مردوں اور عورتوں کے مشترکہ دینی اجتماعات
سوال: زندگی ٔ نو میں رسائل ومسائل کالم کے تحت آپ کے جو جوابات شائع ہوتے ہیں وہ بڑی حد تک قاری کو مطمئن کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ’ تحریکی خواتین کا دائرۂ عمل‘ کے عنوان کے تحت آپ نے جو جواب تحریر کیا تھا، وہ یقینا تحریکی خواتین کے بہت سے خدشات دور کرنے والا تھا ۔ اس سلسلے میں کچھ اور سوالات ذہن میں ابھرے ہیں ۔ بہ راہ کرم ان کے جوابات سے نوازیے۔
ہمارے تحریکی اجتماعات عموماً مسجدوں میں ہوتے ہیں ۔ خواتین مسجد کے ایک کمرے میں بیٹھتی ہیں اور Sound Box کے ذریعے درس قرآن یا تقریر سنتی ہیں۔ بعض اجتماعات دوسرے مقامات پر ہوتے ہیں۔ وہاں پردے کے ذریعے خواتین کی نشست الگ کردی جاتی ہے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ مرد شرکاء کے پیچھے ایک بڑاپردہ لگا دیاگیا۔ خواتین اس کے پیچھے برقع میں بیٹھیں۔ اجتماع کے اختتام پر ایک ذمے دار نے کہا کہ یہ پردہ نہیں، بلکہ پردہ درپردہ ہے۔ ابھی حال میں میقاتی پروگرام کی تفہیم کے لیے صرف خواتین کا اجتماع منعقد ہوا۔ اس میں کوئی مرد شریک نہیں تھا، سوائے حلقے کے دو ذمے داروں اور مقامی امیر کے۔ یہ تینوں حضرات کرسیوں پر بیٹھے، ان کے رو‘برو‘ خواتین برقعے میں بیٹھیں۔ یہ پروگرام مسجد میں صبح گیارہ بجے سے شام چار بجے تک چلتا رہا۔ آپ چاہے انبیائے کرام علیہم السلام کے اوصاف کے حامل کیوں نہ ہوں اور چاہے آپ کا دل ودماغ کتنا ہی پاک صاف اور شیطان کے شر سے کتناہی محفوظ کیوں نہ ہو، لیکن اس کے باوجود ایسی نشست کہاں تک تحریکی مزاج سے مطابقت رکھتی ہے۔
میرے ناقص خیال میں چہرے کے پردے میں آنکھیں بھی شامل ہیں اور آج کل کے پردے میں آنکھوں کا کوئی پردہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم نفسیاتی طور پر جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ آنکھیں دراصل انسانی جذبات و کیفیات کی ترجمان ہوتی ہیں۔ انسان کے غصے، خوف، نفرت، عداوت اور محبت سب کا اظہار اس کی آنکھوں سے ہوتا ہے۔ امام غزالی ؒ نے اپنی تصنیف ’ احیاء علوم الدین‘ میں لکھا ہے کہ ’’انسان کے دل میں شیطان آنکھوں کی راہ سے داخل ہوتا ہے‘‘ اور آج کل کا پردہ دیگر دروں کو بند کرتا ہے، لیکن اصل در کو کھلا چھو ڑ دیتا ہے۔
تحریک میں پہلے کی بہ نسبت اب خواتین کی تعداد بڑھنے کے ساتھ اجتماعات کی شکل اور نوعیت بھی بدلتی جارہی ہے۔ اس لیے ضروری ہوگیا ہے کہ مشترکہ اجتماعات کی شکل و صورت متعین کی جائے۔ بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں کہ مشترکہ تحریکی اجتماعات میں خواتین کی نشست کہاں پر ہو؟ وہ اجتماع گاہ سے متصل کمرے میں بیٹھیں یا مرد شرکاء کے پیچھے برقعے میں بیٹھیں یا پھر مردوں کے پیچھے ایک بڑا پردہ باندھ دیا جائے، جس کے پیچھے خواتین کی نشست ہو؟
ڈاکٹر راشد
محبوب نگر﴿اے پی﴾
جواب:یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ اب مردوں کی طرح خواتین میں بھی دینی بیداری آرہی ہے اور دین کی جانب ان کا میلان بڑھ رہا ہے۔ یہ بات جہاں بہ حیثیت مجموعی پورے مسلم معاشرے کے بارے میں درست ہے وہیں تحریک اسلامی کے اندر بھی اس کامشاہدہ ہورہا ہے۔ چنانچہ اجتماعات میں ان کی شرکت میں اضافہ ہورہا ہے اور ان کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔
خواتین کے علاحدہ اجتماعات منعقد کیے جاسکتے ہیں اور مشترکہ اجتماعات میں بھی وہ شریک ہوسکتی ہیں۔ یہ اجتماعات مساجد میں بھی ہوسکتے ہیں اور دیگر مقامات پر بھی۔ علاحدہ اجتماعات میں بہتر یہ ہے کہ تقریر کرنے یا درس دینے والی بھی خواتین ہی ہوں، لیکن بہ وقت ضرورت مرد بھی یہ کام انجام دے سکتے ہیں۔ صدر اول میں اس طرح کی تمام مثالیں موجود ہیں۔ عہد نبویﷺ اور عہد خلفائے راشدین میں مسجد نبویﷺ اور دیگر مساجد میں جمعہ کے جو خطبے ہوتے تھے ان سے خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ بعض خواتین نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ان کے لیے الگ سے کوئی وقت اور جگہ متعین کردیں ، کہ ان کے بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جنھیں وہ مشترکہ مجلسوں میں نہیں بیان کرسکتیں۔ آپﷺ نے ان کی درخواست قبول فرمائی۔﴿بخاری: ۱۰۱﴾
ایک مرتبہ آپﷺ نے عید کا خطبہ دیا۔ آپﷺ کو محسوس ہوا کہ آپﷺ کی آواز خواتین تک نہیں پہنچی ہے ، جو کہ کچھ فاصلے پر اکٹھا تھیں، آپﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو وعظ وتلقین فرمائی۔ اس موقع پر حضرت بلال ؓ بھی آپﷺ کے ساتھ تھے۔﴿مسلم:۸۸۵﴾ فتح مکہ کے اگلے دن آپﷺ نے حضرت عمر بن الخطابؓ کو ذمے داری دی کہ وہ اس جگہ جائیں جہاں خواتین اکٹھا ہیں اور ان سے بیعت لیں۔ حضرت عمرؓ نے یہ خدمت انجام دی۔
ایسے اجتماعات ، جن میں مرد حضرات اور خواتین دونوں شریک ہوں، ان میں دو باتوں کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے، کہ قرآن وحدیث میں ان کی تاکید آئی ہے:
﴿۱﴾ مردوں اورعورتوں کے درمیان اختلاط نہ ہو: اسلامی شریعت کا مزاج یہ ہے کہ وہ اجنبی مردوں اور عورتوں کا اختلاط پسند نہیں کرتی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو مسجد آکر باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی اس کا بھی اہتمام فرمایا کہ ان کی صفیں پیچھے رکھیں اور ان کے اور مردوں کی صفوں کے درمیان بچوں کی صفیں بنائیں۔ ساتھ ہی مسجد میں عورتوں کے داخلے کے لیے ایک دروازہ خاص کردیا، جس سے مردوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ یہ بھی حکم دیا کہ نمازختم ہونے کے بعد خواتین پہلے چلی جائیں، مرد بعد میں نکلیں۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے راستے میں مردوں اور عورتوں کو خلط ملط چلتے دیکھا تو ایسا کرنے سے منع کیا اور عورتوں کو حکم دیا کہ وہ کنارے ہوکر چلا کریں۔﴿سنن ابی دائود، کتاب الادب، با ب فی مشی النساء فی الطریق﴾ اس لیے مشترکہ اجتماعات میں مردوں اور عورتوں کی نشستیں الگ الگ ہونی چاہئیں۔جہاں اجتماع ہورہا ہو وہاں اگر داخلے کے دو یا دو سے زیادہ دروازے ہوں تو ایک دروازے کو عورتوں کے لیے خاص کردینا چاہیے۔ خلاصہ یہ کہ ایسی تدبیریں اختیار کرنی چاہئیں کہ اجتماع کے دوران اور اس سے پہلے اور بعد میں بھی مردوں اورعورتوں کے درمیان اختلاط نہ ہو۔
﴿۲﴾ خواتین کی جانب سے زینت کااظہار نہ ہو: خواتین کے لیے گھروں سے باہر نکلنے کے جو آداب قرآن و حدیث میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں‘‘۔ ﴿النور: ۳۱﴾ اس کے لیے انھیں ’جلباب‘ ﴿چادر وغیرہ﴾ استعمال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔﴿الاحزاب: ۵۹﴾ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسجد میں آنے کی اجازت دی تو ساتھ ہی یہ بھی حکم دیا کہ وہ خوشبو لگاکر اور بنائوسنگار کرکے نہ آئیں۔ ﴿مسلم: ۴۴۳،۴۴۴﴾اس لیے مشترکہ اجتماعات میں شریک ہونے والی خواتین کو چاہیے کہ وہ اپنی زینت کا دکھاوا نہ کریں ، خوشبو لگاکر نہ آئیں اور ان کا لباس ساتر ہو۔
خواتین کوپردہ کرنے کا جو حکم دیاگیا ہے اس میں چہرہ شامل ہے یا نہیں؟ اس معاملے میں شروع سے علماءے امت کا اختلاف رہا ہے۔ سورۂ النور اور سورۂ الاحزاب میں اس سلسلے میں جو احکام ہیں ان میں چہرے کے پردے کے سلسلے میں صریح الفاظ نہیں ہیں۔ اسی بنا پر جہاں بہت سے علماء چہرے کے بھی پردے میں شامل ہونے کے قایل ہیں وہیں بعض چہرے کو پردے میں شامل نہیں سمجھتے۔ ایسے لوگوں میں بعض صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام بھی ہیں اور بعد کے محدثین اور علماء بھی۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ چہرے کا پردہ کرنے کی صورت میں عورت کااچھی طرح پردہ ہوجاتا ہے، یا یہ کہ موجودہ دورِ فتنہ میں بہتر ہے کہ عورت چہرے کا بھی پردہ کرے۔ لیکن اپنے نقطۂ نظر پر اصرار کرنے اور اسی کو روحِ شریعت قرار دینے کا ہمیں حق نہیں۔ جو خواتین ساتر لباس استعمال کرتی ہیں اور پردے کے دیگر آداب کا بھی خیال رکھتی ہیں ، لیکن شریعت کی اس گنجایش کی بنا پر چہرے کا پردہ نہیں کرتیں انھیں بے پردہ اور روحِ شریعت سے نابلد کہنا مناسب نہیں۔
یہ بات صحیح ہے کہ آنکھوں میں کشش پائی جاتی ہے، ان سے مثبت یا منفی جذبات کا اظہار ہوتا ہے اور بہت سے فتنے ان کی راہ سے برپا ہوتے ہیں، لیکن اس کا علاج آنکھوں یا چہرے کو چھپانا نہیں ہے۔ اگرایسا ہوتا تو صریح الفاظ میں اس کا حکم دیاجاتا۔ بلکہ اس کے بجائے نگاہیں نیچی رکھنے اور فتنے کے مقامات سے انھیں بچاکر رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ لِلْمُؤمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ، ذٰلِکَ أَزْکیٰ لَہُمْ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌبِّمَا یَصْنَعُوْن، وَقُلْ لِلْمُؤمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِھِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ۔ ﴿النور:۳۰۔۳۱﴾
’’اے نبی ﷺ مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے اور اے نبیﷺ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچاکر رکھیں اوراپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں‘‘۔
یہ حکم مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہے۔ احادیث میں اس کی تشریح وتفصیل موجود ہے۔ اس کے مطابق کسی عورت یا مرد پر اچانک نگاہ پڑجاناقابل مواخذہ نہیں، اصلاً ممانعت ٹکٹکی باندھ کردیکھنے، گھورنے اور نظر بازی کرنے کی ہے۔ خلاصہ یہ کہ شریعت میں نگاہ کی آوارگی سے روکا گیا ہے—مردوں اور عورتوں کے مشترکہ دینی اجتماعات کی کوئی مخصوص شکل وصورت متعین کرنا ضروری ہے نہ مناسب۔ شریعت کے بتائے ہوئے آداب اور حدود کی رعایت کرتے ہوئے کوئی بھی صورت اختیار کی جاسکتی ہے۔
مساجد میں بچوں کی حاضری
سوال: مساجد میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائی کے لیے بڑوں کے علاوہ بچے بھی آتے ہیں۔ماہ رمضان المبارک میں ان کی تعداد خاصی بڑھ جاتی ہے۔ یہ بچے ہر عمر کے ہوتے ہیں۔ کچھ بڑے تو کچھ بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔ دوران نماز بعض بچے شرارت کرتے ہیں، ان کے درمیان دھکا مکی، دوڑ بھاگ اور باہم گفتگو ہوتی رہتی ہے، جس کی بنا پر مسجد کے پرسکون ماحول میں خلل واقع ہوتا ہے۔ نماز ختم ہونے کے بعد بعض لوگوں کی طرف سے بچوں پر ڈانٹ پھٹکار پڑتی ہے اور بسا اوقات ان کی پٹائی بھی کردی جاتی ہے۔ اس رویے سے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان بچوں کے دلوں میں نماز اور مسجد سے دوری نہ پیدا ہوجائے۔ ایک چیز یہ بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بچے پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں ، نماز شروع ہونے کے بعد جو بڑے لوگ آتے ہیں وہ انھیں کھینچ کر اور پیچھے کردیتے ہیں۔ کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو بڑوں کی صفوں میں اپنے ساتھ کھڑا کرلیتے ہیں۔ بہ راہ کرم واضح فرمائیں کہ مساجد میں بچوں کی حاضری کے سلسلے میں شریعت کیا رہ نمائی کرتی ہے؟ بچوں کو مساجد میں لانا بہتر ہے یا نہ لانا؟ کیا مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کا رویہ مناسب ہے؟ مسجد میں انھیں کہاں کھڑا کرناچاہیے؟
عقیدت اللہ
ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر ،نئی دہلی۔۲۵
جواب: مساجداسلامی معاشرے کا نشانِ امتیاز ہیں۔ اسلام نے زندگی کے مختلف امورو معاملات کو اجتماعی طور سے انجام دینے کا جو حکم دیا ہے، مساجد میں نماز باجماعت کی صورت میں اس کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے۔ مساجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے مخصوص مقامات ہیں، اس لیے وہاں کے ماحول کو پرسکون اور روح پرور بنائے رکھنا ضروری ہے۔ اسی بنا پروہاں ایسے کام کرنے کی ممانعت کی گئی ہے جن سے سکون میں خلل آئے، شوروشغب ہو، لوگ اکٹھاہوکر اِدھر اُدھر کی باتیں کریں اورنماز پڑھنے والے ڈسٹرب ہوں۔ اسی مصلحت سے مسجد میں خرید وفروخت کے کام ممنوع ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذَارَأیتُم مَنْ یَّبِیْعُ أَوْیَبْتَاعُ فِی المَسْجِدِ فَقُوْلُوا لَا أَرْبَحَ اللّٰہُ تِجَارَتَکَ۔﴿جامع ترمذی، کتاب البیوع، باب النھی عن البیع فی المسجد،۱۳۲۱﴾
’’جب تم مسجد میں کسی شخص کو خرید وفروخت کرتے دیکھو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمھارے کاروبار میں نفع نہ کرے‘‘۔
اسی طرح مسجد میں گم شدہ چیزوں کا اعلان کرنے سے منع کیاگیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
من سمع رجلا ینشد ضالۃ فی المسجد فلیقل لاردھا اللّٰہ علیک فان المساجد لم تبن لہذا۔﴿صحیح مسلم، کتاب المساجد، باب النھی عن نشد الضالۃ فی المسجد، ۵۶۸، اسے ابوداؤد، ابن ماجہ، احمد، ابن خزیمہ، بیہقی اور ابوعوانہ نے بھی روایت کیا ہے﴾
’’جو شخص سنے کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنی کسی گم شدہ چیز کااعلان کر رہا ہے وہ کہے: ’’اللہ کرے وہ چیز تمھیں واپس نہ ملے‘‘کیوں کہ مسجدیں اس مقصد کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں‘‘۔
ایک مرتبہ ایک شخص کا اونٹ کھوگیا۔ اس نے مسجد میں اس کا اعلان کردیا۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:
اِنَّمَا بُنِیَتِ المَسَاجِدُ لِمَا بُنِیَتْ لَہ‘۔﴿سنن ابن ماجہ، کتاب المساجد، باب النھی عن انشاد السوال فی المسجد، ۷۶۵﴾
’’مسجدیں تو مخصوص کام ﴿عبادت الٰہی﴾ کے لیے بنائی گئی ہیں‘‘۔
اس بنا پر ہر ایسے کام سے بچناچاہیے جس سے نمازیوں کے سکون وانہماک میں خلل آئے، ان کا ذہن بٹے اور مسجد کا ماحول متاثر ہو۔
دوسری جانب احادیث میں بچوں کی ابتداءے عمر ہی سے دینی تربیت پر زور دیا گیا ہے۔ نماز کی فرضیت اگرچہ بلوغ کے بعد ہے، لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی ہے کہ اس سے قبل ہی ان میں نماز کا شوق پیدا کیاجائے اور ان سے نماز پڑھوائی جائے ۔ آپ ﷺکا ارشاد ہے:
مُرُوا أوْلَادَ کُمْ بِالصَّلٰوۃِ وَھُمْ أبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوْھُمْ عَلَیْہَا وَھُمْ اَبْنَائُ عَشَرِ سِنِیْنَ۔ ﴿سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ: ۴۹۵، سنن ترمذی: ۴۰۷﴾
’’بچے سات سات کے ہوجائیں تو انھیں نماز کا حکم دو اور دس سال کے ہوجائیں ﴿اور نماز نہ پڑھیں﴾ تو انھیں مارو‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپﷺ نے مختلف مواقع پر نماز پڑھی تو اپنے ساتھ بچوں کو شریک کیا۔ حضرت انسؓ ، جن کی عمر ہجرت نبویﷺ کے وقت دس سال تھی، بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ میرے گھر پر نماز پڑھی تو میں اور ایک دوسرا لڑکا آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ہم نے آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ ﴿بخاری، کتاب الاذان، باب وضوء الصبیان: ۸۶۰۔ یہ حدیث مسلم، ابودائود، ترمذی، نسائی اور مسند احمد میں بھی مروی ہے﴾
بچوں کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ انھیں قرآن کریم کی سورتیں یاد کرائی جائیں، نماز کے اوراد و کلمات حفظ کرائے جائیں، نماز پڑھنے کا طریقہ سکھایا جائے۔ گھرپر نماز پڑھی جائے تو انھیں شریک نماز کیاجائے اورانھیں اپنے ساتھ مسجد بھی لے جایا جائے، تاکہ وہ ابتداءے عمر ہی سے مسجد کے آداب سے واقف ہوں اور باجماعت نماز ادا کرنے کی انھیں ترغیب ہو۔ عہد نبویﷺ میں ہر عمر کے بچے مسجد نبویﷺ میں جایا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسوں حضرت حسینؓ اور حضرت حسنؓ کی عمر یں آپﷺ کی وفات کے وقت سات آٹھ سال تھیں۔ متعدد روایات میں صراحت ہے کہ وہ نمازوں کے اوقات میں مسجد نبویﷺ میں جایا کرتے تھے اور بسا اوقات ان کی وجہ سے بہ ظاہر آپ کی نماز میں خلل واقع ہوتا تھا، لیکن کبھی آپﷺ نے ان کی سرزنش نہیں فرمائی اورانھیں مسجد میں آنے سے نہیں روکا۔
حضرت ابوقتادہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ نماز لمبی کروں، پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس ڈر سے نماز مختصر کردیتا ہوں کہ کہیں لمبی نماز اس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث نہ بن جائے‘‘۔
اوپر جو کچھ تحریر کیاگیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کے ماحول کو پرسکون بنائے رکھنے کا اہتمام کرناچاہیے اور اگرچہ بچوں کے مسجد میں آنے کی وجہ سے کچھ خلل واقع ہوتا ہے اور نمازیوں کا انہماک متاثر ہوتا ہے، لیکن زیادہ بڑی مصلحت کی بنا پر اس خلل کو گوارا کرناچاہیے۔ وہ مصلحت یہ ہے کہ ان کے اندر نماز کی ترغیب پیدا کی جائے اور انھیں اس کا عادی بنایا جائے۔
بعض حضرات بچوں کو مسجد میں لانے سے روکنے کے لیے ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
جُنِّبُوا مَسَاجِدَکُمْ صِبْیَانَکُمْ۔﴿سنن ابن ماجہ، باب مایکرہ فی المساجد، ۷۵۰﴾
’’اپنی مسجدوں سے اپنے بچوں کو دور رکھو‘‘۔
لیکن یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ زوائد میں ہے کہ ’’اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی حارث بن نبہان ہے، جس کے ضعف پر ناقدین حدیث کا اتفاق ہے‘‘۔ عصر حاضر کے مشہور محدث علامہ محمد ناصرالدین البانی ؒ نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبویﷺ میںنماز باجماعت میں پہلے مردوں کی صفیں ہوتی تھیں، پھر بچوں کی۔ حضرت ابومالک اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو آگے کھڑا کرتے تھے اور ان کے پیچھے بچوں کو۔ ﴿سنن ابی دائود، کتاب الصلاۃ، باب مقام الصبیان من الصف، ۶۷۷۔ اس روایت کو اس کے ایک راوی شہر بن خوشب کی وجہ سے ضعیف قرار دیاگیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے ضعیف سنن ابی دائود، للالبانی، روایت نمبر ۵۵۳﴾
بعض مواقع پر آپﷺ نے نماز پڑھی اور وہاں صرف بچے ہوئے تو اگر ایک بچہ تھا تو آپﷺ نے اسے اپنی دائیں جانب کھڑا کرلیا اور اگر دو بچے ہوئے تو انھیں اپنے پیچھے کھڑا کیا۔ اس سے یہ استنباط کیا جاسکتا ہے کہ بچوں کی صفیں مردوں کے پیچھے بنائی جانی چاہئیں،البتہ وقت ضرورت انھیں بڑوں کے ساتھ بھی، درمیان میں یا کنارے کھڑاکیاجاسکتا ہے۔ علامہ البانی ؒسنن ابی دائود کی درج بالا روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’بچوں کو مردوں کے پیچھے کھڑا کرنے کی کوئی دلیل اس حدیث کے علاوہ مجھے نہیں ملی، او ریہ حدیث ناقابل حجت ہے، اس لیے میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ بچے مردوں کے ساتھ کھڑے ہوں، جب کہ صف میں وسعت بھی ہو‘‘۔
﴿فقہ الحدیث، طبع دہلی،۲۰۰۴ئ، ۱/۴۸۸، بہ حوالہ تمام المنۃ، ص ۲۸۴﴾
بچوں کے، بڑوں کے ساتھ کھڑے ہونے کاایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان میں سنجیدگی آئے گی اور وہ شرارتیں کم کریں گے۔ مناسب یہ ہے کہ جماعت کھڑی ہونے کے وقت بڑوں کے پیچھے بچوں کی صف بنائی جائے۔ پھر نماز شروع ہونے کے بعد جوبڑے لوگ جماعت میں شامل ہوں وہ بچوں کو کھینچ کر پیچھے نہ کریں، بلکہ ان ہی کی صف میں شامل ہوجائیں۔
مسجد میں شرارت کرنے والے بچوں کے ساتھ ڈانٹ پھٹکار کرنے یا ان کی پٹائی کرنے کا رویہ مناسب نہیں ہے۔ آج کے دور میں دین سے دوری عام ہے۔ بچے خاصے بڑے ہوجاتے ہیں، پھر بھی نہ ان میں نماز پڑھنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے نہ نماز پڑھنے کا سلیقہ آتا ہے۔ جو بچے مسجد میں آتے ہیں، اندیشہ ہے کہ ان کے ساتھ اختیار کیاجانے والا درشت رویہ کہیں انھیں مسجد اور نماز سے دور نہ کردے۔ عموماً شرارت کرنے والے دوچار بچے ہوتے ہیں، لیکن صف میں موجود تمام بچوں کو ڈانٹ سہنی پڑتی ہے۔ اس کے بجائے انھیں سمجھانے بجھانے کا رویہ اپنانا چاہیے۔
آخر میں والدین سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دینی واخلاقی تربیت کا خصوصی اہتمام کریں۔ دین کی بنیادی قدریں ابتداء ہی سے ان کے ذہن نشیں کریں، مسجد کی کیااہمیت ہے؟ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟ نماز میں کیا پڑھنا چاہیے؟ اس کی ادائی میں کتنی سنجیدگی اور سکون ملحوظ رکھنا چاہیے؟ یہ باتیں بچوں کو سمجھائی جائیں۔ اس سے امید ہے کہ مسجدوں میں بچوں کی موجودگی سے وہ شورو ہنگامہ اوراودھم نہیں ہوگا، جس کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2012