مسجد میں CCTVکیمرہ لگوانا کیسا ہے؟
سوال: آج کل مسجدوں میں چوری کی بہت وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ شر پسندوں کا بھی اندیشہ رہتا ہے کہ کب آکر کوئی واردات انجام دے دیں، توڑ پھوڑ کریں اور قرآن مجید کے نسخے نذرِ آتش کردیں۔ ایسی صورتِ حال میں حفاظتی نقطۂ نظر سے مسجد کے اندر اور باہر سی سی ٹی وی کیمرہ لگوانا کیسا ہے؟
جواب: اسلام میں جانداروں کی تصویر بنانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ احادیث میں اس پر سخت وعید آئی ہے۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّ أشَدَّ النَّاسِ عَذَاباً عِندَ اللّٰہِ یَومَ القِیَامَۃِ المُصَوِّرَونَ (بخاری: 0 595)
‘‘تصویر بنانے والوں کو روزِ قیامت بارگاہِ الٰہی میں سب سے زیادہ سخت عذاب دیا جائے گا۔’’
بہت سے علما کہتے ہیں کہ تصویر کَشی کی تمام صورتیں حرام ہیں، چاہے تصویر کو ہاتھ سے بنایا جائے، یا وہ کیمرے سے کھینچی جائے، یا اس کے لیے ڈیجیٹل کیمرہ استعمال کیا جائے، جب کہ بعض علما کی رائے ہے کہ ڈیجیٹل کیمرہ سے لی گئی تصویر برقی شعاعوں سے ابھرنے والا نقش ہے۔ اس کی حیثیت عکس کی ہے۔ لہٰذا اس پر حرمتِ تصویر کا اطلاق نہیں ہوتا۔
موجودہ دور میں مساجد، مدارس اور دینی مراکز خصوصی حفاظتی انتظامات کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان میں موجود قیمتی اشیا ء کی چوری کا اندیشہ اپنی جگہ، ان پر شر پسندوں کے حملے، مارپیٹ، توڑ پھوڑ اور اس کے نتیجے میں جان و مال کے ضیاع کے واقعات آئے دن پیش آنے لگے ہیں۔ حفاظتی نقطۂ نظر سے CCTVکیمروں کی بہت اہمیت ہے۔ یہ نگرانی کا بہت مؤثر آلہ ہیں۔ ان کے ذریعے ایسے تمام جرائم کے پختہ ثبوت فراہم ہوجاتے ہیں۔ عدالتیں ان تصویروں کو پختہ ثبوت تسلیم کرتی ہیں۔ چناں چہ جرائم کے ارتکاب کی صورت میں ان کی مدد سے بہ آسانی مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے۔
فقہی قاعدہ ہے: الضرورات تبیح المحظورات (شدید ضرورتوں کے وقت ممنوع چیزیں بھی جائز ہوجاتی ہیں۔) اس بنا پر ڈیجیٹل کیمرہ کی تصویروں کو عکس قرار دینے والوں کے نزدیک تو CCTVکیمرہ کااستعمال جائز ہے ہی، ان علما کے نزدیک بھی اس کی اجازت ہوگی جو عام حالات میں ہر طرح کی تصویر کَشی کو ناجائز کہتے ہیں۔ حفاظتی نقطۂ نظر سے اوردفعِ مضرت کے پہلو سے ان کے نزدیک بھی اس کی گنجائش ہوگی۔
بیٹا نہ ہو تو وراثت میں پوتوں پوتیوں کا حصہ ہے
سوال: محمد یوسف کی دو بیویاں تھیں۔ پہلی بیوی (اصغری بیگم) کے انتقال کے بعد انھوں نے دوسری شادی انیسہ بیگم سے کی۔ پہلی بیوی سے انھیں ایک بیٹا (محمد شفیع) اور ایک بیٹی (عابدہ بیگم) تھیں، جب کہ دوسری بیوی سے ایک بیٹی (عاصمہ بیگم) ہوئی۔ بیٹے کا انتقال محمد یوسف کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا، جس کی تین اولادیں ہیں: دو لڑ کے (محمد رضوان اور محمد ریحان) اور ایک لڑکی (فرح ناز)۔محمد یوسف کے انتقال کے وقت ان کے یہ رشتے دار زندہ تھے: بیوی(انیسہ بیگم)، دو بیٹیاں (عابدہ بیگم اور عاصمہ بیگم)، دو پوتے (محمد رضوان،محمد ریحان)، ایک پوتی (فرح ناز)، دو بھائی (محمد قمر، محمد رفیق)، دو بہنیں (نجمہ بیگم، سلطانہ بیگم)۔ محمد یوسف نے اپنی زندگی میں وصیت کی تھی اور اسے رجسٹر کرا دیا تھا کہ اس کی پراپرٹی میں سے اس کی بیوی کو %25 اور دونوں بیٹیوں کو %50 (ہر بیٹی کو %25) دے دیا جائے۔ %5 اس کی بہو اور دونوں پوتوں اور ایک پوتی (بیٹے محمد شفیع کی بیوہ اور بچوں) کو باقی %20 دے دیا جائے۔ جب وراثت تقسیم کرنے کا مرحلہ آیا تو محمد یوسف کے بھائی محمد رفیق کی بیوی نے اس پر اعتراض کیا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا۔ عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلم پرسنل لا کے مطابق وراثت میں بہو، پوتے اور پوتی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔
براہ کرم وضاحت فرمائیں۔ کیا عدالت کا یہ فیصلہ درست ہے؟ کیا مسلم پرسنل لا میں بہو، پوتے اور پوتی کا کوئی حصہ نہیں ہوتا؟ اگر دادا ان کے حق میں وصیت کر جائے تو بھی انھیں کچھ نہیں ملے گا؟
جواب: اسلامی شریعت میں ورثہ کے کئی گروپ (categories)ہیں: (1) اصحاب الفرائض: جن کے حصے قرآن وحدیث میں متعین کر دیے گئے ہیں۔(2) عصبہ: جن کا حصہ متعین نہیں۔ وراثت اصحاب الفرائض میں تقسیم ہونے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ انھیں ملے گا اور اگر اصحاب الفرائض نہ ہوں تو کل وراثت انھی میں تقسیم ہوگی۔ عصبہ کی ایک ترتیب ہے، مثلاً بیٹا، پوتا، باپ، دادا، سگا بھائی، وغیرہ۔ قریب تر رشتے دار کی موجودگی میں دوٗر کے رشتے دار کو کچھ نہ ملے گا۔ (3) ذوی الارحام: جو نہ اصحاب الفرائض میں سے ہوں،نہ عصبہ میں سے۔
وراثت تقسیم کرنے سے قبل دیکھا جاتا ہے کہ میت پر کوئی قرض تو نہیں ہے اور اس نے کوئی وصیت تو نہیں کی ہے۔ اگر قرض ہے تو پہلے اسے ادا کیا جائے گا اور وصیت ہے تو اسے نافذ کیا جائے گا، بعد میں وراثت کی تقسیم ہوگی۔ وصیت کے تعلق سے دو باتیں ضروری ہیں: اول یہ کہ جن رشتے داروں کو وراثت میں حصہ ملتا ہے ان کے نام وصیت نہیں کی جاسکتی۔ دوم یہ کہ وصیت کل مالِ وراثت کے ایک تہائی حصہ سے زیادہ کی نہیں ہوسکتی۔
محمد یوسف صاحب نے اگر چہ وصیت رجسٹرڈ کرائی تھی، لیکن اس میں سے جتنی ورثہ کے نام سے تھی، وہ مسلم پرسنل لا کی روٗ سے معتبر (Valid) نہیں ہوگی، البتہ بہو وارث نہیں ہے اس لیے اسے شریعت کی رو سے حسب وصیت ملے گا۔ چناں چہ یوسف صاحب کے پورے ترکے میں سے پہلے وصیت کیا ہوا %5 الگ کرکے ان کی بہو کو دے دیا، اس کے بعد وارثوں میں بچا ہوا ترکہ تقسیم ہوگا۔ یوسف صاحب کے انتقال کے وقت ان کے یہ ر شتے دار زندہ تھے: بیوی (انیسہ بیگم)، دو بیٹیاں (عابدہ بیگم اور عاصمہ بیگم)، دو بھائی (محمد قمر اور محمد رفیق)، دو بہنیں (نجمہ بیگم اور سلطانہ بیگم)، دو پوتے (محمد رضوان اور محمد ریحان) اور ایک پوتی (فرح ناز)۔ان میں بیوی اور بیٹیاں اصحاب الفرائض میں سے ہیں اور پوتے، پوتی، بھائی اور بہن عصبہ میں سے۔ عصبہ میں پوتے کی موجودگی میں بھائی بہن کو کچھ نہیں ملے گا اور پوتی کو پوتے کے ساتھ 2: 1کے تناسب سے وراثت ملے گی۔ ان کے درمیان بچے ہوئے مالِ وراثت کی تقسیم بہ اعتبارِ ذیل ہوگی:
ا۔ بیوی (انیسہ بیگم) کو آٹھواں حصہ (%12.5) ملے گا۔ (النساء: 21)
2۔ دو بیٹیوں (عابدہ بیگم ا ور عاصمہ بیگم) کو دوتہائی حصہ(%66.7) ملے گا۔ (النساء: 11)
3۔ باقی مالِ وراثت (%20.8) دو پوتوں اور ایک پوتی کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ پوتی کو %4.2 اور ہر پوتے کو8.3% ملے گا۔(النساء: 11)
یہ جو مشہور ہے کہ مسلم پرسنل لا کے مطابق دادا کے مال وراثت میں پوتوں پوتیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، اس کا اطلاق اس صورت پر ہوتا ہے جب دادا کا کوئی بیٹا موجود ہو۔ اگر کوئی بیٹا زندہ نہ ہو اور پوتے پوتیاں موجود ہوں تو وہ ان کے قائم مقام ہوں گے اور وراثت میں حصہ پائیں گے۔
قرآن مجید میں آیتوں کی تعداد
سوال: بعض کتابوں میں لکھا ہوا دیکھا کہ قرآن مجید میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ(6666) آیتیں ہیں۔ جب کہ میں نے خود ان کا شمار کیا تو وہ چھ ہزار دو سو چھتیس (6236) نکلیں۔ اگر ایک سوتیرہ سورتوں کے شروع میں درج بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بھی آیتیں شمار کر لیا جائے تو بھی کل تعداد چھ ہزار تین سو انچاس (6349) ہوگی۔تعداد کا یہ فرق کیوں ہے؟ بہ راہِ کرم وضاحت فرمائیں۔
جواب: قرآن مجید میں آیات کی تعداد مکہ، مدینہ، کوفہ، مصر اور شام کے قرّاء کے نزدیک مختلف رہی ہے۔ قرّاءِ کوفہ کل آیات چھ ہزار دو سو چھتیس (6236) بتاتے ہیں، جب کہ دیگر قرّاء اس سے کم و بیش تعداد کے قائل رہے ہیں۔ علوم القرآن کے موضوع پر بعض قدیم کتابوں میں آیاتِ قرآنی کی تعداد چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (6666) لکھی ہوئی ہے۔ اب پوری دنیا میں جو مصاحف متداول ہیں ان سب میں آیات کا شمار کرنے پر کل تعداد چھ ہزار دوسو چھتیس (6236) ہی نکلتی ہے۔ گویا اس تعداد پر پوری امت کا اتفاق ہوگیا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ قرّاء کرام کے درمیان قرآن مجید کی بعض آیات کے قرآن ہونے یا نہ ہونے کا اختلاف تھا، بلکہ تعداد میں فرق کی وجہ یہ تھی کہ بعض قرّاء کے نزدیک ایک مقام پر وقف تھا، دوسروں کے نزدیک نہیں تھا۔ جو لوگ زیادہ مقامات پر وقف کے قائل تھے، اس اعتبار سے ان کے نزدیک آیات کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ ورنہ قرآن مجید کا ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہ کچھ مسلمان اسے قرآن تسلیم کرتے ہوں اور کچھ اس کا انکار کرتے ہوں۔
اس موضوع پر دار العلوم دیوبند کے ایک فتویٰ میں کہا گیا ہے:
‘‘عوام و خواص کی زبان پر زیادہ تر یہی مشہور ہے کہ قرآن پاک میں 6666 آیتیں ہیں۔ لیکن قرّاء سبعہ میں سے کسی کا قول نہیں ہے۔ قرآن میں آیات کی تعداد جو مذکور ہے وہ عدد کوفی سے مشہور ہے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت سفیانؓ سے مروی ہے اور یہ دونوں اہلِ علم حضرات اور ثقہ علما کے واسطوں سے سیدنا حضرت علیؓ سے ناقل ہیں۔ اس کے مطابق قرآن پاک کی آیات کی تعداد 6236 ہے۔’’(فتویٰ نمبر: 602187)
خلاصہ یہ کہ قرآن کی آیتوں کی تعداد 6666 مشہور تو ہے، لیکن حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔ حقیقی تعداد وہی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2023