقتور سلطنتوں کا کیا انجام ہوا؟کن قوموں کو کامیابی میسر آئی اور کون قومیں ذلیل و خوا ر ہوئیں؟ماضی کی انسانی تاریخ کے اوراق پیش کرنے کی بس یہی ایک قرآنی غرض ہے کہ سینے میں دھڑکنے والا قلب خدا کے آگے جھک جائے:
أَفَلَمْ یَسِیْرُوا فِیْ الْأَرْضِ فَتَکُونَ لَہُمْ قُلُوبٌ یَّعْقِلُونَ بِہَا أَوْ آذَانٌ یَّسْمَعُونَ بِہَا….(الحج:۴۶)
’’کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ ان کے دل سمجھنے والے اور ان کے کان سننے والے ہوتے‘‘
ایسا نہ ہوکہ قلب کی جگہ پتھر ہو جو نہ ماضی کے کسی واقعہ سے سبق لیتا ہے اور نہ حال کی کیفیت اس پر کوئی اثر ڈالتی ہے۔ قرآن مجید سے تعلق غور و فکر کےمعنی یہ ہیں کہ فکر ونظر قرآنی ہو۔ پانی کا برسنا‘ ایمان والی آنکھیں بھی دیکھتی ہیں اور ایمان نہ رکھنے والے آنکھیں بھی۔ ایمان والی آنکھوں کے لئے پانی کا برسنا‘ اللہ کی رحمت کا پرتوہے۔ جبکہ دوسری آنکھوں کے لئے یہ محض ایک سائنسی و کیمیائی عمل ہے۔قرآن مجید غوروفکر کا مزاج بناتاہے۔‘ یہ کتاب متوجہ کرتی ہے کہ دیکھو تمہارے اردگرد موجود کھارے پانی سے میٹھا پانی اللہ کی خاص قدرت کے تحت حاصل ہورہا ہے‘ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ آسمان سے پانی برسائے‘ اللہ تعالیٰ چاہے تو میٹھے پانی کو سخت کھارا کرسکتا ہے(الوقعہ:۶۸تا۷۰)۔ اس طریق بیان سے فرد کا مزاج بنتا ہے اسکا دل شکر گذار ہوجاتا ہے اور اس کے عمل سے اسراف نہیں چھلکتا۔
قرآن مجید پر تدبر و تفکر‘ ہدایت و راہنمائی کا ایک انتہائی اہم باب ہے۔ کان‘آنکھ اور دل جیسی نعمتوںکو بروئے کار لانے کی جانب توجہ دلائی جارہی ہے۔قرآن مجید پرتدبر وتفکر ‘ تلاوت کا حصہ بن جانا چاہئے۔ بغیر اس کے تلاوت ‘محض زبان سے الفاظ کی ادائیگی ہے۔ اس کے ذریعہ فرد میں احسن تبدیلی ممکن نہیں۔ یہ بالکل ایسے ہوگا کہ کھانا بنانے کی ترکیب کا صرف بیان ہو اور عملاً کوئی کام نہ ہو۔قرآن مجید پر غورو فکر اسی طرح تسلسل اور پابندی سے ہونا چاہئے جس طرح قرآن مجید کی تلاوت ہوتی ہے۔ بلکہ قرآن کی تلاوت کے بعد جو اثر قلب و ذہن پر مرتب ہوتا ہے‘ اسی کا تسلسل غور وفکر کے ذریعے دیر تک برقرار رہتا ہے ۔زمین وآسمانوں کی تمام چیزوں کا نظارہ‘قرآنی نظر سے ہونا چاہئے۔
الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّٰہَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّار(آل عمران:۱۹۱)
’’جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین اور آسمانوں کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ‘‘۔پروردگار یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے۔ تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے‘بس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے‘‘۔
(۵) خوف و طمع
انسانی زندگی خوف اور امید کامجموعہ ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز میں ‘کبھی انسان مختلف خدشات اور پریشانیوں سے دوچار رہتا ہے یا پھر اسے سکون ومسرت کی زندگی میسر آتی ہے۔قرآن مجید سے تعلق بھی خوف اور امید کے ملے جلے جذبات سے مطلوب ہے۔قرآنی آیات کی تلاوت سے دلوں میںخدائے بزرگ و برتر کی ہیبت چھا جانی چاہئے۔رب کی رحمتوں کا بیان ہو تو دلوں میں امیدیں جگنی چاہئیں۔اس کتا ب میںخدا کی بندگی بجالانے اور ہر مصیبت و آزمائش کے وقت ثابت قدم رہنے پر رب کی خاص رحمت کا ذکر کیا گیا ہے ۔ نافرمانی پر سخت وعیدسنائی گئی ہے۔انذار وتبشیر کے یہی وہ پہلو ہیں جو قرآن سے خوف و طمع کا تعلق قائم رکھنے اور دوسروں کو متوجہ کرنے کی اہمیت واضح کرتے ہیں:
وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لأُنذِرَکُم بِہِ وَمَن بَلَغَ- الانعام:۱۹
’’ اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ‘سب کو متنبہ کردوں‘‘۔
قرآنی آیات محض چند الفاظ نہیں جوزبان سے ادا ہورہے ہوں‘ بلکہ مدبر کائنات کا کلام ہے اگرانسان کے علاوہ کسی اور پر اترتا تو اس کا وجود ہی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ قرآن سے تعلق کا یہ پہلو متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔کہ جو اہل ایمان اس کتاب سے تعلق جوڑلیتے ہیں ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ جسم کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں۔بے اختیار سجدے میں گرجاتے ہیں۔آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔خشوع سے نماز ادا کرتے ہیں۔ رسول اکرمﷺ نے آداب تلاوت میں نصیحت فرمائی ہے کہ قرآن مجید پڑھتے وقت رونا چاہئے یا کم از کم رونی صورت بنانی چاہئے۔
قرآن مجید سے طمع کا تعلق‘ ایمان میںاضافہ کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ تلاوت آیات سے جذبہ ٔ عمل اور عمل سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔قرآن مجید نیک اعمال انجام دینے والوں کے لئے بے شمار بشارتیں دیتا ہے۔ اللہ نیک اعمال ضائع نہیں کرے گا۔ایک عمل کا دس گناہ اجر دے گا۔اور ہر ایک کو امید دلاتا ہے کہ اس کا آج چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہوکل بڑا شاندار ہوگا۔ دنیا میں بھلے ہی کچھ نہ ملے ‘آخرت میں جنت نعیم ہے۔
قرآن سے یہ تعلق ابلاغی تعلق (communicative relationship)ہونا چاہئے۔ ایسا محسوس ہو کہ قرآن کی تلاوت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا جارہا ہے۔ جہاں خوف دلایا جارہا ہے‘ جہاں اللہ کے مغضوب بندوں کا ذکر کیا جارہا ہے اور جہاں عذاب جہنم کی وعید سنائی جارہی ہے‘ وہاں فوری اللّٰھُمَّ لَا تَجَعَلْنَا مِنْھُمْ (اے اللہ ہمیں ان میں شامل نہ فرما) کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہئے۔اور قرآن مجید میں جہاں اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کا ذکر کیا جارہا ہو‘نعمتوں بھری جنت کا تذکر ہ ہورہا ہو‘وہاں(اے اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں شامل فرما)کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بننا چاہئے۔
(۶) تقویٰ
انسانی مشاہدے میں خدا کی جو نشانیاں آتی ہیں‘ وہی دل میں تقوی پیدا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ تقوی کے فروغ کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی پیدائش سے لے کر کائنات کی وسعتوں تک موجود اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے سبق لے۔ قرآن مجید کے ابتدا ہی میں واضح کردیا گیا کہ اس کتاب سے ہدایت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوگی جو متقی ہوں گے۔قرآن مجید میں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْن کا ذکر مختلف پیرائوں میں ملتا ہے۔اس کے مخاطب اہل ایمان بھی ہیں اورسارے انسان بھی۔جب ا س کے مخاطب انسان ہوں تو تقویٰ کے مطالبات بالکل ابتدائی مرحلہ میں ہوںگے۔مختلف زمانوں میں اللہ کے رسولوں نے یہی مطالبہ اپنی قوم کے لوگو ں سے کیا تھا۔ قرآن مجید نے اِذْقَالَ لَھُمْ اَخُوْہُمْ (جبکہ ان کے بھائی نے ان سے کہا تھا- الشعراء:۱۰۹)کے الفاظ کے ساتھ حضرت نوحؑ ‘ حضرت ھودؑ ‘ حضرت صالح ؑ ‘ حضرت لوطؑ اور حضرت شعیبؑ کا ذکر کیا ہے جنہوں نے اسی تقویٰ کا مطالبہ اَلاَ تَتَّقُوْنَ (کیا تم ڈرتے نہیں ہو) سے دعوت کا آغاز کیا ہے۔
آفاق و انفس کی بے شمار نشانیاں ہمارے اطراف میں موجود ہیں ۔انسان اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ سورج روزانہ صبح سویرے طلوع ہوتا ہے اور شام غروب ہوجاتا ہے۔ لہٰذا آفاق کی نشانیاں ‘ ان کا وجود اور عجائبات‘ دل رکھنے والے انسانوں پریہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ انہیں بھی ایک دن زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے موت کے مرحلے سے گزر کر اپنے رب سے ملاقات کرنی ہے۔
قرآن مجید سے تقوی کی بنیاد پر تعلق ‘اہل ایمان کی ایمانی مضبوطی‘ ثابت قدمی اور اولوالعزمی کا اظہار ہے۔درخت کے پروان چڑھنے اور پھل پھول دینے میں پانی اور کھاد کا جو رول ہے‘ قرآنی آیات بندۂ مومن کے دل میں تقویٰ کی پرورش کے لئے ویسا ہی کردار ادا کرتی ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت اورعمل کا جذبہ ‘خدا سے محبت میں اضافہ کا ذریعہ بنتا ہے۔
خُذُواْ مَا آتَیْنَاکُم بِقُوَّۃٍ وَاذْکُرُواْ مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون (الاعراف:۱۷۱)
’’جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامو اور جو کچھ اس میں لکھا ہے اسے یاد رکھو‘ توقع ہے کہ تم غلط روی سے بچے رہو گے‘‘۔
اس آیت میں یہی درس پنہاں ہے۔
(۷) موعظت
قرآن اپنے ماننے والوں کو باربار متوجہ کرتا ہے کہ اس سے تعلق نصیحت حاصل کرنے کے لئے استوار کریں۔ اس سلسلہ میں بنیادی وضاحت یہ کی جاتی ہے کہ اس میں آسانیاں ہیں۔ آسان انداز سے باتیں بیان کی گئی ہیں۔ سمجھنے کی پوری قابلیت انسان کو دی گئی ہے۔گویا ہزاروں میل کےسفر کا مطالبہ ہے لیکن ساتھ ہی شاندار سواری بھی دی گئی ہے۔ اس صورت میں ہزاروں میل کا سفر ‘دشوار محسوس نہیں ہوتا۔باتیں آسان اس لئے ہیں کہ ہر ایک فرد سے اس کی استطاعت کے مطابق مطالبہ کیا گیا ہے۔ قدر ت سے بڑھ کراور سکت سے پرے کوئی تقاضہ نہیں۔جب احکامات پیش کرنے کا انداز بھی آسان ہواور مطالبات بھی آسان ہوں تو ہر انسان کو اس سے لازماً نصیحت حاصل کرنی چاہئے۔ اوریہی بات اس کتاب کے تعارف میں بھی ہے:
یٰـآ اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَائَ تْکُمْ مَؤْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ۔ (یونس:۵۸)
’’اے لوگوتمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آگئی ہے‘‘۔
قرآن کی سب سے بڑی نصیحت خدا کو پہچاننا‘اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔ پھر عبادات اور معاملات سے متعلق نصیحتیں ملتی ہیں۔بطور خاص اخلاق کے ضمن میں جو تفصیلات درج ہیں‘ وہ قرآنی نصیحت کی شاہکار کہی جاسکتی ہیں۔ مثلاً سورہ المومنون‘سورہ الفرقان‘ سورہ لقمان اور سورہ الحجرات میںعمدہ پیرائے میں موعظت کا سامان موجود ہے۔بات چاہے نجی معاملات کی ہو کہ اجتماعی مسائل کی‘ فرد کا ارتقاء ہو یا معاشرہ کی تعمیر‘ ہر ضرورت کے تحت یہ کتاب مثبت جواب دیتی ہے۔چنانچہ نصیحت حاصل کرنے کے سلسلہ میںـ بہ تکرار ارشاد فرمایاگیا :
وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ۔ (القمر:۴۰)
’’اور ہم نے اس کتاب کو آسان بنادیا پھر کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا‘‘۔
(۸) راہنمائی
قرآن مجید کی راہنمائی ‘ ایک بتدریج عمل ہے‘جو مرحلہ بہ مرحلہ گزرتے ہوئے مکمل ہوتی ہے ۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص کتا ب کی تلاوت کررہا ہے لیکن جب کان ‘آنکھیں اور دل متوجہ ہوں تو بلاشبہ اس کا عمل اسی کی تصدیق میں کرے گا ۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن۔ یعنی آیات سے دل متاثر ہوتا ہے اور عمل سے اس کاا ظہار۔مومنین کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اللہ – سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر سنتے ہیں۔اس کا دل پر اثر یہ ہے کہ- وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ – تو ان کے دل لرز جاتے ہیں۔پھر کہا گیا – وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ – اور جب اللہ تعالیٰ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں۔اس کا دل پر اثر یہ ہے کہ – زَادَتْہُمْ إِیْمَاناً – تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔اور من جملہ عمل کی کیفیت یوں ظاہر ہوتی ہے۔ وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (الانفال:۲) – اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
اللہ کو یاد کرنے والے اور اس پر بھروسہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ جب مرحلہ جنگ کا ہواور دشمن جھوٹے خدائوں پرفخر کررہا ہوتو وہ کہتے ہیں کہ اللہُ مَوْلَاناَ وَلَا مَوْلَالَکُمْ (اللہ ہمارا ساتھی اور مددگار ہے تمہار ا کوئی ساتھی اور مددگار نہیں) ۔ یا حالات انتہائی ناسازگار ہوں اور چاروں طرف سے بندشیں ہو ں تو زبان سے اللہ پر توکل کے کلمات جاری ہوجاتے ہیں لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہ مَعَنَا۔(التوبہ:۴۰)۔غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
قرآن مجید سے تعلق ہدایت وراہنمائی کے حصول کے لئےہو تو اس کتاب سے استفادہ بڑھ جاتا ہے۔ کتاب سے رجوع بالکل فطری روش ہوجاتی ہے۔ بھوک وپیاس مٹانے کے لئے جس طرح دسترخوان سے رجوع کیا جاتا ہے اسی طرح دن بھر کی الجھنوں‘ سماجی مسئلوں اور انسانی دشواریوں کا حل قرآن مجید سے معلوم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔قرآن کی تلاوت‘ ایک مشینی حرکت میکانکل پراسس نہیں بلکہ ایک حقیقت پسندانہ عمل بن جاتا ہے۔ یہی وہ مطلوب رویہ ہے جس کی تعریف میں کہا گیا ہے کہ وہ حق تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں۔بے شمار مسائل تھے‘ راہنمائی کے محتاج تھے‘ کتاب کی تلاوت کی اورحل مل گیا۔راہنمائی اس وقت بہم پہنچتی ہے جبکہ عمل کیا جائے۔ دستر خوان پر چاہے کتنی ہی اچھی غذائیں ہوںانہیں صرف دیکھتے رہنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔ قرآن کریم بنیادی طور سے راہنماکتاب ہے‘ اس میں نہ صرف عمل کی وسعتیں ہوں گی بلکہ محرکات کا بھی بیان ہوگا اور ترغیب وترہیب بھی۔
إِنَّ ہَـذَا الْقُرْآنَ یِہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَہُمْ أَجْراً کَبِیْراً ۔ (بنی اسرائیل:۹)
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے ‘جو لوگ اسے مان کر نیک کام کرنے لگیںانہیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے‘‘۔
قرآن مجید عمل کی ایک ایسی شاہراہ پیش کرتا ہے جس کی گوناں گوں خاصیتیں ہیں۔ یہ شاہرہ سیدھی ہے‘ اس پر چلنے میں زحمت نہیں ہوگی‘ اس شاہرہ کا ایک سرا دنیا میں ہے تو دوسرا سرا آخرت میں جاملتا ہے‘اس پر سفردنیا اور آخرت کی بھلائی یقینی کردیتا ہے۔ اگر قرآن مجید سے راہنمائی لینے کا معاملہ معدوم ہوجائے تو سوائے ذلت کے کچھ ہاتھ آتا نہیں- مَنِ ابْـتَـغَی الْـھُدَیٰ فِیْ غَیْرِہٖ اَضَلَّـہٗ اللہ- جو کوئی قرآن کے بغیر ہدایت ور ہنمائی تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی ( ترمذی)۔
(۹) عدل و قسط کا قیام
قرآن سے تعلق نہ صرف راہنمائی کے لئے ہو بلکہ حاصل ہونے والی قرآنی بصیرت اور راہنمائی سے اطراف و اکناف کے ماحول میں تبدیلی بھی عین مطلو ب ہونی چاہئے۔گویا قرآن سے تعلق کے جو آٹھ نکات بیان ہوئے ہیں‘ ان پر بھرپور توجہ‘ عدل وقسط کے قیام اور بندگان خدا کو دعوت دینے کا محرک بننی چاہئے۔
قرآن کا نزول اس لئے ہوا کہ انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لایا جائے۔ رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے کہ اس کتاب میں ہمارے ہر طرح کے مسائل کا حل موجود ہے ‘ معاشرہ میں عدل و قسط کاقیام ‘ قرآنی راہنمائی کا ایک ایسا پہلو ہے جو فرد کے جذبۂ عمل و فکر سے تعلق رکھتا ہے۔قرآنی تعلیمات‘ انسان کو انسان بنانے‘ اور اس کے معاشرہ کو عدل وقسط‘امن وانصاف‘ ترقی و خوشحالی سے مزین کرنے کے لئے ہیں۔یہ کتاب مراسم عبودیت کا جہاں دل نشیں پیرائے میں ذکر کرتی ہے وہیں انسانی معاشرہ کو حق و صداقت‘انسانی عظمت کی بحالی اور امن و ترقی کا گہوارہ بنانے پر زور دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جو احکامات صادر فرمائے ہیں‘ ان میں سے ایک معاشرہ میں عدل و قسط کے قیام سے متعلق ہے۔ یعنی اللہ کا حکم ہے کہ عدل اوراحسان کا رویہ اختیار کیا جائے اورقرابت داروں کاحق ادا کیا جائے نیز فحش ‘منکر اور بغی سے اجتناب کیا جائے(النحل:۹۰)۔ایک مثالی معاشرہ کی تعمیر کیلئے ان چھ نکات سے زیادہ اہم کوئی اور لائحہ عمل نہیں ہوسکتا۔قرآن مجید کی تلاوت‘ ایک صالح معاشرہ کی تعمیر کے پیش نظر بھی ہونی چاہئے۔ اس کا لائحہ عمل‘ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ کہا گیا کہ اللہ کے نیک بندوں کوزمین میں اختیار دیا جائے تو وہ بھلائی کا حکم دیں گے اوربرائی سے روکیں گے۔کہیں ضعیف اور کمزور لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی طرف توجہ دلائی گئی۔کہیں یہ ترغیب دی گئی کہ اگر ایمان اوراعمال صالحہ کا اہتمام ہو تو زمین میں اقتدار دیا جائے گا تاکہ اصلاح کاکام اور بڑے پیمانے پر کیا جاسکے۔ پھرقرآن حکیم یہ بھی توجہ دلاتا ہے کہ دیکھو جس زمین پر تم رہتے ہو اس کو فساد سے پاک کردیا گیا ہے لہٰذا زمین پر فساد پھیلانے کی کوششوں کو ناکام کردو۔ اللہ تعالیٰ مصلحین کو پسند فرما تا ہے اور فسادیوں کو سخت ناپسند کرتا ہے۔
(۱۰) دعوت
قرآن مجید پرتدبر اور غور وفکر ‘ اس کی تعلیمات پر عمل‘ لازماً سارے معاشرہ کو قرآن کے سایے تلے لانے کاسبب بننا چاہئے۔دعوت حق کےلئے تگ ودو‘ اعمال صالحہ کی انجام دہی کا لازمی نتیجہ ہونا چاہئے ۔ اللہ کی کبریائی وعظمت کا بیان ‘ بندگان خدا کے سروں کو خدا کے درپر جھکانے کی تڑپ اوربہ بانگ دہل حق کے اظہارکا جذبہ ‘ قرآن مجید سے تعلق کے سبب روز افزوں ترقی کرتا رہنا چاہئے:
…فَذَکِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن یَّخَافُ وَعِیْدِ۔ (ق: ۴۵)
’’پس تم اس قرآن کے ذریعہ سے ہر اس شخص کو نصیحت کردو جو میری تنبیہ سے ڈرے‘‘۔
کاردعوت ہی کار خیر ہے۔اچھی بات ‘ بس اس شخص کی ہے جو اللہ کی طرف بلائے۔راستے کے سچے اور سیدھے ہونے کا یقین و اعتماد بس اسی وقت ظاہر ہوسکتا ہے جب بندہ ٔ خدا‘ بندگان خدا کو‘خدا کی طرف متوجہ کرنے کیلئے دل کی عمیق گہرایوں سے صدا لگاتا ہے۔روشنی میں ہونے کا بین ثبوت بھی یہی کار دعوت ہے۔دعوت‘ اللہ کی بزرگی اوربڑائی کا اعلان ہے۔قرآن سے دعوتی تعلق ‘ہر طرح کے تعلق کا گویا تتمہ ہے۔ معاشرہ میں عدل و قسط کے قیام کی کوششوں سے متعلق جو احکامات دیئے گئے ہیں وہ اسی کار دعوت کا حصہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو لوگوں کے درمیان معروفات کے فروغ اور منکرات کے ازالہ کا کام انجام دیں۔ اُدْعُ إِلِی سَبِیْلِ رَبِّکَ… (النحل:۱۲۵)- اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو دعوت دو- کا حکم ہر مسلمان کے لئے اتنا ہی اہم ہونا چاہئے جتنا کہ نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے کا حکم ہے۔
رسول اکرمﷺ کی تین سالہ خاموش دعوت کے بعد ہدایت کی گئی فَاصْدَع بِمَا تُؤْمَرُ … (الحجر:۹۴)- پس اے نبیؐ جس چیز کا تمہیں حکم دیا جارہا ہے اسے ہانکے پکارے کہہ دو-یہ اعلان‘ بڑے پیمانے پر دعوت عام کامحرک بنا‘ دنیا کے طول وعرض میں توحید کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ آج کی فضادعوتی کوششوں کے لئے بڑی سازگار ہے۔ان کوششوں میں وسعت ہوتو انسانی مسائل حل ہوسکتے ہیںاور ایک صالح معاشرہ کی تعمیر ممکن ہے۔
قرآن مجید کا مطالعہ اس نقطہ نگاہ سے ہوکہ انسانوں کے سامنے دین اسلام کی دعوت کیسے دی جائے۔ اِن سوالات کا جواب تلاش کیا جائے کہ اِنسان کی حقیقت کیا ہے؟کیا وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کوجان سکتا ہے؟کیا قرآنی تعلیمات سے اس کا قلب مطمئن ہوسکتا ہے؟خدا ایک ہی کیوں ہے؟ رسالت کس بنا پر انسانوں کی ضرورت ہے؟ مرنے کے بعد دوبارہ کیسے اٹھایا جائے گا؟ باطل خدائوں کی حقیقت کیا ہے؟انسان کے حقیقی مسائل کیا ہیں ؟ انسانی مسائل کا حل دین اسلام کیسے پیش کرتا ہے؟ معاشرہ کی تعمیر میں دین کا کیارول ہے؟ اِنسانی سماج کے لئے امن و ترقی کے کیا راہنما اصول ہیں؟
کتاب ہدایت اور راہنما ملت
قرآ ن سے تعلق کے اور جامع طریقے قرآن و حدیث سے واضح ہوتے ہیں۔دیکھنا یہ چاہئے کہ جب قرآن سارے انسانوں کی راہنمائی کے لئے نازل ہوا ہے‘ اور مسلمان اس سے راہنمائی حاصل کرنے والے اور راہنما بناکر بھیجے گئے ہیں تو پھر کیوں انسانی معاشرہ امن و سکون کے لئے بے نظرآتا ہے؟ کیوں انسان اس ترقی یافتہ دور میں بھی بے مقصد زندگی گزارنے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہے؟ کیو ں جاہلانہ رسوم و رواج کا چلن عام ہے ؟ اونچ نیچ اور چھوت چھات کیوں انسانی عظمت کی بحالی میں رکاوٹ محسوس ہوتے ہیں؟کیوں آج بھی خواتین کے حقوق ان کو نہیں ملتے؟کیوں انسانی مسائل حل طلب رہ گئے ہیں؟اورکیوں ملت میں انتشار نظر آتا ہے؟۔ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانی مسائل کے حل اور مثالی معاشرہ کی تعمیر کے لئے قرآن مجید پرغور وفکر اور عمل کاماحول پروان چڑھایا جائے اورقرآنی آیات کے انطباق کو یقینی بنانے کی منصوبہ بند کوشش کی جائے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2014