رسائل و مسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

کیا نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے ؟

سوال: اگر نماز جنازہ فرض نماز کےفوراً بعد ہو اوراسی جگہ پڑھ لی جائے جہاں  فرضـ نماز ادا کی گئی ہے توکیا ایسا کرنے میں کچھ قباحت ہے ؟

جواب : حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :  مَنْ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃٍ  فِیْ الْمَسْجِدِ فَلَیْسَ لَہُ شَئٌی (ابن ماجہ : ۱۵۱۷۔علامہ البانیؒ نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔) ’’جس شخص نے مسجدمیں نماز جنازہ پڑھی، اسے کچھ اجر نہیں ملےگا۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسجد نبوی کے باہر ایک جگہ نماز جنازہ کے لیے متعین کردی گئی تھی ۔ وہیں آپ ؐ نماز پڑھایا کرتے تھے ۔ بہت سی احادیث میں اس کا تذکرہ موجودہے ۔ حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ یہ جگہ مسجد نبوی سے متصل مشرقی جانب تھی ۔ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری ، المکتبہ السلفیہ ، ۳؍۱۹۹)اس بنا پر بہتر یہ ہے کہ عام حالات میں سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے نماز جنازہ مسجد کے باہرادا کی جائے۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں بعضـ مواقع پر مسجد میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:

لَقَدْ صَلّٰی رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی ابْنَی بَیْضَاءَ فِیْ الْمَسْجِدِ(مسلم : ۹۷۳، ابوداؤد : ۳۱۸۹، ترمذی : ۱۰۳۳، نسائی : ۱۹۶۸)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں اداکی۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر فاروقؓ کی نماز جنازہ بھی مسجد میں ادا کی گئی۔ (مصنف عبدالر ز اق : ۶۵۷۶،موطا امام مالک : ۹۶۹)

اسی بنا پر  امام بخاری نے یہ ترجمۃ الباب قائم کیا ہے : باب الصلاٰۃ علی الجنائز بالمصلیٰ وبالمسجد (اس چیز کا بیان کہ جنازہ گاہ اور مسجد دونوں جگہ نماز جنازہ اداکی جاسکتی ہے)

علامہ ناصر الدین البانی نے لکھا ہے : ’’مسجد میں نماز جناز ہ جائز ہے ( بہ طور دلیل انہوں نے کئی حدیثیں نقل کی ہیں، لیکن افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں ادا کی جائے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی  اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معمول تھا ۔‘‘ (احکام الجنائز ، ص ۱۳۵)

فقہاء میں امام شافعیؓ اورامام احمدؓ کے نزدیک اگر مسجد میں گندگی ہونے کا اندیشہ نہ ہوتو وہاں نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔ امام مالکؓ کے نزدیک مسجد میں جنازہ کولے جانا مکروہ ہے ، البتہ اگروہ مسجد کے باہر رکھا ہو تومسجد میں موجودہ افراد اس کی نماز میں شریک ہوسکتے ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک جس مسجد میں پنج وقتہ نماز ہوتی ہے اس میں جنازہ کی نماز پڑھنی مکروہ ہے ، خواہ جنازہ اورنمازی دونوں مسجد میں ہوں ،یا جنازہ مسجد سے باہر اورنمازی مسجد کے اندر ہوں، یا جنازہ مسجد میں اور نمازی مسجد کے باہر ہو ں ۔ البتہ بارش یا کسی دوسرے عذر کی بناپر مسجد میں نماز جنازہ بلا کراہت جائز ہے (الفتاویٰ الہندیۃ: ۱؍۱۶۲، فتاویٰ شامی :۱؍۶۱۹۔)

اس موضوع پر تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجئے: الموسوعۃ الفقہیۃ کویت :۱۶؍۳۵۔۳۶

نماز میں دوران قیام ہاتھ باندھنا

سوال: کچھ لوگ نماز میں دوران قیام ہاتھ باندھتے ہی نہیںہیں ۔ براہِ کرم وضاحت فرمائیں کہ ایسا کرنے والے لوگ کون ہیں اوران کے دلائل کیا ہیں؟

جواب: جمہور علماء (احناف ، شوافع اورحنابلہ ) کے نزدیک نمازی کو چاہیے کہ وہ دوران قیام ہاتھ باندھے، اپنے بائیں ہاتھ پر دائیں ہاتھ کورکھے ۔ ایسا کرنا سنت سے ثابت ہے:

حضرت  وائل بن حجر ؓ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ نماز بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپؐ نے اپنے بائیں ہاتھ پر دائیں ہاتھ کو رکھا ۔(مسلم :۴۰۱)

حضرت  عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا ۔ میرا بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ کے اوپر تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے ۔ آپؐ نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر اسے بائیں ہاتھ کے اوپر کردیا۔ (ابن ماجہ:۸۱۱)

البتہ امام مالکؒ سے اس سلسلے میں کئی اقوال مروی ہیں:

۱۔ فرض نمازوں میں ہاتھ چھوڑے رہنا مستحب اورہاتھ باندھنا مکروہ ہے ، البتہ نفل میں اس کی اجازت ہے ۔ اسے المدوّنۃ میں ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کیا ہے ۔

۲۔ فرض اورنفل  تمام نمازوں میں ہاتھ باندھنا جائز ہے ۔ اس کی روایت امام مالک سے اشہب اورابن نافع نے کی ہے۔

۳۔ تمام نمازوں میں ہاتھ باندھنا ممنوع ہے ۔ اس کی روایت باجیؒ نے امام مالک سے کی ہے۔ فقہ مالکی میں اس کی حکمت  یہ بیان کی گئی ہے کہ مقصود نماز میں دورانِ قیام حالتِ سکون  میں رہنا ہے اوریہ مقصود ہاتھ چھوڑے رہنے میں زیادہ بہتر طریقے سے حاصل ہوتا ہے ۔ البتہ مالکی فقہاء مطرّف اور  ابن ما جشون نے امام مالک سے ایک قول دوران قیام ہاتھ باندھنے کا بھی نقل کیا ہے۔(الموسوعۃ الفقہیۃ ، کویت، ۳؍۹۴ بہ عنوان ’الارسال‘)

میراث کا  ایک مسئلہ

سوال: میری والدہ کا انتقال ۲۰۰۰ء میں ہوگیا تھا ۔ والد صاحب الحمداللہ ابھی حیات ہیں۔ میری تین بہنیں ہیں ۔ دو شادی شدہ اورایک طلاق یافتہ ۔ والدہ کی وفات کے بعد والد صاحب نے دوسری شادی کرلی تھی ۔ میرا بھی نکاح ہوچکا ہے ۔ میری والدہ کی دوبہنیں اورتین بھائی تھے ۔ان میں سے والدہ کے علاوہ ان کی ایک بہن اورایک بھائی کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ابھی ایک بہن اورایک بھائی باحیات ہیں۔ میری والدہ کے کچھ زیورات ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ شرعی طریقے سے ان کی تقسیم ہو  جا ئے ۔ براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔

جواب: کسی شخص کا ، خواہ وہ مرد یا عورت، انتقال ہوتواس کی جملہ مملوکہ اشیاء اس کے قریبی  رشتے د ا ر وںمیں تقسیم ہوںگی ۔ آپ کی والدہ کی ملکیت میں اگر زیورات کے علاوہ کچھ اورچیزیں بھی رہی ہوں توانہیں بھی درج ذیل تفصیل کے مطابق تقسیم کرنا ہوگا۔ دوسرے یہ کہ مستحقین وراثت خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ کسی بھی عمر کے ہوں ، حتّی کہ رحم مادر میں پرورش پانے والے بچے کا بھی حصہ لگتا ہے ۔ آپ نے جوتفصیل بیان کی ہے اس کے مطابق درج ذیل افراد مستحقِ وراثت ہوں گے۔

۱۔ مرحومہ کے شوہر یعنی آپ کے والد پچیس فی صد کے مستحق ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے کہ کسی عورت کا انتقال ہواور وہ صاحبِ اولاد ہو تواس کے شوہر کا حصہ ایک چوتھائی ہے (النساء: ۱۲)

۲۔ وفات پانے والی عورت کی کئی لڑکیاں ہوںتووہ دوتہائی مالِ وراثت کی حقدار ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اس کا لڑکا بھی ہوتوسب ’عصبہ‘ ہوجاتے ہیں ۔ اس صورت میں باقی مال وراثت ان کے درمیان ۱:۲ کے تناسب سے تقسیم ہوگا ۔ یعنی ایک لڑکے کودو لڑکیوں کے برابر ملے گا ۔ (النساء:۱۱) بہ الفاظ دیگر باقی مال وراثت (۷۵؍فی صد ) میں سے پندرہ پندرہ فی صد آپ کی ہر بہن کو اورتیس (۳۰) فی صد آپ کو ملے گا ۔

۳۔اولاد کی موجودگی میں بھائی بہنوں کوکچھ نہیں ملتا۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2016

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau