سورۃ النجم کا زمانۂ نزول
سوال:
سورۂ نجم کے زمانہ نزول کے سلسلے میں مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ یہ سورہ سنہ پانچ نبوی میں نازل ہوئی ہے ۔ اس کی دلیل کے طورپر مولا نا نے مختلف روایتیں نقل کی ہیں۔ سورہ کے دیباچہ میں تاریخی پس منظر بھی زمانۂ نزول کی روایتوں کوتقویت بخشتا ہے ۔
اس سورہ میں دومرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات کا ذکر ہے۔ پہلی ملاقات پہلے نزول وحی کے وقت ہوئی تھی (آیات ۷تا۱۰) اوردوسری ملاقات سدرۃ المنتہیٰ کے پاس ہوئی تھی (آیات ۱۳تا ۱۸) ظاہر ہے ، سدرہ کے پاس حضور کی موجودگی سفر معراج کے واقعہ کا حصہ ہے ، جس کا زمانہ معتبر روایات کی روٗ سے ہجرتِ مدینہ سے ایک سال قبل سنہ ۱۲ نبوی کا ہے ۔ پھر سورۂ نجم میں سفر معراج میں پیش آنے والے ایک واقعہ کاذکر کیوں کر ہوسکتا ہے ؟ جب کہ وہ واقعہ ابھی پیش ہی نہیں آیا۔
کیا سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کی کوئی اورروایت یا تحقیق ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہوکہ وہ ہجرتِ مدینہ سے قریب نازل ہوئی تھی ؟ یاواقعہ معراج کوابتدائی دورِ نبوت میں مانا جائے؟
بہ راہ کرم اس مسئلے کی وضاحت فرمادیں۔
جواب:
اس مسئلے پر عربی اوراردو مفسرین نے عموماً کچھ نہیں لکھا ہے ۔ البتہ جناب شمس پیر زادہؒ نے اپنی تفسیر ’دعوۃ القرآن‘ میں مختصر اظہارِ خیال کیا ہے ۔ انہوںنے دو اشکالات کے جوابات دیے ہیں ۔ اوّل یہ کہ کیا سورۂ نجم پہلی سورۂ ہے ، جس میں سجدۂ تلاوت کا حکم آیا ہے ؟
امام بخاریؒ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ سب سے پہلی سورہ جس میں سجدۂ تلاوت کا حکم دیا گیا ، وہ سورہ نجم ہے ۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں اس سورہ کی آیت سجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے سجدہ کیا تو مشرکین بھی بے اختیار سجدے میں گر گئے (بخاری ، کتاب التفسیر) اس پر جناب پیر زادہ صاحب نے لکھا ہے :
’’اس روایت کومن وعن تسلیم نہیں کیاجاسکتا ۔ کیوں کہ سورۂ اقراء اس سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی ، جس میں آیتِ سجدہ ہے اور ہجرت حبشہ سے پہلے سورۂ مریم بھی نازل ہوئی تھی، جس میں سجدۂ تلاوت ہے ۔ غالباً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا منشایہ رہا ہوگا کہ سورۂ نجم وہ پہلی سورہ ہے جس کی آیتِ سجدہ پر مشرکین نے بھی سجدہ کیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اس بیان کونقل کرنے میں راوی سے کچھ سہو ہوا ہے ۔
دوسرا اشکال سورۂ نجم کے زمانۂ نزول کے بارے میں ہے ۔ اس پر جناب شمس پیر زادہ صاحب نے لکھا ہے : ’’ ان مفسرین کی رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا جو سورۂ نجم کو۵ نبوی کی تنزیل بتاتے ہیں ۔ ان کے بیان کا تضاد اس سے ظاہر ہے کہ وہ ایک طرف تو اس سورہ کو واقعۂ معراج سے متعلق مانتے ہیں، جوان کے نزدیک ہجرت مدینہ سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے اور دوسری طرف سورۂ نجم کو ، جس میں معراج کا ذکر ہے ، ۵ نبوی کی تنزیل بتاتے ہیں ۔‘‘
غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکی دور کے آخر میں نہیں ، بلکہ وسط میں نازل ہوئی تھی ۔ اس کی دلیل بعض روایات ہیں اورسورۂ کا مضمون بھی اس پر دلالت کرتا ہے ۔ ابن مسعودؓنے بیان کیا ہے کہ حبشہ کی پہلی ہجر ت کے بعد یہ واقعہ اُسی سال رمضان میں پیش آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے مجمع عام میں سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی اورکافر ومومن سب آپؐ کے ساتھ سجدے میں گرگئے ۔ مہاجرین حبشہ تک یہ قصہ اس شکل میں پہنچا کہ کفارِ مکہ مسلمان ہوگئے ہیں ۔ اس خبر کوسُن کر اُن میں سے کچھ لوگ شوال ۵ نبوی میں مکہ واپس آگئے ، مگر یہاں آکر معلوم ہوا کہ یہ خبر غلط تھی اورایمان لانے والوں پر مظالم حسب سابق جاری تھے ۔ آخر کار دوسری ہجرتِ حبشہ ہوئی ، جس میں پہلےسے زیادہ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے ۔
اس سورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والوں کا جواب دیا گیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بہکے اور بھٹکے ہوئے آدمی نہیں ہیں۔ جوکچھ وہ پیش کررہے ہیں وہ ان کا گھڑا ہوا نہیں ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی ہے ، جوپوری حفاظت سے ان کی طرف بھیجی گئی ہے ۔ کافروں سے کہا گیا ہے کہ تم نے مفروضات گھڑ لیے ہیں اورخواہشات ِ نفس کے پیچھے دوڑ رہے ہو۔گم راہ تو خود ہو، لیکن الٹا تم اس شخص کو گم راہ ٹھہراتے ہو جوتمہیں صحیح راہ دکھا رہا ہے ۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی انوکھے پیغمبر نہیں ہیں اور کوئی نرالا دین لے کر نہیں آئے ہیں ، بلکہ جوکچھ وہ پیش کررہے ہیں وہ پہلے کے پیغمبر وں کے صحیفوں میں بیان ہوچکا ہے ۔ آخر میں انہیں خبردار کیا گیا ہے کہ نافرمانی اورسرکشی سے باز آجاؤ ، ورنہ اس کے برے انجام سے دوچار ہوگے ، جس طرح پہلے کے نافرمانوں کو ان کے ظلم اورسرکشی کی بنا پر ہلاک کیا گیا۔
ا س تفصیل سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ سورۂ نجم کی داخلی شہادت بھی اس کا زمانہ مکی دور کا وسط متعین کرتی ہے ۔ پھر اس سورت کی آیات ۱۳ تا ۱۸ کا یہاں کیا موقع ومحل ہے ، جس میں معراج نبوی کے ایک واقعہ کا تذکرہ ہے اورمعراج کا واقعہ مکی دور کے آخر میں پیش آیا تھا ؟ اس سلسلے میں کہا جاسکتا ہے کہ یا تو ان آیات کا زمانۂ نزول مؤخر ہے ، لیکن چوں کہ ان میں رؤیت ثانیہ کا ذکر ہے، اس لیے مصحف میں انہیں ان آیات کے ساتھ جگہ دی گئی ہے جن میں رؤیت اولیٰ کا بیان ہے ، یا یہ کہا جاسکتا ہےکہ ان آیات میں کسی دوسری رؤیت کا ذکر ہے ، جو۵ نبوی سے قبل ہوچکی تھی۔
وراثت کا ایک مسئلہ
سوال :
میرے شوہر کا ابھی چندماہ قبل انتقال ہوا ہے ۔ انہوںنے اپنے والدین سے میراث میں کچھ نہیں پایا تھا ۔ میں نے محنت اورجاں فشانی سے سلائی کڑھائی کرکے ان کی مالی مد د کی اوران کے کاروبار کو تقویت پہنچائی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے کاروبار میں خوب برکت دی ۔ انتقال سے ایک سال قبل انہوںنے ایک پلاٹ خریدا تھا ، جس کا بیع نامہ میر ے نام سے کروایا تھا ۔ میری کوئی اولاد نہیں ہے ۔ میری ساس ابھی بہ قید حیات ہیں ۔ میرے شوہر نے وعدہ کیا تھا کہ اللہ نے اگر میرےحالات ٹھیک کیے تومیں تم کومکان بنوا کردوںگا ۔ میرے مرحوم شوہر کے بھائی مجھے اس مکان سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں جس میں میں مرحوم کے ساتھ رہتی تھی۔
بہ راہ کرم اس معاملے میں میری رہ نمائی فرمائیں۔ مرحوم شوہر کی وراثت میں میرا کتنا حصہ ہے ؟
جواب :
۱۔ کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی مملوکہ چیزوں میں سے کچھ بھی کسی کو دے سکتا ہے ۔ اسے ہبہ کہتے ہیں ۔ شوہر نے اپنی زندگی میں ایک پلاٹ خرید کراسے بیوی کے نام بیع نامہ کرادیا تو اسے ہبہ تصور کیا جائے گا ۔ اس کی مالک بیوی ہوگی ۔ وراثت میں وہ تقسیم نہ ہوگا ۔ اسی طرح مکان بھی اگر شوہر نےاپنی زندگی میں بیوی کو ہبہ کردیا تھا تووہ اس کی بھی مالک ہوگی ، لیکن اس کا ثبوت پیش کرنا ہوگا ۔ اگر کوئی ثبوت نہ ہوتو اس کی تقسیم مستحقینِ وراثت میں ہوگی۔
۲ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی تمام مملوکہ چیز یں اس کے قریبی عزیزوں میں تقسیم ہوں گی ، چاہے انہیں اس نے خود کمایا ہو یا اسے اپنے باپ دادا سے ملی ہوں۔
۳۔ متوفی کے رشتے داروں میں اگر اس کی صرف ماں ، بیوی اوربھائی ہوں تو مال وراثت میں ماں چھٹے حصہ کی اور (لاولد) بیوی چوتھائی حصہ کی مستحق ہوگی، بقیہ مالِ وارثت عصبہ کی حیثیت سے بھائیوں کو ملے گا۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2017