‘‘قران مجید میں مسلم عورت ’’بہترین مضمون ہے ماشاءاللہ۔
تاہم ایک جگہ جملہ کچھ حتمی قسم کا محسوس ہوا۔ ’’کسی بھی معاملے میں خواتین مرد پر تکیہ کرتی نظر نہیں آتی ہیں‘‘ جب کہ پہلی مثال بی بی سارہ کی ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ قدم بہ قدم ہر مصیبت میں ساتھ رہیں۔
تمہیدی گفتگو میں یوں محسوس ہوا کہ امور خانہ داری اور فریضہ دین دو جدا محاذ ہیں۔ اور قراآن نے دینی محاذ ہی پر خواتین کا ذکر کیا۔ اسلام کے مقاصد میں اھم یہ ہے کہ انسان کو اللہ کا صالح بندہ بنایا جائے، مطلب انسان سازی کا یہ کام جہاں بھی ہوگا اقامت دین ہی کی کوشش میں شمار ہوگا، اور یہ کام خاندان میں گھر کی چہار دیواری میں بھی ہورہا ہو تو ہم اسے امور خانہ داری کہہ کر یکسر نظرانداز نہیں کرسکتے۔
یہی بات ہمیں قرآن سے لی گئی ان مثالوں میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ جیسے بی بی سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت میں فاقہ کشی میں سفر کی صعوبت میں ساتھ ہیں۔ گویا کہ شوہر کے نیک مقاصد میں خاتون کا حصہ اتنا ہو کہ وہ شوہر کو حوصلہ دے اس کی مددگار ہو، اپنی کوشش سے وہ شوہر کی حامی و پشت پناہ ہو تب بھی وہ اقامت دین کی کوشش میں شامل کہلائے گی۔
بی بی ہاجرہ کی بچے کے لیے تگ و دو بھی امور خانہ داری ہی کا حصہ ہے، اپنی ذات سے جڑی زندگی کے دوام کے لیے حقیقی تگ و دو ہے اور پوری دیانت داری کے ساتھ اپنے بچے کے لیے کی جانے والی کوشش کو اللہ تعالی نے قران مجید میں بطور مثال پیش کیا، گویا کہ خانہ داری کے لیے کی گئی دیانت دارانہ کوشش بھی اقامت دین کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
ایسے ہی موسی علیہ السلام کی والدہ اور ان کی بہن کی بھی تدبیر بچے کے تحفظ کے لیے تھی اللہ نے وحی کی اور وہ تدبیر کرتی رہیں۔ بچوں کے لیے تدابیر کرنا، ان کے تحفظ کی کوشش کرنا بھی بظاہر دنیوی کوشش ہے لیکن قران نے اسے بطور مثال پیش کیا۔
اس طرح موجودہ زمانہ میں پورے شعور کے ساتھ جائز طریقے سے خواتین کی عائلی زندگی کے لیے دیانت دارانہ تدابیر کیا وہ اقامت دین کی کوشش نہیں کہلا سکتیں؟
صحابیات میں حضرت فاطمہؓ کا کردار بھی قابل ذکر ہے۔
مقصد زندگی واضح ہو تو امور خانہ داری اقامت دین کی راہ میں مانع نہیں ہوتی ہے بلکہ شعوری کوشش سے وہ اقامت دین کا حصہ بن جاتی ہے۔
لیکن ان دو کو الگ محاذ سمجھنا اور حتمی طور جدا جدا سمجھنا بھی مناسب نہیں لگا۔
ساتھ ہی یہ بات کہ قران نے دنیوی کام کے بجائے دینی کام کی تعریف کی ہے۔ دنیوی اور دینی کام سے مراد کیا ہے یہ واضح نہیں ہوسکا۔ جبکہ مدین کی خواتین کا پانی بھرنے کے لیے انتظار کرنا مشابہ ہے ان خواتین کے کردار سے جو آج کے زمانے میں اپنے گھر کے افراد کی ضروریات کے لیے کسی مجبوری کی وجہ سے حلال کمائی کی تگ ودو کرتی ہیں تاہم یہ تگ ودو پاک دامنی، شرافت اور خدا ترسی کے ساتھ ہو تو یہ مدین کی خواتین کے مشابہ ہوگی جیسا کہ تحریر میں بھی صاحب تحریر نے واضح کیا ہے۔
لیکن اس مثال میں بھی بظاہر دنیوی کام ہے، جو امور خانہ داری سے متعلق ہے، تب صاحب تحریر کا یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ “قران مجید میں جتنی خواتین کی مثالیں ہیں ان میں دنیوی کام کے بجائے دینی کام کو قران نے بطور مثال پیش کیا “ان مثالوں سے دینی و دنیوی کام کی کوئی تخصیص نظر نہیں آتی ہے وہ کام جو دیانت داری، وفاشعاری اور خدا ترسی سے کیا جائے وہ اللہ کے نزدیک قابل قبول ہوتا ہے۔
آخر میں یہ بات کہ “جدید نظریات دین اور مذہب کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتاتے ہیں اس لیے دین بیزاری کا تصور عام ہورہا ہے ۔” ایسی صورت میں یہ مثالیں تومزید تقویت دیتی ہے کہ اسلام عورت کو ان کی صلاحیت اور دلچسپی کے کام سے نہیں روکتا بلکہ ان کاموں میں حسن ہوتو اسے بطور مثال پیش کرتا ہے۔ یہ قرانی خواتین کی مثالیں تو ایک ماڈل ہے کہ قرآن ہر خاتون کی اس کے مزاج کے مطابق ہر قسم کی کوشش کو سراہتا ہے۔
عقیدہ کا ایک رنگ چڑھا کر عمل کے اعتبار سے آزاد اور طبعیت پر راس آنے والے کام کی آزادی دیتا ہے۔
ہم بی بی فاطمہؓ کی فطری طبیعت کو گھر کی چہار دیواری میں اور حضرت ام عمارہؓ کو میدان عمل میں دیکھتے ہیں۔ دونوں خواتین اپنی فطرت کے مطابق کام کررہی ہیں پیارے نبی ﷺ نے کبھی فاطمہؓ کو میدان جہاد کے لیے ام عمارہؓ کی مثال دے کر نہیں اکسایا اور نہ ام عمارہؓ سے کہا کہ وہ فاطمہؓ کی طرح گھر سے لگی رہیں۔ گویا جس عورت کی جو صلاحیت ہو جس میدان کے وہ قابل ہو اس میدان میں وہ کام کرے۔
امور خانہ داری بھی دیانت داری کے ساتھ انجام دینا کیا اقامت دین کی کوشش نہیں ہے؟
دور صحابہ سے لے کر سلف صالحین سے لے کر مختلف تحریکات کے اکابرین کی اقامت دین کی جو بھی کوشیشں رہی ہیں ان کے پیچھے ان کے عائلی معاملات میں ساتھ دینے والی خواتین ایک خاموش کردار بن کر ان مرد حضرات کا بہت بڑا سہارا اور حوصلہ رہی ہیں اس لیے ان کا یہ کردار اقامت دین کی کوشش ہی میں شمار ہوگا۔
صالح مرد کے ساتھ اس کی کوششوں میں حوصلہ دینا بظاہر تو دنیوی معاملات میں وسیلہ ہے لیکن یہ وسیلہ مقصد کی تقویت کا سبب بن سکتا ہے۔
—خان مبشرہ فردوس (اورنگ آباد، مہاراشٹر)
شکریہ اور وضاحت
مراسلہ نگار کا بہت شکریہ کہ انھوں نے موضوع کے کچھ دوسرے پہلو بھی قارئین کے سامنے پیش کیے۔ دراصل قرآن مجید کے جو نمونے مضمون میں پیش کیے گئے ہیں وہ مختلف جہتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ تمام نمونے طاقت ور خواتین کے ہیں کم زور خواتین کے نہیں ہیں۔ اور دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین اور اس دین کے تقاضوں کی فکر کرنے والی خواتین کے نمونے ہیں، دین اور دین کے تقاضوں سے غافل ہوکر صرف اور صرف دنیوی ذمے داریوں میں منہمک اور مشغول رہنے والی خواتین کے نمونے نہیں ہیں۔ ان نمونوں میں خواتین کہیں تنہا اور کبھی مردوں کے ساتھ دین کے راستے پر چلتی ہوئی نظر آتی ہیں لیکن وہ مردوں پر انحصار نہیں کرتی ہیں۔ مراسلہ نگار کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہر عورت اپنی طبیعت و صلاحیت کے مطابق کام کرے گی، چناں چہ فاطمہؓ نے مکہ کی صعوبتوں اور مصیبتوں میں اللہ کے رسولﷺ کا ساتھ دیا، اور ام عمارہؓ نے مدینہ میں جنگ کے میدانوں میں اللہ کے رسولﷺ کا ساتھ دیا۔ اسی طرح مراسلہ نگار کی اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ دینی جدوجہد میں مصروف مردوں کو گھر کی طرف سے سکون اور مدد پہنچانا بھی اس جدوجہد میں شرکت ہے۔ اصل میں جذبہ دینی جدوجہد کا ہوگا تو دنیوی مشاغل دینی جدوجہد سے غافل نہیں کریں گے، اور ہر فرد اپنے دائرہ امکان میں زیادہ سے زیادہ جدوجہد کرے گا، خواہ اس جدوجہد کی صورت کچھ بھی ہو۔ بہرحال دینی کاموں اور دنیوی کاموں میں وہاں ضرور فرق ہوجائے گا جہاں ایک فرد معرکہ حق و باطل سے بے پروا ہوکر اور دین کی پکار کو سنی ان سنی کرکے لذت کام ودہن کے انتظام میں مصروف رہے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور خواہ وہ اپنے لیے کرے یا اپنوں کے لیے۔
محی الدین غازی
مشمولہ: شمارہ فروری 2021