کیا تراویح کی امامت نابالغ کرسکتا ہے؟
موجودہ حالات میں، جب کہ گھروں میں پنج وقتہ نمازیں ادا کی جارہی ہیں اور ماہِ رمضان میں بھی یہی حالات بنے رہنے کا امکان ہے، ایک سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا تراویح کی امامت نابالغ کرسکتا ہے؟ اگر اہلِ خانہ میں سے کسی مرد کو زیادہ قرآن یاد نہ ہو اور کوئی ایسا لڑکا موجود ہو جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو، اسے مکمل قرآن یا اس کا خاصا حصہ حفظ ہو، کیا اس کی امامت میں تراویح پڑھی جاسکتی ہے؟
نابالغ لڑکے کی امامت کے سلسلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں فرض اور نفل نمازوں میں بھی فرق کیا ہے۔
شوافع کے نزدیک فرض اور نفل دونوں طرح کی نمازوں میں نابالغ امامت کرسکتا ہے۔
ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ اپنے قبیلے کے لوگوں کی امامت کرتے تھے، جب کہ ان کی عمر ابھی صرف چھ سات برس کی تھی۔ ( بخاری:4302)
مالکیہ اور حنابلہ فرض اور نفل نمازوں میں فرق کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک فرض نمازوں کی امامت نابالغ نہیں کرسکتا، البتہ نفل، مثلاً تراویح کی نماز اس کی امامت میں پڑھی جا سکتی ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ نابالغ کی نماز نفل ہے، جب کہ بالغ پر نماز فرض ہے، اس لیے فرض کی بنا نفل پر نہیں رکھی جاسکتی۔ مذکورہ بالا حدیث کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے صراحت سے نابالغ کی امامت کو درست نہیں قرار دیا تھا، بلکہ آپ نے فرمایا تھا: ‘‘امامت وہ کرے جسے قرآن سب سے زیادہ یاد ہو۔’’ اس ارشاد نبوی کے بعد لوگوں نے اپنے طور پر حضرت عمرو بن سلمہ کو امام بنا لیا تھا۔ نفل میں چوں کہ بالغ اور نابالغ کی حیثیت برابر ہوجاتی ہے، اس لیے اس میں نابالغ کی امامت جائز ہے۔
احناف کے نزدیک نماز چاہے فرض ہو یا نفل، دونوں میں نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ تراویح نابالغ امام اور بالغ مقتدیوں، دونوں کے لیے نفل ہے، لیکن دونوں کی حیثیتوں میں فرق ہوتا ہے۔ نابالغ احکام کا مکلّف نہیں، جب کہ بالغ مکلّف ہوتا ہے۔ بالغ اگر کوئی نفل نماز شروع کردے تو وہ اس کے ذمے لازم ہوجاتی ہے، جب کہ نابالغ کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا۔
یہ احناف کا ‘مختار’ اور مفتی بہ مسلک ہے، چنانچہ تمام حنفی کتبِ فتاوی میں یہی بتایا گیا ہے کہ نابالغ لڑکا تراویح کی امامت نہیں کرسکتا۔ البتہ بعض حنفی فقہاء نے تراویح کی حد تک اسے جائز قرار دیا ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور درسی کتاب ‘ھدایہ’ ( مصنف شیخ برھان الدین مرغینانی )م593 ھ/1197ء) میں ہے:
‘‘و فی التراویح و السنن المطلقۃ جوّزہ مشایخ بلخ، و لم یجوّزہ مشایخنا… و المختار انّہ لا یجوز فی الصلوات کلّھا۔’’(الھدایۃ:123/1۔124)
تراویح اور عام سنّتوں میں نابالغ کی امامت کو بلخ کے مشایخ نے جائز قرار دیا ہے، البتہ ہمارے مشایخ (یعنی سمرقند و بخارا کے مشایخ) کے نزدیک وہ ناجائز ہے۔ مسلکِ مختار یہ ہے کہ تمام نمازوں میں نابالغ کی امامت جائز نہیں ہے۔)
مشہور حنفی فقیہ شیخ ابراھیم بن محمد الحلبی (م956 ھ/1549 ء) نے لکھا ہے:
‘‘و اذا بلغ الصبی عشر سنین فأمّ البالغین فی التراویح یجوز، و ذکر بعض الفتاوی انّہ لا یجوز، و ھو المختار۔’’(الحلبی الکبیر:408)
‘‘بچہ دس برس کا ہوجائے، پھر وہ تراویح میں مردوں کی امامت کرے، یہ جائز ہے۔ بعض فتاویٰ میں ہے کہ یہ جائز نہیں۔ یہی مسلکِ مختار ہے۔’’
خلاصہ یہ کہ تراویح کی نماز کے لیے نابالغ کی امامت مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے نزدیک جائز ہے۔ احناف کے مختار اور مفتی بہ مسلک میں اسے ناجائز بتایا گیا ہے، البتہ بعض حنفی فقہاء جواز کے قائل ہیں۔ ایک رائے یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ عام دنوں میں تو تراویح میں نابالغ کی امامت سے اجتناب کیا جائے، کوشش کرکے بالغ حافظ سے تراویح پڑھوائی جاتی، البتہ ان دنوں میں، جب بعض ناگزیر اسباب سے مسجدوں میں نماز نہ ہورہی ہو اور گھروں میں نماز ادا کی جا رہی ہو، اگر کوئی نابالغ لڑکا ایسا ہو، جسے مکمل یا نامکمل قرآن یاد ہو تو قرآن کی آخری دس سورتوں سے تراویح پڑھنے کے بجائے یہ بہتر ہوگا کہ اسے امام بنایا جائے اور اس کی اقتدا میں تراویح ادا کی جائے۔
کیا تراویح میں مصحف دیکھ کر قرآن پڑھا جاسکتا ہے؟
شوافع اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ تراویح میں مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ماہِ رمضان میں اپنے غلام ذکوان کی اقتدا میں تراویح پڑھتی تھیں۔ وہ مصحف میں دیکھ کر قراءت کرتا تھا۔ ( بخاری تعلیقاً، کتاب الأذان، باب امامۃ العبد و المولی، مصنف ابن ابی شیبۃ: 235/2، السنن الکبریٰ للبیہقی:336/1)
امام زہری سے دریافت کیا گیا کہ کیا رمضان کی نوافل میں مصحف دیکھ کر قرآن پڑھا جا سکتا ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ’’ہم سے بہتر لوگ ( یعنی صحابۂ کرام ) نماز میں مصحف سے دیکھ کر قرآن پڑھتے تھے۔ (المدوّنۃ الکبریٰ: 288/1۔289، المغنی لابن قدامۃ: 335/1)
امام نووی نے فرمایا ہے: ‘‘مصحف دیکھ کر قرآن پڑھنے سے نماز باطل نہیں ہوگی ۔ اوراق پلٹنے سے بھی نہیں۔’’(المجموع:27/4)
امام ابو حنیفہ اور امام ابن حزم کے نزدیک مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے نماز فاسد ہوجائے گی۔
اس کی دلیل میں ایک روایت یہ پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نماز میں مصحف میں دیکھ کر قرآن پڑھنے سے منع کیا ہے۔ (کتاب المصاحف لابن ابی داؤد: 655) لیکن یہ روایت ضعیف ہے، اس کا ایک راوی نھش بن سعید کذّاب متروک ہے۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ قرآن پڑھنے کے لیے ہر رکعت میں مصحف اٹھانا، پھر رکوع کرتے وقت اسے رکھنا، دوسری رکعت میں پھر اسے اٹھانا اور رکھنا ‘عملِ کثیر’ ہے اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔
یہ دلیل بھی مضبوط نہیں ہے۔ احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھتے ہوئے اپنی نواسی حضرت امامہ بنت ابی العاص (حضرت زینب کی صاحب زادی) کو اٹھاکر اپنے کندھے پر بٹھالیتے تھے۔ جب سجدہ کرتے تو اسے اتار دیتے ۔ کھڑے ہوتے تو پھر کندھے پر بٹھالیتے۔ (بخاری:516، مسلم:543) ایک حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم جوتے پہن کر نماز پڑھ رہے تھے۔ نماز کے دوران میں ہی آپ کو معلوم ہوا کہ ان میں گندگی لگی ہوئی ہے۔ آپ نے فوراً انہیں اتار دیا۔ (ابوداؤد:650)
دورانِ نماز کسی بچی کو اٹھانا، پھر اتارنا، اسی طرح جوتے اتارنا جتنا زیادہ عمل ہے، مصحف اٹھانا اور رکھنا اور ورق پلٹنا اس سے کم ہے۔ جب اُس سے نماز فاسد نہیں ہوتی تو اِس سے بھی فاسد نہیں ہونی چاہیے۔
امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں (صاحبین) امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک نماز تو ہوجائے گی، لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔ کراہت کا سبب وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ اہلِ کتاب ( یہود و نصاریٰ ) کے عمل کے مشابہ ہے۔
اس بات میں بھی وزن نہیں ہے۔ اس کا جواب خود حنفی فقیہ ابن نجیم نے ان الفاظ میں دیا ہے:
‘‘اہل کتاب سے مشابہت ہر چیز میں مکروہ نہیں ہے۔ جیسے وہ کھاتے پیتے ہیں اسی طرح ہم بھی کھاتے پیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کھانا پینا مکروہ ہے۔ ناجائز مشابہت وہ ہے جو کسی غلط کام میں کی جائے۔ اس بنا پر اگر تشبیہ مقصود نہ ہو تو صاحبین کے نزدیک مصحف سے قراءت مکروہ نہ ہوگی۔ ’’(البحر الرائق: 11/2)
مصحف ہی کے حکم میں موبائل بھی ہے۔ اس میں دیکھ کر بھی قرآن پڑھا جاسکتا ہے۔
عورت تراویح میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے
اگر کوئی خاتون حافظۂ قرآن ہو تو کیا وہ تراویح میں عورتوں کی امامت کرسکتی ہے؟
میرے نزدیک فرض اور نفل دونوں طرح کی نمازوں میں عورت عورتوں کی جماعت کی امامت کرسکتی ہے۔
اس کی دلیل دو امہات المؤمنین کا عمل ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے: ‘‘حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی تھیں۔ وہ صف سے آگے کھڑی ہونے کے بجائے صف کے وسط میں کھڑی ہوتی تھیں۔ ’’(88/2۔89،روایت نمبر 4989، 4991)
مصنف عبد الرزاق میں یہی فتویٰ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ (140/3،روایت نمبر 5083)
اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے:
شوافع اور حنابلہ کے نزدیک عورت عورتوں کی جماعت کرسکتی ہے۔ ان کی دلیل مذکورہ بالا روایات ہیں۔
مالکیہ کے نزدیک فرض ہو یا نفل کسی نماز میں عورت کا عورتوں کی جماعت کی امامت کرنا درست نہیں ہے۔
احناف کہتے ہیں کہ عورتوں کی جماعت، خواہ اس کی امامت کوئی عورت ہی کیوں نہ کرے، فرائض اور نوافل دونوں میں مکروہ تحریمی ہے۔ (الدر المختار:565 /1) اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ امام کا مقتدیوں سے آگے رہنا واجب ہے۔ چوں کہ عورت وسط صف میں کھڑی ہوتی ہے، اس لیے ترکِ واجب لازم آتا ہے۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر عورتیں جماعت سے نماز پڑھ لیتی ہیں تو ان کی نماز درست ہوگی۔
حضرت عائشہ سے متعلق روایت کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کا یہ عمل ابتدائے اسلام میں تھا۔ (ھدایہ:56 /1) بعد میں یہ اجازت منسوخ ہوگئی۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت حضرت عائشہ کی عمر صرف 18 برس تھی۔ بعد میں وہ تقریباً 50 برس مزید زندہ رہیں۔ اس لیے ان کے عمل کو نہ ابتدائے اسلام کا قرار دیا جاسکتا ہے نہ منسوخ کہا جاسکتا ہے۔
اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کے عمل کو نقل کرنے والی حضرت ام حسن تابعیہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عہد نبوی کے بعد بھی امہات المؤمنین عورتوں کی جماعت کی امامت کرتی رہیں۔
اگر مسجدوں میں تراویح کی نماز ہورہی ہو اور وہاں عورتوں کے لیے بھی انتظام ہو تو وہ اس میں شرکت کرسکتی ہیں۔ لیکن اگر گھروں میں تراویح کی نماز ہورہی ہو اور کوئی خاتون حافظۂ قرآن ہو، یا اسے قرآن کا خاصا حصہ یاد ہو تو وہ قرآن سنا سکتی ہے اور اس کی امامت میں عورتیں نماز پڑھ سکتی ہیں۔
ایک دوست نے سوال کیا کہ اگر گھر میں صرف میاں بیوی ہوں تو کیا بیوی شوہر کی امامت کرسکتی ہے؟ یا کیا عورت مردوں اور عورتوں کی مشترکہ جماعت کی امامت کرسکتی ہے؟ اس کا جواب ہے: نہیں۔ اس کے دلائل پھر کبھی۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2020