سوال: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع شدہ کتاب ’’فقہ السنۃ‘‘ میں روزوں کے ذیل میں بہ عنوان ’’جنابت کی حالت میں صبح کرنا‘‘ ایک حدیث پیش کی گئی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے، حالاں کہ آپﷺ روزے سے ہوتے تھے، پھر آپﷺ غسل فرماتے ’’ ﴿بہ حوالہ:بخاری ومسلم،ص:۳۸۴، ﴾
اس حدیث کو پڑھ کر فوراً ہی یہ سوال ذہن میں اٹھتاہے کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ مذکور میں فجر کی نماز ترک کردیتے تھے؟ جنابت خواہ مباشرت کے ذریعے ہوئی ہو یا احتلام کے ذریعے، اس حالت میں روزہ رکھ لینا اور پھر فجر کی نماز ترک کرکے صبح کردینا ایسا عمل ہے، جس کی توقع اللہ کے عام نیک بندوں سے بھی نہیں کی جاسکتی۔ چہ جاے کہ اسے اللہ کے محبوب ترین پیغمبر سے منسوب کیاجائے۔ ایک شکل یہ تو ہوسکتی ہے کہ فجر کی نماز کے بعد انسان سوجائے اور حالت خواب میں وہ ناپاک ہوجائے، لیکن حدیث کے الفاظ ’’جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے‘‘ اس بات کی صراحت کررہے ہیں کہ حالتِ جنابت کا وقوع رات میں ہوا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کتاب مذکور میں زیربحث حدیث کے ضمن میں حاشیے میں فقہا کی جو آرا دی گئی ہیں، ان میں بھی اس پہلو کو بالکل نظرانداز کردیاگیاہے۔ جب کہ حدیث مذکور کو درست مان لینے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قصداً ترکِ نماز کا عمل ثابت ہوتاہے،جو کہ میری دانست میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سنگین الزام ہے۔
گلزارصحرائی، ابوالفضل انکلیو،نئی دہلی
جواب :اس خط سے بہ خوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ موجودہ دور میں بعض مسلمانوں کے ذہنوں پر عقلیت پسندی کس حد تک غالب آگئی ہے؟ اور وہ دین کے نصوص پر کس انداز سے غور کرنے لگے ہیں۔ کوئی حدیث چاہے کتنی ہی بے غبار ہو اور چاہے وہ معتبر راویوں سے مروی اور حدیث کی مستند کتابوں میں درج ہو، لیکن اگر وہ کسی کے عقلی چوکھٹے میں فٹ نہیں ہورہی ہے تو اس شخص کو اسے نادرست قرار دینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا اور وہ بلاجھجک یہ فیصلہ کربیٹھتاہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک سنگین الزام لگایاگیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے استنباط پرنظرثانی کی جائے اور اپنے فہم کو قصوروار قرار دیاجائے۔
روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں صبح کرتے تھے‘‘ اس میں یہ کہاں کہا گیا ہے کہ آپﷺ آٹھ بجے صبح سوکر اٹھتے تھے۔ طلوعِ فجر کے وقت کو بھی ’’صبح‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد سے طلوعِ آفتاب تک ایک گھنٹہ سے زائد وقت رہتا ہے۔ اس عرصے میں کسی بھی وقت فجر کی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی امت کے تمام افراد کے لیے اسوہ ہے۔ بہت سے کام آپﷺ نے بیان جواز کے لیے کیے ہیں اور امہات المومنین نے ان کی روایت بھی اسی مقصد سے کی ہے کہ افرادِ امت کو معلوم ہوجائے کہ فلاں کام میں جواز کی حد کہاں تک ہے۔ کیا اگر کوئی شخص رات میں جُنبی ہوجائے تو اس کے لیے فوراً اٹھ کر غسل کرنا واجب ہے؟ یا وہ رات کا بقیہ حصہ اُسی حالت میں گزارکر، صبح نمازِ فجر سے قبل غسل کرسکتا ہے؟ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل نے ہم جیسے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کے لیے سہولت کی راہ دکھائی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی میں آپﷺ ہی امامت کرتے تھے۔ کبھی کسی وجہ سے آپﷺ کو مسجد میں آنے میں تاخیر ہوجاتی تو صحابۂ کرام آپﷺ کا انتظار کیاکرتے تھے۔ ایک وقت کی نماز کے بارے میں بھی ﴿سوائے مرض الموت کے﴾ یہ ثابت نہیں ہے کہ آپﷺ مسجد نبوی سے متصل اپنے گھر میں رہے ہوں اور آپﷺ نے مسجد میں آکر صحابہ کی امامت نہ کی ہو۔
دھوکا اور طلاق
سوال: ایک صاحب کا نکاح ہوا۔ انھوںنے بیوی کو مہر کے علاوہ ایک مکان بھی بہ طور تحفہ دیا اور اس کی گفٹ رجسٹری اس کے نام کروادی۔ مگر کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد جب اس بیوی سے ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی تو ان کا دل پھر گیا۔ انھوںنے نہ صرف یہ کہ بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، بل کہ اسے اطلاع دیے بغیر تحفے میں دیے گئے مکان کی رجسٹری بھی منسوخ کروادی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ کسی کو دیاگیاتحفہ واپس لیاجاسکتا ہے۔ شریعت میں اس کی ممانعت نہیں ہے۔بہ راہ کرم ہماری رہ نمائی فرمائیں۔ کیا ان صاحب کی بات صحیح ہے؟
منصورعالم، چاندنی چوک، دہلی
جواب:تحائف کے لین دین کو اسلام میں پسندیدہ قرار دیاگیاہے اور اس عمل کو باہم محبت میں اضافہ ہونے یا دلوں کا کینہ دور ہونے کا ذریعہ بتایاگیاہے۔ ﴿بخاری فی الادب المفرد، بیہقی﴾ اسی طرح احادیث میں کسی کو تحفہ دے کر واپس لینے کو ناجائز کہاگیاہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی کو کوئی چیز تحفے میں دے کر واپس لے لے، ہاں باپ اپنے بیٹے کو دی ہوئی چیز واپس لے سکتا ہے، ایسا کرنے والے کی مثال اس کتّے کی سی ہے جو قے کرکے پھر اسی کو چاٹ لے‘‘ ﴿ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ﴾ اسی لیے جمہور علمائ کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی کو تحفہ دے کر اسے واپس لینا حرام ہے۔ خواہ یہ معاملہ بھائیوں کے درمیان ہو یا میاں بیوی کے درمیان۔ ﴿فقہ السنۃ، سیدسابق، بیروت، ۳/۵۵۱﴾
حدیث میں باپ کے لیے بیٹے کو دیے گئے تحفے کو واپس لینے کے جواز کی بات اپنے عموم پر نہیں ہے، بل کہ اس صورت میں ہے کہ کسی شخص کے کئی بیٹے ہوں، اس نے کسی ایک بیٹے کو کوئی چیز تحفے میں دی ہو، دوسرے بیٹوں کو کچھ نہ دیا ہو، تو چوں کہ یہ ناانصافی ہے اس لیے ایک بیٹے کو دیے گئے تحفے کو وہ واپس لے سکتا ہے۔یہ وضاحت دیگر احادیث میں موجود ہے۔
صورتِ مسؤلہ میں اور بھی کئی غلط کام کیے گئے ہیں۔
۱- اولاد نہ ہونے کی بناپر بیوی سے قطع تعلق کرلیا، حالاں کہ اولاد ہونا یا نہ ہونا اللہ تعالیٰ کی مشیت پر منحصر ہے۔ اس میں بیوی کا کوئی قصور نہیں ہے۔
۲- بیوی کو طلاق مغلظہ دی، حالاں کہ یہ طلاق کا غیرمسنون طریقہ ہے۔
۳- بغیر اطلاع دیے ﴿دھوکے سے﴾ گفٹ رجسٹری کو منسوخ کروادیا۔
متعلقہ فرد نے کئی ناجائز کاموں کا ارتکاب کیاہے۔ انھیں اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ تلافی کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ وہ سابقہ بیوی کو تحفے میں دیاگیا مکان واپس کردیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تدفین کے وقت قبر پر مٹی ڈالنا
سوال: مردے کو قبر میں دفن کرتے وقت تین مرتبہ مٹی ڈالی جاتی ہے اور اس کے ساتھ دعا بھی پڑھی جاتی ہے۔ بہ راہِ کرم اس کی شرعی حیثیت واضح فرمائیں۔ کیا تین مرتبہ مٹی ڈالنا ضروری ہے؟ اس کے ساتھ جو دعا پڑھی جاتی ہے، کیا وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟
ضیاء الدین رکن الدین، بھٹکل
جواب : مردے کو قبر میں دفن کرتے وقت تین مرتبہ مٹی ڈالنا مسنون ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کے سراہنے تین مرتبہ مٹی ڈالی۔ ﴿ابن ماجہ: ۱۵۶۵، علامہ البانیؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیاہے﴾
ائمہ ثلاثہ ﴿امام ابوحنیفہؒ امام مالکؒ اور امام شافعیؒ ﴾ کے نزدیک مٹی ڈالتے وقت مستحب یہ ہے کہ پہلی مرتبہ مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ، دوسری مرتبہ وَفِیْہَا نُعِیْدُکُمْ اور تیسری مرتبہ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَیٰ پڑھے۔ ﴿یہ اصلاً سورہ طہٰ کی آیت نمبر ۵۵ ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیاہے، اسی میں ہم تمھیں واپس لے جائیںگے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے﴾ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت ام کلثومؓ کو دفن کرتے وقت ایسا کیاتھا۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ مٹی ڈالتے وقت کچھ نہیں پڑھنا چاہیے۔ حدیث مذکور ضعیف ہے۔ ﴿ملاحظہ کیجیے: فقہ السنۃ، السید سابق، دارالکتاب العربی، بیروت، ۱۹۸۳ء،۱/۵۴۶﴾
خواب میں حالتِ جنابت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہ دیکھنا
سوال: کہاجاتاہے کہ اگر کوئی شخص خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے آپﷺ ہی کو دیکھا ہے، اس لیے کہ شیطان آپﷺ کی صورت میں مجسم نہیں ہوسکتا۔ ایک صاحب کا بیان ہے کہ انھوںنے خواب میں آپﷺ کو دیکھاہے، لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس وقت وہ حالتِ جنابت میں تھے۔ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ کیا جنابت کی حالت میں آپﷺ کو خواب میں دیکھاجاسکتا ہے؟
ضیائ الدین رکن الدین، بھٹکل
جواب :عہدنبویﷺ کے بعض واقعات سے اشارۃً معلوم ہوتاہے کہ صحابۂ کرام نے حالتِ جنابت میں بعض مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاہے، تو جب بیداری کی حالت میں آپﷺ کو بہ حالتِ جنابت دیکھاجاسکتاہے تو خواب میں ایسا ہوسکتا ہے۔ یہ بات قرین عقل ہے۔
سودی کاروبار کرنے والے کی دعوت قبول کرنا
سوال: ایک صاحب لائف انشورنس کی ایک کمپنی میں ملازم تھے۔ اب ریٹائر ہوگئے ہیں۔ ادھر ان سے ہمارے کچھ تعلقات بڑھے ہیں۔ انھوںنے ہمارے پروگراموں میں آنا شروع کیاہے اور ہمیں بھی اپنے گھر بلاتے ہیں۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں کہ کیا کسی لائف انشورنس کمپنی میں ملازمت کرنا جائز ہے؟ اور کیا اس میں ملازمت کرنے والے کسی شخص کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے؟
عبدالوہاب گوڑہ،حیدرآباد
جواب :آپ کے سوالات کے مختصر جواب درج ذیل ہیں:
۱- بینک اور لائف انشورنس کمپنیاں چوں کہ سودی کاروبار میں ملوث ہوتی ہیں،اس لیے عام حالات میں ان کی ملازمت جائز نہیں۔
۲- کسی شخص کاذریعہ آمدنی مکمل طورپر ناجائز ہو یا اس کی آمدنی کا بڑا حصہ ناجائز کمائی پر مشتمل ہوتو اس کی دعوت نہیں قبول کرنی چاہیے۔ اس موضوع پر موجودہ دور کے ایک بڑے عالم دین، مفتی اور اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے بعض فتاویٰ ان کی کتاب ’’الفتاویٰ‘‘ سے نقل کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایک جگہ انھوںنے لکھاہے:
’’LICمیں بھی سود بھی ہے اور جوا بھی۔ اس لیے جائز نہیں اور اس جیسے گناہ کا ارتکاب جائز نہیں۔ اسی طرح گناہ کے کام میں تعاون اور لوگوں کو اس کام کی طرف دعوت دینا بھی جائز نہیں۔ LICایجنٹ کو بھی ظاہر ہے کہ لوگوں کو اس کی طرف راغب کرنا پڑتا ہے، اس لیے یہ صورت جائز نہیں۔‘‘ ﴿کتاب الفتاویٰ، طبع دیوبند، ۵/۰۶۳-۱۶۳﴾
دعوت قبول کرنے کے سلسلے میں انھوں نے لکھاہے:
’’اگر کسی شخص کا صرف سودی ہی کاروبار ہو یا زیادہ ترآمدنی سود پر مبنی ہو اور معلوم نہ ہوکہ دعوت کس رقم سے کی جارہی ہے تو اس کی دعوت قبول کرنا درست نہیں۔ اگر اس کی آمدنی زیادہ تر حلال پر مشتمل ہو یا اس نے صراحت کردی ہو کہ میں حلال حصہ یاآمدنی ہی سے دعوت کررہاہوں تو دعوت قبول کی جاسکتی ہے۔
اگرکسی شخص کے بارے میں یہ بات معلوم نہ ہو کہ اس کا کوئی کاروبار حرام پر بھی مبنی ہے تو ایسے شخص کے یہاں دعوت میں حلال وحرام کی بابت پوچھنا درست نہیں۔کیوں کہ اس میںمسلمان کی ایذا اور توہین ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایاہے۔‘‘ ﴿کتاب الفتاویٰ، ۶/۰۰۲﴾
’’اگرمعلوم ہوکہ دعوت سودی پیسے سے کی جارہی ہے تب تو دعوت میں شریک ہوناقطعاً جائز نہیںہے اور اگر دعوت کاحلال پیسے سے ہونامعلوم ہوتو دعوت میں شرکت جائز ہے اور متعین طورپر اس کا علم نہ ہو تو پھر اس بات کا اعتبار ہوگا کہ اس کی آمدنی کا غالب ذریعہ کیا ہے؟ اگر غالب حصہ حرام ہے تو دعوت میں شرکت درست نہیں اور غالب حصہ حلال ہے تو دعوت میں شرکت جائز ہے۔
سود خور سے تعلقات رکھنے اور اس کی تقریباً خوشی میں شرکت کرنے کا حکم بھی تقاضائے مصلحت سے متعلق ہے۔ یوںتعلق تو کافر و مشرک سے بھی رکھاجاسکتا ہے۔ پس اگر سود خور سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس کی خصلت بدسے متاثر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتو تعلق رکھنا جائز ہے اور اس کی اصلاح کی امید کی نیت ہوتو بہتر ہے ورنہ اجتناب بہتر ہے۔کیوں کہ بری صحبت سے نفع کی امید نہیں اور نقصان کا اندیشہ ہے۔‘‘ ﴿ایضاً:۶/۲۰۱﴾‘‘
مشمولہ: شمارہ اپریل 2011