ڈاکٹر محمد حمید اللہ كے خطبات بہاول پور

ڈاکٹر محمد حمید اللہ: مختصر تعارف

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (۱۹۔فروری ۱۹۰۸ء  تا  ۱۷ ۔ دسمبر ۲۰۰۲ء ) بیسویں صدی کے مسلم دانش وروں میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیںوہ۱یک بلند پایہ عالم اور اسکالر تھے۔ اسلامی علوم کے حوالے سے ان کی خدمات گراں بہا ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام اور اسلامی علوم کی خدمت کے لیے وقف کردی تھی۔ علوم و فنون کی اسلامی روایت کے مختلف میدانوں میں انہیں ہمہ جہت مہارت حاصل تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کے بعض ہم عصروں نے انہیں مسلم علماء اور ماہرین فن کی اس صف میں شامل کیا ہے جس میں ابو نصر فارابی، امام غزالی اور شاہ ولی اللہ دہلوی کے نام آتے ہیں۔ (۱) موجودہ زمانے کے ایک بڑے اسکالر پروفیسر خورشید احمد نے انہیں پہلا اور آخری مسلم مستشرق لکھا ہے۔(۲)  واقعہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے پرشور مغرب کے ایک گوشے(پیرس کی ایک چار منزلہ عمارت کے حجرے) میں بیٹھ کر جس طرح مغربی محققین کے قائم کردہ علمی معیار کو ملحوظ رکھتے ہوئے علم و تحقیق کی اسلامی روایت کو آگے بڑھایا وہ صرف اور صرف انہیں کا حصہ ہے۔

ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا تعلق ہندوستان کے جنوبی اور مغربی سواحل پر آباد ہونے والے نوائط(۳)  عربوں کے  علمی خاندان سے تھا اس خاندان میں بڑے عالم گزرے مثلاًعلاء الدین ابن احمد مہائمی (۱۳۷۲ء۔۱۴۳۱ء، صوفی اسکالر جنہوں نے عربی زبان میں قرآن مجید کی مشہور تفسیر تبصیر الرحمان و تیسیرالمنان لکھی ہے ) ، حبیب اللہ بیجاپوری ( وفات ۱۶۳۱ء ، دکن کے معروف صوفی بزرگ، دکن میں بیجاپور کی عادل شاہی حکومت میں قاضی رہے) اور محمد حسین شاہد (             ، بہمنی سلطنت کے نامور وزیر محمود گاواں کے قائم کردہ مشہور مدرسے کے آخری پرنسپل) ۔ ان کے دادیہال اور نانیہال دونوں خاندانوں کے بزرگوں میں علم اور تصنیف و تالیف کی روایت قائم تھی۔ (۴) خود ان کے والد مفتی ابو محمد خلیل اللہ ( وفات ۱۹۴۴ء ) نامور عالم و ادیب اور ریاست حیدرآباد کے محکمہ مالیات میں ملازم تھے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ تین بھائیوں اور پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے اور یہ سب کے سب اعلی تعلیم یافتہ تھے۔ (۵)

تعلیم و عملی زندگی

روایتی مسلم مذہبی گھرانوں کی طرح ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تعلیم کا آغاز بھی روایتی انداز میں گھر سے ہوا۔ بعدازاں انہوں نے حیدرآباد کے مشہور مدرسے دارالعلوم ، حیدرآباد میں ۱۹۱۳ء میں داخلہ لیا، وہاں سے چھٹی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد۱۹۱۹ء میں جامعہ نظامیہ میں داخل ہوئے اور مولوی کامل (۱۹۲۴ء) تک مذہبی تعلیم کی تکمیل کی۔اور پھر خاندانی روایت کو توڑتے ہوئے جامعہ عثمانیہ (عثمانیہ یونی ورسٹی) سے بی اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ تعلیم کے میدان میں نمایاں کارکردگی کے سبب بیرون ملک اعلی تعلیم کے لیے انہیں اسکالر شپ ملااور اس طرح ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے بون یونی ورسٹی (جرمنی) سے ۱۹۳۳ء میں ڈی فل اور سوربون یونی ورسٹی (پیرس ، فرانس) سے ۱۹۳۵ء میں ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بیرون ملک اعلی تعلیم کے حصول کے بعد ملک واپسی پر جامعہ عثمانیہ میں استاد مقرر ہوئے اور یہ سلسلہ ۱۹۴۸ء تک ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام تک جاری رہا۔ بعدازاں وہ پیرس منتقل ہوگئے اور تقریبا پانچ دہائیاں انہوں نے تدریس، تحقیق اور تصنیف کے کاموں میں گزاریں۔ اس دوران انہوں نے ۱۶۵ سے زائد کتابوں اور ایک ہزار تحقیقی مقالات کی تصنیف ، تدوین اور ترجمے کیے۔ (۶)

امتیازات

ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا ایک اہم امتیاز یہ ہے کہ انہیں اپنے موضوعات کے بنیادی مصادر تک براہ راست رسائی حاصل تھی۔ اور اس میں ان کی بہت زیادہ معاونت ان کی زبان دانی نے کی۔(۷) اس میں شک نہیں کہ ان کی علمی خدمات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔البتہ ان کی مہارت علمی کے اصل میدان فقہ و سیرت کے موضوعات تھے۔قانون خاص طور پر قانون بین الممالک کے حوالے سے ان کی حیثیت ایک مجدد یا مئوسس ثانی کی ہے۔ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی:

’’ڈاکٹر محمد حمیداللہ کو بلا خوف و خطر دور جدید میں اسلام کے بین الاقوامی قانون کا مجدد اور مئوسس نو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر امام محمد بن حسن شیبانی قدیم علم سیر (یعنی اسلامی قانون بین الاقوام) کے مئوسس اول اور مدون ہیں تو ڈاکٹر محمد حمید اللہ یقینا جدید بین الاقوامی اسلامی قانون کے مئوسس و مدون ہیں اور بیسویں صدی کے شیبانی کہلائے جانے بجا طور پر مستحق ہیں۔‘‘(۸)

ڈاکٹر محمد حمیداللہ کا ایک اہم امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اپنے کسی بھی علمی کام یا تحقیق کو حرف آخرنہیں قرار دیتے۔ انہوں نے اپنی بیشتر تصنیفات میں نئے اضافوں ، نئی تحقیقات اور نئی معلومات شامل کرنے کا سلسلہ تمام عمر جاری رکھا۔ اس کا اندازہ ان کی مختلف کتابوں کے ان کی زندگی میں شائع ہونے والے نئے ایڈیشنوں سے ہوتا ہے۔

یوں تو ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تمام ہی تصانیف اور علمی کاموں کا تعلق اسلامیات اور اسلامی علوم سے ہے۔ البتہ ان میں ان کے ’ خطبات بہاول پور ‘ کو شاہ کار اس لیے کہنا چاہیے کہ ۱۹۸۰ء کی دہائی کے آغاز میں دیے جانے والے یہ خطبات ڈاکٹر صاحب کے اس وقت تک علوم اسلامی میںان کی بیشتر تحقیق و جستجو اور نتائج فکر کا نچوڑ ہیں۔ان خطبات کے تعلق سے یہ بات بلا تکلف کہی جا سکتی ہے کہ ان میں کا ہر خطبہ کسی ایک مکمل اور جامع تحقیقی تصنیف کا خلاصہ ہے۔ بلکہ کئی بار تو ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ ایک ہی خطبے کی تفصیل کئی تصانیف کو جنم دے سکتی ہے۔ یہاں پر خطبات بہاول پور پر گفتگو کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی یا مسلم دانش وری میں خطبات کی اہمیت و معنویت اور روایت پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لی جائے کیونکہ اسلام کی علمی روایت میں خطبات کا بہت ہی اہم مقام رہا ہے۔

 علمی خطبات کی اسلامی روایت

خطبے کا لفظ وعظ و نصیحت اور عام مسائل پر بات چیت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح خطبے کا لفظ ایک ایسی گفتگو کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو فی البدیہہ اور مئوثر ہو اور جس سے سامعین کے اندر جوش و جذبہ بھی پیدا ہو۔(۹) کہا جاتا ہے کہ خطبے کی روایت انسانی تاریخ کی قدیم ترین روایتوں میں سے ایک ہے۔ اور خطہء ارضی پر بسنے والے انسانوں نے اپنے افکار و خیالات کی زیادہ لوگوں تک مئوثر ترسیل کے لیے اس تکنیک کو اولین ذریعے کے طور پر اپنایا ہوگا۔ ہندستانی روایت میں اپنشدرشیوں کے سنے یا کہے ہوئے کلام کی شکل میں دراصل خطبے ہی ہیں۔ اسی طرح عیسائی روایت میں حضرت عیسی کا پہاڑی کا وعظ معروف خطبہ ہے۔ عرب کی جاہلی روایت میں بھی خطبے کی بڑی اہمیت تھی۔ قبل از اسلام زمانے کے عرب قبائلی سماج میں شاعروں کی طرح خطیبوں کی بھی عزت افزائی ہوا کرتی تھی۔(۱۰)

جہاں تک اسلامی روایت کا سوال ہے تو اللہ کے رسول حضرت محمد کی دعوتی زندگی کا آغاز ہی کوہ صفا کے خطبے سے ہوتا ہے۔آپ کے ذریعے سن ۹ ہجری میں خطبہ حجۃ الوداع سماجی اصلاح اور حقوق کی تاریخ کا شاہ کار ہے۔ مسلمانوں میں جمعہ، عیدین اور حج کے مواقع پر خطبوں کی روایت کے علاوہ بھی اہم مواقع پر پیغام رسانی کے لیے خطبوں کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ عربی اور مسلمانوں کے ذریعے بولی جانے والی مختلف زبانوں میں خطبے کی نہ صرف روایت رہی ہے بلکہ اس حوالے سے کافی بڑا ادبی سرمایہ بھی موجود ہے یہاں تک کہ خواتین کے بھی خطبات و مواعظ کی روایت اسلامی تاریخ میں موجود رہی ہے۔(۱۱)  خطبے کی یہ روایت مسلمان جہاں بھی گئے اپنے ساتھ لے گئے۔ اور زمانے و حالات کے مطابق اسے وسعت بھی دیتے رہے۔

جدید ہندوستان میں علمی خطبات کی روایت

دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح خطبات کی روایت برصغیر ہندوستان میں بھی پہنچی۔ یہاں پر مسلمانوں کی جدید تاریخ کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو علمی انداز میں سر سید احمد خاں (۱۸۱۷ء ۔۱۸۹۸ء) اور مولانا ابوالکلام آزاد (۱۸۸۸ء ۔۱۹۵۸ء )کے خطبات اردو زبان و ادب کے شاہ کار ہیں۔ بیسویں صدی عیسوی میں علمی و یادگاری خطابت کی روایت کو فروغ دینے میں میں بر صغیر کے مسلمانوں کی بعض انجمنوں اور اداروں کا ر و ل بھی بہت ہی اہم رہا ہے۔ ان میں علمی و فکری لحاظ سے سب سے زیادہ معروف اور اہمیت کی حامل کوشش انگریزی دور میں جنوبی ہند کی ریاست مدراس میں شروع ہوئی جہاں South Indian Muslim Educational Society, Madras  کے زیر اہتمام Committee of Madras Lectures in Islam  نے اہم موضوعات پر اس زمانے کے مشہور و معروف اکابر اہل علم اور دانش وروں کے علمی و فکری خطبات منعقد کرائے۔ ان میں نامور عالم دین اور معروف سیرت نگار علامہ سید سلیمان ندوی(۱۸۸۴ء۔۱۹۵۳ء) کے خطبات سیرت لازوال شہرت کے حامل ہیں۔ سید سلیمان ندوی نے یہ خطبات کمیٹی کی درخواست پر ۱۹۲۵ء میں دیے تھے ان کی تعداد آٹھ ہے اور بعد میں انہیں ’خطبات مدراس‘ کے نام سے ہی شائع بھی کیا گیا۔

اسی سوسائٹی کے تحت انگریزی کے مشہور مترجم قرآن اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے نو مسلم اسکالرمحمد مارماڈیوک پکتھال(۱۸۷۵ء۔۱۹۳۶ء) نے ۱۹۲۷ء میں The Cultural Side of Islam کے عنوان سے اسلام کی تہذیبی و ثقافتی روایت پر آٹھ خطبے دیے تھے ، یہ خطبات بھی شائع ہو چکے ہیں۔(۱۲) مدراس کی اسی سوسائٹی کی دعوت پر برصغیر کے بڑے مفکر و شاعر ڈاکٹر سر محمد اقبال (۱۸۷۷ء۔۱۹۳۸ء) نے ۱۹۲۹ء میں Reconstruction of Religious Thoughts in Islam کے موضوع پر چھ خطبے دیے تھے بعد میں ان خطبات کی اشاعت بھی عمل میں آئی اور ان کا اردو ترجمہ ’تشکیل جدید الہیات ‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ماضی قریب میں عصری جامعات کے قیام کے ساتھ علمی وفکری موضوعات پر توسیعی و یادگاری خطبات کی روایت کو مزید فروغ ملا البتہ اسلام ، اس کے علوم اور تہذیبی و ثقافتی پہلووں پر علمی توسیعی خطبات کے انعقاد میں پاکستان کی جامعہ اسلامیہ بہاول پور (اسلامک یونی ورسٹی،بہاول پور) کو خاص امتیاز حاصل ہوا۔

اس یونی ورسٹی نے بیسویں صدی عیسوی کے  ایک عظیم مسلم دانش ور ڈاکٹر محمد حمیداللہ کو اپنے یہاں مدعو کیا اور ان سے اسلامی علوم کے موضوع پر سلسلہ خطبات کی درخواست کی۔ یہاں ڈاکٹر صاحب نے اسلامی علوم کے مختلف گوشوں پر بارہ خطبے دیے جو بعد میں خطبات بہاول پور کے نام سے ہی شائع ہوکر مشہور ہوئے۔(۱۳) خطبات بہاول پور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے علمی خطبات کا پہلا پڑائو نہیں تھا۔ ان کے علمی خطبات کا سلسلہ قیام حیدرآباد کے زمانے سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ یورپ میں قیام کے دوران انہوں نے وہاں کی مختلف یونی ورسٹیوں کے علاوہ پاکستان، ترکی اور عرب ملکوں میں بھی مختلف علمی موضوعات پر خطبے دیے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے علمی خطبات میں جو شہرت خطبات بہاول پور کو ملی وہ بے مثال ہے۔یہ خطبے عامی و عالم سب کے لیے یکساں طور پر مفیداور رہنما ہیں۔ ان کا اثر بر صغیر کی تین نسلوں سے متجاوز ہو کر چوتھی اور پانچویں نسل پر پڑ رہا ہے۔

 خطبات بہاول پور اسلامی علوم و معارف کا خزانہ

خطبات بہاول پور کا پس منظر یہ ہے کہ ۱۹۲۵ء میں جامعہ عباسیہ کے نام سے ایک مذہبی تعلیمی ادارے (درس گاہ) کی بنیاد نواب محمد صادق خاں خامس نے رکھی تھی جو ترقی کرتے کرتے ۱۹۷۵ء میں اسلامک یونی ورسٹی بہاول پور بن گئی۔ ۱۹۷۸ء کے اواخر (نومبر) میں اس یونی ورسٹی کو پروفیسر عبدالقیوم قریشی جیسی فعال شخصیت کی قیادت میسر آئی ۔ انہوں نے اس نوخیز اسلامی یونی ورسٹی کی علمی بنیادوں پر استواری کے مقصد سے ڈاکٹر محمد حمیداللہ سے رابطہ کیا اور ان سے خواہش ظاہر کی کہ:

’’معارف اسلامیہ کے متعدد شعبہ جات کو اپنی سرپرستی میں چند سالوں کے اندر منظم کر جائیں اور اپنے جذب و شوق سے ہمارے نوجوانوں کو متاثر کرتے ہوئے ان کے دلوں میں مطالعہ و تحقیق کی ایسی لگن پیدا کردیں کہ وہ آپ کے علمی کام کو آگے بڑھانے کے قابل ہو جائیں۔‘‘ (۱۴)

خطبات كا موضوع

علمی و دعوتی مصروفیات اور فرانس کے قوانین کے تحت ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے لیے یہ تو ممکن نہیں تھا کہ وہ بہاول پور میں کچھ عرصے کے لیے مستقل قیام کرتے البتہ انہوں نے مہینے پندرہ دن کے لیے سیرت رسول کے حوالے سے سلسلہ تقاریر یا سلسلہ درس پر آمادگی ظاہر کی (۱۵) ۔ اور پھر اسی آمادگی کے نتیجے میں ۸ مارچ تا ۲۰ مارچ ۱۹۸۰ء کو اردو زبان میں انہوں نے بارہ خطبات دیے اور انہیں دنوں میں مغرب تا عشاء ان پر سوالات کے جواب بھی دیے۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے ان خطبات کے موضوعات اور مندرجات کا مختصر تعارف اس طرح ہے:

۱۔ تاریخ قرآن مجید:  پہلے خطبے میں انہوں نے قرآن مجید سے پہلے کے صحف سماوی اور دیگر مذہبی کتب کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے اس کی تاریخ ،تدوین اور حفاظت پر گفتگو کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید لفظ و معنی ہر طرح سے محفوظ ہے۔

۲۔ تاریخ حدیث شریف:  اس خطبے میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے حدیث کے بارے میں مستشرقین کے پھیلائے ہوئے اس مفروضے کی تردید كی کہ احادیث کی تدوین دو سو سال بعد ہوئی۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ اللہ کے رسول نے خود اپنے فرامین و رسائل كوتحریر كرایا۔ صحابہ کرام کی ایک تعداد نے آپ کی اجازت سے اور موجودگی میں لکھ کر بھی حدیثوں کو محفوظ کیا ۔ آپ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے صحت حدیث کو جانچنے کے ایک نئے ذریعے کی طرف بھی رہنمائی کی ہے اور وہ یہ کہ حدیث کے دریافت شدہ قدیم وثائق اور بعد میں مدون ہونے والی کتب حدیث میں روایتا درج ہونے والی احادیث کا تقابلی مطالعہ۔

۳۔ تاریخ فقہ:  اس خطبے میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے فقہ یعنی اسلامی قانون کی تاریخ بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وسعت و ہمہ گیری میں دنیا کا کوئی بھی قانون فقہ اسلامی کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس ضمن میں انہوں نے فقہ کے مآخذ و مصادر پر بھی عمدہ بحث کی ہے۔

۴۔ تاریخ اصول فقہ و اجتہاد:  چوتھا خطبہ ایک طرح سے تیسرے خطبے کا ہی تسلسل ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اصول فقہ کی تدوین مسلمانوں کا بڑا کارنامہ اور اولیات میں سے ہے۔ اس علم کو سب سے پہلے مسلمانوں نے مرتب کیا ، امام ابو حنیفہ کی کتاب الرائی اولین نقش ہے اور امام شافعی کی کتاب الرسالہ اصول فقہ میں قدیم ترین دستیاب کتاب ہے۔

۵۔ قانون بین الممالک:  ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحقیق کے مطابق قانون بین الممالک کا آغاز مسلمانوں سے ہوتا ہے۔ مسلم علماء نے اس کے لیے ’سیر‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگرد محمد حسن شیبانی اولین علماء میں ہیں جنہوں نے اسے مرتب شکل میں پیش کیا۔

۶۔ دین (عقائد، عبادات ، تصوف) :  اس خطبے میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے دین کی حقیقت کو حدیث جبریل (ایمان، اسلام اور احسان) کی روشنی میں عقائد، عبادات اور تصوف کے عنوانات کے تحت بیان کیا ہے اور ان کا تقابل دیگر مذہبی روایتوں سے کیا ہے۔

۷۔ مملکت اور نظم و نسق:  ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اس خطبے میں بعثت رسول سے پہلے کے نظامہائے مملکت کا جائزہ لیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق اس وقت بھی مکہ ایک شہری ریاست تھی اور اس ریاست کی مختلف وزارتیں قریش کے مختلف خاندانوں میں تقسیم تھیں۔ خود نبی نے مدینہ پہنچ کر ایک مثالی ریاست قائم کی۔ یہ دنیا کی پہلی ریاست تھی جس کا ایک تحریری دستور تھا اور جس میں حکمراں اور رعایا کے حقوق و فرائض مرتب تھے۔

۸۔ نظام دفاع و غزوات:  اللہ کے رسول نے مدینے میں جو چھوٹی سی شہری ریاست قائم کی وہ چاروں طرف سے خطرات سے گھری ہوئی تھی۔ بحیثیت رہنما و حکمراں اللہ کے رسول نے اس کی حفاظت کا دو طرح سے انتظام کیا، ایک فوجی انتظامات یعنی فوج کی تیاری اور دوسرا معاہدوں کے ذریعے آس پاس کے قبائل کی تنظیم۔

۹۔ نظام تعلیم اور سرپرستی علم:  اللہ کے رسول کے کار نبوت کا آغاز ہی اقراء سے ہوتا ہے ۔ قرآن کی یہ ابتدائی آیت صرف علم کی اہمیت ہی نہیں بتاتی علم کے وسائل کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے۔ علم میں اضافے کی دعائیں سکھائیں اور  اللہ کے رسول نے علم کو مومن کی متاع گم گشتہ قرار دے کر اسے کہیں بھی اور کسی سے بھی حاصل کرنے پر اکسایاہے، یہاں تک کی اس سلسلے جنگی قیدیوں کا استثناء بھی باقی نہیں رکھا اورلکھنا پڑھنا جاننے والے بدر کے قیدیوں سے فدیے میں دس مسلمان بچوں کو تعلیم دلوا کر اس کا عملی نمونہ بھی پیش کر دیا۔

۱۰۔ نظام تشریع و عدلیہ:  دسویں خطبے میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے یہ بتایا ہے کہ قانون دو طرح کے ہوتے ہیں ایک انسانی اور دوسرا خدائی۔ کسی بھی قانون میں تبدیلی کا حق اس کے قانون ساز یا اس سے برتر اتھارٹی کو ہوتا ہے۔ اسلامی قانون کے دو ابدی مآخذ قرآن و سنت کے علاوہ بعض وقتی اور عارضی مآخذ بھی ہیں۔ اور اجتہاد ایک ایسا وسیلہ هے جس کے ذریعے اسلامی قانون تا قیامت زندہ اور قابل عمل رہے گا۔

۱۱۔ نظام مالیہ و تقویم:  اسلام ایک نظام حیات ہے ۔مال انسانیت کی بقا اور قیام کا وسیلہ ہے۔اسلام نے مال کی اس اہمیت کے پیش نظر اس کے حصول کے جائز طریقوں کی ترغیب دی ہے۔ زکوۃ کی مالی عبادت کو فرض قرار دیا ہے ۔ اس نے ریاست کی آمدنی کے ذرائع کے ساتھ ساتھ اس کے مصارف کی بھی تفصیل بیان کی ہے۔ مکے اور مدینے دونوں مقامات پر اللہ کے رسول نے مالیات کا نظام قائم کیا۔

۱۲۔ تبلیغ اسلام اور غیر مسلموں سے برتائو:  اسلام ایک دعوتی مذہب ہے۔ اللہ کے رسول داعی اعظم تھے۔اس خطبے میں انہوں نے رسول اللہ کی سیرت کی روشنی میں تبلیغ اسلام کی حکمتوں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات و معاملات کی نوعیت پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔

خلاصہ کلام

اس میں شبہ نہیں کہ خطبات بہاول پور ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی علمی تحقیقات کا ایک ایسا جامع مرقع ہے جس میں ان کی علمی جہات کے مختلف رنگوں کو یکجا دیکھا جا سکتا ہے۔ ان خطبوں میں وہ فکر و نظر کے نئے زاویے ہی پیش نہیں کرتے بلکہ تحقیق کے نئے گوشوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں۔ کئی معاملوں میں ان کی رائے عام نقطہ نظر سے منفرد ہوتی ہے لیکن اس پر تفرد کا لیبل چسپاں کرکے آسانی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔یہاں صرف چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں:

لفظ’ ناموس‘ کی تحقیق ۔ص۱۱

اللہ کے رسول نے نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں ہی مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کا بھی اہتمام کیاتھا۔ص ۱۱

قرآن مجید ۵ نبوی میں بھی تحریری شکل میں موجود تھا۔ص ۱۴

خاتون حافظ قرآن حضرت ام ورقہ کی امامت۔ص ۱۸، ۳۵۔۳۶

مسلکی اختلاف کی حقیقت۔۳۹۔۴۰

اللہ کے رسول نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تھی۔ص ۵۰

اجتماعی انشورنس کا تصور۔ ص ۵۴۔۵۵

علم اصول فقہ مسلمانوں کی دین ہے۔امام ابوحنیفہ کی کتاب الرائی اصول فقہ میں پہلی کتاب ہے جو دستیاب نہیں۔ اصول فقہ کی قدیم ترین دستیاب کتاب امام شافعی کی ’الرسالہ‘ ہے۔ص ۱۱۸۔۱۱۹، ۱۲۷،۱۳۱

انٹرنیشنل لا بھی مسلمانوں کی دنیا کو دین ہے۔ امام ابو حنیفہ کی کتاب السیر اس موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ص ۱۲۷،۱۲۸

ڈاکٹر محمد حمیداللہ کو قدیم و جدید دونوں طرح کے علوم میں مہارت حاصل تھی۔ ان کی نظر اسلامی تاریخ و ثقافت اور علوم کے مآخذ پر بہت وسیع تھی۔ انہوں نے خطبات بہاول پور میں اسلام کو ایک مکمل نظام حیات کے طور پیش کیا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں اسلامی علوم اور جدید ذہن کے طلبا و محققین کے درمیان ایک پل تھے۔

حواشی و حوالہ جات

۱۔                                    فکرو نظر ، اسلام آباد، جلد ۴۰۔۴۱، شمارہ ۴۔۱، علوم اسلامیہ میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی خدمات، محمود احمد غازی، ص ۸۱

۲۔                                 ماہنامہ محدث لاہور، مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور، پاکستان، فروری ۲۰۰۳ء، ڈاکٹر محمد حمیداللہ، پروفیسر خورشید احمد، ص ۷۰

۳۔                                 نوائط عربوں کی تاریخ کے لیے دیکھیے: عزیز جنگ، تاریخ النوائط، ولا اکیڈمی، حیدرآباد، ۱۹۷۶ء

۴۔                                 تفصیل کے لیے دیکھیے: یوسف کوکن عمری،خانوادہ قاضی بدرالدولہ، دار التصنیف، مدراس، ۱۹۶۳ء

۵۔                                 زیبا افتخار، خاندان نوائط اور ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی خدمات، معارف مجلہ تحقیق،  اسلامک ریسرچ اکیڈمی ، کراچی ، پاکستان ، جنوری تا جون ۲۰۱۱ء ص ۱۰۲ء

۶۔ Nadirah Mustapha, A Catalogue of Dr. Hamidullah’s Books and Articles, www.facebook.com/Dr.Muhammad.Hamidullah (Pages:48)

۷۔                                ڈاکٹر محمد حمیداللہ دنیا کی کم از کم نو زبانیں جانتے تھے۔ مشرقی زبانوں میں اردو ان کی مادری زبان تھی اس کے علاوہ فارسی، عربی، روسی اور ترکی زبانوں کے ماہر تھے۔ مغربی زبانوں میں انگریزی، فرانسیسی، جرمن اور اطالوی زبانوں پر انہیں دسترس حاصل تھی۔ان کا تصنیفی سرمایہ سات زبانوں میں ہے، اس میں بیشتر اردو، عربی، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں میں ہے۔ بحوالہ زیبا افتخار ص ۱۰۲

۸۔                                 فکرو نظر ، اسلام آباد، جلد ۴۰۔۴۱، شمارہ ۴۔۱، علوم اسلامیہ میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی خدمات، محمود احمد غازی، ص ۸۵

۹۔                                   اردو دائرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، جلد ۸ ص ۹۵۴

۱۰۔                            اردو دائرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونی ورسٹی لاہور، جلد ۸ ص۹۵۴۔ ۹۵۵

۱۱۔                                شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ قرن اول میںمسلمان خواتین بھی خطابت کے جوہرسے آراستہ ہوتی تھیںانہوں نے احمد بن طاہر بغدادی کی کتاب بلاغات النساء کا حوالہ دیا ہے جس میں صرف مسلم خواتین کی تقریریں درج ہیں۔ دیکھیے خطبات شبلی، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ، ص ۱۷۹

۱۲۔ Muhammad Marmaduke Pickthall, The Cultural Side of Islam, The Committee of ‘Madras Lectures on Islam’Madras, 1937, Seond Edition

۱۳۔                            ڈاکٹر محمد حمیداللہ، خطبات بہاول پور، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، پاکستان،۱۹۸۵ء

۱۴۔                            ڈاکٹر محمد حمیداللہ، خطبات بہاول پور، ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد، پاکستان،۱۹۸۵ء، ص و

۱۵۔                            خطبات ص ح

مشمولہ: شمارہ جولائی 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau