اگرکوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت کلمٔہ طیبہ پڑھ لے؟
سوال:میں ایک سلاٹرہاؤس میں کام کرتاہوں۔ یہاں بڑ ے پیمانے پر جانوروں کاذبیحہ ہوتاہے۔ ذبح کا عمل صحیح اور شرعی طریقے سے انجام پائے اس کی نگرانی کے لیے دو مستند علمائ مامور ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں ایک واقعہ یہ پیش آیاکہ ٹرک سے جانوروں کو اتارتے وقت محسوس ہواکہ ایک جانور بے دم ہورہاہے۔ جھٹ سے ایک مزدور نے اس کی گردن پر چھری پھیردی ۔ البتہ چھری چلاتے وقت اس نے بسم اللہ، اللہ اکبر کہنے کی بجائے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ پڑھا۔ خیال رہے کہ مزدور مسلمان تھا، لیکن اَن پڑھ تھا۔ اسے معلوم نہ تھاکہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھاجاتاہے۔ سوال پیداہواکہ یہ ذبیحہ جائز ہوا یا نہیں؟ سلاٹرہاؤس کے عالم صاحب سے رجوع کیاگیاتو انھوںنے اسے ناجائز قرار دیا اور وجہ یہ بتائی کہ جانور ذبح کرتے وقت صرف اللہ تعالیٰ کا نام لینا چاہیے۔ غیراللہ کا نام لینے سے ذبیحہ حرام ہوجاتاہے۔ اس فتویٰ کے صحیح ہونے پر مجھے کچھ شبہ ہے۔ کیا کلمۂ طیبہ پڑھ کر ذبح کرنے سے جانور حرام ہوجائے گا؟ مزدور نے اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے تو نہیں ذبح کیاہے؟
براہ راہِ کرم اس مسئلے پر قرآن و حدیث کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔
اقبال احمد،غازی آباد
جواب:قرآن کریم میں صراحت ہے کہ ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیاگیاہو۔ جس جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیاگیا ہو، اس کا گوشت کھانا حلال نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ اِن کُنتُمْ بِآیَاتِہِ مُؤْمِنِیْنَo وَمَا لَکُمْ أَلاَّ تَأْکُلُواْ مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ ﴿الانعام:۱۱۸-۱۱۹﴾
’’پھر اگر تم لوگ اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو تو جس جانور پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اس کا گوشت کھاؤ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم وہ چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیاگیاہو؟‘‘
وَلاَ تَأْکُلُواْ مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّہِ عَلَیْْہِ وَاِنَّہُ لَفِسْقٌ ﴿الانعام:۱۲۱﴾
’’اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کرذبح نہ کیاگیاہو، اس کا گوشت نہ کھاؤ۔ ایسا کرنا فسق ہے۔‘‘
جانور کو ذبح کرتے وقت کیا الفاظ کہے جائیں، اس کا قرآن میں تذکرہ نہیں ہے۔ بس کہاگیاہے کہ اس پر اللہ کا نام لیاجائے۔ البتہ بعض روایات میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً ایک روایت میں حضرت انسؓ ایک موقعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے دو مینڈھوں کی قربانی کا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
ذبحہا بیدہ وسمّی وکبر ﴿بخاری:۵۵۶۵﴾
’’آپﷺ نے انھیں اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اللہ کا نام لیا اور اس کی بڑائی بیان کی۔‘‘
اسی طرح حضرت جابرؓ ایک قربانی کا حال ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:
’’میں ایک عیدالاضحی کے موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ نماز اور خطبے کے بعد ایک مینڈھا آپ کے پاس لایاگیا۔ آپﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ فرمایا: ’’بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ ﴿ابوداؤد:۲۸۱۰﴾
اسی سے فقہائ نے مسنون طریقہ یہ بتایاہے کہ ذبح کرتے وقت بسم اللہ،اللہ اکبر کہاجائے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دوسرے الفاظ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ مثلاً کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت اللہ یا صرف رحمن یا صرف رحیم کہے یا اللہ اکبر کی بجائے اللہ اجل، اللہ الرحمن یا اللہ الرحیم کہے، یا بسم اللہ الرحمن الرحیم کہے یا سبحان اللہ کہے یا لاالہ الااللہ کہے، یہ تمام صورتیں درست ہیں۔ اس لیے کہ اس سے قرآن کے حکم کہ جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیاجائے پر عمل ہوجاتاہے۔
ذبیحے کے حلال ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس پر اللہ کے علاوہ اور کسی کا نام نہ لیاگیاہو۔ قرآن میں جن حرام چیزوں کاتذکرہ کیاگیاہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
وَمَا أُہِلَّ لِغَیْْرِ اللّہِ بِہِ ﴿المائدہ:۱۰۳لنحل:۱۱۵﴾
’’اور وہ جانور جسے اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیاگیاہو۔‘‘
چناںچہ اگر کوئی شخص جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینے کے ساتھ کسی بزرگ، ولی یا پیغمبر کا نام بھی لیتاہے تو ایسا ذبیحہ حرام ہوگا۔ مثلاً وہ کہے: بسم اللہ واسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم﴿ اللہ کے نام اس ورمحمدﷺ کے نام سے﴾ تو یہ ناجائز ہے اور ایسے ذبیحہ کا گوشت کھانا حرام ہے۔ لیکن سوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے وہ اس سے مختلف ہے۔ ذبح کرنے والے نے نادانی میں بسم اللہ ، اللہ اکبر پڑھنے کے بجائے لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا۔ گویا اس نے ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیاہے۔ اس موقع پر محمد رسول اللہ کہنے کامطلب یہ نہیں ہے اور نہ اس نے یہ مراد لی ہے کہ وہ محمد رسول اللہ کے نام سے جانور ذبح کررہاہے۔ اس لیے یہ ذبیحہ حلال ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور کتاب بدائع الصنائع میں کہاگیاہے:
’’اگرذبح کرنے والا کہے: بسم اللہ، محمد رسول اللہ تو ذبیحہ حلال ہے۔ اس لیے کہ اس نے دوسرے جملے کو پہلے جملے سے نہیں ملایا۔ اس لیے اس صورت میں شرک نہیں پایاگیا۔ لیکن ایسا کہنا مکروہ ہے، اس لیے کہ اس میں حرام صورت سے یک گونہ مشابہت ہوجاتی ہے۔‘‘ ﴿علائ الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، مطبعۃ الجمالینہ مصر، ۱۳۲۸ھ/۱۹۱۰ طبع اول، ۵/۴۸﴾
فقہ کی کتابوں میں ذبح کی شرائط اور آداب کا تذکرہ تفصیل سے کیاگیاہے۔ سلاٹر ہاؤس کے ملازمین کو اس سلسلے کی موٹی موٹی باتیں ضرور بتادینی چاہییں۔ اصولی طور سے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ شریعت میں عبادت، دعا اور ذکر وغیرہ کے مواقع پر توحید کا خاص خیال رکھاگیاہے اور ان میں تنہا اللہ کا نام لیاگیاہے اور اس کے ساتھ کسی کو حتیٰ کہ پیغمبر کو بھی شریک نہیں کیاگیاہے۔ اس لیے ایسی صورتوں سے بچنا چاہیے، جن میں شرک کی بُو آنے لگے اور توحید کا عقیدۂ صافی گدلاہوجائے۔
سورۂ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟
سوال:قرآن مجید کی تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جاتی ہے۔ ماسوا سورۂ توبہ کے۔ علامہ مودودیؒ لکھتے ہیںکہ ’’حضورﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں جب قرآن مجید کو مرتب کرنے کاارادہ کیاگیاتو اس تھیلے کو نکالا گیا اور تمام سورتوں کی ترتیب، جیسے کہ رسول اللہﷺ نے بتائی تھی، وہ قائم رکھ کر ان کی نقل تیار کی گئی ۔ تو چوں کہ حضورﷺ کی لکھوائی ہوئی سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ درج نہیں تھی، اس وجہ سے صحابہ کرامؓ نے بھی اسے درج نہیں کیا۔ باقی کوئی سورت قرآن مجید کی ایسی نہیں ہے، جس کاآغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہ ہوا ہو۔‘‘
دراصل سورۂ توبہ کی ابتدا میں بسم اللہ کیوں نہ پڑھی جائے؟ اس کا سبب تشنہ رہ جاتاہے۔ ازراہِ کرم اس جانب رہ نمائی فرمائیں یا کسی تفسیر کاحوالہ دیں، تاکہ تشنگی دور ہوسکے۔
ڈاکٹر عتیق الرحمن عبدالعظیم، گونڈی، ممبئی-۳۴
جواب:تفہیم القرآن، جلد دوم، سورۂ توبہ کے شروع میں مولانا مودودیؒ نے جو نوٹ لکھاہے، اس میں ’’بسم اللہ نہ لکھنے کی وجہ‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت تحریرفرمایاہے:
’’اس سورہ کی ابتدا میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھی جاتی۔ اس کے متعدد وجوہ مفسرین نے بیان کیے ہیں، جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔ مگر صحیح بات وہی ہے جو امام رازیؒ نے لکھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداس کے آغاز میں بسم اللہ نہیں لکھوائی تھی، اس لیے صحابہ کرامؓ نے بھی نہیں لکھی اور بعد کے لوگ بھی اسی کی پیروی کرتے رہے۔ یہ اس بات کامزید ایک ثبوت ہے کہ قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جوں کا توں لینے اور جیساتھا ویسا ہی اس کے محفوظ رکھنے میں کس درجہ احتیاط و اہتمام سے کام لیاگیا ہے۔‘‘
سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کیوں نہیں لکھی گئی؟ اس سلسلے میں مفسرین نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ لیکن ان کی حیثیت بس نکات و لطائف کی ہے۔ مثلاً علامہ قرطبیؒ نے ایک قول یہ نقل کیاہے کہ اہل عرب جب کسی قوم سے کیے ہوئے اپنے معاہدوں کو منسوخ کرتے تھے تو منسوخی کے اعلان کے لیے تیار کردہ تحریر پر بسم اللہ نہیں لکھتے تھے۔ سورہ توبہ میں بھی مشرکین سے کیے گئے معاہدے کی منسوخی کا اعلان ہے، اس لیے اس کاآغاز بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم سے نہیں کیاگیا اور جب اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو بھیجاکہ حج کے موقعے پران آیات کو علی الاعلان سنادیں تو انھوںنے بھی شروع میں بسم اللہ نہیں پڑھی۔
ایک دوسرا قول انھوں نے حضرت علیؓ سے نقل کیاہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اصلاً امان اور رحمت کامظہر ہے، جب کہ اس سورت سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غضب کا اظہار ہوتاہے۔ ﴿تفسیر قرطبی، طبع مصر، ۱۹۸۷ٗ ، ۸/۳۶﴾ لیکن اس تاویل کو علامہ آلوسی نے ضعیف بتایاہے۔ اس لیے کہ بعض دیگر سورتوں مثلاً مطففین، ہمزہ اور لہب وغیرہ کاآغاز بھی اللہ کے غضب سے ہواہے، مگر ان کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھی جاتی ہے ﴿روح المعانی، طبع مصر، ۱/۱۴﴾
اس سلسلے میں قولِ فیصل وہی ے جسے علامہ قرطبیؒ نے امام قشیریؒ کے واسطے سے نقل کیاہے:
الصحیح أن التسمیۃ تکتب، لأن جبرئیل مانزل بہا فی ہذہ السورۃ ﴿تفسیر قرطبی، ۸/۶۳﴾
’’صحیح بات یہ ہے کہ یہاں بسم اللہ الرحمن الرحیم اس لیے نہیں لکھی جاتی، کیوں کہ حضرت جبریل علیہ السلام جو قرآن لے کر نازل ہوئے تھے، اس میں یہاں وہ نہیں تھی۔‘‘
یہ تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ لکھے جانے کی بات ہے۔ جہاں تک اس کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کامعاملہ ہے، تو اس سلسلے میں علما فرماتے ہیں کہ چوں کہ یہاں وہ لکھی ہوئی نہیں ہے، اس لیے اسے پڑھنا بھی نہیں چاہیے۔ لیکن بعض علمائ اس کے پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اس موضوع پر علامہ آلوسی نے کسی قدر تفصیل سے لکھاہے، جسے نقل کردینا مناسب معلوم ہوتاہے۔ وہ امام سخاویؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’مشہور ہے کہ سورۂ توبہ کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھی جائے۔ عاصمؒ سے مروی ہے کہ پڑھنی چاہیے۔ یہ بات انھوں نے قیاساً کہی ہے۔ کیوںکہ اس کے لکھے نہ جانے کا سبب یاتو یہ ہے کہ اس میں مشرکین مکہ سے جنگ کی بات کہی گئی ہے یا یہ ہے کہ صحابہ قطعی طورپر طے نہیں کرپائے تھے کہ یہ مستقل سورت ہے یا سورۂ انفال کاحصہ ہے۔ پہلی صورت میں اس کا حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہوگا جن کے بارے میں یہ سورت اتری تھی اور ہم تو اسے برکت حاصل کرنے کے لیے پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ان آیتوں سے قرآن پڑھنے کا آغاز کیاجائے جن میں مشرکین سے جنگ کرنے کا حکم ہے تو ان سے پہلے بسم اللہ پڑھنا بالاتفاق جائز ہے۔ دوسری صورت میں بھی بسم اللہ پڑھی جاسکتی ہے، جس طرح سورتوں کے شروع میں بسم اللہ پڑھنی چاہیے۔ روایت میں ہے کہ مصحفِ حضڑت عبداللہ بن مسعودؓ کے شروع میں وہ لکھی ہوئی تھی۔‘‘ ﴿روح المعانی:۰۱/۲۴﴾
علامہ آلوسیؒ مزید فرماتے ہیں:
’’ابن منادر کی رائے ہے کہ بسم اللہ ﴿سورہ توبہ کے شروع میں﴾ پڑھنی چاہیے۔ الاتناع میں بھی اس کے جواز کی بات کہی گئی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اسے نہ پڑھنا مستحب ہے، اس لیے کہ مصحف میں وہ درج نہیں ہے اور اس معاملے میں کسی دوسرے کی تقلید نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس جگہ بسم اللہ پڑھنے کو حرام قرار دینا اور نہ پڑھنے کو واجب کہنا، جیساکہ بعض مشائخ شافعیہ کاخیال ہے، تو ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ جو شخص درمیانِ سورۃ سے تلاوت شروع کرے، اس کے لیے بسم اللہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ﴿واللہ تعالیٰ اعلم﴾‘‘ ﴿روح المعانی:۴۲/۱۰﴾
اس موضوع پر مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے اپنی تفسیر میں صحیح رہ نمائی کی ہے:
’’حضرات فقہائ نے فرمایاہے کہ جو شخص اوپر سے سورۂ انفال کی تلاوت کرتا آیا ہو اور سورۂ توبہ شروع کررہاہو وہ بسم اللہ نہ پڑھے، لیکن جو شخص اسی سورت کے شروع یا درمیان سے اپنی تلاوت شروع کررہاہے، اس کو چاہیے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر شروع کرے۔ بعض ناواقف یہ سمجھتے ہیں کہ سورۂ توبہ کی تلاوت میں کسی حال میں بسم اللہ پڑھنا جائز نہیں۔ یہ غلط ہے اور اس پر دوسری غلطی یہ ہے کہ بجائے بسم اللہ کے، یہ لوگ اس کے شروع میں اعوذباللہ من النارپڑھتے ہیں، جس کا کوئی ثبوت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ سے نہیں ہے۔‘‘ ﴿معارف القرآن، طبع دیوبند، ۴/۷۷﴾
بائبل کے مشتملات
سوال:تفہیم القرآن جلددوم، سورۂ توبہ ، حاشیہ ۲۹، صفحہ۱۴۹ملاحظہ ہو۔
’’عزیرسے مراد عزرا (Ezra)ہیں، جنھیں یہودی اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں۔ ان کا زمانہ ۰۵۴ قبل مسیح کے لگ بھگ بتایاجاتاہے۔ انھیں عزیر یا عزرا نے بائبل کے پرانے عہدنامے کو مرتب کیا اور شریعت کی تجدید کی۔‘‘
سوال یہ پیداہوتاہے کہ جب عزیر کا زمانہ ۰۵۴ قبل مسیح بتایاجاتا ہے تو آخر انھوںنے بائبل کے کون سے پرانے عہد نامے کومرتب کیا۔ جب کہ بائبل ﴿انجیل﴾ تو حضرت عیسیٰؑ پر نازل ہوئی ہے؟
ڈاکٹر جلال توقیر، جے پور
جواب:آپ کی غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے بائبل کو انجیل کا ہم معنیٰ سمجھ لیا، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ بائبل، جسے اردو میں‘‘کتاب مقدس‘‘بھی کہتے ہیں، اصلاً دو مجموعوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مجموعے کو ’’پُرانا عہد نامہ‘‘ (Old Testament) اور دوسرے مجموعے کو ’’نیاعہدنامہ‘‘ (New Testament)کہاجاتاہے۔ پرانا عہدنامہ ۹۳ کتابوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ابتدائی پانچ کتابیں ’’توریت‘‘ کہلاتی ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں: کتاب پیدائش، کتاب خروج، کتاب احبار، کتاب گنتی اور کتاب استثنائ۔ نیا عہدنامہ ۷۲ کتابوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ابتدائی چار کتابوں میں سے ہر ایک انجیل کہلاتی ہے: متّی کو انجیل، مرقس کی انجیل، لُوقا کی انجیل اور یوحنّا کی انجیل۔
اِس وقت جو کتابیں توریت یا انجیل کے نام سے پائی جاتی ہیں وہ بعینہ وہی کتابیں نہیں ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہماالسلام پر نازل ہوئی تھیں۔ بل کہ انھیں بہت بعد میں مرتب کیاگیا ہے۔ البتہ ان میں اصلی توریت اور اصلی انجیل کے بہت سے اجزائ اب بھی پائے جاتے ہیں۔ بائبل کاپرانا عہدنامہ متعدد مرتبہ حوادثِ زمانہ کی نذر ہوا اور اس کے تمام نسخے ضائع ہوگئے۔ حضرت عزیر نے انھیں اپنی یاد داشت سے ازسرِ مرتب کیا۔ اسی اہم خدمت کی بنا پر یہود انھیں اپنے دین کا مجدد مانتے ہیں اور ان کے بہت احسان مند ہیں۔
ناقص الخلقت جنین کااسقاط
سوال:ایسا ناقص الخلقت جنین، جس کے بارے میں الٹراساؤنڈ سے یقین ہوگیا ہو کہ وہ پیدا ہوگا تو مختصر عرصے میں مرجائے گا یا زندہ رہے گا تو معمول کی زندگی نہیں گزار سکے گا۔ کیا اس کا اسقاط کراناجائز ہے؟
بہ راہِ کرم اس مسئلے میں شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں رہ نمائی فرمائیں۔
ڈاکٹر تنویداحمد، گلاوٹھی، بلند شہر ﴿یوپی﴾
جواب:اسلامی شریعت نے جنین کو وہی حیثیت دی ہے جو زندہ انسان کی ہوتی ہے۔ اسی لیے اس نے ان تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیاہے، جن سے جنین کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر جنین کو کسی قسم کا خطرہ ہوتو حاملہ یا مرضعہ﴿دودھ پلانے والی﴾ عورت کو رمضان کے روزے نہ رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس پر حد جاری نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ وہ بچے کو جنم نہ دے لے اور وہ دودھ چھڑانے کی عمر کو نہ پہنچ جائے۔
اسی بنا پر علما نے روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد اسقاط کو ناجائزقرار دیا ہے۔ یہ مدت بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق ایک سو بیس دن ہے۔ اس سے قبل اس کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں ان کا اختلاف ہے۔ بعض علما کے نزدیک بہ وقتِ ضرورت جائز ہے۔ کیوں کہ روح پھونکے جانے سے قبل جنین محض ایک بے جان لوتھڑا ہے، لیکن بعض علما اس وقت بھی اسقاط کو حرام نہیں تو مکروہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر اِسے چھوڑدیاجائے تو آئندہ اس میں روح پڑجائے گی۔
بعض علما کے نزدیک روح پھونکے جانے کی مدت کے بعد بھی ناگزیر حالت میں اسقاط کروایاجاسکتا ہے۔ یہ ناگزیر صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جنین میں کوئی ایسا تخلیقی نقص پیدا ہوجائے کہ پیدا ہونے کے بعد اس کی زندگی اجیر ہوجائے۔ الٹرا ساؤنڈ سے ایسے نقائص کاپتا لگ جاتاہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے ایک سوال کے جواب میں اس موضوع پر ایک تفصیل سے لکھاہے اور ان علما کی رائے سے اپنے اختلاف کااظہار کرتے ہوئے بعض دلائل دیے ہیں، آخر میں لکھاہے:
’’میری نظر میں صرف ایک ہی ایسی صورت ہے جس میں اسقاط کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ اسقاط نہ کرایاگیا تو ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہوجائے۔ ایسی صورت میں ماں کی جان بچانے کے لیے حمل کو ساقط کرایاجاسکتا ہے۔ کیوں کہ ماں کی جان بہ ہرحال بچے کی جان سے زیادہ اہم ہے۔‘‘ ﴿فتاویٰ یوسف القرضاوی، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، جلد:دوم،ص:۲۲۵﴾‘‘
مشمولہ: شمارہ مئی 2011