ازدواجی تعلقات اور حقوق
سوال: زید کی شادی ۷۲،۸۲ سال پہلے ہوئی تھی۔ زوجین نے پرمسرت ازدواجی زندگی گزاری۔ ان کے درمیان کسی طرح کی ناچاقی یا ناخوش گواری نہیں تھی۔ اس عرصے میں ان کی پانچ اولادیں ہوئیں، جو بحمد اللہ اب جوان ہیں۔ ان میں سے ایک بیٹی کی شادی بھی ہوچکی ہے۔ زید کی بیوی نے گزشتہ دس سال سے اس کے کمرے میں سونا چھوڑدیا ہے۔ وہ اپنے جوان بچوں کے ساتھ الگ کمرے میں سوتی ہے اور شوہر دوسرے کمرے میں اکیلاسوتاہے۔ زید اسے باربار اللہ اور رسولﷺکا واسطہ دے کر اس کا فرض منصبی یاد دلاتاہے اور اسے اپنے کمرے میں سُلانا چاہتا ہے۔مگر وہ کہہ دیتی ہے کہ بچے اب بڑے ہوگئے ہیں۔ وہ کیا سوچیں گے؟ پھر انھیں اکیلے الگ کمرے میں رکھنا مناسب نہیں۔ ان کاخیال رکھناضروری ہے۔ زید عمر کے اس مرحلے میں پہنچ چکاہے، جہاں وہ چاہتاہے کہ اس کی بیوی زیادہ اوقات اس کے ساتھ رہے۔ شادی صرف جنسی تعلق قائم کرنے کے لیے تو نہیں کی جاتی۔ اس کی بیوی بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے، لیکن عملاً وہ شوہر کے حقوق ادا کرنے سے غفلت برتتی اور جوان اولاد کی دیکھ بھال کو ترجیح دیتی ہے۔ اب وہ صرف اپنے بچوں کی ماں بن کر رہ گئی ہے۔ اس صورت حال میں درج ذیل اُمورجواب طلب ہیں:
۱۔ کیا زید اور اس کی بیوی کے درمیان زن و شوہر کی حیثیت باقی ہے؟ یا ختم ہوگئی ہے؟
۲۔ بیوی کا رویّہ کہیں شوہر سے خلع حاصل کرنے کے زمرے میں تو نہیں آتا؟
۳۔ کیا دونوں ایک مکان میں رہ سکتے ہیںاور بلاکراہت ایک دوسرے سے بات چیت کرسکتے ہیں؟
میں سمجھتاہوں کہ ازدواجی تعلقات کامطلب ہی یہ ہے کہ عام حالات میں بیوی ہمیشہ رات اپنے شوہر کے ساتھ گزارے۔ اِلّا یہ کہ کوئی شرعی مجبوری آڑے آگئی ہو۔
علی حسین خاں
محلہ خٹک پورہ، فرخ آباد ﴿یوپی﴾
جواب: مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے ہیں، لیکن نکاح کے دو بول کہتے ہی ان کے درمیان انتہائی قریبی تعلق استوار ہوجاتاہے۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت پیداہوجاتی ہے اور وہ یک جان دوقالب بن جاتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے :
لَمْ نَرَلِلْمُتَحَابَّیْنِ مِثْلَ النِّکَاحِ ﴿ابن ماجہ: ۱۸۴۷﴾
‘‘نکاح کے ذریعے زوجین میں جیسی محبت پیداہوجاتی ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ دو افراد کے درمیان ویسی محبت کسی اور ذریعے سے پیدا ہوتی ہو‘‘۔
ازدواجی زندگی کا ثمرہ جب بچے کی ولادت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے تو عورت کی توجہ بٹ جاتی ہے۔ اس کی محبت کاایک اور حق دار وجود میں آجاتاہے۔ پہلے وہ اپنی تمام تر محبتیں اپنے شوہر پر نچھاور کرتی تھی اور اس کے تمام اوقات اور پوری توجہات اپنے شوہر کے لیے وقف تھیں، اب اس کا بچہ بھی اس کی نگاہِ التفات کو اپنی طرف منعطف کرلیتاہے اور اس کاخاصا وقت اس کی پرورش و پرداخت میں صرف ہونے لگتاہے۔ بچہ اور بڑا ہوتاہے تو ماں باپ دونوں مل کر اس کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر دھیان دیتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں شریک ہونے کے لیے اس کی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔ بچوں کی عمر کے کس مرحلے میں ان کے ساتھ کیسامعاملہ کیاجائے؟ قرآن وحدیث میں اس کے اشارے ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو انھیں الگ سلایاجائے ﴿مسند احمد، ۲/۱۸۰﴾ اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ ان کے بستر ماں باپ کے بستر سے بھی الگ ہونے چاہییں۔ سورۃ نورمیں ، جہاں حجاب سے متعلق مختلف احکام دیے گئے ہیں، وہیں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ قریب البلوغ بچوں کو مخصوص اوقات میں ماں باپ کے کمروں میں بغیر اجازت لیے نہیں داخل ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
یٰآَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا لِیَسْتَئْذِنْکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ اَیْمٰنُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ َیبْلِغُواالحُلْمَ مِنْکُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ مِنْ قَبْلِ صَلٰوۃٍ الفَجْرِ وَحِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیْابُکُمْ مِّنَ الظَّہِیْرَۃٍ وَمِنْ بَعْدِ صَلوٰۃِ الْعِشَآئِ ثَلٰثُ عَوْرَاتٍ لَّکُمْ ﴿النور: ۵۸﴾
‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، لازم ہے کہ تمھارے لونڈی غلام اور تمھارے وہ بچے جو ابھی عقل کی حد کو نہیں پہنچے ہیں، تین اوقات میں اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں، صبح کی نماز سے پہلے اور دوپہر کو جب کہ تم کپڑے اتارکر رکھ دیتے ہو اور عشائ کی نماز کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں‘‘۔
آگے بالغ بچوں کو بھی ایسا ہی کرنے کاحکم دیاگیا ہے:
وَاِذا بَلَغَ الاَطفٰلُ مِنْکُم الحُلْمَ فَلْیَستَئْذنُوا کَمَااسْتَئْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ ﴿النور:۵۹﴾
‘‘اور جب تمھارے بچے عقل کی حد کو پہنچ جائیں تو چاہیے کہ اسی طرح اجازت لے کر آیا کریں جس طرح ان کے بڑے اجازت لیتے رہے ہیں‘‘۔
ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ بچے جب بڑے ہوجائیں تو پردے کے احکام ان سے بھی اسی طرح متعلق ہوجاتے ہیں جس طرح بڑوں سے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف متعدد ایسی آیات اور احادیث ہیں، جن سے زوجین کے ایک کمرے میں رات گزارنے کااشارہ ملتاہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
َوالّٰتِی تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھجُرُوْھُنَّ فِی المَضَاجِع ﴿النسائ : ۳۴﴾
‘‘اور جن عورتوں سے تمھیں سرکشی کااندیشہ ہو انھیں سمجھائو، خواب گاہوں میں ان سے علاحدہ رہو‘‘۔
’’مضاجع‘‘ کاترجمہ بستر بھی کیاگیاہے اور خواب گاہ بھی۔ اس کی تشریح اس حدیث سے ہوتی ہے:
وَلَاتَھْجُرْاِلّافِی الْبَیْتِ ﴿ابوداؤد: ۲۱۴۲﴾
‘‘اور ﴿بیوی سے﴾ مت علیحدگی اختیارکرو، مگر خواب گاہ میں‘‘۔
بیوی کی سرکشی اور نافرمانی کی صورت میں اس کی تادیب و اصلاح کے لیے بستر میں، یاخواب گاہ میں اس سے علاحدہ رہنے کو کہاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں زوجین کا ساتھ رہنا پسندیدہ اور مطلوب ہے۔
اوپر کے خط میں سائل نے بیوی کے جس رویّے کی شکایت کی ہے، اس کا تعلق نام نہاد مشرقی تہذیب سے ہے۔ عموماً جب بچّے کچھ بڑے اور باشعور ہوجاتے ہیں تو عورتیں ان کی موجودگی میں اپنے شوہروں کے کمروں میں رہنے سے شرماتی اور اسے ناپسند کرتی ہیں۔ اس کے بجائے بچوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے کہ وہ اس عمل کو اجنبی اور غیراخلاقی نہ سمجھیں۔ ویسے بھی ازدواجی تعلق صرف جنسی عمل کا نام نہیں ہے۔ بہت سے معاملات و مسائل روزمرّہ کی زندگی میں ایسے ہوتے ہیں، جن پر بچوں کی غیرموجودگی میں زوجین کا تنہائی میں گفتگو کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ بیوی کے فرائض میں سے ہے کہ وہ شوہر کو گھر میں سکون فراہم کرے اور جائز امور میں اس کی نافرمانی نہ کرے۔ اللہ کے رسولﷺسے کسی نے دریافت کیاکہ سب سے اچھی عورت کون ہے؟ فرمایا:
الَّتِی تَسُرُّہ اِذا نَظَرَ وتُطِیْعُہ’ اِذااَمَرَ وَلاَ تُخَالِقُہ’ فِی نَفْسِھَا وَلَا مَالِھَا بِمَابَکْرَہ
‘‘وہ عورت جس کا شوہر اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، وہ اسے کسی چیز کا حکم دے تو اس پر عمل کرے اور اپنی ذات کے بارے میں اس مال کے بارے میں جو اس کی تحویل میں ہے، شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے‘‘۔
اس معاملے میں زوجین کو افراط و تفریط سے بچناچاہیے نہ انھیں اپنے باشعور بچوں کے سامنے کھلے عام ایسی ‘حرکتیں’ کرنی چاہییں، جن کا شمار بے حیائی میں ہوتا ہو اور نہ ایک دوسرے سے بے تعلق ہوجاناچاہیے کہ دوسرا فریق اسے اپنی حق تلفی شمار کرنے لگے۔ رہیں وہ باتیں، جن کاتذکرہ خط کے آخر میں کیاگیا ہے، وہ جاہلانہ باتیں ہیں۔ بیوی کے کچھ عرصہ شوہر سے الگ دوسرے کمرے میں رہنے سے نہ تو ازدواجی حیثیت ختم ہوجاتی ہے نہ یہ عمل خلع حاصل کرنے کے زمرے میں ٓتاہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق پہچاننے چاہییں اور ان کی ادائیگی کے لیے شرحِ صدر کے ساتھ خود کو ٓمادہ کرنا چاہیے۔
حدیث نبوی کی صحت و عدمِ صحت کی پہچان
سوال: ماہ نامہ زندگی نو، جنوری ۲۰۱۰ میں ’’کیاغیرمسلم ممالک میں سودی لین دین جائز ہے؟‘‘ کے عنوان سے آں جناب نے ایک سوال کاجواب دیا ہے۔ اس میں سودی لین دین کی شناعت بیان کرتے ہوئے ایک حدیث نقل کی ہے، جس کا مضمون یہ ہے: ’’سود کے گناہ کے ستر درجے ہیں۔ اس کا سب سے کم تردرجہ ایساہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ زنا کرے‘‘۔یہ حدیث مجھے‘موضوع’ یعنی من گھڑت معلوم ہوتی ہے۔ اس میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور جو اسلوب اختیار کیاگیا ہے، اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ آپ ایسے ناشائستہ انداز سے کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے۔ سود کی حرمت ثابت کرنے والی اور بھی بہت سی احادیث ہیں۔ اس لیے ایسی غیرمعتبر اور ثقاہت سے گری ہوئی احادیث سے اجتناب اولیٰ ہے۔
عبدالعظیم
طالب علم جامعتہ الفلاح، بلریا گنج، اعظم گڑھ
جواب: کسی حدیث کی صحت یا عدمِ صحت جانچنے کے لیے محدثین کرام نے مختلف اصول وضع کیے ہیں۔ ان کا تعلق روایت سے بھی ہے اور درایت سے بھی۔ مثلاً سندِ حدیث میں کسی راوی کا نام چھوٹ گیا ہو یا کسی راوی کا حافظہ کم زور ہو یا اس نے ضبطِ الفاظ میں تساہل سے کام لیا ہو یا اس کا اخلاق وکردار مشتبہ ہو یا وہ اپنی روزمرّہ کی زندگی میں جھوٹ بولتا ہو تو اس کی روایت کو ضعیف کی اقسام میں شمار کیاگیا ہے۔ اسی طرح روایتوں کی داخلی شہادتوں سے بھی انھیں پرکھاگیا ہے۔ مثلاً کسی روایت میں لفظی یا معنوی رکاکت پائی جائے، وہ حکمت و اخلاق کی عام قدروں کے منافی ہو، حِسّ و مشاہدہ اور عقل عام کے خلاف ہو، اس میں حماقت یا مسخرہ پن کی کوئی بات کہی گئی ہو، اس کامضمون عریانیت یا بے شرمی کی کسی بات پر مشتمل ہووغیرہ تو اس کا ضعیف وموضوع ہونا یقینی ہے۔
حرمت سود کی شناعت بیان کرنے والی جو حدیث اوپر سوال میں نقل کی گئی ہے، اس کا موضوع ہونا کس اعتبار سے ہے؟ اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ اندازِ سوال سے ظاہر ہوتاہے کہ اس پر نقد درایت کے پہلو سے ہے۔ لیکن اس بنیاد پر اسے موضوع قرار دینا درست نہیں۔ ماں کی عزّت و احترام انسانی فطرت میں داخل ہے۔ تمام مذاہب میں اس پر زور دیاگیا ہے۔ اس کے ساتھ تقّدس کارشتہ استوار ہوتاہے، زنا وبدکاری تو دور کی بات ہے، کوئی سلیم الفطرت انسان اپنی ماں کی طرف بُری نظر سے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ سود کے انسانی سماج پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کا شکار ہونے والوں کی زندگیاں برباد ہوتی ہیں اور سودی کاروبار کرنے والوں کے اخلاق و کردار پر خراب اثر پڑتا ہے۔ اس کی خباثت وشناعت واضح کرنے کے لیے اسے ‘ماں کے ساتھ زنا‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں عریانیت یا ناشایستگی کی کوئی ایسی بات نہیں، جس کی بنا پر اس کوموضوع قرار دیاجائے۔
ایک زمانے میں منکرینِ حدیث نے یہ وتیرہ بنالیاتھاکہ جو حدیث بھی کسی وجہ سے انھیں اچھی نہ لگے، اسے بلاتکلف موضوع قرار دے دیتے تھے۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’سنت کی ٓئینی حیثیت‘‘ میں ان کازبردست تعاقب کیاہے اور ان کے نام نہاد دعووں کا ابطال کیاہے، جن لوگوں کے ذہنوں میں ایسے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، جن کی ایک مثال اوپر درج سوال میں پیش کی گئی ہے، انھیں اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرناچاہیے۔
انگوٹھی میں پتھر کااستعمال
سوال: بعض حضرات ایسی انگوٹھی استعمال کرتے ہیں، جس میں بہ طور نگینہ کوئی پتھر لگاہوتا ہے۔ ان کایہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ اس پتھر کے جسم انسانی پر اثرات پڑتے ہیں اور مختلف بیماریوں میں افاقہ ہوتاہے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ کیا ایسی انگوٹھی کااستعمال درست ہے؟ اور کیا ایسا عقیدہ رکھنا جائز ہے؟
سہیل احمد
بارہ مولہ، سری نگر، کشمیر
جواب: انگوٹھی کا استعمال زمانۂ قدیم سے ہوتارہا ہے۔ سونے، چاندی اور دیگر دھاتوں کی انگوٹھیاں بنائی اور پہنی جاتی رہی ہیں۔ شرعی طور سے انگوٹھی پہننا مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے جائز ہے۔ ہاں سونا (Gold)امتِ محمدیہ کے مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس لیے سونے کی انگوٹھی پہننا ان کے لیے جائز نہیں۔ حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اُحِلَّ الذَّھَبُ وَالْحَرِیْرُ ِلِانَاثِ اُمّٰتِی وَحُرِّمَ عَلَی ذُکُوْرِھَا ﴿نسائی: ۵۱۴۸﴾
‘‘سونا اور ریشم میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں کے لیے حرام ہے‘‘۔
بعض احادیث میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت سے مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننے سے منع کیاہے ﴿بخاری: ۵۸۶۳، ۵۸۶۴،مسلم:۲۰۶۶﴾
احادیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی تھی، جس سے آپﷺمہر کاکام لیاکرتے تھے۔ اس پر ‘محمدرسول اللہ’ کندہ تھا۔یہ انگوٹھی آپﷺکے وصال کے بعد خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر(رض) ، پھر خلیفہ دوم حضرت عمرؓ پھر خلیفہ سوم حضرت عثمان(رض) کے پاس رہی اور یہ حضرات اسے پہنتے رہے۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں کہیں غائب ہوگئی۔
﴿بخاری: ۵۸۶۶،مسلم ۲۰۹۱﴾
انگوٹھی کانگینہ اسی دھات سے بھی ہوسکتاہے۔ مثلاً چاندی کی انگوٹھی کا نگینہ بھی چاندی کا ہو، اور دوسری دھات کا بھی ہوسکتاہے۔ چنانچہ عقیق، یاقوت اور دیگر قیمتی حجریات بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو انگوٹھی بنوائی تھی، صحیح بخاری میں مذکورہے کہ اس کا نگینہ بھی چاندنی کاتھا ﴿۵۸۷۰﴾ لیکن صحیح مسلم میں روایت کے الفاظ یہ ہیں: کَانَ خَاتَمُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مِنْ وَرَقٍ وَکَانَ فَصُّہ’ حَبْشِیّاً ﴿۲۰۹۴﴾ ’‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشہ کا بناہواتھا‘‘۔ اس سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ وہ چاندی کے علاوہ کسی اور دھات کا تھا۔
جہاں تک حجریات کی تاثیر کا معاملہ ہے تو طب کی کتابوں میں اس کا تذکرہ ملتاہے۔ مختلف حجریات کے بارے میں بتایاگیاہے کہ انھیں اپنے پاس رکھنے، گردن میں لٹکانے یا کسی اور طرح سے اس کے خارجی استعمال سے جسم انسانی پر فلاں فلاں اثرات پڑتے ہیں۔ اس کا تعلق عقیدہ سے نہیں، بلکہ تجربے سے ہے۔ اگر کسی پتھر کا خارجی استعمال طبّی اعتبار سے فائدہ مند ثابت ہو تو اسے انگوٹھی کا نگینہ بنالینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2010