نمازِ جمعہ کے لیے نمازیوں کی کم سے کم تعداد
سوال: میرے گاؤں میںا یک زمانہ سے صرف ایک مسجد تھی۔ چند ایام قبل گاؤں کے دوسرے سرے پر ایک دوسری مسجد تعمیر کی گئی ۔ اس میں پنج وقتہ نماز یں اور نماز جمعہ شروع ہوگئی ہے ۔ اکثر لوگ بے نمازی ہیں ۔ پنج وقتہ نمازیں چند ہی لوگ پڑھتے ہیں ۔
نئی مسجد میں جمعہ کا آغاز ہوا تو تقریباً بیس (۲۰) افراد اکٹھا ہوئے ۔ کم وبیش اتنی ہی تعداد ہر جمعہ میں رہتی ہے ، کبھی اس سے کم بھی ہوجاتی ہے ۔ اس پرایک صاحب نے اعتراض کیا کہ چالیس (۴۰) افراد سے کم ہوں تو جمعہ کی نماز پڑھنی درست نہیں ہے ۔
بہ راہِ کرم واضح فرمائیں ۔ کیایہ بات صحیح ہے ؟ نمازِ جمعہ صحیح ہونے کے لیے نمازیوں کی کم از کم کتنی تعداد ہونی چاہیے ؟
جواب: نماز جمعہ کی فرضیت قرآن کریم سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہِ
’’اے لوگو جوایمان لائے ہو۔ جب پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تواللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔‘‘ (الجمعۃ: ۹)
حضرت طارق بن شہابؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ (ابوداؤد : ۱۰۷۶)
’’نماز جمعہ ہر مسلمان پر با جماعت ادا کرنا حقِ واجب ہے۔‘‘
جمعہ کی نماز کے لیے کم از کم کتنے نمازی ہونے چاہئیں ، اس کا تذکرہ احادیث میں نہیں ہے ۔ فقہا ء نے مختلف تعداد بیان کی ہے ۔
امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک امام کے علاوہ تین مقیم مرد ( یعنی جومسافر نہ ہوں) کافی ہیں۔ امام مالک نے بارہ (۱۲) تعداد بتائی ہے ۔ شافعیہ اورحنابلہ کے نزدیک انعقادِ جمعہ کے لیے کم از کم چالیس مردوں کا ہونا ضروری ہے ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : ۲۷؍۲۰۲)
علامہ ابن رشدؒ نے ان اقوال کے دلائل پر بھی مختصر روشنی ڈالی ہے جوحضرات چالیس ( ۴۰) افراد کو ضروری قرار دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ مدینہ میں جمعہ کی نماز قائم کی گئی تو چالیس افراد موجود تھے ۔ امام ابوحنیفہؒ کی دلیل یہ ہے کہ قیام جمعہ کا حکم دینے کے لیے جمع کاصیغہ اختیار کیاگیا ہے اورجمع کا اطلاق کم ازکم تین افراد پر ہوتا ہے۔ (بدایۃ المجتہد ، ابن رشد، دارالمعرفۃ ، توزیع دار الباز للنشر والتوزیع، مکۃ المکرمۃ : ۱/۱۵۸۔۱۵۹)
سید سابقؒ نے لکھا ہے : ’’ علماء کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جمعہ صحیح ہونے کے لیے جماعت شرط ہے ، البتہ جماعت کے افراد کی تعداد کے سلسلے میں اختلاف ہے ۔ حافظ ابن حجرؒ نے اس مسئلہ میں پندرہ اقوال نقل کیے ہیں ، جن میں راجح قول یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد افراد جمعہ کی جماعت ہوجائےگی ، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’ دو اوراس سے زیادہ پر جماعت ہے ۔‘‘ (فقہ السنۃ ، علامہ السید سابق، مترجم مولانا ولی اللہ مجید قاسمی، المنار پبلشنگ ہاؤس ، نئی دہلی ، ۲۰۱۴ء :۱/ ۴۸۱)
مولانا احمد رضا خاںؒ سے کسی نے جمعہ سے متعلق کئی سوالات کیے ، جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ’’ جماعت میں بہ قول بعض ائمہ علاوہ دو آدمی اوربہ قول بعض چالیس آدمی لکھےہیں ۔ اگر موجب اس کے چالیس آدمی سے کم میں جمعہ پڑھا جاوے توجائز ہوگا یا ناجائز ؟‘‘
اس کا انہوں نے یہ جواب دیا :
’’ہمارے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اس سے مراد امام ابوحنیفہ ؒ ہیں ) کے نزدیک صحتِ نمازِ جمعہ کے لیے امام کے سواتین مرد عاقل بالغ درکار ہیں ۔ ا س سے کم میں جائز نہیں۔ (صحت نمازِ جمعہ کے لیے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ۔ فی التنویر والجماعۃ اقلہا ثلاثۃ رجال سوی الامام ، واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ (العطایا النبویۃ فی الفتاویٰ الرضویۃ ، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خاں قادری بریلوی ، رضا اکیڈمی ، بمبئی ، ۱۹۹۴: ۳/۶۸۳)
میراث کا ایک مسئلہ
سوال: میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے ۔ ہم ان کی میراث تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ بہ راہ ِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ ورثہ میں ہمارے والد صاحب ،میں اورمیری تین بہنیں ہیں ۔ میری والدہ کے تین بھائی اوردو بہنیں ہیں ۔ بہ راہ کرم بتائیں، کیا ان کوبھی وراثت میں کچھ حصہ ملےگا؟
جواب: میت (خاتون) کی اگر اولاد ہو تو شوہر کو ایک چوتھائی ملے گی ۔ بقیہ مالِ وراثت اولاد کے درمیان اس حساب سے تقسیم ہوجائے گا کہ ہر لڑکے کوہر لڑکی کے مقابلے میںدوگنا ملے گا ۔
صورت مسئولہ میں شوہر کو۲۵ فی صد ملےگا۔ بقیہ ۷۵ فی صد اولاد کے درمیان اس طرح تقسیم ہوگا کہ ہر لڑکی کو ۱۵ فی صد (تین لڑکیوں کو کل ۴۵ فی صد) اورلڑکے کو ۳۰ فی صد ملے گا ۔
مرحومہ کے بھائیوں اوربہنوں کو کچھ نہیں ملےگا۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2016