رسائل و مسائل

اعضا اور خون کا عطیہ

سوال : آج کل اعضا کے عطیہ (Organ Donation)اور خون کے عطیہ (Blood Donation)کا بہت رواج ہو رہا ہے۔ بعض لوگ وصیت کر جاتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی آنکھ، جگر اور دوسرے اعضا نکال کر محفوظ کر لیے جائیں اور دوسرے ضرورت مندوں میں ان کی منتقلی(Transplantation)کر دی جائے۔ سرکاری سطح پر اس کی ترغیب دی جاتی ہے اور اسے بڑا کارِ خیر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح خون کے عطیہ کا بھی رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ مختلف مواقع پر اس کے کیمپ لگائے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو خون دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اعضا اور خون کا عطیہ اور دوسروں میں ان کی منتقلی کہاں تک جائز ہے؟ کیا مسلمان اعضا اور خون کے عطیہ دہندگان اور وصول کنندہ ہو سکتے ہیں؟

جواب : انسان کا جسم اور اس کے اعضا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لیے انعام اور عطیہ ہیں۔ وہ ان کا مالک نہیں ہے کہ ان میں جس طرح چا ہے، تصرف کرے اور جب چا ہے اور جس کو چاہے، ہدیہ کر دے، یا فروخت کر کے اس کی قیمت وصول کر لے۔ بلکہ وہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ ضروری ہے کہ وہ ان کے سلسلے میں اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات و تعلیمات کو پیشِ نظر رکھے اور ان کی خلاف ورزی نہ کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو معزّز و مکرّم بنایا ہے۔(الاسراء: ۷۰) اور اسے دوسری مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے، اس لیے اس کی زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اس کے جسم اور اعضا کے ساتھ کوئی ایسی چھیڑ چھاڑ جائز نہیں ہے جس سے اس کی توہین اور بے توقیری لازم آتی ہو۔ دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تومقاصدِ شریعت کی روٗ سے انسانی جان بڑی قیمتی ہے اس لیے اس کو تحفظ فراہم کرنے اور ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہر ممکن تدابیر اختیار کی جائیں گی۔

مذکورہ بالا باتوں کی روشنی میں اعضائے جسم اور خون کے عطیہ کے سلسلے میں شریعت کے احکام درج ذیل ہیں:

انسانی جسم میں جو اعضا جوڑے کی شکل میں ہیں یا ان کا کوئی جز نکال دیا جائے تو کچھ عرصے میں خود بہ خود وہ کمی پوری ہو جاتی ہے، انھیں کسی شخص کی جان بچانے کے لیے دیا جا سکتا ہے، بہ شرطے کہ خود عطیہ دہندہ کی جان یا صحت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ مثلاً وقتِ ضرورت ایک گردہ(Kidney)کاعطیہ دیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ عطیہ دہندہ ایک گردے کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے اور دوسرے گردہ کے ذریعے کسی شخص کی جان بچائی جا سکتی ہے، یا جگر (Liver) کا ایک ٹکڑا دیا جا سکتا ہے، اس لیے کہ تجربے سے ثابت ہو گیا ہے کہ جگر کا بچا ہوا حصہ چند مہینوں میں بڑھ کر مکمل ہو جاتا ہے اور جس شخص میں جگر کے ٹکڑے کی پیوند کاری کی جاتی ہے، اس میں بھی وہ صحیح طریقے سے کام کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح خون کا عطیہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ جو شخص خون دیتا ہے اس میں جلد اس کا توازن قائم ہوجاتا ہے اور دوسرے شخص کی زندگی بھی بچ جاتی ہے۔ البتہ آنکھ کے قرنیہ(Cornia)کے عطیے کو فقہا نے ناجائز قرار دیا ہے، اس لیے کہ دونوں آنکھوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ ایک آنکھ سے چھیڑ چھاڑ کی جائے تو دوسری آنکھ کی بینائی بھی ختم ہو سکتی ہے۔

جس طرح فوری طور پر کسی کو خون کی ضرورت ہو تو اسے خون دیا جا سکتا ہے، اسی طرح اگر خون نکال کر محفوظ کر دیا جائے، تاکہ جب بھی کوئی ضرورت مند ہو اس کی ضرورت پوری کی جاسکے، تو یہ بھی جائز ہے۔ اس بنا پر بلڈ بینک قائم کرنا یا اس میں خون کا عطیہ کرنا جائز ہے۔

مختلف مواقع پر بلڈ کیمپ منعقد کیے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو خون کا عطیہ دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے۔

عام حالات میں اعضا یا خون کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان کی حیثیت مال کی نہیں ہے۔ رضاکارانہ طور پر ان کا عطیہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی فراہمی مفت میں ممکن نہ ہوپا رہی ہو تو بدرجۂ مجبوری انھیں خریدا جا سکتا ہے، لیکن انھیں فروخت کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔

اعضا کو پس از مرگ عطیہ کرنے کی وصیت کرنا شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ انسانی جسم قابلِ احترام و تکریم ہے۔ مرنے کے بعد اعضا کو جسم سے الگ کرنے سے تکریم انسانیت کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔

پوسٹ مارٹم کی شرعی حیثیت

سوال : میں میڈیکل کا طالب علم ہوں۔ دورانِ تعلیم ہم لوگوں کو انسانی نعش کی چیر پھاڑ کر کے اندرونی اعضا دکھائے جاتے ہیں۔ اسی طرح پوسٹ مارٹم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ انسانی نعش کو تختۂ مشق بنانا اور اس کی چیر پھاڑ کرنا اچھا نہیں معلوم ہوتا، کراہیت ہوتی ہے، لیکن یہ کام ضروری بھی معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ انسانوں کی زندگی بچانے میں ڈاکٹروں کا اہم رول ہوتا ہے۔ اگر وہ جسمِ انسانی کی بناوٹ اور اعضا کے افعال و منافع صحیح طریقے سے جان لے تو علاج معالجہ میں اسے مہارت حاصل ہوگی۔ اسی طرح پوسٹ مارٹم سے فوج داری تحقیقات میں مدد ملتی ہے۔ کسی شخص کی موت طبعی ہوئی ہے، یا اسے قتل کیا گیا ہے؟ اس کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔

براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں، کیا تعلیم کی غرض سے لاشوں کی چیر پھاڑ اور پوسٹ مارٹم شرعی طور پر جائز ہے؟

جواب: اسلام میں انسانوں کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا گیا ہے اور ان کی تحقیر و تذلیل سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا (الإسراء: 70)

‘‘ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور انھیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انھیں فوقیت دی۔’’

یہ حکم جس طرح زندہ انسانوں کے لیے ہے، اسی طرح مرنے کے بعد بھی انسانی نعش کا احترام کرنے اور اس کی بے حرمتی سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كَسْرُ عَظْمِ المَیتِ كَكَسْرِهِ حَیا (ابوداود: ۳۲۰۷، ابن ماجہ: ۱۶۱۶)

‘‘ میت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندہ ہونے کی حالت میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے۔’’

احترامِ آدمیت کی وجہ سے ہی اللہ کے رسول ﷺ نے قبر پر بیٹھنے سے منع کیا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

‘‘کوئی شخص آگ کے انگارے پر بیٹھ جائے، جس سے اس کے کپڑے جل جائیں اور اس کی کھال بھی، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی قبر پر بیٹھے۔’’( مسلم: ۹۷۱)

اس لیے عام حالات میں انسانی نعش کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور اس کی چیڑ پھاڑ جائز نہیں ہے۔ ہاں کوئی شدید ضرورت ہو تو بقدرِ ضرورت گنجائش ہو سکتی ہے۔

طب کی تعلیم کے دوران میں انسانی نعشوں کی چیر پھاڑ (Dissection)کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد طلبہ کو انسانی جسم کے اعضا، ہڈیوں اور احشا (Viscera)کی بناوٹ، طبیعی ہیئت اور مرضی صورتوں سے واقف کرانا ہوتا ہے۔ طلبۂ طب کو آئندہ مریضوں کے علاج معالجے کی اہم خدمات انجام دینی ہوتی ہے۔ ہزاروں زندگیوں کو بچانے میں ڈاکٹروں کا اہم رول ہوتا ہے۔ اس لیے طبی مضامین میں ان کی مہارت ضروری ہے۔ دوسری طرف انسانی نعش کا احترام ملحوظ رکھنے کی بھی تاکیدی حکم ہے۔ اس لیے جہاں تک ہوسکے، احتیاط کرنی چاہیے۔ پہلے اعضا کے ماڈل (Models) دکھائے جائیں، خاکوں، تصویروں اور ڈرائنگ پر مبنی ویڈیوز(Animated Vedios)کا استعمال کیا جائے۔ آخر میں شدید ضرورت کے تحت انسانی نعش کا Dissectionکروایا جا سکتا ہے۔

پوسٹ مارٹم کی نوبت عام طور پر طبی قانونی(Medico-Legal)ضرورت سے پیش آتی ہے۔ حادثاتی موت کی صورت میں اس کے اسباب جاننا ضروری ہوتا ہے۔ موت زہر کھانے سے ہوئی ہے، یا گلا گھٹنے سے؟ طبیعی موت ہے، یا کسی نے قتل کیا ہے؟ یا مرنے والے نے خودکشی کی ہے؟ پوسٹ مارٹم سے سببِ قتل متعین ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات کسی مقدمے میں جرم کی تفتیش کے لیے پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی پر قتل کا الزام ہے تو اس تحقیق میں مدد ملتی ہے کہ موت کا واقعی سبب قتل ہے، یا مرنے والا طبعی موت مرا ہے؟ یا قتل کر کے خودکشی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ پوسٹ مارٹم کے ذریعے بسا اوقات ملزم کو ناحق سزا سے بچایا جا سکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ عام حالات میں اور طبیعی موت کی صورت میں پوسٹ مارٹم سے بچنا چاہیے، البتہ حادثاتی اموات میں طبی قانونی ضرورتوں سے پوسٹ مارٹم کرنا شرعی طور پر جائز ہے۔

وراثت کا ایک مسئلہ

سوال : میرے شوہر سعودی عرب میں چالیس (۴۰)برس سے ملازمت کرتے تھے۔ انھوں نے میرے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ کھلوا رکھا تھا۔ انھوں نے تمام پراپرٹی، فلیٹ اور پلاٹ وغیرہ میرے نام کردیے تھے۔ میری دو (۲) بیٹیاں ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ یہ سب تمھارے اور بیٹیوں کے کام آئے گا۔ اچانک ان کا انتقال ہو گیا تو کمپنی کی طرف سے مجھے خاصی رقم ملی۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ اکاؤنٹ میں موجود رقم، پراپرٹی اور انتقال پر ملنے والی رقم سب میری ہے، یا اس میں تمام ورثہ کا حصہ لگے گا؟ مرحوم کے ایک بھائی اور ایک بہن ہیں، کیا ان کا بھی وراثت میں حق ہے؟

جواب: آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

بینک اکاؤنٹ میں جس شخص کی رقم ہے، اسے مالک سمجھا جائے گا۔ اس میں جتنی رقم بیوی کی ہے وہ اسے لے سکتی ہے اور جتنی رقم شوہر کی ہے وہ اس کے انتقال کے بعد تمام ورثہ میں تقسیم ہوگی۔ جوائنٹ اکاؤنٹ ہونے کی وجہ سے نصف رقم کی مالک بیوی نہیں سمجھی جائے گی۔

کوئی شخص کسی کمپنی میں ملازمت کرتا ہو اور اس کے انتقال کے بعد پنشن یا گریجوٹی کے نام سے کچھ رقم ملے تو جس کے نام سے وہ رقم جاری ہو، وہی اس کا مالک ہوگا۔ اگر کمپنی نے بیوی کے نام سے وہ رقم دی ہو تو بیوی اس کی مالک سمجھی جائے گی، دیگر ورثہ کا اس میں حصہ نہ ہوگا۔

شوہر نے کوئی پراپرٹی خریدی اور رجسٹری بیوی کے نام سے کروا دی تو اگر اس کی نیت ہبہ(Gift)کی رہی ہو تو بیوی اس کی مالک سمجھی جائے گی اور اگر محض قانونی تقاضوں سے، یا رجسٹری کے مصارف کم کرنے کے لیے بیوی کا نام لکھوا دیا ہو تو اس کا مالک شوہر ہی کو سمجھا جائے گا اور اس کے انتقال کے بعد اس پراپرٹی کی تقسیم تمام ورثہ میں ہوگی۔

اگر کسی شخص کے ورثہ میں بیوی، دو بیٹیاں، ایک بھائی اور ایک بہن ہو تو تقسیم وراثت میں بیوی کا حصہ آٹھواں (12.5%)اور دو بیٹیوں کا حصہ دو تہائی(66.7%)ہوگا۔ باقی بھائی اور بہن کے درمیان 1: 2 کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔ بہ الفاظ دیگر بھائی کو 13.9% اور بہن کو 6.9% ملے گا۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2024

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau