نماز عصر کے بعد فرض نماز کی قضا
سوال: کیا عصر کی نماز کے بعد کسی چھوٹی ہوئی فرض نماز کی قضا کی جاسکتی ہے؟
جواب:ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لَاصَلَاۃَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰی تَغْرُبَ الشَّمْسُ (بخاری:۵۸۶، مسلم: ۸۲۷)
’’عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔ ‘‘
حدیث کے الفاظ میں گرچہ عموم پایاجاتا ہے، لیکن محدثین نے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس سے مراد نفل نماز ہے۔ حدیث میں فجر کی نماز کے بعد سے سورج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سے سورج ڈوبنے تک نوافل پڑھنے کی ممانعت آئی ہے۔
جہاں تک کسی چھوٹی ہوئی نماز کی قضا کا تعلق ہے تو وہ اس وقت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اس وقت نمازجنازہ پڑھی جاسکتی ہے اور سجدۂ تلاوت کیاجاسکتا ہے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے۔
……یجوز فیھا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ (الفتاوی الہندیۃ۱؍۲۵)
’’مکروہ اوقات میں چھوٹی ہوئی نماز کی قضا نمازجنازہ اور سجدۂ تلاوت جائز ہے۔
ایک حدیث کی تحقیق
سوال:ایک حدیث نظر سے گزری کہ ’’جس شخص کی موت جمعہ کے دن یارات میں ہوگی وہ قبر کے فتنہ سے محفوظ ہوگا۔ ‘‘ بہ راہ کرم بتائیں، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو اس کاکیا مطلب ہے؟ کیا اس سے جمعہ کی فضیلت کا اثبات مقصود ہے؟
جواب:اس مضمون کی روایت بعض کتب حدیث میں ان الفاظ میں مروی ہے:
’’مَنْ مَاتَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ اَوْلَیْلَۃَ الْجُمُعَۃِ وَقٰی فِتْنَۃَ الْقَبْرِ۔ ‘‘
’’جس شخص کی موت جمعہ کے دن یارات میں ہوگی وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔ ‘‘
اس کی تخریج امام احمد(۶۵۸۲،۶۶۴۶) اور امام ترمذی (۱۰۷۴) نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ کی سند سے کی ہے۔ بعض الفاظ کے فرق کے ساتھ یہ حضرت انسؓ اور حضرت جابرؓ سے بھی مروی ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت ابویعلیٰ نے اور حضرت جابرؓ کی روایت ابونعیم نے نقل کی ہے۔
علامہ البانیؒ نے اپنی کتاب ’احکام الجنائز‘ میں لکھاہے کہ ’’اس کے تمام طرق کو دیکھتے ہوئے یہ حسن یا صحیح قرار پاتی ہے۔ ‘‘ لیکن علامہ شعیب الارناوؤطؒ نے مسند احمد کی تعلیق میں اس پر ان کا تعاقب کیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’اس کی سند ضعیف ہے اور اس کی جو شاہد روایتیں ہیں وہ بھی علّت سے خالی نہیں ہیں۔ اس لیے وہ اس روایت کی تقویت کے لیے کافی نہیںہیں۔‘‘ امام ترمذیؒ نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ’حدیث غریب‘ ہے اور اس کی سند متصل نہیں ہے (منقطع ہے)۔
حافظ ابن حجر عسقلانی ؒنے شرح بخاری میں یہ روایت نقل کرکے لکھاہے: ’’اس کی سند میں ضعف پایاجاتا ہے اور ابویعلیٰ کی روایت کردہ حدیثِ انسؓ کی سند اور بھی ضعیف ہے۔ ‘‘
امام بخاریؒ نے ایک باب قائم کیا ہے: ’باب موت یوم الاثنین‘ (دوشنبہ کے دن وفات کا بیان) ۔اس میں بیان کیا ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات دوشنبہ میں ہوئی تھی اور حضرت ابوبکرؓ کی وفات بھی۔‘‘ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ جمعہ کے دن وفات کی فضیلت میں مروی روایت ان کے معیار پرپوری نہیں اُترتی۔
خلاصہ یہ کہ جس روایت کے بارے میں سوال کیاگیا ہے وہ صحیح نہیں معلوم ہوتی۔منقطع ہونے کی وجہ سے وہ خود بھی ضعیف ہے اور اس مضمون کی دیگر روایتوں کے بھی ضعیف ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی تقویت پیدانہیںہوتی۔
دورانِ عدّت عورت کاگھر سے باہر نکلنا
سوال:ایک عورت کے شوہر کاانتقال ہوگیا ہےاور وہ عدّت گزاررہی ہے۔ اس دوران اسے معلوم ہوا کہ اس کادیور اس کے شوہر کی زمین جائداد کورٹ سے اپنے نام کرانے کی کوشش میں لگا ہواہے۔ کیا وہ جوابی کارروائی کے لیے دورانِ عدت کورٹ جاسکتی ہے؟
جواب:دورانِ عدّت عورت اپنی ضروریات کے لیے دن میں گھر سے باہر جاسکتی ہے۔ حضرت جابرؓبیان کرتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہوگئی ۔ انہوں نے دورانِ عدت اپنے کھجور کے درخت سے پھل اُتارنے کی غرض سے باہر جانا چاہا تو ایک آدمی نے انہیں سختی سے منع کیا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اس سلسلے میں دریافت کیا۔ آپؐ نے فرمایا:
بَلٰی فَجُدِّیْ نَخْلَکِ فَاِنَّکِ عَسَیٰ اَنْ تَصَدَّقِیْ اَوْتَفْعَلِیْ مَعْرُوْفًا۔ (مسلم۱۴۸۳، ابوداؤد،۲۲۹۷)
’’کیوں نہیں، تم اپنے کھجور کے درخت سے پھل توڑنے کے لیے جاسکتی ہو۔ اس طرح ممکن ہے کہ تم صدقہ کرسکو یا اور کوئی عمل خیر انجام دو۔ ‘‘
یہی حکم شوہر کے انتقال کے بعد عدت گزارنے والی عورت کاہے الموسوعۃ الفقہیۃ کویت میں ہے:
ذَھَبَ الْفُقَھَاءُ اِلٰی اَنْ الْمُتَوَفّٰی عَنْھَا زَوْجُھَا لَاتَخْرُجُ لَیْلًا، وَلَابَأسَ بِاَنْ تَخْرُجَ نَھَارًا لِقَضَاءِ حَوَائِجِھَا۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ، ۲۹؍۳۵۰)
’’فقہاء کی رائے ہے کہ جس عورت کے شوہر کاانتقال ہوگیا ہو وہ دورانِ عدت رات میں گھر سے باہر نہ نکلے، البتہ دن میں اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے نکلنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ‘‘
خلع کے بعد اسی شوہر سے نکاح
سوال:میاں بیوی میں تنازع ہونے کے بعد بیوی نے خلع حاصل کرلیا اور وہ عدت گزار رہی ہے۔ بیوی کو سمجھایا بجھایا گیا تو وہ پھر اسی شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوگئی ہے۔ اب کیاکرنا ہوگا؟ کیاعدت مکمل ہونے کاانتظار کیاجائے گا؟
جواب: خلع کے بعدعورت کا تعلق شوہر سے باقی نہیں رہتا۔ وہ اس کے لیے اجنبی بن جاتی ہے۔ عدت مکمل ہونے کے بعد وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ اسی طرح اس کا نکاح سابق شوہر سے بھی ہوسکتاہے۔ دوسرے مرد سے نکاح کے لیے عدت کامکمل ہونا ضروری ہے، لیکن سابق شوہر سے نکاح دورانِ عدت بھی ہوسکتا ہے۔ بس نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ ہوگا۔
عورتوں میں حیض کی ابتدا
سوال:ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ عورتوں میں حیض کی ابتدا بنی اسرائیل سے ہوئی۔ ان سے قبل عورتوں کو حیض نہیں آتا تھا۔ ان کی عورتوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کو یہ سزا دی گئی۔ اس کی کیاحقیقت ہے؟ کیا یہ بات صحیح ہے؟ مجھے تو اس کے بجائے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عورتوں کو روز اوَّل سے حیض آتا رہاہے۔
جواب:حدیث کی بعض کتابوں میں اس مضمون کی روایات موجود ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ ’’بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجدوں میں جانے اور مردوں کے ساتھ باجماعت نمازادا کرنے کی اجازت تھی۔ وہاں انہوں نے ایڑیاں اونچی کرکے مردوں کی تاک جھانک شروع کردی۔ چنانچہ انہیں مسجد جانے سے روک دیاگیا اور ان پر حیض مسلط کردیاگیا۔ ‘‘ یہ روایات مصنف عبدالرزاق اور مسند اسحاق بن راہو یہ وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت اسماء بن ابی بکرؓ اور ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے مرفوعاً مروی ہیں۔ ان میں بنی اسرائیل کے عہد سے عورتوں میں حیض کی ابتدا کی جو بات کہی گئی ہے وہ درست نہیں ہے۔
بعض صحیح احادیث سے اشارہ ملتاہے کہ عورتوں میں حیض کی ابتدا روز اوّل سے ہے۔ حضرت عائشہ ؓ حجۃ الوداع میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلیں۔ راستے میں انہیں حیض آگیا تو وہ اس اندیشے سے رونے لگیں کہ اب وہ مناسک حج کی ادائی سے محروم ہوجائیں گی۔ آپؐ کو معلوم ہوا تو آپؐ نے انہیں سمجھاتے ہوئے فرمایا:
اِنَّ ھٰذَا شَیْءٌ کَتَبَہٗ اللہُ عَلَی بَنَاتِ آدَمَ، فَاقُضِیَ مَا یَقْضِی الْحَاجُّ غَیْرَ اَنْ لَاتَطُوْفِی بِالْبَیْتِ حَتّٰی تَغْتَسِلِیْ۔ (بخاری :۲۹۴، مسلم۱۲۱۱)
’’یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اولادِ آدم میں عورتوں کے لیے لازم کردیا ہے۔ اس حالت میں تم بھی وہی سب کرو جو حاجی کرتا ہے۔ صرف پاک ہونے تک بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔ ‘‘
اسی طرح کی ایک حدیث حضرت اُم سلمہؓ سے بھی مروی ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ایک موقع پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی کہ مجھے حیض آنے لگا۔ میں وہاں سے اُٹھ گئی۔ آپؐ نے دریافت کیا تو میں نے بتایا کہ مجھے حیض آنے لگا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
ذَاکَ مَاکَتَبَ اللہُ عَلَی بَنَاتِ آدَمَ۔ (سنن ابن ماجہ:۲۳۷)
’’یہ ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لازم کردیاہے۔ ‘‘
امام بخاریؒ نے اس موضوع پر اپنی صحیح میں اظہار خیال کیاہے۔ انہوں نے ایک عنوان قائم کیا ہے: باب کیف کان بدء الحیض (اس چیزکا بیان کہ حیض کاآغاز کیسے ہوا؟)۔ آگے انہوں نے لکھا ہے:
قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ھٰذَا شَیْءٌ کَتَبَہٗ اللہُ عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ، وَقَالَ بَعْضُھُمْ: کَانَ اَوَّلُ مَااُرْسِلَ الْحَیْضُ عَلَی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ(قَالَ اَبُوْ عَبْد اللہ) وَحَدِیْثُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَکْثَرُ۔ (بخاری، کتاب الحیض)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: یہ وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لازم کیاہے۔ بعض لوگوں کاکہنا ہے کہ حیض کاآغاز بنی اسرائیل کی عورتوں سے ہواہے۔ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد زیادہ معتبر ہے۔ ‘‘
اس کے بعد امام بخاریؒ نے حضرت عائشہؓ سے مروی وہ حدیث بیان کی ہے جسےاوپر درج کیاگیا ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے اس حدیث کی تشریح میں لکھا ہے:
’’بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض کاآغاز بنی اسرائیل سے ہوا۔ امام بخاریؒ نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ عورتوں کو حیض ابتدائے تخلیق سے آتارہا ہے۔ یہی بات جمہور سلف سے مروی ہے ۔ امام بخاری نےاس پر استدلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمومی ارشاد سے کیاہے: ’’یہ وہ چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لازم کیا ہے۔‘‘ یہ استدلال بدیہی اور عمدہ ہے۔ انہوں نے جو حدیث روایت کی ہے اس میں یہ جملہ موجود ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں اس جملے کو حدیث روایت کرنے سے قبل ترجمۃ الباب میں بھی شامل کردیا ہے۔ ‘‘ (ابن حجر عسقلانی ، فتح الباری، شرح صحیح البخاری)
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ حیض کی ابتدا تو حضرت حوا سے ہوئی ہے، لیکن ایسا بہ طور سزا کے ہوا۔ ابن جریر طبریؒ نے آیت وَلَھُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ(لبقرۃ:۲۵) کی تفسیر میں عبدالرحمن بن زیدؒ کا یہ قول نقل کیاہے: مُطَھَّرۃ (پاکیزہ) کا مطلب ہے’ وہ عورتیں جنہیں حیض نہ آتاہو، حوا کی تخلیق بھی اسی طرح ہوئی تھی، یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کی نافرمانی کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میں نے تجھے ’پاکیزہ‘ بنایاتھا، لیکن تونے نافرمانی کی، اس لیے اب میں تجھ سے خون جاری کردوں گا۔ ‘‘
اس طرح کی روایات غیر معتبر اور ناقابل قبول ہیں۔ حیض دراصل ایک طبیعیاتی مظہر(Physiological Phenomenon) ہے ، جس سے ہر ماہ عورت بلوغت (Puberty)سے سن یاس(Menopause) تک دوچار رہتی ہے۔ یہ صحت کی علامت ہے۔ حیض کے خون سے بچے کی پرورش ہوتی ہے۔ اسی لیے استقرار حمل کے بعد اور بسااوقات دورانِ رضاعت (Lactation)عورت کو حیض نہیں آتا۔ غیر حاملہ عورت کو اگر حیض نہ آئے تو یہ مرض کی علامت ہے۔ یہ عورت کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی سزا نہیںہے، بلکہ ایک مفوّضہ ذمہ داری ہے، جو تخلیق انسانیت کے لیے اللہ نے اس پر عائد کی ہے۔ بغیر جزع وفزع کے اس ذمے داری کی انجام دہی پر وہ اجر وثواب کی مستحق ہوگی۔ حضرت عائشہؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ ایک موقع پرانہوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: مجھے خیال ہوتاہے کہ عورتیں مصیبت جھیلنے کے لیے ہی پیدا کی گئی ہیں۔ (غالباً ان کا اشارہ حیض ہی کی طرف تھا، جس سے ہرماہ عورتیں دوچار ہوتی ہیں) اس پر آپؐ نے فرمایا:
لَا، وَلٰکِنَّہٗ شَیْءٌ اُبْتُلِیَ بِہ نِسَآءُ بَنِیْ آدَمَ۔ (مسند احمد:۲۴۶۰۹)
’’نہیں ، بلکہ یہ ایسی چیز ہے، جس کے ذریعے بنی آدم کی عورتیں آزمائی گئی ہیں۔ ‘‘(مرسل ہونے کی بنا پر اس روایت کو ضعیف قرار دیاگیا ہے)
حدیث کے ٹکڑے’’ھٰذَ شَیْءٌ کَتَبَہٗ اللہُ عَلٰی بَنَاتِ آدَمَ‘‘ کی تشریح میں علامہ ابن حجرؒ نے لکھاہے: ’’لکھ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی تخلیق اس طرح کی ہے کہ انہیں حیض آئے۔ اسے اس نے ان پر لازم کردیا ہے۔ اگر اس پر انہوں نے صبر کیا تو وہ اجر کی مستحق ہوں گی۔ ‘‘ (فتح الباری)
مشمولہ: شمارہ جون 2015