قرآن حکیم، سیرت رسول و سیرت خلفاء راشدین اور قائدین تحریکات اسلامی کے تجربات کی روشنی میں سوچ اور فکر میں ارتقاءکی ضرورت ہے۔ اسلام اورمسلمانوں کے مفاد کی خاطر جمہوری اور سیکولر فضا کو باقی اور برقراررکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ ہم خود اپنے اصولوں پر قائم رہ سکیں اور آزاد فضا میں اپنی بات کو بندگانِ خدا اور باشدگان ملک تک پہنچاسکیں۔
غور و فکر کے چند اہم پہلو درجِ ذیل ہیں:
ملک کی خصوصیات
ہمارا ملک ہندوستان ایک بڑا برصغیر ہے۔ کئی مذاہب کے ماننے والے، کئی زبانیں بولنے والے اور مختلف تہذیب و کلچر کے حامل علاقوں میں شہری بستے ہیں۔ خود مسلمانوں کے اندر کئی چیزوں میں فرق نظرآتا ہے۔ شمالی ہند، اترپردیش اور بہار کے مسلمانوں اور کیرلا، تمل ناڈو اور بنگال کے مسلمانوں کی زبان ، رہن سہن اور کلچر میں یکسانیت نہیں ہے۔ لباس، رہن سہن، شادی بیاہ اور کلچر میں کافی تفاوت ہے۔
کسی نے صحیح کہاہے کہ ہمارا ملک United State of India ہے اور دستوری لحاظ سے بھی اس کاڈھانچہ وفاقی ہے۔ اس لئے تنظیم کو چند ضروری اہداف کو مرکز ی حیثیت دے کر ریاستوں کو صوبائی ضرورتوں کے لحاظ سے کام کرنے کی پوری آزادی دینی چاہیے۔
فقہ الاقلیات
شہریت کے حقوق اور اقلیتوں کے لیے خصوصی مراعات دستور نے دیے ہیں اس کو حاصل کرنے اور طلب کرنے میں ہم پیش پیش رہتے ہیں۔ اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا شہریت کے جو فرائض ہیں اس پر عمل درآمد میں بھی ہم دلچسپی دکھاتے ہیں؟
ملک کے موجودہ حالات میں فقہ الاقلیات کا مطالعہ، جائزہ اور اس پر عمل درآمد ہمارے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ہزاروں، لاکھوں مسلمانوں نے غیرمسلم ممالک کی رہائش اختیار کرلی۔ ان کے سامنے یہ مسائل کھڑے ہوگئے کہ وہ بیک وقت اپنے دینی و اسلامی تشخص کو برقرار بھی رکھیں اور ان ممالک کے دیے گئے بنیادی حقوق بھی حاصل کرسکیں۔ اس نئی صورت حال میں مسلم علماء نے جن میں یوسف القرضاوی ، جمال الدین عطیہ اور صلاح سلطان شامل ہیں۔ ان پر غور کیا اور فقہ الاقلیات کو فروغ دیا۔ ہمارے ملک میں بھی اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ملت اسلامیہ اپنی جاذب نظر شناخت پیدا کرے اور اکثریت کو یہ محسوس ہو کہ یہ ملت نہ صرف اپنے مذہب پر عامل ہے بلکہ ہندوستانی سماج کے تناظر میں سماجی مساوات، حب الوطنی، معاشی عدل وانصاف اور جمہوری نقطہ نظر کی قائل ہے۔
غیرمسلموں سے تعلقات
غیرمسلم مرد وخواتین کے ساتھ روابط کی بڑی اہمیت ہے۔ ماضی کے تلخ تاریخی عوامل اور تقسیم ملک کے ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے یک گونہ دوری کی کیفیت پائی جاتی ہے اسے ختم کرنے کی موثر اور منصوبہ بند کوشش کی ضرورت ہے۔ قرآن وحدیث اور ہماری تاریخ سے ایسے مثالی نمونوں کو اجاگر کرنے ، اسے عام کرنے اور پھیلانے کا پروگرام بنانا ہے۔ خوشی اور غمی میں شرکت اور عام انسانی روابط میں گرم جوشی کو عام کرناچاہیے۔ نبی کریم نے اپنے مختلف کاموں کے لیے غیرمسلموں سے استفادہ کیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے یہودیوں کی مدد زکوٰۃاور بیت المال سے بھی کی ہے۔فقہا نے قربانی کے گوشت کو غیرمسلموں میں تقسیم کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
اسلامی شریعت میں غیرمعمولی توسع، انسانیت نوازی اور وسیع النظری پائی جاتی ہے۔ ایک شخص اپنی ایک تہائی جائداد کی وصیت کسی کے بھی حق میں کرسکتا ہے۔ وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو۔ جو لوگ دامن اسلام میں آرہے ہیں ان کے لیے اپنے خونی رشتہ داروں سے روابط کو باقی رکھنے اور آئندہ دین رحمت کے قبول کرنے کا یہ ذریعہ بن سکتا ہے۔ ام المومنین حضرت صفیہ خیبر کے ایک یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور وہ اپنے غیرمسلم رشتہ داروں سے ہمیشہ صلہ رحمی کرتی رہیں۔ وفات سے پہلے وصیت فرمائی کہ ان کے ترکہ میں سے ایک تہائی حصہ ان کے غیرمسلم بھانجے کو دیاجائے۔
غلط فہمیوں کا ازالہ
اس ملک پر مسلمانوں نے برسوں حکومت کی اس کے باوجود آج بھی غلط فہمیاں موجود ہیں۔ اس میں کوتاہی ہماری ہے۔ مسلمانوں نے مقامی تہذیب وثقافت ، مذہب و معتقدات اور ذہنی سطح کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ سنسکرت اور پالی زبانوں کو دیکھ کر ان کے ماخذ سے ان کے مذہب کو جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی تہذیب اور ان کا تمدن کیاہے۔ اچھائی اور برائی کے سلسلہ میں ان کا معیار کیاہے اسے جاننے کی جستجو نہیں کی۔ جب تک ان فاصلوں کو پاٹا نہیں جائے گا دین رحمت کی قولی و عملی شہادت کا فریضہ کیسے انجام دیا جاسکتا ہے۔
خواتین کا رول
خواتین نصف انسانیت ہیں۔ اسلام نے انھیں چودہ سوسال پہلے وہ حقوق عطا کیے ہیں جس کا تصور آج بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ حضرت خدیجہ تجارت کرتی تھیں ، ان کا مال لے کر خود نبی کریم ﷺ نے تجارت کے لیے بیرون ملک کا سفر کیا ہے۔ ہجرت مدینہ کے بعد آپؐ نے سوق المدینہ (مدینہ مارکیٹ) قائم کیا اس میں خواتین تاجروں کے لیے الگ جگہ بنائی جن میں خولہ، اسماء بنت محربہ وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ اسی طرح مارکیٹ کی نگرانی کے لیے بھی محتسب مقرر کیے، ان میں بھی وہ شامل تھیں۔ مثلاً ثمرہ بنت اور شفا بنت عبداللہ۔ حضرت ام سلمہ کی فراست و بصیرت کی مثال یہ ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع آپ کے مشورہ پر عمل کرکے آپؐ نے قربانی میں پہل کی اور حلق فرمایاتو پھر صحابہ کرام جو اس فیصلہ سے دل برداشتہ تھے اس کی تعمیل کی۔ ہجرت حبشہ کی پوری روداد بھی ام سلمہ ہی سے مورخین نے نقل کی ہے۔ تعلیم کے میدان میں حضرت عائشہؓ کا نام لیا جاسکتا ہے جن سے محدثین و علماء نے استفادہ کیا ہے لیکن آج ہمارے سماج میں خواتین کا رول وہ نہیں ہے جو کہ دین حنیف انھیں عطا کرنا چاہتا ہے۔
نکاح کے آسان نہ ہونے، جہیز ورسومات کی بھرماراور متعدد مواقع پر طلاق و خلع اور اس کے بعد نان و نفقہ کے سوال نے بڑے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ حال میں کیرلا ہائی کورٹ میں اسلام کے قانون وراثت کو چیلنج کیاگیاہے کہ مرد کو کیوں دگنا حصہ ملتا ہے اور عورت کو کیوں صرف ایک حصہ۔ بغیر شادی و نکاح کے مرد اور خواتین کے ساتھ رہنے کو بھی سپریم کورٹ نے تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ بغیر نکاح پیدا ہوئے بچوں کے لیے بھی میراث میں حصہ داری ہے۔ ان حالات کی روشنی میں خواتین کے سیاق میں ایک نئے لائحہ عمل کی تیاری کی ضرورت ہے۔
خواتین کے معاشرتی اور خانگی مسائل کے حل کے لیے کونسلنگ سنٹرس کے قیام اور آسان نکاح کے اہتمام کو اہمیت کے ساتھ اپنے ایجنڈا میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
معیشت ومالیات
آج کی دنیا میں معیشت و تجارت اور مالیات نے بڑی اہمیت حاصل کرلی ہے۔ گزشتہ تین چار عشروں سے عالمگیریت ، گلوبلائزیشن اور بین الاقوامی تجارت کا دور دورہ ہے۔
نامور اسلامی ماہر مالیات جناب محمد عمر چھابرا نے ’’اسلامی معاشیات میں مولانا مودودیؒ کی خدمات‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ جماعت کی جدوجہد اور عملی پروگرام میں اقتصادی اصلاح و ترقی کو مناسب حد تک اہمیت نہیں دی جاسکی۔ بلاشبہ جماعت نے آئین کو اسلامی بنانے کے لیے بہت سی باثمر مہمات چلائی ہیں لیکن غریبوں کی حالت میں بہتری، بدعنوانی کے خاتمے، ملکیت زمین سے متعلق اصلاحات، غربا کی پسماندگی کے ازالے اور مالیاتی پالیسی کی تعمیر نو کے حوالے سے دور رس اثرات کی حامل شاید ہی کوئی تحریک چلائی ہو۔ حالانکہ ان مسائل کی اہمیت ایک اچھے آئین سے کم نہیں ہے۔ اگر عوامی خدمت پر مبنی متذکرہ مسائل کے حل کے لیے تحریک چلائی جاتی تو اس کااثر دیرپاثابت ہوتا۔‘‘
رزق حلال اور تخلیقِ دولت (Creation of Wealth) کے لیے تجارت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان زیادہ تر Self Employed ہیں، (نجی کاروبارمیں مصروف ہیں) انھیں نئے کاروبار اورہنرمندی کے انداز اور طریقوں سے آگاہی اور مارکیٹ تک پذیرائی کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری ہے۔
مائیکرو فائنانس
معمولی بچت کو جمع کرکے نفع بخش آمدنی کے ذرائع میں تبدیل کرنا آج غربت کے ازالہ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کاایک مؤثر ذریعہ قرار دیاجارہا ہے۔ ڈاکٹر عبیداللہ صاحب (اسلامک ڈیولپمنٹ بنک جدہ) اسلامی مائیکروفائنانس کے بین الاقوامی شہرت کے حامل ماہر ایکسپرٹ شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ اِس واقعے کی طرف توجہ دلاتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ایک صحابی کی چادر اور پیالہ کو نیلام کرکے انھیں کلہاڑی خریدکر دی اور جنگل جاکر لکڑیاں کاٹ کر بازار میں فروخت کرکے رزق حلال فراہم کرنے کی تلقین کی۔ انہوںنے اِس واقعے کو اسلامی مائیکروفائنانس کی بنیاد قرار دیا ہے۔
پورے ملک میں اسلامی مائیکروفائنانس کو پھیلانے کی ضرورت ہے، سہولت مائیکروفائنانس، جن سیوا، الخدمت، الخیر اور جنوب ہند کے کئی علاقوں میں بلاسودی کریڈٹ سوسائٹیوں کا قیام خوش آئند ہے لیکن شمالی ہنداس سے خالی نظر آتاہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر گائوں اور اس کے ہر محلّے میں اس قسم کی کوششوں کاآغاز کیاجائےاور سماج کے غریب طبقہ کو اونچا اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ ترجیحات میں اسے شامل کیاجائے۔
ہمارے سماج میں روزہ، نماز اور حج کا تو بہت چرچا ہے لیکن زکوٰۃ کا شاذو نادر ہی ذکر ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو زکوٰۃ ادا کرتے ہیں انفرادی طورپر اس پر عمل کرتے ہیں جس سے زکوٰۃ کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ شہر کے ہر محلہ میںاور گائوں کی سطح پر اجتماعی نظم زکوٰۃ کا اہتمام کیاجائے اور اس کے علاوہ محلوں کا سروے کرکے Data Bank فہرستیں تیار کرکے حاجت مندوں کی مدد کی جاسکتی ہے۔ ملائشیا اور سائوتھ افریقہ کے طرز پر ہندوستان میں غریبوںکو دوحصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔ وہ غریب جو کسبِ معاش نہیں کرسکتے( Unproductive Poor ) جو مستقل امداد کے مستحق ہیں اور وہ جنھیں رقم دے کر اپنے چھوٹے کاروبار قائم کرنے، کسی مشین کوخریدنے یا ہنرمندی کے کورس میں داخلہ لینے پر آمادہ کیاجاسکتا ہے۔
کیامائیکرو فائنانس اور زکوٰۃ کے فنڈ میں غیرمسلم برادران وطن کو بھی شامل کیاجاسکتا ہے۔ اس پر غور کرنےکی ضرورت ہے۔ بنکاری آج انسان کی ایک اہم ضرورت بن گئی ہے لیکن پورا نظم سود ، سٹہ اور ظلم واستحصال کی بنیادپر قائم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی سرمایہ کاری اور بنکاری کے قیام کی منصوبہ بند کوشش کی جائے۔ اس مالیاتی نظام رحمت کے تعلق سے بیداری پیداکی جائے اور اس کی ضرورت اور افادیت کو باشندگان ملک اور ملک کے ذمہ داروں کے سامنے پیش کیاجائے۔ ملک کے بینکنگ قوانین میں ترمیم کرکے اس کے قیام کوشش کی جائے۔الحمدللہ انڈین سنٹر فاراسلامک فائنانس اور دیگر اداروں نے اس ضمن میں قابل قدر کوششیں کی ہیں۔ اسی طرح جان ومال کی حفاظت اور صحت و معالجہ کے لیے انشورنس کے بجائے تکافل کے قیام کی کاوش بھی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔
میڈیا
آج پرنٹ، الیکٹرانک اور شوشل میڈیا رائے عامہ میں بڑا موثر کردار ادا کررہا ہے۔ حالیہ الیکشن میں مسٹر مودی کی کامیابی کاسہرا میڈیا میں ان کے ’نام، کام اور کاز‘ کو بہتر انداز میں پیش کرنے کا نتیجہ سمجھاجارہا ہے۔ تربیت یافتہ ترجمان مرد وخواتین کے ذریعے مباحث میں بات کو دلائل ، اعتماد اور حوصلہ کے ساتھ پیش کرنے اور ’ٹوئٹر‘ اور ’فیس بک‘ کو وسیع پیمانہ پر استعمال کرنے کا فن سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں دورِ نبویؐ کے نظائر پر بھی ہماری نظر ہونی چاہیے۔ سیرت نگار مارٹن لنکس نے اپنی مشہور کتاب حیات محمدؐ میں حضرت جعفرؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے:’’ مہاجرین کو ان کی جانب سے ایک بولنے والے کی ضرورت تھی اور جعفر ایک خوش گفتار شخص تھے اور ان کی شخصیت میں بڑی جاذبیت تھی۔ جعفر ہی کو آپ نے مہاجرین کا امیرمقرر فرمایا تھا۔‘‘
یہ ستم ظریفی ہے کہ پورے ملک میں مسلمان گنتی کے چند افراد بھی تیار نہیں کرسکے جو باشندگان کے سامنے اپنے نقطہ نظر کو موثر طورپر پیش کرسکیں، یہ کام پِتّہ ماری اور ریاض کا ہے۔ اب تک اس کی اہمیت کا احساس ہمارے اندر نہیں ہے۔ خواتین کے مسائل پر مسلمانوں کی نمائندگی وہ خواتین کرتی ہیں جو مغرب زدہ اور آزاد خیال ہیں۔ دین دار خواتین کا سرے سے کوئی نام ہی نہیں ہے۔
اداروں اور فورمس میں نمائندگی
آج کے دور میں اپنی بات کو موثر طورپر پیش کرنے اور منوانے کے نئے طریقے سامنے آئے ہیں مثلاً سول سوسائٹی، جرنلزم وغیرہ جس میں شرکت کرکے ہمارے موقف کو عوام میں رکھا جاسکتا ہے۔ جہاں ہم دوسروں تک باتیں پہنچاسکتے ہیں وہیں اوروں سے کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں۔
حکومتی ادارے، پالیسی ساز کمیٹیاں اور طویل المیعاد اسکیموں کی تشکیل میں عوام اور دانشوروں کی حصہ داری کے لیے مواقع دیے جاتے ہیں۔ تاکہ حتمی ترتیب سے پہلے عوام اس عمل Process میں شریک ہوں۔ ان کا مسودہ ویب سائٹ پرفراہم( اَپ لوڈ) کرکے اس پر تنقید و تبصرہ اور مشورے کا مواقع دیا جاتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف ہم متوجہ نہیں ہیں۔ مثال کے طورپر پلاننگ کمیشن نے مالیاتی سیکٹر میں آئندہ آنے والے سالوں میں اصلاحات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل کی IMF کے سابق چیف ڈاکٹر رگھورام راجن کی صدارت میں ۲۰۰۸ء میں بنائی گئی تو ICIF اور دوسرے اداروں نے اس کمیٹی سے ملاقات کی اور موثر نمائندگی دستاویزی مواد کے ساتھ کی تو اس کمیٹی نے بلاسودی سرمایہ کاری کی ملک کے بنکاری نظام میں شمولیت کی سفارش کی۔
اسی طرح معلومات کو حاصل کرنے کے لیے رائٹ ٹو انفارمیشن (RTI) کا ایک موثر ذریعہ ہمیں فراہم ہے جس کے ذریعہ مرکزی اور ریاستی اداروں کی کارکردگی اور صحیح صورت حال کو معلوم کرنا آسان ہوگیا ہے اور ان معلومات کی روشنی میں اپنے حقوق ومراعات حاصل کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔ مرکز جماعت نے قبرستانوں پر ناجائز قبضہ کے تعلق سے مفید معلومات حاصل کرکے کارروائی بھی کی ہے جو ایک اچھی کوشش ہے۔
رابطہ خاص اور اہل الرائے کو ہم نوا بنانا ایک فن ہے۔ سماج میں ایسے افراد اور ادارے ہوتے ہیں جن پر لوگ اعتمادکرتے ہیں اور حکومت میں ان کا وزن محسوس کیا جاتا ہے۔ ان سے تعلقات بڑھانا، ان کے سامنے اپنی باتیں پیش کرنا، جمہوری نظام میں ایک اہم وسیلہ ہے۔
ملک میں ایسے تحقیقی ادارے اور موقر جرائد ہیں جو Think Tank منبعِ افکار کی حیثیت رکھتے ہیں اور جو پالیسی ساز اداروں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ملک کی ترجیحات کو متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ان میں ذہین اور باصلاحیت نوجوانوں کی تربیت کی خاطر وابستہ ہونا چاہیے۔ تاکہ وہ استفادہ کرکے ہمارے ہاں اسی طرز کے ادارے قائم کرسکیں یا کم از کم ہمارے موقف کی نمائندگی کرسکیں۔ ورنہ عموماً یہ دیکھاجاتاہے کہ مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جو براہ راست ملک کے موقر اداروں میں جاتے ہیں اکثر و بیشتر ہمارے دین، تہذیب وکلچر کے منافی بیانات و مضامین پیش کرتے ہیں اور دین کے بجائے مغربی کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں۔
مشترکہ پلیٹ فارمس میں شرکت
یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ ہمارے ملک میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور آل انڈیا اسلامک فقہ اکیڈمی جیسے ادارے قائم ہیں جن کی نظیر دنیا کے دوسرے ملکوں میں نہیں ملتی۔ پرسنل لا بورڈ ملک کے تمام نمایاں افراد اور اداروں کا نمائندہ بورڈ ہے۔ جس میں تمام مسالک و مکاتب فکر کے علماء، دانشور اور سیاسی لیڈران شامل ہیں۔ اسی طرح فقہ اکیڈمی میں ملک کے نامور علماء کرام اور مدارس دینیہ اور ممتاز دانشوروں کا گروپ شامل ہے، یہ فورم سلگتے ہوئے مسائل پر سر جوڑ کر بیٹھتاہے اور ملکی تناظر اور شریعت اسلامی کی روشنی میں راہیں سجھاتا ہے اور ملت کی رہنمائی کا کام انجام دیتا ہے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت بھی ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔
ان مشترکہ فورموں میں فعال رول ادا کرنا چاہیے۔ اس کام کے لیے موزوں اور مناسب افراد کو انتخاب کرکے ان سے یکسوئی کے ساتھ ربط ضروری ہے۔ ورنہ ان کے فیصلے کارگر ثابت نہیں ہوںگے اور مطلوبہ نتائج رونما نہیں ہوگے۔
مساجد کو مرکز خدمت بنائیے
دین اسلام میں مسجد ایک مرکزی ادارہ ہے۔ مسلم معاشرہ میں اس کا وہی مقام ہے جو انسانی جسم میں قلب کا ہے جب تک قلب متحرک ہے جسم میں جان ہوتی ہے اور جب قلب ڈھیلا ہوجاتاہے تو جسم بھی شل ہوجاتا ہے۔ مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کرسکتے ہیں کہ نبی کریمﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے اپنے دست مبارک سے مسجد قبا بنائی اور یہاں پہلا جمعہ پڑھا۔ اس کے بعد اپنے گھرکی تعمیر سے پہلے مسجد نبویؐ کی بنیاد رکھی اور اسے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کا مرکز بنایا۔ نہ صرف پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام وہاں ہوتاتھا بلکہ تعلیم و تربیت، مالی و معاشی معاملات کے حل، زخمیوں کی خیرگیری، مہمانخانہ و وفود کے قیام جیسے کام بھی ہوتے تھے۔ جہاد کی تیاری، عدالتی کارروائیوں ، ادب و تفریح اور ورزش اور حبشیوں کے کھیل و کرتب۔ غرض اہل ایمان کی تمام سرگرمیوں کامرکز و مرجع مسجد تھی۔
آج مسجد کو وہ مرکزیت حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے معاشرے کے عام مسلمان درس قرآن وحدیث، حالات حاضرہ کے محاضرات اور دیگر معلوماتی پروگراموںسے ناآشنا ہوتے ہیں۔
اکیسویں صدی میں نئی تبدیلی
نوبل انعام یافتہ اور بین الاقوامی شہرت کے حامل صحافی تھامس فریڈمین نے اپنی مشہور و معروف کتاب The World is Flat میں گلوبلائزیشن کی وجہ سے بدلتے ہوئے حالات اور کام کرنے کے طریقوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اب دنیا ایک عمودی دنیا سے نکل کر استواری دنیا میں بدل گئی ہے۔ عمود ی دنیا میںہدایت وجائزے کا عمل (Command and Control ) اوپر سے نیچے انجام پاتا تھا۔ اِسی طرح پورے ادارے اور افراد کو کنٹرول کیاجاتا تھا،اب صورت حال بدل چکی ہے اور استواری دنیا میںرابطے اور تعاون (Connect & Collaborate)کے ذریعے کام کیاجاتاہے۔ اداروں اور افراد میں کام کے کلچر میں بنیادی تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔ اب احکامات جاری کرنے کے بجائے تعاون و تبادلۂ خیال کا عمل سارے کاموں میں نمایاں نظرآتا ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال انھوںنے دی ہے کہ ہاٹ لائن (Hotline )جو روس اور امریکہ کے درمیان نازک لمحوں میں استعمال ہوتاتھا، اس کی جگہ ہیلپ لائن (Helpline )نے لے لی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ غیرضروری قواعد و ضوابط میں کارکنان گھٹن محسوس کرتے ہیں اور ذہین اور باصلاحیت افراد اپنی انفرادیت کو برقرار نہیں رکھ پاتے۔ سماج کا ذہین ( ـCream )طبقہ اپنی الگ دنیا بناتاہے اور متحرک افراد اپنے خول میں بند پڑے رہتے ہیں۔ بدلے ہوئے اور بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں اپنے پوری کارکرکردگی اور نظم پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
پرامن احتجاج اور مظاہرے
دورِحاضر میں پرامن احتجاج اور مظاہرے اپنے موقف کے اظہار اور اپنے مطالبات کو منوانے کاایک معروف ذریعہ ہیں۔ آج احتجاج بھی ایک شرعی ضرورت ہے اور اس طریقہ سے ہم اپنی بات عوام تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
اس حدیث پر تدبر کی نگاہ ڈالنی چاہیے جسے بخاری اور ابودائود نے روایت کیا ہے۔
’’ایک صحابی نے رسول اللہﷺ سے اپنے پڑوسی کی طرف سے اذیت کی شکایت کی۔ آپؐ نے اسے صبر کی نصیحت کی۔ کچھ عرصے کے بعد پھر شکایت کی۔ آپؐ نے پھر صبر کرنے کو کہا۔ تیسری مرتبہ جب اس نے شکایت کی تو آپؐ نے فرمایاکہ اپنے گھر کاسامان باہر گلی میں ڈال کر بیٹھ جائو۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ جب گلی میں گزرنے والوں نے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ سب لوگوں نے اس کے پڑوسی کو ملامت کی ، وہ بہت شرمندہ ہوا۔ اس نے پڑوسی کو منایا اور آئندہ نہ ستانے کا وعدہ کیا۔ ثابت ہواکہ ناپسندیدہ عمل پر حضورﷺ نے مظلوم کو صرف صبر کی تلقین کی ہی نہیں فرمائی بلکہ اظہار ناراضی اور حصول حق کا پرامن راستہ بھی دکھایا۔ اس واقعے سے اس طریقے کی قوت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
عوام تک اپنی بات وسیع پیمانہ پرپہنچانے اور اپنے مطالبات کی حکام تک رسائی کے لیے پرامن احتجاج اور مظاہرے جیسے طریقوں کو اپنانا وقت کی ضرورت ہے۔
آخری بات
مولانا مودودیؒ نے خطبہ مدارس میں واضح انداز میں کہاہے:
’’جب تک ہم مسلم سوسائٹی کے ایک بڑے حصہ کو علمی و عملی اور معاشرتی حیثیت سے اسلام کی صحیح نمائندہ نہ بنالیں ہمارا یہ امید کرنا محض بوالفضولی ہے کہ ہندوستان کی عام غیرمسلم آبادی کی رائے کو اسلام کے حق میں ہموار کیاجاسکے گا۔
غیرمسلموں کے سامنے آپ کا غذپر یا تقریر میں اسلام کو کیسے ہی دل پذیر انداز میں پیش کریں بہرحال وہ ان کو اپیل نہیں کرسکتا کیوں کہ اسلام کے اصلی نمائندوں کا جو تجربہ انھیں رات دن کی زندگی میں ہورہاہے وہ آپ کے بیان کی تصدیق نہیں کرتا۔‘‘
تحریک اسلامی ہند کو اپنے پینسٹھ سالہ سفر کا معروضی اور حقیقت پسندانہ جائزہ لینا چاہیے۔ کیا مذکورہ بالا اقتباس کی روشنی میں مسلم سوسائٹی کےایک بڑے حصہ کو علمی اور عملی اور معاشرتی حیثیت سے اسلام کی صحیح نمائندہ بنالیاگیاہے۔
منتخب مسلم بستیوں اور غیرمسلموں کی ملی جلی بستیوں اور محلوں میں کام کا خاکہ بناتھا۔ کچھ کام بھی ہوا لیکن کیا اس کا تسلسل باقی رہا؟ کیا واقعی ہم قلم یاتقریر کے ذریعہ ہی سہی اسلام کو بحیثیت ایک متبادل پیش کررہے ہیں اور وہ بھی دل نشیں انداز میں؟ اس پر سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ درجِ ذیل مظاہر ہماری کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہیں:
مسائل پر بے لاگ تبصرہ، تجزیہ اور تحقیق سے اجتناب، مسائل پر جذباتی ردعمل، جمہوری نظام سے بے رخی کا برتائو، کاغذی منصوبہ بندی، حقیقی پیش رفت کے بجائے خوش فہمی، ملک کی ترقی و شہری حقوق کی ادائیگی کے عمل سے دوری۔ اِن کمزوریوں کا بھرپور جائزہ نئے بدلے ہوئے حالات میں لینا ضروری ہے۔ خاص کر ۲۰۱۴ء کے انتخابی نتائج کے بعد کی صورت حال کے پیش نظر۔
ندرت فکرو عمل کیا شئے ہے؟ ذوق انقلاب
ندرت فکرو عمل کیا شئے ہے؟ ملت کا شباب
ندرت فکرو عمل سے معجزات زندگی
ندرت فکرو عمل سے سنگ خارہ لعل ناب
ندرت فکرو عمل سے مراد قوت اختراع اور تخلیقی قوت جس کے بغیر مسائل حل نہیں کیاجاسکتا۔ ہم تجربات سے بچتے ہیں اور ماضی کی زنجیروں سے بندھے رہنا چاہتے ہیں اور انقلابی قدم اٹھانے سے گریز کرتے ہیں اور فکروعمل کی نئی راہیں تلاش کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔
وقت آگیاہے کہ ہم ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں، ناکامیوں سے سبق حاصل کریں، نئی سوچ سے کام لے کر نئے فیصلے ملک کے موجودہ تناظر میں کریں اور آگے بڑھنے کی سعی و جہد کریں۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمیں، یہ آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہ محشر میں ہے
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
مشمولہ: شمارہ اگست 2014