رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اجتماعی مطالعہ ٔ قرآن
سوال: رمضان المبارک میں حلقہ کی سطح سے مقامی جماعتوںکو جو پروگرام منعقد کرنے کی تاکید کی جاتی ہے ان میں سے ایک یہ ہوتاہے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں درس قرآن، درس حدیث یا اجتماعی مطالعۂ قرآن کا اہتمام کیاجائے۔ کیا اس طرح کے پروگرام سنت سے ثابت ہیں؟ کیا اللّہ کے رسولﷺ نے ماہ رمضان میں مسجد نبوی میں درس قرآن یا اجتماعی ذکر الٰہی کی کوئی مجلس منعقد کی ہے؟ میرے خیال میں رمضان کاآخری عشرہ انفرادی طورپر عبادت کرنے اور یادِ الٰہی میں مشغول رہنے کے لیے ہے نہ کہ اجتماعی طورپر پروگرام منعقد کرنے کے لیے۔ بہ راہ کرم اس موضوع پر وضاحت فرمادیں، تاکہ تشفی ہو۔
جواب:رمضان المبارک کی فضیلت میں جو صحیح حدیث بہت مشہور ہے اس کاایک ٹکڑا یہ ہے:
’’جس شخص نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان اور اجرِ الٰہی کی امید کے ساتھ، اللہ اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کردے گا۔‘‘(بخاری و مسلم)
قیام لیل کا متبادر مفہوم ہے رات میں نوافل پڑھنا اور ان میں قرآن کی تلاوت کرنا، لیکن علماء نے اس حدیث کی تشریح میں لکھاہے کہ اس میں نماز سے باہر بھی قرآن کی تلاوت کرنا شامل ہے۔ اگر کوئی شخص قرآن کی تلاوت کے ساتھ اسے سمجھنے کی کوشش کرتاہے اور اس کے لیے ترجمۂ قرآن اور تفسیر سے مدد لیتاہے تو وہ بھی اجرو ثواب کا مستحق ہوگا۔ بغیر سمجھے بوجھے زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت سے بہتر ہے کہ کچھ وقت فہمِ قرآن میں بھی لگایا جائے۔
بعض احادیث میں صراحت ہے کہ ایک موقع پر اللہ کے رسول ﷺ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے۔ آپؐ نے دیکھاکہ کچھ لوگ ذکر الٰہی میں مصروف ہیں اور کچھ لوگ ایک حلقہ بناکر قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں مشغول ہیں۔ آپؐ موخرالذکر گروہ میں شامل ہوگئے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایاکہ ’’میں معلم بناکر بھیجاگیاہوں۔‘‘ (ابن ماجہ) اس حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ یہ کس موقع کا واقعہ ہے؟ لیکن اس کااطلاق رمضان اور غیررمضان دونوں پر ہوسکتا ہے۔
جماعت کی طرف سے اپنے ارکان و متوسلین کی تربیت و تزکیہ کے لیے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جو پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں، وہ تھوڑے وقت کے لیے ہوتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ چند گھنٹوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس لیے بقیہ اوقات کو شرکاء انفرادی عبادتوں میں صرف کرسکتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014