رشتے پر رشتہ دینا
سوال: اگر کسی لڑکی کے نکاح کی بات چل رہی ہو، لیکن ابھی اس کا رشتہ طے نہ ہوا ہوتو کیا اس کے یہاں پیغام بھیجنا جائز ہے؟
جواب: حدیث میں پیغام نکاح پر دوسرا پیغام بھیجنے سے منع کیا گیا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ولا یَخطُبُ الرَّجُلُ عَلَی خِطبَةِ أخِیه، حتَّی یَترُكَ الخَاطِبُ قَبلَه أو یَأذَنَ لَهُ الخَاطِبُ(بخاری : ۵۱۴۲)
’’کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام نہ دے۔ ہاں اس وقت پیغام دے سکتا ہے، جب اسے معلوم ہوجائے کہ پہلے پیغام دینے والے نے نکاح کا ارادہ ترک کر دیا ہے، یا وہ اسے پیغام دینے کی اجازت دے دے۔‘‘
حضرت عقبہ بن عامرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْمُؤْمِنُ أَخُو الْمُؤْمِنِ فَلاَ یَحِلُّ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ یَبْتَاعَ عَلَی بَیْعِ أَخِیهِ وَلاَ یَخْطُبَ عَلَی خِطْبَةِ أَخِیهِ حَتَّی یَذَرَ (مسلم: ۱۴۱۴)
’’مومن مومن کا بھائی ہے۔ اس لیے مومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر اپنا پیغام دے، یہاں تک کہ پہلے پیغام دینے والا نکاح کا ارادہ ترک کر دے۔‘‘
فقہا کی رائے ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے، جب لڑکی والوں نے پہلے والے پیغام نکاح کو پسند کرلیا ہو اور اس کی منظوری کی اطلاع دے دی ہو۔ اس سے قبل کسی دوسرے شخص کے لیے پیغام نکاح دینے کی ممانعت نہیں ہے۔ اس کی دلیل حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے مروی حدیث ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ ان کے شوہرحضرت ابو عمر بن حفصؓ نے انھیں طلاق دے دی۔ جب ان کی عدّت پوری ہو گئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: میرے پاس معاویہ بن ابی سفیان ؓ اور ابو جہمؓ کے پیغامات آئے ہیں۔ ان میں سے کس سے نکاح کرنا میرے لیے بہتر ہوگا؟ آپ نے انھیں ان دونوں کے بجائے حضرت اسامہ بن زیدؓ سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔ (مسلم: ۱۴۸۰)
امام نوویؒ نے اس پر لکھا ہے:
’’پیغام نکاح پر پیغام دینے کی حرمت پر اجماع ہے، البتہ اس کی شرائط میں فقہا کا اختلاف ہے۔ شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ حرمت اس صورت میں ہے جب مخطوبہ [جس لڑکی کے لیے پیغام دیا گیا ہو] یا اس کا ولی پیغام کو صراحت سے قبول کرلیں۔ اگر وہ پہلے پیغام کو صراحت سے رد کر چکے ہوں تو دوسرے شخص کے لیے پیغام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر دوسرے شخص کو معلوم نہ ہو کہ پہلا پیغام لڑکی والوں کی طرف سے رد کر دیا گیا ہے یا نہیں تو وہ پیغام دے سکتا ہے، اس لیے کہ اصل جواز ہے۔ اگر لڑکی کی طرف سے پہلا پیغام نہ رد کیا گیا ہو نہ قبول کیا گیا ہو تو بھی دوسرے شخص کی طرف سے پیغام دینا جائز ہے۔ اس کی دلیل حضرت فاطمہ بنت قیسؓ سے مروی حدیث ہے۔ امام شافعیؒ کا قول ہے: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے، وہ عورت اس پیغام کو پسند کر لے اور اسے قبول کرنے کی طرف مائل ہو تو اس صورت حال میں کسی دوسرے شخص کی طرف سے پیغام نکاح دینا جائز نہیں، البتہ اگر دوسرے شخص کو عورت کی جانب سے پہلے پیغام کی پسندیدگی اور اس کی طرف میلان کا علم نہ ہو تو اسے پیغام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔‘‘
(المنھاج شرح مسلم، نووی)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اگر کسی لڑکی کے نکاح کی بات چل رہی ہو، لیکن ابھی اس کا رشتہ طے نہ ہوا ہو تو دوسرے شخص کے لیے اس کے یہاں پیغام بھیجنا جائز ہے۔
اسپرم ڈونیشن کے ذریعے اولاد کا حصول
سوال: نکاح کے بعد ہر جوڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں اولاد ہو۔ اگر شوہر سے اولاد نہیں ہو سکتی تو کیا اس صورت میں اسپرم ڈونر کے ذریعے اولاد کی پیدائش کروائی جا سکتی ہے؟
جواب: نکاح کا ایک مقصد نسلِ انسانی کا تسلسل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کے جوڑے کی تخلیق کی اور اس سے بے شمار مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیے۔(النساء: ۱) رشتۂ نکاح میں جڑنے کے بعد ہر جوڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں اولاد ہو، تاکہ اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سرور حاصل ہو۔ (الفرقان: ۷۴) لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی جوڑے کو اولاد سے نوازتا ہے، کسی کو صرف لڑکے دیتا ہے، کسی کو صرف لڑکیاں، کسی کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں اور کسی کو بانجھ بنا کر اولاد سے محروم رکھتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یخْلُقُ مَا یشَاءُ یهَبُ لِمَن یشَاءُ إِنَاثًا وَیهَبُ لِمَن یشَاءُ الذُّكُورَ۔ أَوْ یزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَیجْعَلُ مَن یشَاءُ عَقِیمًا إِنَّهُ عَلِیمٌ قَدِیرٌ
(الشوریٰ: ۴۹-۵۰)
’’اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے۔ جو کچھ چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
بانجھ پن کے اسباب مرد اور عورت دونوں میں ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
مرد میںخصیے [جہاں مادۂ تولید(نطفہ؍sperm) بنتا ہے] بے کار ہوں، اس وجہ سے اسپرم کی پیدائش نہ ہو رہی ہو۔
اسپرم میں حیوانات منویہ(spermatazoas) کا تناسب کم ہو۔
اسپرم کو خصیوں سے عضو تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں۔
قوتِ مردمی میں کمی کی وجہ سے مرد مباشرت پر قادر نہ ہو۔
عورت کے خصیۃ الرحم (ovary)میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ (ovum)کا اخراج ممکن نہ ہو۔
قاذفین(falloplian tubes)، جن کے ذریعے بیضہ خصیۃ الرحم سے رحم (uterus) میں منتقل ہوتا ہے، پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں، یا مسدود ہوگئے ہوں۔
عورت پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو، یا کسی مرض کے سبب اس میں بار آور بیضہ (fertilized ovum) کا استقرار ممکن نہ ہو۔
اگر نکاح کے بعد کچھ عرصہ تک عورت میں استقرارِ حمل نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور شوہر اور بیوی دونوں کو ضروری ٹیسٹ کروالینے چاہییں، کیوں کہ نقص کسی میں بھی ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات یہ نقص بہت معمولی ہوتا ہے اور علاج معالجہ کے ذریعے بہ آسانی اس کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
اگرزوجین کے ازدواجی تعلق کے باوجود کسی سبب سے فطری طریقے پر اولاد کا حصول ممکن نہ ہوسکے تو مغرب میں اس کے لیے دیگر مصنوعی طریقے رائج ہیں۔ مثال کے طور پر اگر مرد میں اسپرم تو بن رہا ہے، لیکن اسے خصیوں سے عضو تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہو گئی ہیں، تو مرد کا اسپرم اورعورت کا بیضہ حاصل کرکے اسے بیرونی طور پر کسی ٹیسٹ ٹیوب میں بار آور کیا جاتا ہے۔ پھر ایک متعینہ مدت کے بعد اس بار آور بیضہ کو عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اسے (in-vitro fertilization IVF) کہا جاتا ہے۔اگر عورت میں بیضہ تو بن رہا ہے، لیکن اس کے رحم میں کسی نقص کی بنا پر استقرار نہیں ہو پا رہا ہے، تو کسی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے لیا جاتا ہے، اور شوہر کے نطفے اور بیوی کے بیضہ کو بار آور کرکے اس میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔دوسری عورت بچہ جنتی ہے، جسے متعین رقم ادا کرکے بچہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ اسے surrogacy کہا جاتا ہے۔ اگر شوہر میں اسپرم نہ بن رہے ہوں، یا اس میں حیوانات منویہ کا تناسب کم ہو تو کسی عطیہ دہندہ (donor) کے ذریعے اسپرم حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے عورت میں استقرار حمل کیا جاتا ہے۔ اسے عطیۂ نطفہ (sperm donation)کہا جاتا ہے۔ مغرب میں بڑے بڑے اسپرم بینک وجود میں آگئے ہیں، جہاں افراد اپنے اسپرم جمع کروادیتے ہیں اور وہ خواتین جو ہم جنسیت میں مبتلا ہیں(lesbians)، یا جن کا نکاح نہ ہوا ہو اور وہ ماں بننا چاہتی ہیں (single parent)، یاجن کے شوہر کسی وجہ سے تولیدی صلاحیت سے محروم ہیں، وہاں سے اسپرم حاصل کرکے اپنے اندر مصنوعی تلقیح (artificial insemination)کرواتی ہیں اور استقرارِ حمل کے بعد متعینہ ایام گزرنے پر بچے جنتی ہیں۔
اسلامی نقطۂ نظر سے نسلِ انسانی کے تسلسل کا واحد جائز ذریعہ نکاح ہے۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا جنسی تعلق حرام ہے۔ اسی طرح شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے نطفے سے عورت کے بیضے کی مصنوعی تلقیح بھی حرام ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے:
لَا یَحِلُّ لِامْرِیٍٔ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ والْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْقِیَ مَاؤُہٗ زَرْعَ غَیْرِہِ.(ابو داؤد: ۲۱۵۸)
’’کسی شخص کے لیے، جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو، جائز نہیں ہے کہ اپنے پانی (مادۂ تولید) سے کسی دوسرے کے کھیت (یعنی غیر عورت) کو سیراب کرے۔‘‘
اس بنا پر اسلام ضروری قرار دیتا ہے کہ جس مرد کے نطفے اور جس عورت کے بیضے سے جنین کی تخلیق ہو وہ لازماً رشتۂ ازدواج میں بندھے ہوئے ہوں۔ اس کے نزدیک نہ شوہر کے نطفے سے کسی اجنبی عورت کے بیضے کی بارآوری جائز ہے، نہ بیوی کے بیضے کو کسی اجنبی مرد کے نطفے سے بارآور کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اگر شوہر کا نطفہ صحت مند اور کارگر ہو اور بیوی کا بیضہ بھی، البتہ کسی وجہ سے ان کے درمیان فطری طور پر جنسی تعلق قائم نہ ہو پا رہا ہو تو دونوں کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کرکے بیوی کے رحم میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
اگر بیوی صحت مند ہو، لیکن شوہر کے اندر تولید کی اہلیت نہ ہو اور اس سے اولاد کا حصول ممکن نہ ہو تو بیوی کو اس سے علیٰحدگی اختیار کرنے کا حق حاصل ہے۔ البتہ اگر زوجین آپس میں گہرا جذباتی رشتہ رکھتے ہوں اور شوہر کی اس کم زوری کے باوجود وہ اس سے الگ نہ ہونا چاہتی ہو تو وہ کسی رشتے دار یا یتیم بچے کو اپنی پرورش میں لے کر روحانی مسرتیں حاصل کر سکتے ہیں (یاد رہے کہ اس بچے سے ان کا ماں باپ اور اولاد کا رشتہ قائم نہ ہوگا)۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2021