نسوانی عارضہ میں نماز کی ادائیگی کیسے ہو؟
سوال: میری بیٹی بیس (20) برس کی ہو گئی ہے۔ لیکوریا کا شدید مرض ہے۔ بہت علاج کرایا، لیکن اب تک افاقہ نہیں ہوا ہے۔ کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔ ہر نماز کے وقت اسے کپڑے بدلنے پڑتے ہیں اور وضو کرنا پڑتا ہے۔ وہ بہت الجھن کا شکار ہے۔
براہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ کیا اس کے ساتھ کچھ رعایت ہو سکتی ہے؟
جواب: لیکوریا کو طبی اصطلاح میں ’سیلان الرحم‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک بیماری ہے، جس میں بالغ لڑکی/ عورت کی شرم گاہ سے سفید رنگ کی رطوبت نکلتی ہے۔ اس کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر سے رابطہ کر کے اس کے علاج کی جلد فکر کرنی چاہیے۔
لیکوریا کی رطوبت نکلنے سے وضو ٹوٹ جائے گا اور نماز ادا کرنے کے لیے وضو کرنا ضروری ہے۔ اگر وضو کرنے کے بعد عورت کو اتنا وقت مل جائے کہ دورانِ نماز رطوبت کا اخراج نہ ہو تو اس کے لیے ہر نماز وضو کر کے ادا کرنا ضروری ہے۔ لیکن اگر رطوبت مسلسل نکلتی رہتی ہو تو اس کا حکم ’سلس البول‘ کا ہوگا، یعنی ہر نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد ایک مرتبہ وضو کرنا کافی ہوگا۔ اس وضو سے جتنی چاہے نماز پڑھ لے۔ اگلی نماز کا وقت شروع ہونے پر دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر ظہر کا وقت شروع ہو تو وضو کر لے۔ اس کے بعد جتنی نمازیں چاہے پڑھے۔ عصر کا وقت شروع ہو تو پھر وضو کرلے۔
خود لیکوریا کی رطوبت نجس ہے یا پاک؟ اس سلسلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض فقہاء اسے نجس قرار دیتے ہیں اور بعض اس کے طاہر ہونے کے قائل ہیں۔ جہاں تک ہو سکے، کپڑے کو، جس میں لیکوریا کی رطوبت لگ جائے، دھو لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بغیر پہلا نکاح ختم کیے دوسرا نکاح جائز نہیں
سوال: ایک خاتون کا پندرہ برس قبل نکاح ہوا تھا۔ ایک بچی ہے۔ دو تین برس رشتہ اچھی طرح چلا، پھر تنازعات شروع ہوئے تو وہ اپنے میکے آ گئی۔ تب سے میکے ہی میں ہے۔ شوہر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شوہر نے نہ کوئی رابطہ رکھا نہ اسے گزر اوقات کے لیے کبھی کچھ خرچ دیا۔ اب وہ خاتون دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہے۔ کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے؟
جواب: نکاح میں ایک پہلو عبادت کا ہے۔ اللہ تعالی نے مرد اور عورت کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی جنسی تسکین کے لیے نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں، نہ آزاد شہوت رانی کریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں۔ (النساء: 24-25)ساتھ ہی اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ مرد اور عورت کے درمیان ایک سماجی معاہدہ (social contract)ہے۔ نکاح کے ذریعے وہ آپس میں عہد کرتے ہیں کہ آئندہ زندگی ایک ساتھ رہ کر گزاریں گے اور بچے ہوں گے تو مل جل کر ان کی پرورش کریں گے۔نکاح کے ذریعے شوہر بیوی کے نان و نفقہ، رہائش اور دیگر مصارف کی ذمے داری لیتا ہے۔ اس لیے عورت کو اختیار نہیں کہ وہ اپنی مرضی سے جب چاہے یک طرفہ طور پر شوہر سے علیٰحدگی اختیار کر لے اور دوسرا نکاح کر لے، بلکہ ضروری ہے کہ پہلے اپنا موجودہ نکاح ختم کرائے، پھر دوسرے نکاح کی بات کرے۔
اسے شریعت میں ’خلع‘ کہا گیا ہے۔ عورت کسی وجہ سے شوہر کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ اسے اس کی اطلاع دے۔ شوہر اسے قبول کر لے تب خلع مکمل ہوتا ہے۔ ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ خلع کی صورت میں اگر شوہر مہر کی واپسی کا مطالبہ کرے جو نکاح کے وقت اس نے عورت کو دیا تھا تو اسے واپس کرنا ہوگا۔
اگر شوہر عورت کے مطالبۂ خلع کو منظور نہ کرے اور اس سے کہے کہ میں نہ تمہیں ساتھ میں رکھوں گا، نہ علیٰحدہ کروں گا، تو عورت دار القضا میں اپیل کرے۔ قاضی اس کی شکایات سن کر شوہر کو بلائے گا، افہام و تفہیم کے ذریعے تنازعہ ختم کرنے کی کوشش کرے گا اور اگر دیکھے گا کہ عورت کی منافرت شدید تر ہے اور وہ شوہر کے ساتھ رہنے پر کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہے تو وہ نکاح کو فسخ کر دے گا۔
وراثت میں مکان کی تقسیم کیسے ہو؟
سوال: ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ ماں باپ کا انتقال ہو چکا ہے۔ وراثت میں ایک گھر ہے، جو گراونڈ فلور اور فرسٹ فلور پر مشتمل ہے۔ اس کی قیمت تقریباً ایک کروڑ روپے ہے۔ اس کی تقسیم کیسے ہو گی؟ کیا گراونڈ فلور اور فرسٹ فلور کی ایک ہی حیثیت ہوگی؟
براہ کرم تفصیل سے جواب مرحمت فرمائیں۔
جواب: کسی شخص نے اپنے انتقال کے وقت جو کچھ چھوڑا ہو : زمین، جائیداد، مکان، دکان، نقدی، شیئر، وغیرہ، سب اس کے ورثہ کے درمیان تقسیم ہوگا۔
اگر ورثہ میں صرف ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں تو مال وراثت ان کے درمیان 2:1 کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُوصِیکُمُ اللہُ فِی اَولَادِکُم لِلذَّکَرِ مِثلُ حَظِّ الاُنثَیَینِ (النساء :11)
( تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ )
دوسرے الفاظ میں بیٹے کو 40٪ ملے گا اور تین بیٹیوں میں سے ہر بیٹی 20٪ پائے گی۔
اگر وراثت میں صرف ایک گھر ہے، جو گراونڈ فلور اور فرسٹ فلور پر مشتمل ہے تو اس کی تقسیم کئی اعتبار سے ہو سکتی ہے: یا تو تمام ورثا کے حصوں کے تناسب سے گھر کے حصہ کر لیے جائیں، یا گھر کی مالیت طے کر لی جائے اور ایک وارث یا کچھ ورثہ گھر لے لیں اور باقی ورثاکو رقم دے دیں، یا پورے گھر کو فروخت کر دیا جائے اور ورثا اپنے تناسب کے اعتبار سے رقم تقسیم کرلیں۔ گھر کی قیمت کا اندازہ لگاتے وقت عُرفِ عام کا اعتبار کیا جائے گا۔ گھر کا کوئی حصہ دو جانب کھلتا ہو تو اس کی قیمت ایک جانب کھلنے والے حصے سے زیادہ ہوسکتی ہے، اسی طرح گراونڈ فلور کی قیمت فرسٹ فلور سے زیادہ ہوسکتی ہے۔
بہر حال وراثت کی تقسیم اگر تمام ورثہ کی باہم رضامندی، موافقت، محبت اور ایثار کے ساتھ ہو اور اللہ کو راضی کرنے کی فکر ہو تو تمام معاملات خوب صورتی سے نپٹ جاتے ہیں اور شکایات نہیں پیدا ہوتیں۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2025