تحریکی سرگرمیوں کی انجام دہی کے لیے شوہر کی اجازت
سوال :میراخاندان تحریکی ہے۔ میرے خسر محترم جماعت اسلامی ہند کے رکن تھے ، میرے شوہر محترم بھی جماعت کے کارکن ہیں۔ میں بھی حتی المقدور جماعت کی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہتی ہوں۔ ابھی حال میں میری رکنیت کی درخواست منظور ہوئی ہے۔ اس پر میرے شوہر نے ناراضی کا اظہار کیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعت کے ذمہ دار کو رکنیت کی سفارش کرنے سے قبل ان سے ملاقات کرنی چاہئے تھی اوران سے اجازت حاصل کرنی ضروری تھی۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کا ’قوام ‘ بنایا ہے :الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلیَ النِّسَائ ۔ شوہر کی مرضی کے بغیر عورت کو گھر سے باہر جانے اورتحریکی سرگرمیاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ جماعت کے ذمہ دار کا رویہ عورت کو بے جا آزادی دینے کا ہے ۔ اس سے ازدواجی تعلقات پر اثر پڑے گا اورگھر کے ماحول میں خواہ مخواہ ٹینشن پیداہوگا۔ ان باتوں سے میں ذہنی طورپر پریشان ہوگئی ہوں۔ بہ راہ کرم میری رہ نمائی فرمائیں ۔ میں کیا کروں؟
جواب: ہر مسلمان کی – خواہ وہ مرد ہو یاعورت – ذمہ داری ہے کہ وہ دین کافہم حاصل کرے، اس پر خود عمل کرے، پھر اللہ کے دوسرے بندوں تک اسے پہنچانے کی کوشش کرے۔ اہل ایمان سے مطلوب یہ ہے کہ اس کام میں وہ ایک دوسرے کاتعاون کریں:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ(التوبہ: ۷۱)
’’مومن مر اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ،زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقینا اللہ سب پر غالب اورحکیم وداناہے۔‘‘
ازدواجی زندگی میں شوہر بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے دینی کاموں میں ایک دوسرے کا بھرپور تعاون کریں اور اگر ایک سے کچھ کوتاہی ہو تو دوسرا اسے نرمی اورمحبت سے اس جانب توجہ دلائے ۔ حدیث میں اس بات کو بہت لطیف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
رَحِمَ اللہُ رَجُلاً قَامَ مِنَ اللَّیْل فَصَلیّٰ وَاَیْقَظَ امْرأَتَہ فَاِنْ اَبَتْ نَضَحَ فِی وَجْھِھَا المَاءَ، رَحِمَ اللہُ امْرأۃًقاَمَتْ مِنْ اللَّیْل فَصَلَّتْ وَاَلْقَظَتْ زَوْجَھَافَاِنْ اَبیٰ نَضَحَتْ فِی وَجْھِہٖ الَمائَ ( ابوداؤد: ۱۳۰۸، ۱۴۵۰،نسائی:۱۶۱۰، ابن ماجہ: ۱۳۳۶)
’’اللہ اس مرد پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو اٹھائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے ۔ اللہ اس عورت پر رحم کرے جورات میں اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو جگائے۔ اگروہ نہ اٹھے تواس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دے ۔‘‘
رحمتِ الٰہی کا یہ استحقاق صر ف نماز تہجد کے لیے خود اٹھنے اور دوسرے کواٹھانے تک محدود نہیں ہے ، بلکہ دین کے ہر کام میں اس طرح کا باہمی تعاون مطلوب ہے۔
جماعت اسلامی ہند امت ِ مسلمہ کے تمام افراد کو – خواہ وہ مرد ہوں یا خواتین- اسی مشن میں لگانا چاہتی ہے۔ وہ ہر مسلمان مرد اورعورت سے کہتی ہے کہ سب سے پہلے وہ دین کا صحیح فہم حاصل کرے، یہ جانے کہ اللہ اور اس کے رسول نے کن کاموں کا حکم دیا ہے اور کن کاموں سے روکا ہے ۔ مامورات پر عمل کرنے اور مہنیات سے اجتناب کرنے کی کوشش کرے، آخر میں حسب توفیق اپنے پڑوسیوں ، اہل خاندان ، دیگر متعلقین اور عام افراد تک دین کی ان تعلیمات کو پہنچانے کی کوشش کرے۔ جولوگ جماعت کے اس مشن سے اتفاق ظاہر کرتے ہیں اور اس کے بعض بنیادی کاموں میں شریک ہوتے ہیں، انھیں وہ متفق اور کارکن بناتی ہے اور جواس کے دستور اور پالیسی و پروگرام سے مکمل اتفاق ظاہر کرتے ہوئے اس کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں انھیں وہ اپنا رکن بنالیتی ہے۔
جماعت کے ذمہ داروں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ کسی خاتون کو جماعت کارکن بنانے سے قبل اس کے شوہر سے ملاقات کرکے اس کی اجازت حاصل کریں، غیر ضروری ہے ۔ اس کے بجائے اس خاتون کو جماعت کی رکنیت کے لیے خود کو پیش کرنے سے قبل اپنے شوہر یاسرپرست کواعتماد میں لینا چاہیے اور اس کی رضا مندی کے بعد ہی یہ اقدام کرناچاہیے، تاکہ گھر میں خوش گوار فضا قائم رہے اورآئندہ اس کی عملی سرگرمیوں میں اہل خانہ کاتعاون حاصل رہے۔ اگر اس کے بغیر یہ اقدام کیا گیا تو اسی صورت حال کا اندیشہ ہے، جس کا اوپر سوال میں تذہ کر ہ کیاگیاہے۔
اس سلسلے میں ایک اورچیز کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے لیے شوہر یا سرپرست کی اجازت ضروری ہے۔ اگروہ منع کردے تواس کا باہر نکلنا جائز نہیں۔ عہد نبوی میں عورتیں فرض نمازوں کی ادائیگی کے لیے مسجد نبوی جایا کرتی تھیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان اس کے شوہروں کو مخاطب کرکے فرمایا :
لَاتَمْنَعُو انِسَاءَکُمُ المَسَاجِدَاِذَا اسْتَاذَنَّکُمْ(صحیح مسلم : ۱۰۱۷)
’’تمہاری عورتیں جب تم سے مسجد جانے کی اجازت مانگیں توانھیں منع نہ کرو‘‘
اس حدیث کا خطاب عورتوںسے بھی ہے اور مردوں سے بھی۔ عورتوں سے یہ کہ وہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے مردوں سے اجازت طلب کریں اوران کی اجازت کے بعد ہی نکلیں اورمردوں سے خطاب یہ کہ جب ان سے اجازت طلب کی جائے تومنع نہ کریں ۔ اجازت طلب کرنے اور اجازت دینے کایہ معاملہ صرف فرض نمازوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ تمام دینی ودنیاوی کاموں کے سلسلے میں ہے۔ تحریک سے باضابطہ وابستگی کے بعد گھر سے باہر کے تحریکی کاموں کی انجام دہی کے لیے عورت کا شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے اور اگر وہ کبھی اجازت نہ دے تو یہ معقول شرعی عذر ہے جسے ذمہ دارانِ جماعت کو قبول کرنا چاہیے۔ اب آپ جماعت کی رکن بن چکی ہیں ۔ اجتماعات وغیرہ میں شرکت کے لیے گھر سے باہر جانا ہوتو شوہر محترم سے اجازت لے لیا کریں ۔ وہ خود جماعت کے کارکن ہیں۔ ان کے دینی جذبے سے یہ توقع ہے کہ وہ بہ خوشی اجازت دے دیا کریں گے۔ واضح رہے کہ اجازت جس طرح صراحتاً ہوتی ہے اُسی طرح کی گھر میں جومعمول ہو وہ بھی اجازت ہی ہے۔
آخری بات یہ کہ دینی وتحریکی سرگرمیوں کی انجام دہی عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر موقوف نہیں ہے۔ وہ گھر میں رہتے ہوئے تبلیغ واشاعت ِ دین کا بہت سے کام کرسکتی ہے۔ اپنے گھروالوں ، رشتہ داروں ، ملاقاتیوں وغیرہ کو دین کی باتیں بتاسکتی ہے۔ چھوٹے بچوں بچیوں کی دینی تعلیم کاانتظام کرسکتی ہے۔ جدید ترقی یافتہ وسائل نے توگھر بیٹھے کام کاوسیع میدان فراہم کردیاہے۔ فون، موبائل ، ای میل ، فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے بے شمار افراد سے رابطہ کیاجاسکتاہے اور ان تک دین کی باتیں پہنچائی جاسکتی ہیں۔
بیٹے کے مال میں سے باپ کا خرچ کرنا
سوال :ایک صاحب کی بیوی کا انتقال ہوا۔ وارثوں میںوہ خود (مرحومہ شوہر) اوران کا ایک بیٹا تھا، جوابھی نابالغ ہے ۔ انہوںنے اپنا حصہ بھی بیٹے کو دیدیا۔ مجموعی رقم تیس لاکھ روپے تھی۔ اس سے ایک فلیٹ خریدا گیا، جس سے ماہانہ کرایہ پچیس ہزار روپے حاصل ہورہے ہیں۔ اس رقم کو بیٹے کی ضروریات پر خرچ کیاجارہاہے۔
کیا اس رقم میں سے کچھ وہ صاحب اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کرسکتے ہیں؟ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےایک نوجوان سے مخاطب ہوکر فرمایا :’’تواور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے۔‘‘کیااس سے بیٹے کے مال میں سے باپ کے لیے خرچ کرنے کی گنجائش نکلتی ہے۔
جواب :کسی خاتون کے وارثوں میں صرف اس کا شوہر اورایک بیٹا ہو تواس کے انتقال پر اس کی وراثت اس طرح تقسیم ہوگی کہ شوہر کو اس کا ایک چوتھائی ملے گا اور بقیہ (تین چوتھائی) کامستحق اس کا بیٹا ہوگا۔ شوہر چاہے تواپنے حصے کا مالک بھی اپنے بیٹے کو بناسکتاہے۔
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ نابالغ لڑکے کی جائیداد اور جملہ مملوکہ اشیاء کی حفاظت و نگرانی اس کے بالغ ہونے تک اس کا ولی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰٓي اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ۰ۚ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ۰ۚ وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا۰ۭ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ۰ۚ وَمَنْ كَانَ فَقِيْرًا فَلْيَاْكُلْ بِالْمَعْرُوْف(النساء:۶)
’’اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو، یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کوپہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ توان کے مال ان کے حوالے کردو۔ا یسا کبھی نہ کرنا کہ حدِ انصاف سے تجاوزکرکے اس خوف سے ان کامال جلدی جلدی کھا جاؤ کہ وہ بڑے ہو کر اپنے حق کامطالبہ کریںگے۔ یتیم کا جو سرپرست مال دار ہو وہ پرہیز گاری سے کام لے اور جوغریب ہو وہ معروف طریقے سے کھائے‘‘۔
اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ یتیم کا سرپرست اگرمال دار اور صاحبِ حیثیت ہو تو بہتر ہے کہ وہ اس مال میں سے کچھ نہ کھائے، لیکن اگر غریب اور ضرورت مند ہو تواپنے حق الخدمت کے طورپر اس میں سے کچھ لے سکتاہے ، لیکن ضروری ہے کہ اس میں سے لینا معروف طریقے پر ہو، اتناہو کہ ایک غیر جانب دار آدمی بھی اسے مناسب خیال کرے۔
سوال میں جو حدیث پیش کی گئی ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک بوڑھے شخص نےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کی کہ میں نے اپنے بیٹے کوپال پوس کر بڑا کیا، اس کی ہرضرورت پوری کی، اس پر اپنا مال خرچ کیا ۔ اب جب کہ میرے قویٰ مضمحل ہوگئے، میں کچھ کما نہیں سکتا، اپنے بیٹے کے مال میں سے کچھ لیتاہوں تووہ ناراضگی جتاتا ہے اور کہتاہے کہ میں اس کامال اڑا رہاہوں ۔ آپؐ نے اس نوجوان کو بلا بھیجا۔ اس کے سامنے اس کے بوڑھے باپ کا دکھڑا پھرسنا(بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی باتیں سن کر آپ آب دیدہ ہوگئے) پھر آپؐ نے اس نوجوان کا گریبان پکڑا اور اسے اس کے باپ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا: اَنْتَ وَمَالُکَ لِاَبِیْکَ (صحیح الجامع للشیخ الالبانی: ۱۴۸۶، ۱۴۸۷)
اس سے معلو م ہوتاہے کہ بیٹے کے مال میں باپ کابھی حق ہے۔ وہ اس میں سے حسبِ ضرورت اور معروف طریقے سے لے سکتاہے۔
امانت میں خیانت
سوال:ایک صاحب نے مجھے پچاس ہزار روپے یہ کہہ کر دیے کہ اسے ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں۔ ہوایہ کہ مجھے کچھ روپیوں کی بہت سخت ضرورت پیش آگئی۔ چنانچہ میں نے اس میں سے بیس ہزار روپے استعمال کرلیے اور سوچاکہ جب میرے پاس پیسوں کاانتظام ہوجائے گا تو اس رقم کو بھی ضرورت مندوں میں تقسیم کردوں گا۔ ذاتی استعمال کے لیے میں نےان صاحب سے اجازت حاصل نہیں کی، بلکہ ان کو بتائے بغیر بہ طور قرض اسے استعمال کرلیا۔ کیامیرے لیے ایسا کرنے کی گنجائش تھی یا میں نے غلط کیا؟
جواب:آدمی اپنا مال ضرورت مندوں میں خود بھی تقسیم کرسکتاہے اور کسی دوسرے کو بھی یہ ذمہ داری دے سکتاہے ۔ جو شخص یہ ذمہ داری قبول کرلے اسے پوری امانت و دیانت کے ساتھ اسے انجام دینا چاہیے۔
جس شخص کو مذکورہ مال تقسیم کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ، اس کے پاس یہ مال امانت ہے۔ بغیر اس کے مالک کسی اجازت کے اس میں ادنیٰ سا تصرف بھی اس کے لیے جائز نہیں ہے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ صاحبِ مال نے جن کاموں میں خرچ کرنے یا جن افراد کو دینے کی صراحت کی ہو، انہی میں مال خرچ کیاجائے۔ ذمہ داری لینے والے کو اپنے طورپر فیصلہ کرنے اور مدّات میں تبدیلی کرنے کاحق نہیں ہے ۔
اسی طرح اگر وہ ذمہ دار اس مال کومستحقین تک پہنچانے میں ٹال مٹول سے کام لے یا بلاوجہ تاخیر کرے تو یہ بھی خیانت ہے۔ وہ مال کا کچھ حصہ اپنے ذاتی کام میں استعمال کرلے، پھر کچھ عرصہ کے بعد اس کے پاس مال آجائے تو اسے بھی ضرورت مندوں میںتقسیم کردے، اس صورت میں وہ مال میںخیانت کرنے کامرتکب تو نہ ہوگا، لیکن بغیر صاحبِ مال کی اجازت کے ، مستحقین تک اس کے پہنچانے میں تاخیر کرنے کا قصور وار ہوگا۔ اس لیے ایسا کرنے سے اجتناب کرناچاہیے۔اب اگر ایسی کوتاہی ہوگئی ہے تواستغفار اور آئندہ احتیاط کا عہد کرنا چاہیے۔
آدم علیہ السلام کا ظلم
سوال:نافرمانی کی روک تھام کے لیے سزا کی ضرورت اورانتباہ سے کسی کوانکار نہیں ، مگر سزا سے بچنے کے لیے سزا کی نوعیت سمجھ سے بالاتر نہ ہو، ورنہ سزاکی نوعیت کاابہام نافرمانی کی طرف جھکاؤ کومہمیز کرسکتاہے۔
بائبل میں ہے کہ آدم علیہ السلام کو ممنوعہ درخت سے دورر کھنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی کہ جب وہ ممنوعہ پھل کھائیں گے تو یقینی طورپر موت سے دوچار ہوں گے۔ اس سزا میں ابہام ہے۔ آدم علیہ السلام موت سے اس وقت ڈریں گے جب انھیں اس کی سختی کاتجربہ ہویاوہ موت کے مناظر دیکھ چکے ہوں۔ بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام موت کے مفہوم سے بہ خوبی واقف تھے۔
قرآن میں سزا یوں بتائی گئی ہے: فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِــمِيْنَ(البقرۃ:۳۵)(ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے)اورتوبہ کی دعا میں آدم علیہ السلام یوں کہتے ہیں: رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا(الاعراف: ۲۳ ) (اے ہمارے رب، ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا)اب سوال یہ ہے کہ ظلم اورظالم جیسے تصورات سے حضرت آدم علیہ السلام کب اور کس طرح واقف ہوئے؟ اوراس کے عواقب کا مؤثر ادراک انھیں کیسے حاصل ہوا؟ کیاعلم الاسماء میں ان تصورات کو داخل سمجھا جائے؟
جواب:اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اورانہیں زندگی گزارنے کاپوراطریقہ الہام کردیا۔ کیاحق ہے اور کیاناحق ؟ اللہ تعالیٰ کے اوامر کیاہیں اور نواہی کیاہیں؟ کن کاموں سے اس کی خوش نودی حاصل کی جاسکتی ہے اور کون سے کام اس کے غضب کوبھڑکاتے ہیں؟ یہ تمام باتیں کھول کھول کر بتادی گئیں ۔ اسی کوعلم الاسماء (البقرۃ: ۳۱) سے تعبیر کیاگیاہے اور اسی کو فطرۃ اللہ (الروم:۳۰) کہاگیا ہے۔
حضرت آدم علیہ السلام اورحوا کو جنت میں بسایا گیا اوروہاں کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی، البتہ ایک مخصوص درخت کا پھل خانے سے منع کردیاگیا اور کہاگیا کہ اگر ایسا کروگے تو تم ظلم کرنے والے ہوگے۔ ظلم کی حقیقت یہ ہے: وضع الشئی فی غیر موضعہٖ (کسی چیز کونامناسب جگہ رکھنا) یعنی جو کام کرنا چاہیے وہ نہ کیا جائے اور جو کام نہ کرنا چاہیے وہ کیاجائے۔ حضرت آدم علیہ السلام کوایک مخصوص درخت کا پھل کھانے سے روکاگیا تھا، لیکن وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اسے کھابیٹھے ۔ اس طرح وہ اللہ کی نافرمانی کربیٹھے۔ یہی ظلم تھا۔ اسے ظلم سمجھنے کے لیے کسی گہرے فہم، طویل غوروخوض اور منطق وفلسفہ کی ضرورت نہ تھی۔ پھل کھاتے ہی جب اس کے عواقب ونتائج ظاہر ہوئے ، ان کے اعضائے ستر ایک دوسرے پر کھل گئے توانھیں فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوااور وہ سمجھ گئے کہ وہ ظلم کر بیٹھے ہیں۔ چنابچہ انہیں بارگار ِ الٰہی میں ندامت کا اظہارکرنے اور لغزش پر معانی مانگنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2015