انکارِ غیب کا ردِّ عمل

مغربی دنیا میں مذہب اور عقل کی کشمکش ماضی قریب کی انسانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس کشمکش نے پوری دنیا پر دور رس اثرات ڈالے۔ کشمکش کا خاص پس منظر ہے۔

پس منظر

مغربی دنیا جس مذہب سے واقف تھی وہ خدا کا نازل کردہ دینِ حق نہ تھا، بلکہ اس کی منحرف شکل تھی۔ مثلاً اللہ کے نازل کردہ دین کی بنیاد توحید پر تھی جبکہ تحریف شدہ مذہب (عیسائیت) میں تثلیث کو اختیار کرلیا گیا تھا۔اِسی طرح اللہ کے دین کے مطابق اللہ کا ہر بندہ اس کی عبادت براہِ راست کرسکتا تھا لیکن منحرف مذہب میں خدا اور بندوں کے درمیان پادریوں کا ایک گروہ واسطہ بن گیا تھا جس کے وسیلے کے بغیر خدا سے تعلق کی استواری ممکن نہ تھی۔ اللہ کے نازل کردہ دینِ حق کے مطابق ہر طالبِ حق کو اس کی اجازت تھی کہ وہ اللہ کی کتاب کو پڑھے اور سمجھے ، لیکن تحریف پر قائم دینی نظام میں کتابِ الٰہی کی تعبیرو تشریح کا کام صرف نام نہاد دینی طبقہ ہی کرسکتا تھا۔ عام انسانوں کے لیے لازم تھا کہ وہ بہرحال اُن کی تشریح کو قبول کریں۔

اصل دینِ حق میں نجات کا دارومدار ایمان و عمل صالح پر تھا لیکن منحرف عیسائیت میں کفارے کا عقیدہ گڑھ لیا گیا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ مسیح علیہ السلام نے صلیب پر چڑھ کر اپنے اوپرایمان لانے والوں کے تمام گناہ بخشوالیے ہیں۔ اسی طرح اصل کتابِ الٰہی کی تعلیمات مبنی بر عدل اور انسانی فطرت کے مطابق تھیں لیکن عیسائیت کے علمبرداروں نے رہبانیت اختیار کرلی تھی جو سراسر انسانی فطرت کے خلاف تھی۔

مذہب سے بغاوت

اس غلط فہمی کے خلاف مغربی دنیا کے عام انسانی ضمیر نے بغاوت کردی۔ بغاوت کی ابتدا مذہب سے بیزاری اور اس پر تنقید سے ہوئی لیکن رفتہ رفتہ ردِّ عمل کی یہ لَے اتنی شدید ہوئی کہ خود ہدایتِ الٰہی کی ضرورت کا انکار کردیا گیا۔ چونکہ جو مذہب موجود تھا وہ غیر معقول بھی تھا اور غیر عادلانہ بھی، اس لیے مغربی ذہن نے یہ رائے قائم کی کہ انسانی معاشرے میں عدل کے قیام کے لیے خود مذہب کو ترک کرنا ضروری ہے۔

لیکن معاشرے کو بہرحال کسی نہ کسی نظامِ زندگی کی ضرورت تھی، جس کے مطابق اس کو منظم کیا جاسکے اور جو افراد کے درمیان ان کو جوڑنے والی کڑی کا کام کرسکے۔ اس لیے مذہب کو رد کردینے کے بعد مغرب کے اہلِ دانش نے یہ طے کیا کہ انسانوں کو اپنی عقل اور اپنے تجربات کی بنیاد پر اپنے لیے نظامِ زندگی خود مرتب کرنا چاہیے۔ اس نظامِ زندگی میں ہدایتِ الٰہی کے لیے کوئی مقام نہ تھا بلکہ اس کو رد کرکے عقلی نظریات کو بنیادی حیثیت دی گئی تھی۔

اس طرزِ فکر کو جدیدیت (Modernism)کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کی حقیقت، انکارِ غیب ہے۔

انکارِ غیب سے ہم آہنگ طریقِ تحقیق

مذہب سے بغاوت کے بعد مغرب کے اہلِ دانش نے علمی تحقیق کے لیے جو طریقہ تجویز کیا وہ یہ تھا:

(الف) کائنات اور انسان کے بارے میں جو سوالات پیدا ہوتے ہیں ان کے جواب کے لیے مذہب کی طرف رجوع نہ کیا جائے۔

(ب)  اس کے بجائے مشاہدات اور تجربات سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں، ان کو مرتب کیا جائے اور انہیں منظم شکل دی جائے۔

(ج) ان مرتب معلومات کی بنیاد پر کائنات اور انسان کے بارے میں نظریات وضع کیے جائیں۔

(د) نظریات کے وضع کرنے میں کسی ایسے تصور کو تسلیم نہ کیا جائے جس کا تعلق مذہب یا غیبی حقائق سے ہو۔

(ہ)  کوئی ایسی بات جو مشاہدے کی گرفت سے باہر ہو اس کو حقیقت تسلیم نہ کیا جائے۔

اس طریقِ کار کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام غیبی حقائق کا انکار کردیا گیا (مثلاً وجودِ باری تعالیٰ، وحی، آخرت، حساب و کتاب وغیرہ) اور اہلِ دانش نے نیا نظامِ فکر محض مشاہدات و تجربات کی بنیاد پر ترتیب دیا۔

اجتماعی زندگی کی نئی شکل

اجتماعی و سیاسی دنیا میں مذہب کے رد کردینے کے بعد جدید طرزِ فکر کے علمبرداروں نے نیا نظام تجویز کیا اس کی بنیادیں یہ تھیں:

(الف) خدا کی ہدایت کے بجائے انسانی عقل کو قانون کا منبع قرار دیا گیا۔ اس رویے کو سیکولرزم کہا جاتا ہے۔

(ب) عملاً قانون سازی کا اختیار عوام یا ان کے نمائندوں کو تفویض کیا گیا۔ اس اختیار کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ لامحدود ہے اور قانون سازی کے لیے الٰہی ہدایت کی سند کی ضرورت نہیں۔ یہ حکمرانی کا نیا طرز تھا۔ اس کو حاکمیتِ جمہور کہا جاتا ہے۔

(ج) انسانوں کی اجتماعیت کے لیے مذہب سے وابستگی کے بجائے وطن یا نیشن سے وابستگی کا تصور پیش کیا گیا۔ یہ نظریہ نیشنلزم کہلاتا ہے۔

جدیدیت کے علمبرداروں میں باہم اختلافات بھی ہوئے مثلاً مارکسزم اور سرمایہ داری کا اختلاف نیز نسل پرستی فاشزم اور روایتی جمہوریت کا اختلاف لیکن جہاں تک ان تین بنیادی عناصر کا تعلق ہے (یعنی سیکولرزم، حاکمیتِ جمہور اور نیشنلزم کے عناصر) تو ان پر تمام علمبردارانِ جدیدیت کا اتفاق ہے۔ ان نظریات کی بنیاد پر تمام دنیا کے ممالک میں سیاسی نظام ترتیب دیے گئے، قانون سازی انہی تصورات کے زیرِ سایہ کی گئی نیز تعلیمی نظام کو انہی کی بنیاد پر استوار کیا گیا۔

علمی دنیا میں مذہب سے بغاوت کے نتائج

جدید دنیا نے سائنس اور ٹکنالوجی میں حیرت انگیز ترقی کی، لیکن انسان کے بارے میں علمی بنیادوں پر کوئی ایسا نظریہ وضع نہ کیا جاسکا جو انسانی فطرت سماج اور تاریخ کی اطمینان بخش تشریح کرتا۔ چنانچہ ہوا یہ کہ انسان کو محض حیوان سمجھا گیا جو جانوروں سے ترقی کرکے انسان بن گیا ہے، لیکن اس نظریۂ ارتقا سے ان انسانی خصائص کی کوئی توجیہ نہیں ہوپائی جو انسان کو جانوروں سے ممیز کرتے ہیں (مثلاً اخلاقی تصورات، مذہبی جذبات، تمدنی ارتقاء ، ثقافتی مظاہر اور تسخیرِ عالم)۔

اسی طرح انسانی تاریخ کو طبقاتی کشمکش کی تاریخ سمجھا گیا اور انسان کو معاشی طاقتوں کے ہاتھوں میں ایک بے کس ہستی تصور کیا گیا لیکن یہ تصور اس ناقابلِ انکار واقعے کی کوئی توجیہ نہیں کرسکا کہ ہر دور میں بہت سے انسان عدل و انصاف کے لیے جدوجہد کرتے اور قربانیاں دیتے رہے ہیں اور ان قربانیوں کا کوئی معاشی محرک نہ تھا۔

اسی طرح انسانی فطرت کو سماجی حالات کی دَین سمجھا گیا لیکن یہ خیال ان عالم گیر اقدار (Values)کی کوئی توجیہ نہیں کرتا جن کے قائل تمام انسان تھے اورہیں (مثلاً سچائی، عدل، امانت، عفت و پاکیزگی اور رحم)۔اس طرح جدیدیت کا علمی طریق کار کوئی قابلِ قبول تصور ِ انسان وضع کرنے میں پورے طور پر ناکام رہا۔یہی معاملہ تصورِ کائنات کا بھی ہے۔ کائنات کو بے جان و بے شعور ذرّات کا مجموعہ سمجھا گیا، جو قوانین کا پابند ہے۔ لیکن یہ خیال ایک طرف تو اس امر کی کوئی توجیہ نہیں کرتا کہ قوانین کہاں سے آگئے اور دوسری جانب وہ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کائنات میں مقصدیت، توازن اور حسن کیوں پایا جاتا ہے؟ کیونکہ محض قوانین تو کائنات میں توازن پیدا نہیں کرسکتے جب تک ان قوانین کو استعمال کرنے والا شعور اور ارادہ موجود نہ ہو۔اس طرح جدیدیت کا عظیم الشان علمی ایجنڈا مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا۔ وہ انسانوں کو ایسے تصورات نہ دے سکا جو علم و عقل کی کسوٹی پر پورے اترتے ہوں اور انسان کی فطرت کو مطمئن کرتے ہوں (اور اس طرح مذہب کا متبادل فراہم کردیں)۔ جدیدیت کے طریقِ کار کی یہ ناکامی ایک تلخ حقیقت ہے۔

اجتماعی زندگی میں جدیدیت کے نتائج

نیشنلزم کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملکوں کے درمیان خوفناک جنگیں ہوئیں اور پھر مفادات کی بنیاد پر ملکوں کے بلاک بنے نیز پوری دنیا سرد جنگ سے دوچار ہوئی۔

حاکمیتِ جمہور کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ قانون سازی تمام اخلاقی حدود سے آزاد ہوگئی اور یہ ممکن ہوگیا کہ شراب، بدکاری اور جوا جیسے معیوب کاموں کو بھی جائز ٹھہرالیا جائے اگر رائے عامہ ان کی حِلّت کی قائل ہو نیز ہر قسم کے ظالمانہ قوانین منظور اور نافذ ہوجائیں اگر عوامی نمائندوں نے ان کی تائید کردی ہو۔

سیکولرزم کا نتیجہ یہ نکلا کہ اخلاقی اقدار کا بلاواسطہ اثر جو اجتماعی نظاموں پر پڑتا تھا وہ بھی ختم ہوگیا اس لیے کہ اخلاقی قدروں کو سند مذہب ہی سے حاصل ہوتی ہے۔

جدیدیت کے نفسیاتی اور معاشرتی اثرات

جدیدیت کے سب سے خطرناک نتائج نفسیاتی اور معاشرتی ہیں۔ جب انسان کا تعلق خدا سے اور اس کی ہدایت سے ٹوٹ گیا تو اس کی زندگی میں ایک عظیم الشان خلا پیدا ہوگیا جو محض عیش و عشرت اور مادی سازوسامان سے پورا نہ ہوسکتا تھا۔ اسی طرح جب ایک بار حقائقِ غیبی اور ہدایتِ الٰہی کا انکار کردیا گیا تو پھر بتدریج یہ بھی ممکن ہوگیا کہ انسانی فطرت کا بھی انکار کردیا جائے اور دائمی اخلاقی اقدار کے بجائے محض افادیت کو اخلاق کی بنیاد قرار دیا جائے۔ اس طرح کوئی قدر بھی مقدس باقی نہ رہی۔

پھر مذہب کے انکار کے بعد جدیدیت کے رجحان کے پاس انسانوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی انتظام نہ تھا چنانچہ اخلاقی بے راہ روی عام ہوگئی اور اس پر گرفت کرنا بھی ممکن نہ رہا (اس لیے کہ گرفت کرنے کے لیے کوئی بنیاد ہی نہیں اگر مذہب کو رد کردیا جائے)۔

جدیدیت کے اس خوفناک انجام کے مظاہر درج ذیل ہیں:

(الف) افراد کے اندر مایوسی اور کھوکھلا پن (خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان)

(ب) خاندانی نظام کا انتشار

(ج) جنسی بے راہ روی

(د) Feminism(تحریکِ نسوانیت) اور دیگر غیر متوازن رویے (مثلاً ہم جنسی)

(ہ)  ماحولیاتی بحران

(و) سرمایہ داری کا احیا

(ز) حکومتوں کا اپنے فرائض سے غفلت برتنا اور عام انسانوں کی زندگی کا مشکل ترہوتے چلا جانا۔

(ح)  Urbanization(مدنیت زدگی) کے پیدار کردہ معاشرتی اور اخلاقی مسائل

(ط) عورتوں اور بچوں پر زیادتیاں

(ی) انسانی حقوق کی پامالی

(ک)  بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی

(ل) مختلف ممالک میں ظالمانہ قوانین کا نفاذ

(م)  کمزور ممالک پر طاقتور ممالک کی چیرہ دستی اور عالمی استعمار کا ظہور

(ن) جرائم کی بڑھتی ہوئی لَے۔

انکارِ غیب کا ردِّ عمل

جدیدیت کی اس ہمہ گیر ناکامی کا ردِّ عمل ناگزیر تھا چنانچہ یہ ردِّ عمل شروع ہوچکا ہے۔ اور اسے Post Modernismیا مابعد جدیدیت کہا جاتا ہے۔

معقول رویہ تو یہ تھا کہ انسان خدا کی طرف پلٹ آتا اور خدائی ہدایت کے آگے سر تسلیم خم کرتا لیکن مغربی دنیا ایک طرف تو دینِ حق سے بڑی حد تک ناواقف ہے اور دوسری طرف وہ اس اخلاقی بے راہ روی کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتی جو مذہب کے انکار سے حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے خدا کی طرف پلٹنے کے بجائے جدیدیت کا ردِّ عمل مابعد جدیدیت کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ ابھی مغربی انسان کا شعور اور اخلاقی حس اتنی پختہ نہیں ہوئی کہ وہ متوازن ردِّ عمل پر قادر ہوسکے۔

مابعد جدیدیت

مابعد جدیدیت کسی متعین اور مربوط فلسفے یا طرزِ فکر کا نام نہیں ہے بلکہ تمام نظریات کے انکار کا نام ہے۔ اب مغربی انسان حق کی تلاش میں ناکامی کے بعد مایوس ہوچکا ہے چنانچہ اس نے اعلان کردیا ہے کہ حق نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں ہے۔ مکمل مایوسی کے اس اظہار کا نام ہی Post Modernismیا مابعد جدیدیت ہے۔

جس طرح جدیدیت کا ظہور غیر معقول اور غیر عادلانہ مذہب کے ردِّ عمل کے طور پر ہوا تھا اسی طرح مابعد جدیدیت کا ظہور بھی ایک ردِّ عمل ہے جو جدیدیت کی ناکامی کی بنا پر سامنے آیا ہے۔

مابعد جدیدیت کا مفہوم

مابعد جدیدیت اگرچہ کوئی مرتب فلسفہ نہیں ہے لیکن اس کے شارحین نے اس کی تشریح کی کوشش کی ہے۔ اس تشریح کے مطابق مابعد جدیدیت ایک ذہنی رویے کا نام ہے۔ اس رویے کے عناصرِ خمسہ درجِ ذیل ہیں:

(الف) ’’حق کی تلاش  ممکن نہیں۔‘‘ (Quest for Truth is a Lost Cause)

مابعد جدیدیت کے قائلین یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی حق موجود ہی نہیں ہے جس کو تلاش کیا جائے۔

(ب)  ’’کسی فرد کی شخصیت ان مختلف و متنوع عوامل کے زیرِ اثر تشکیل پاتی ہے جو اس کے قریبی ماحول میں موجود ہوں۔‘‘ (A person’s sense of identity is a composite constructed by the forces of the surrounding culture.)

یہ خیال گویا فرد کی انفرادی شخصیت کا انکار ہے۔ مابعد جدیدیت کے مطابق الگ الگ افراد کا وجود واہمہ ہے۔ وہ ماحول میں مکمل مدغم ہوجاتے ہیں۔ (اس کے بالمقابل جدیدیت کے ابتدائی فلسفوں میں فرد کی آزادی پر بڑا زور دیا جاتا تھا)۔

(ج) ’’ہمارا طرزِ گفتگو اور ہماری اصطلاحات اس دنیا کی تعمیر کرتی ہیں جسے ہم غلطی سے ’’حقیقی دنیا‘‘ سمجھتے ہیں۔‘‘

The language of our culture (the verbal and visual signs we use to represent the world to ourselves) literally “constructs” what we think of as “real” in our everday existence.

اس خیال کے مطابق حقیقت کچھ بھی نہیں ہماری اپنی اصطلاحات ہیں جن کوہم غلطی سے حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔

(د)   ’’جو لوگ اقتدار پر قابض ہیں وہ ’’ایک حقیقی دنیا‘‘ بناکر ہمارے سامنے پیش کردیتے ہیں اور ہم اسے حقیقی مان لیتے ہیں۔‘‘

“Reality” is created by those who have power.

اس خیال کے مطابق اہلِ اقتدار نے بعض باتوں کو حقیقی بناکر پیش کررکھا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ حقیقت نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں۔ جو کچھ ہے وہ ہمارے خیالات اور اصطلاحات ہیں۔ البتہ اہلِ اقتدار قوت سے اپنی بات لوگوں کے سامنے رکھتے ہیں تو وہ مان لی جاتی ہے۔

(ہ) ’’اربابِ اقتدار کی اس چال کو ناکام کرنے کے لیے اُن کی اصطلاحات کی ’’تخریب‘‘ کی جانی چاہیے۔‘‘

We should neutralize the political power inherent in language by “de constructing” it.)

اس خیال کے مطابق ہر بات جو کہی جاتی ہے وہ محض اظہارِ خیال نہیں ہوتی بلکہ وہ اپنے سیاسی اثرات ڈالتی ہے۔ (یعنی جن لوگوں کا اقتدار قائم ہے اُن کے اقتدار کو تقویت دیتی ہے یا جو محروم ہیں ان کی محرومی میں اضافہ کرتی ہے)۔ اس لیے وہ باتیں جو اربابِ اقتدار کی طرف سے (اُن کی مخصوص اصطلاحات کے استعمال کی شکل میں) سامنے آئیں ان باتوں میں پوشیدہ سیاسی مضمرات کو نمایاں کرنا چاہیے۔ (ان باتوں کو بیانِ واقعہ کے طور پر نہیں مان لینا چاہیے)۔

نئے دور کی ابتدا

Modernismیا جدیدیت کی اصطلاح کے پہلو بہ پہلو Modernityکی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ لفظ Modernismمیں زور جدیدیت کے فلسفے پر ہے جبکہ Modernityکے مفہوم میں زور ان حالات پر ہے ، جن میں یہ فلسفہ وجود میں آیا۔

اسی طرح Post Modernism(مابعد جدیدیت) کے ساتھPost Modenityکی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ Post Modernityکو ’’عصر مابعد جدیدیت‘‘ کہا جاتا ہے۔ لفظ Post Modernismمیں اصل زور ایک ذہنی رویے پر ہے جبکہ Post Modernity کے معنی تاریخ کے موجودہ دور کے ہیں۔

Post Modenityیا ’’عصر مابعد جدیدیت‘‘ کی بعض خصوصیات کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس کو عصرِ جدید سے ممیز کرتی ہیں۔ مثلاً:

(الف) ترسیل کے ذرائع(Communication) میں غیر معمولی ترقی اور ان ذرائع کا حکومتوں کے کنٹرول سے آزاد ہوجانا۔

(ب) Information کا الگ الگ اجزاء (DATABITS)کی شکل میں ہونا اور مربوط نہ ہونا۔

(ج) مندرجہ بالا قسم کی information میں بے پناہ اضافہ (Explosion)۔

(د) ابلاغ کے ذرائع میں غیر معمولی ترقی اور ان کا یک سمتی(One way)ہونا۔ (مثلاً چینل عام انسانوں کو متاثر کرسکتا ہے۔ عام انسان اسے متاثر نہیں کرسکتے)۔

(ہ)  Virtual Reality(خیالی دنیا) کا کمپیوٹر کے ذریعے اتنا عام ہوجانا کہ وہ نفسیات کا حصہ بن گئی ہے۔

مسلمانوں کا رول

آج سے پون صدی قبل مابعد جدیدیت کی اصطلاح استعمال کیے بغیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے نظریات کی شکست و ریخت کی پیشین گوئی کردی تھی۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘‘ نامی تصنیف کے حصہ سوم میں مولانا لکھتے ہیں:

’’دنیا میں اس وقت بڑے زور کے ساتھ توڑ پھوڑ کا عمل جاری ہے۔نوعِ انسانی کی امامت اب تک جس تہذیب کے علمبرداروں کو حاصل رہی ہے، اس کی عمر پوری ہوچکی ہے… یہ زبردست شکست و ریخت اس لیے ہورہی ہے کہ وہ خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے مراسمِ تجہیز و تکفین ادا کردیں… اس (تہذیب) کے پاس اب کوئی اور انچھرا ایسا باقی نہیں رہا ہے جس کو یہ انسانی مسائل کے حل کی حیثیت سے پیش کرسکے۔‘‘ (ایک صالح جماعت کی ضرورت)

ان حالات میں انسانیت کے لیے کون سی راہ باقی ہے؟ مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:

’’…اب انسانیت کا مستقبل اسلام پر منحصر ہے۔ انسان کے اپنے بنائے تمام نظریات ناکام ہوچکے ہیں … اور انسان میں اب اتنی ہمت بھی نہیں ہے کہ پھر کسی نظریہ کی تصنیف اور اس کی آزمائش پر اپنی قسمت کی بازی لگاسکے۔ اس حالت میں صرف اسلام ایک ایسا نظریہ و مسلک ہے جس سے انسان فلاح کی توقعات وابستہ کرسکتا ہے، جس کے لیے نوعِ انسانی کا دین بن جانے کا امکان ہے، اور جس کی پیروی اختیار کرکے انسان کی تباہی ٹل سکتی ہے۔‘‘ (ایضاً)

اس صورت حال میں مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟ مولاناؒ لکھتے ہیں:

’’… (مسلمانوں کو) سب سے پہلے اپنے ایمان کا ثبوت دینا ہوگا اور وہ صرف اس صورت سے دیا جاسکتا ہے کہ وہ جس اقتدار کو تسلیم کرتے ہیں، اس کے خود مطیع بنیں، جس ضابطے پر ایمان لاتے ہیں اس کے خود پابند ہوں، جس اخلاق کو صحیح کہتے ہیں اس کا خود نمونہ بنیں، جس چیز کو فرض کہتے ہیں اس کا خود التزام کریں اور جس چیز کو حرام کہتے ہیں اس کو خود چھوڑدیں …

… پھر انہیں وہ سب کچھ کرنا ہوگا جو ایک فاسد نظام کے تسلط کو مٹانے اور ایک صحیح نظام قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘

نیز یہ کہ:

’’اس (انقلابی) کام کے لیے ایک زبردست تنقیدی اور تعمیری تحریک کی ضرورت ہے جو ایک طرف علم و فکر کی طاقت سے پرانی تہذیب کی جڑیں اکھاڑ دے اور دوسری طرف علوم و فنون و آداب کو اپنی مخصوص فکری بنیادوں پر ازسر نو مدون کردے… حتیّٰ کہ ذہنی دنیا پر اس طرح چھا جائے کہ لوگ اسی کے طرز پر سوچنا اور محسوس کرنا شروع کردیں… ایک طرف پرانے نظامِ تمدن اور سیاست کو بزور مٹائے اور دوسری طرف ایک پورا نظامِ تمدن و سیاست اپنے اصولوں پر عملاً قائم کردے۔‘‘ (ایضاً)

ہراک منتظر  تیری  یلغار  کا

تری شوخی فکر  و گفتار  کا

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223