کوئی نمازی اتنا ، دین سے غافل نہیں ہو سکتا ،کہ بے دینوں سے کئے ہوئے عہد کا اس کے پاس کچھ نہ کچھ پاس و لحاظ ہولیکن اللہ سے کئے ہوئے عہد کا اس کے پاس کوئی پاس و لحاظ نہیں ہو ،اس کمزوری کو بھی نمازیوں میں تفہیم صلٰوۃ کی تحریک چلا کر ہی دور کیا جا سکتا ہے، اب گویا کہ یہ پانچ نمازیں رب کے عہد و حلف کی روزانہ کی پانچ تقریبات ہیں جو اللہ کے دربار مسجدوں میں منعقد ہوتی ہیں، اور ہر مسلمان کے لئے ان تقریبات میں شریک ہونا ضروری ہے، ہاں شرعی عذر کی صورت میں وہ انفرادی طور پر بھی نماز ادا کرکے بندگئی رب کا عہد و حلف لے سکتا ہے۔
بندگی رب کے ناقص اور محدود تصور میں لفظ عَبْد اورعابد کے فرق کو نہ سمجھنا بھی رہا ہے اس لئے کہ عربی میں عابد اسلام کی چند مخصوص عبادات مثلاً نماز، روزہ، زکٰوۃ، حج کے ادا کرنے والے کو کہتے ہیں اور عابد کی جمع عابدون ہے، لیکن’ عبد ‘زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کی بندگی کرنے والے کو کہتے ہیں اور اس کی جمع عباد ہے ، مطلب یہ کہ اللہ کی رضا کے لئے صرف عابِدبن جانا کافی نہیں ہے، بلکہ عبد بننا ضروری ہے کیونکہ عابد بننا بندگی کا صرف ایک جز ہے اور عبد بننا مکمل بندگی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں اور نبیوں کیلئے لفظ عبد ہی کو پسند فرمایا ہے اور خود آنحضور ؐ کے لئے قرآن مجید میںکئی جگہ عبد ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے، مثلاً سورئہ بنی اسرائیل کے شروع میں ہے ۔ سُبحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بعَبْدِہ لَیْلاًمِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلٰی الْمَسْجِدِ الْاقْصَیٰ۔ یعنی پاک ہے وہ اللہ جو لے گیا اپنے بندہ کو رات ہی رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، اس آیت میں آنحضورﷺ کے معراج کے سفر کا تذکرہ ہے جو آپؐ کے مقام بلند کا ایک بیّن ثبوت ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ اس سفر کے تذکرہ میں آپؐکی صفت عبدیت کو نمایاں کیا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک انسان کیلئے سب سے بلندمقام کی چیز اللہ کا بندہ ہونا ہے اس لئے محدثین اور فقہا کرام نے بھی آپؐ کے لئے عَبدُہُ وَ رَسُولَہُ کی اصطلاح ہی کو پسند فرمایا ہیں،یعنی آپؐ اللہ کے بندےاور اس کے رسولؐ ہیں۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ انسان کیلئے سب سے بڑے اعزاز کی چیز اللہ کا بندہ ہونا ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج انسانوں کی اکثریت غیر اللہ کی بندگی کو اپنے لئے اعزاز کی چیز سمجھتی ہے،اور اللہ کی بندگی کو اپنے لئے عار سمجھتی ہے، یہاں تک کہ بہت سے انسانوں کو مٹی پتھر اور جانوروں کی عبادت پر فخر ہے ،لیکن اللہ کی عبادت پر فخر نہیں ہے ،جبکہ ایک انسان کے لئے قابل فخر صرف اللہ کی بندگی ہے، اور یہی اس کے شایان شان بھی ہے، کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا ہے، یعنی مخلوقات میں سب سے افضل و بہتر، اسلئے اللہ کے علاوہ کسی مخلوق کے سامنے جھکنا، انسان کے لئے ذلت و رسوائی کی بات ہے ، مسلمانوں اور نمازیوں میںبندگی رب کے محدود اور ناقص تصور کی ایک اہم وجہ محدثین اور فقہا کرام نے دین اسلام کی تعلیمات کو جو مختلف موضوعات کے تحت پیش کیں ہیں، ان کی صحیح حیثیت کو نہیں سمجھنا بھی رہا ہے، چنانچہ محدثین اور فقہا کرام نے سمجھنے میں سہولت کی خاطر دین اسلام کی تعلیمات کے جو شعبے مقرر کئے ہیں ،ان میں سے ایک شعبہ عبادات کا ہے، اور ایک شعبہ معاملات کا ہے شعبہ عبادات میں چونکہ صرف ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہے اسلئے عام مسلمانوں اور نمازیوں نے یہ سمجھ لیا کہ چونکہ ہماری پیدائش کا اصل مقصد عبادت ہے، اس لئے ہم نے عبادت کا مقصد پورا کر لیا باقی دنیا کے امور میں ہم جس طرح چاہیں زندگی گزار سکتے ہیں جبکہ محدثین اور فقہا کرام کے پیش نظر ہرگز یہ نہیں تھا کہ مسلمان صرف ارکان اسلام کی ادائیگی ہی کومکمل اللہ کی بندگی سمجھ لیں، اور بقیہ شعبوںمیں اللہ کی بندگی سے آزاد ہو جائے، بلکہ ان محدثین اور فقہا کرام کا منشا یہ تھا کہ چونکہ عقائد و عبادات ، معاملات ِزندگی میں اللہ کی بندگی و اطاعت کا ذریعہ بنتے ہیں، اس لئے پہلے عقائد و عبادات کی درستگی و ادائیگی کی کوشش کی جائے، مطلب یہ کہ انہوں نے اللہ کی بندگی کو دینی زندگی کی ایک اکائی کے طور پر پیش کیں ہیں، جس میں عقیدہ بھی ہے جس میں عبادت بھی ہے، اور جس میں معاملات بھی ہے۔
اب ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص عبادات میں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے، مگر معاملات میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرے، اگر کوئی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کر رہا ہے، اس نے ابھی اپنی عبادات کو درست نہیں کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عبادات میں اور خاص طور سے نماز میںوہ تمام باتیں شامل کر دی ہیں، جن سے معاملات میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت آسان ہو جائے، اور لازم بھی ہو جائے، اور خود سورئہ فاتحہ کی یہی چوتھی آیت ہر نمازی کو پابند کرتی ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کی اطاعت کرے، اور اس کی نافرمانی سے بچے ،غرض یہ کہ ایک مسلمان نماز کی حالت میں بھی اللہ ہی کا بندہ ہوتا ہے اور پیشاب و پاخانہ کی حالت میں بھی اللہ ہی کا بندہ ہوتا ہے، اسی طرح اس کے لئے گھر کے تخت پر بھی اللہ ہی کی اطاعت ضروری ہے، اور حکومت کے تخت پر بھی اللہ ہی کی اطاعت ضروری ہے، اور اگر وہ زندگی کے کسی شعبہ میں اللہ کی اطاعت سے منہ پھیر لے تو اسی کا نام بغاوت ہے، اور بغاوت سب سے بڑا گناہ ہے ۔
بہر حال اللہ کی بندگی کا عہد و اقرار اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس عہد اقرار کو زندگی کے کسی بھی شعبہ میں نہ چھوڑا جائے ، چاہے اس عہد و اقرار پر قائم رہنے کے نتیجہ میں جان چلی جائے کیونکہ یہ عہد ایسا نہیں ہوتا ہے ،کہ جب چاہے اسے اتار پھینکے اور جب چاہے اسے پہن لے ، لیکن افسوس ہے کہ بہت سے نمازی جب چاہتے ہیں بندگئی رب کے عہد و اقرار کو اتار پھینکتے ہیں خصوصاً معاملات زندگی میں جب کہ یہ عہد و اقرار ہر نماز میں تکرار و تاکید کے ساتھ اسی لئے رکھا گیا ہے ،کہ کوئی بھی نمازی ، نماز کے بعد کی زندگی میں اس عہد و اقرار سے نہ نکلے ،لیکن اس کا بھی بنیادی سبب یہی ہے کہ ابھی نمازیوں کو اتنا شعور نہیں ہے کہ وہ جان سکے کہ وہ نماز میں کس چیز کا عہد و اقرار کر رہے ہیں، اس لئے سورئہ فاتحہ کی روشنی میںنمازیوں کے شعور و سمجھ کی کیفیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے، اور اس تحریر کا اصل مقصد بھی یہی ہے ،کہ نمازی حضرات اپنی نمازوں کا علم حاصل کریں، تاکہ نماز پر عمل کرنا آسان ہو جائے، کیونکہ کوئی بھی عمل ، علم کے بعد ہی آسان ہوتا ہے لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ بہت سے نمازی ، نماز کے علم کے بغیر نماز پر عمل کرنا چاہتے ہیں جو ناممکن ہے، در اصل یہ بھی شیطان ہی کا بہکاوا ہے کہ علم کا احساس و جذبہ پیدا کئے بغیر وہ عمل کا احساس و جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے، کیونکہ شیطان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کوئی بھی صحیح علم کے بغیر صحیح عمل کرنے میںکامیاب نہیں ہو سکتا، چنانچہ شیطان نے لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کو عمل کے احساس و جذبہ کے نام پر بدعملی میں مبتلا کر دیا ہے چاہے وہ دین کے نام پر مزاروں اور قبروں پر سجدہ اور نذر نیاز ہو، یا پھر اسلامی سیاست کے نام پر غیر اسلامی سیاست کی خدمت و تائید ہو، اس لئے اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ مسلم معاشرہ سے پہلے بے علمی کو ختم کرنا ہے ،اور اس میں نماز کو سمجھنے کی تحریک، بڑا موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔
سورئہ فاتحہ کی اسی چوتھی آیت کا دوسرا جز و اِیّاکَ نَستَعیِنْ ہے یعنی ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں، اور اس کو بھی ایک طرح سے عہد و اقرار کے طور پر پیش کیا گیا ہے مطلب یہ کہ ہر نمازی ، ہر نماز میں اللہ ہی کی بندگی کے عہد و اقرار کے ساتھ یہ عہد و اقرار بھی کرتا ہے کہ وہ اللہ ہی سے مدد مانگے گا، اور اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد نہیں مانگے گا، اللہ کی بندگی کے عہد و اقرار کے ساتھ اللہ ہی سے مدد و نصرت کے عہد و اقرار کو اسلئے رکھا گیا ہے کہ اللہ کی بندگی کا راستہ آسان نہیں ہے بلکہ مشکل ہے اور اس راستہ کو اللہ ہی کی مدد و نصرت سے طئے کیا جا سکتا ہے اس سے یہ بات بھی واضح ہو ئی کہ اللہ کی بندگی کے سلسلہ میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے مدد طلب کرنا صحیح نہیں ہے اور یہ عمل نماز میںکئے ہوئے عہد و اقرار کے خلاف ہے البتہ دین کو غالب کرنے کیلئے اللہ کے نام کے واسطہ سے اسباب کے درجہ میںاہل ایمان سے مدد طلب کی جا سکتی ہے جیسے حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں سے کہا تھا ۔ مَنْ اَنصَاریٓ اِلیٰ اللہِ قَالَ الْحَوارِیُّونَ نَحنُ اَنصَارُ اللہِ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ نے کہا اللہ کی خاطر کون میر ا مدد گار ہے؟ تو حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مدد گار ہیں۔
مذکورہ آیت قرآن مجید کے سورئہ صف کی آخری آیت ہے اور اس میں اہم بات یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کے فرمان اور ان کے حواریوں کے جواب کو اہل ایمان کے سامنے ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا ہے ، چنانچہ آیت کی ابتداء اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے ۔ یَایّھَُاَ الَّذِینَ اٰمَنوُ کُوْنُوآ اَنْصَارَ اللہِ کَمَا قَالَ عِیسَی اِبْنُ مَرْیَمَ لِلحَوارِیّنَ مَنْ اَنصارِ الیٰ اللہِ۔ یعنی ائے ایمان والوں ہو جائو اللہ کے مدد گار جیسا کہ حضرت عیسیٰ بن مریمؑ نے کہا کون ہے؟ اللہ کی خاطر میرا مدد گار۔بندگئی رب کے راستہ کی مدد و نصرت کے سلسلہ میں اللہ کے اصول و ضابطہ کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے، اور وہ اصول و ضابطہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یوں بیان فرمایا۔ یَایُّھاَ الّذِینَ اٰمَنُوآ اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنصُرْکُمْ وَ یُثَبِتْ اَقْدَامَکُمْ۔ (سورئہ محمد آیت ۷) ترجمہ : اے ایمان والوں اگر تم اللہ کی مد د کروتو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدموں کو جمادے گا۔مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے اپنی مدد و نصرت کی ایک طرح سے شرط بیان کی ہے ،اور وہ ہے اللہ کی مدد کرنا، مطلب یہ کہ اللہ کے دین کی مدد کرنا جس میں اس کا علم حاصل کرنا بھی ہے اس پر عمل کرنا بھی ہے، اس کی تعلیم و دعوت دینا بھی ہے اور اس کو غالب کرنے کی جدوجہد بھی ہے ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ اگر مسلمان اللہ کے دین کی مدد نہ کرے۔تو وہ اللہ کی مدد کے مستحق نہیں ہو سکتے۔
لیکن یہ بھی افسوس کی بات ہے کہ آج بہت سے مسلمان اللہ کے دین کی مدد کئے بغیر اللہ سے مدد کی امید لگائے ہوئے ہیں جو اللہ کی منشا کے خلاف ہے ،اور مزید ستم ظریفی یہ کہ بہت سے مسلمان باطل دین کی مدد کرتے ہوئے اللہ سے مدد کی امید لگائے ہوئے ہیں، واضح رہے کہ اس وقت جتنی غیر اسلامی سیاسی پارٹیاں ہیں وہ قرآن کی رو سے ایک باطل دین کی پارٹیاں ہیں اور ان پارٹیوں کی کسی بھی درجہ میں مدد کرنا ایک طرح سے باطل دین کی مدد کرنا ہے چاہے وہ مدد، ان پارٹیوں سے اتفاق کی صورت میں ہو، یا حمایت کی صورت میں ہو، یا ووٹ دینے کی صورت میں ہو۔ کچھ لوگ دور نبوی کے ایک واقعہ آنحضورﷺ کے طائف کے سفر سے واپسی کے بعد دین کی دعوت پہنچانے کے لئے مکہ کے ایک مشرک سردار مطعم بن عدی سے پناہ اور حمایت کی درخواست سے غلط استدال کرکے موجودہ غیر اسلامی نظام کی تائید و حمایت کا ثبوت نکالتے ہیں، ان نادانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اگر آنحضورﷺ مکہ کے طاغوتی نظام کی تائید و حمایت کرتے تو آپ ؐ کو کسی کی پناہ و حمایت کی کیا ضرورت تھی؟ مکہ کا ہر بچہ اور ہر سردار دل و جان سے آپؐ کوپناہ دیتا، اور کیوں نہ دیتا جب کہ یہی سرداران مکہ اس سے پہلے سن پانچ نبوی میں آپ ؐ کو اپنے معبود ان باطل کی مخالفت نہ کرنے کی شرط کے ساتھ سرداری کی پیشکش کر چکے تھے مگر آپؐ نے سرداری کی پیشکش کو ٹھکرادیا ،لیکن باطل کی مخالفت کو چھوڑنا گوارہ نہیں کیا، یہاں تک کہ یہی پیشکش جب سرداران مکہ نے آپؐ کے چچا اور حامی ابو طالب کے ذریعہ پیش کی، اور ابو طالب نے بھی آپؐ کو یہ تاثر دیا کہ سرداران مکہ کی پیشکش کو قبول کر لینا چاہئے اور معبود ان باطل کی مخالفت چھوڑ دینی چاہئے تو آنحضورﷺ نے اپنے چچا کو وہ دو ٹوک اور ہمت و حوصلہ سے بھرا ہوا جواب دیا تھا جس سے ابو طالب کا دل بھی پسچ گیا۔
آپؐ نے کہا تھا اگر یہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج رکھدیں، اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھدیں، تب بھی میں خدا کی قسم دعوت دین اور باطل کی مخالفت کو نہیں چھوڑونگا، چاہے یہ کام کرتے ہوئے میں ہلاک ہو جائوں، یا یہ دین غالب ہو جائے ، مطلب یہ کہ آنحضورﷺ نے اس سلسلہ میں اپنے چچا کی ناراضگی کی بھی پرواہ نہیں کی، جب کہ یہی چچا آپؐ کی آٹھ سال کی عمر سے کفالت وہ حمایت کرتے آرہے تھے لیکن جب ابو طالب نے اپنے بھتیجہ محمدﷺ کا جرت مندانہ اور بیباکانہ جواب سنا تو انہوں نے بھی آنحضورﷺ کا مزید ساتھ دینے کا اعلان کردیا، یہاں تک کہ اس کے نتیجہ میں سرداران مکہ نے ابو طالب سے بھی بائیکاٹ کردیا، مگر ابو طالب نے آنحضورﷺ کی حمایت نہیں چھوڑی ، چنانچہ تین سال تک ابو طالب محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ شعب ابو طالب میں محصور رہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضورﷺ نے دعوت دین اور معبودان باطل کی مخالفت کے سلسلہ میں ابو طالب اور مطعم بن عدی سے بلا شرط مدد مانگی تھی اور ابو طالب اور مطعم بن عدی نے بلا شرط آپؐ کو پناہ اور مدد دی تھی لیکن افسوس ہے کہ آج بہت سے مسلمان اور جماعتیں باطل نظام کی عدم مخالفت کی شرط کے ساتھ باطل نظام کے چلانے والوں سے پناہ و مدد طلب کرتے ہیں، اور اسے آنحضورﷺ کا مطعم بن عدی سے پناہ کی درخواست کرنا یا ابو طالب کی پناہ کو قبول کرنے سے دلیل دیتے ہیں جو سراسر غلط ہے ، اسی طرح کچھ مسلمان اور جماعتیں صلح حدیبیہ کی ایک شرط سے غلط استدلال کرکے غیر اسلامی نظام کے تحت راضی و خوشی زندگی گزارنے اور باطل نظام کی تائید کرنے کی دلیل پیش کرتے ہیں صلح حدیبیہ کی جس شرط سے غیر اسلامی نظام کی تائید کی دلیل پیش کی جاتی ہے وہ شرط یہ تھی کہ مکہ کا کوئی فرد اگر مکہ والوں کی اجازت کے بغیر مدینہ آگیا تو اسے واپس کرنا ہوگا ،لیکن مدینہ کا کوئی فرد اگر مکہ آجائے تو اسے واپس نہیں کیا جائیگا۔
کیا اس شرط میں دور دور تک کہیں شائبہ پایا جاتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ اور اہل ایمان کو مشرکین مکہ کے نظام کے تحت زندگی گزارنی ہوگی؟ جب کہ یہ پہلا موقع تھا کہ مشرکین مکہ نے آنحضورﷺ اور اہل ایمان کو ایک صاحب نظام فریق کے طور پر تسلیم کیا تھا، اور دین اسلام کو ایک سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کیا، یہی وجہ ہے کہ اسی صلح حدیبیہ کی شرائط میں یہ شرط بھی درج تھی کہ عرب کے قبائل کو یہ حق ہوگا کہ وہ یا تو مشرکین مکہ کی پناہ میں داخل ہو، یا آنحضورﷺ کی پناہ میں داخل ہو، چنانچہ معاہد ہ کی روسے ایک مشہور و معروف قبیلہ بنو خزاعہ آنحضورﷺ کی پناہ میں داخل ہو گیا جو مکہ کے قریب آباد تھا، اور قبیلہ بنو بکر جو بنو خزاعہ کا حریف تھا وہ مشرکین مکہ کی پنا ہ میں داخل ہوگیا، اب اس معاہدہ کی رو سے قبیلہ بنو بکر اور مشرکین مکہ کے لئے جائز نہیں تھا کہ وہ قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کر یں،لیکن دو سال کے بعد قبیلہ بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا اورمکہ والوں نے بھی اس حملہ میں بنو بکر کا ساتھ دیا ،جس میں بنو خزاعہ کے بہت سے افراد مارے گئے، یہاں تک کہ بنو خزاعہ کے لوگوں نے جان بچانے کے لئے خانہ کعبہ میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی قتل کیا گیا جب کہ یہ معاہدہ دس سال کے لئے تھا ۔
لیکن دو سال کے اند ر ہی مشرکین مکہ کی طرف سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی بعد میں مشرکین مکہ کو اپنی اس غلطی کا احساس ہواتو انہوں نے ابو سفیان کو معاہدہ کی تجدید کے لئے مدینہ بھیجا مگر اللہ کے رسولﷺ نے معاہد ہ کی تجدید نہیں کی کیونکہ جیسے ہی آپؐ کو بنو خزاعہ پر حملہ کی خبر پہونچی تھی اور انہوں نے آپؐ کو مدد کے لئے پکارا تھا،اسی وقت آپؐ نے مکہ والوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھا، لیکن چونکہ آنحضورﷺ بغیر بڑی جنگ کے مکہ کو فتح کرنا چاہتے تھے، اس لئے آپؐ آٹھ ہجری میں مکہ والوں کو بے خبر رکھتے ہوئے دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ میں داخل ہو گئے،گویا کہ مکہ کے فتح ہونے میں صلح حدیبیہ کی شرط کو توڑے جانے کا بنیادی دخل تھا، واضح رہے کہ قبیلہ بنو خزاعہ ایک مشرک قبیلہ تھا، لیکن معاہدہ کی رو سے اس کی مدد کرنا آنحضورﷺ کے لئے ضروری تھا، اور آپؐ نے مکہ والوں پر کاروائی کرکے مدد بھی کی ، اب جن نادانوں کو صلح حدیبیہ میں آنحضورﷺ اور اہل ایمان کی پسپائی اور سیاسی کمزوری نظر آتی ہے انہیں ذرا غور کرنا چاہئے کہ کیا آج پوری دنیا میں کسی بھی مسلم ملک اور کسی بھی اسلامی ملک کو خود اپنے ملک میں وہ سیاسی قوت حاصل ہے؟ جو آنحضورﷺ اور اہل ایمان کو معاہدہ حدیبیہ میں حاصل تھی، غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آج پوری دنیا میں کسی بھی ملک میں مسلمانوں کو وہ سیاسی قوت حاصل نہیں ہے، جوصلح حدیبیہ کے معاہدہ میں اہل ایمان کو حاصل تھی، اور اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اس وقت دنیا کی کوئی بھی باطل حکومت کسی مسلم ملک میں دین اسلام کی سیاسی بالادستی و سیاسی حکمرانی کو تسلیم نہیں کرتی ، جب کہ مشرکین مکہ نے مدینہ والوں کے لئے اسلام کی سیاسی حکمرانی کو تسلیم کر لیا تھا۔
اسی طرح اس وقت کوئی بھی مسلم ملک باطل حکمرانوں کی مرضی کے بغیر خود اپنے ملک میں کسی کو سیاسی پناہ نہیں دے سکتا، جبکہ صلح حدیبیہ میں مدینہ سے سینکڑوں میل دور مکہ کے بالکل قریب ایک مشرک قبیلہ بنو خزاعہ اسلام کی پناہ میں داخل ہو گیا تھا اور جب مکہ والوں نے اس پر حملہ کیا تو مکہ والوں کو اس کی سزا مکہ پر حملہ کی صورت میں، اور مکہ سے اپنے اقتدار کے خاتمہ اور دین اسلام کے اقتدار کے قیام کی صور ت میں بھگتنی پڑی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنحضورﷺ اور اہل ایمان کو اتنے کم عرصہ میں یہ سیاسی قوت کیسے حاصل ہوگئی تھی، اور آج کے دور کے اہل ایمان صدیوں سے کیوں خود اپنے ملک میں باطل پرستوں کی سیاسی غلامی میںمبتلاء ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح آنحضورﷺ اور اہل ایمان نے اللہ کے دین کی خاطر اپنے خاندان کی مخالفت مول لی، ایذائیں سہی اور بھوک و پیاس کی تکلیف برداشت کی اور اللہ کے دین کی خاطر اپنے گھر اور وطن کو چھوڑا، اور دین ہی کی خاطر میدان بدر، واُ حد ،میں اپنے خونی رشتہ داروں سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور جنگ خندق کے موقع پر مدینہ کے ایک سمت پانچ چھ کلو میٹرلمبی خندق کھودنے کے لئے تیار ہو گئے، وہ بھی پیٹ پر پتھر باندھ کر اور صلح حدیبیہ کے موقع پر ببول کے درخت کے نیچے اللہ کے لئے مرنے اور مارنے کی اللہ کے رسولؐ کے ہاتھ پر بیعت کی، اور اس کے علاوہ سینکڑوں قربانیاں ہیں جنہیں شمار کرنا مشکل ہیں، اور ایک آج کے دور کے مسلمان ہیں کہ اللہ کے دین کے لئے کافروں اور مشرکوں کی مخالفت مول لینے کیلئے تیار نہیں ہیں اور نہ ہی اللہ کے دین کی خاطر ایذائیں برادشت کرنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی اپنے گھر و وطن کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی حق کی خاطر اپنے رشتہ داروں کی مخالفت کے لئے تیار ہیں تو ظاہر ہے جب اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ کرامؓ کے عمل اور آج کے دور کے ایمان والوں میں اتنا زیادہ فرق واقع ہو گیاہے، تو نتیجہ میں بھی اتنا ہی زیادہ فرق ہوگا۔
اسلئے آج کے دور کے مسلمان اگر چاہتے ہیں کہ انہیں بھی اللہ کے رسولﷺ اور صحابہ کرامؓ کی طرح کامیابی اور سیاسی قوت ملے تو انہیں بھی اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرامؓ کے طرز عمل کو اختیار کرنا ہوگا ،اور اس سلسلہ میں نما ز فہمی کی تحریک موثر کردار ادا کرسکتی ہے ،مطلب یہ کہ نماز میں کئے ہوئے اللہ ہی کی بندگی کے عہد اور اللہ ہی سے مدد طلب کرنے کے عہد پر قائم رہنا ہوگا، اور اسی عہد پر قائم رہنے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مدد کے لئے مشرکوں میں سے، ابو طالب اور مطعم بن عدی جیسے افراد کھڑے کر دیتا ہے، آج بھی اگر اہل ایمان اللہ سے کئے ہوئے بندگی کے عہد پر قائم رہیں، تو اللہ تعالیٰ آج کے مشرکوں میں سے بھی ابو طالب اور مطعم بن عدی کھڑا کر سکتا ہے، لیکن اس کے لئے شرط ہے اللہ ہی کی بندگی زندگی کے تمام شعبوں میں اور باطل نظام سے برا ء ت و بیزاری کا اظہار اور خصوصاً باطل نظام کی وہ باتیںجو اسلام سے ٹکراتی ہے، لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت نے باطل نظام زندگی کی حکمرانی کو قبول کر لیا ہے جس کی وجہ سے اللہ کی مدد و نصرت مسلمانوں سے اٹھی ہوئی ہے ،اور چونکہ مسلمانوں نے یہ طرز عمل باطل حکمرانوں کے ڈرو خوف اور ان کو خوش کرنے کیلئے کیا ہے، اس لئے باطل حکمراں مزید انہیں ڈر و خوف میں مبتلا کر رہے ہیں، اور مزید ان سے ناراضی کا اظہار کر رہے ہیں، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اصول ہے کہ جس چیز کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی جاتی ہے اس چیز سے اللہ تعالیٰ محروم کر دیتا ہے، اور نہ خدا ہی ملا ،نہ وصالِ صنم، نہ اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے رہیں، کا منظر سامنے آتا ہے۔
سورئہ فاتحہ کی پانچویں آیت اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ہے یعنی ہم کو سیدھے راستہ کی ہدایت دے، مطلب یہ کہ اللہ کی طرف سے حکم ہو رہا ہے کہ قرآن پڑھنے والے اور خصوصاً نماز پڑھنے والے حالت نماز میں اللہ تعالیٰ سے سیدھے راستہ کی ہدایت مانگے، سیدھے راستہ سے مراد قرآن کا راستہ یا اسلام کا راستہ ہے ،سیدھے راستہ کی ہدایت کے سلسلہ میں مانگنے اور دعا کا انداز دیکر ایک طرح سے اللہ تعالیٰ نے اپنی بے نیازی کو بتلا دیا، اور انسانوں کی محتاجی کو ظاہر کردیا،مطلب یہ کہ تمام انسان اگر سیدھے راستہ کو چھوڑ دیں، تو اس سے اللہ کا کچھ بھی نقصان ہونے والا نہیں ہے، اور اگر تمام انسان سیدھے راستہ کو اختیار کر لیں تو اس سے اللہ کا کچھ بھی فائدہ ہونے والا نہیں ہے ،بلکہ سیدھے راستہ کو چھوڑنے میں انسان ہی کا نقصان ہے ،اور سیدھے راستہ کو پکڑنے میں انسان ہی کا فائدہ ہے ساتھ ہی مانگنے کا انداز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلادیا کہ سیدھے راستہ کی ہدایت بغیر مانگے نہیں ملتی، بلکہ اس کے لئے مانگ اور طلب ضروری ہے کیونکہ یہ فطری امر ہے کہ جو چیز بغیر مانگ اور طلب کے مل جائے تو اس کی قدر نہیں ہوتی اور سیدھے راستہ کی ہدایت بڑی قدر کی چیز ہے، یہی وجہ ہے کہ جن کے دلوں میں ہدایت کی طلب نہیں تھی انہیں ہدایت نہیں ملی چاہے وہ نبی کی اولاد کیوں نہ ہو، جیسے نوح ؑ کا بیٹا، یا نبی کا باپ کیوں نہ ہو، جیسے حضرت ابراہیم ؑ کا باپ آزر، یانبی کی بیوی کیوں نہ ہو، جیسے حضرت نوح ؑ اور حضرت لوط ؑ کی بیویاں ، اور جن کے اندر ہدایت کی طلب تھی انہیں کافروں اور ظالموں کے دبائو میں رہتے ہوئے بھی ہدایت مل گئی، جیسے فرعون کی بیوی آسیہ، اور حضرت بلالؓ اور حضرت خباب جو دو مشرک اور ظالم سرداروں کے غلام تھے۔ اسی طرح جن جادو گروں کے ذریعہ فرعون نے موسیٰ ؑ کو ہرانا چاہا ،جب ان پر حق واضح ہو گیا تو بھرے مجمع میں انہوں نے اللہ پر اور موسیٰ ؑ کی نبوت پر ایمان لانے کا اعلان کردیا، جبکہ فرعون نے انہیں ہاتھ پیر کاٹ کر سولی پر لٹکادینے کی دھمکی بھی دی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، تو جو چاہے کر لے، تو زیادہ سے زیادہ دنیا کی زندگی میں کچھ کر سکتا ہے آخرت کی زندگی کا ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا، ان چندمثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہے، کہ اگر کسی شخص میں صحیح راستہ کی ہدایت کی طلب ہو تو دنیا کی کوئی طاقت اسے ہدایت قبول کرنے سے روک نہیں سکتی، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، لیکن اگر کسی شخص میںہدایت کی طلب نہ ہو تو کوئی اس کو ہدایت نہیں دے سکتا۔
ہدایت کے متعلق قرآن کے تصور کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے، قرآنی لحاظ سے ہدایت کی بنیادی طور سے دو قسمیں ہیں، ہدایت کی ایک قسم تو وہ ہے، جو تمام مخلوقات کو پیدائشی طور پر حاصل ہے ،جس میں تمام انسان اور تمام جن ،یہاں تک کہ یہ ہدایت تمام مخلوقات کو حاصل ہے،جن میں جاندار چیزیں بھی ہیں اور بے جان چیزیں بھی ہیں،ہدایت کے معنی رہنمائی و واقفیت کے ہیں ۔ چنانچہ یہ ہدایت زمین و آسمان ، چاند و سورج و ستاروں کو حاصل ہے، اور اسی وجہ سے وہ اپنے مقصد و جود پر قائم ہیں، اسی طرح یہ ہدایت تمام جانوروں اور پرندوں کو حاصل ہے، اور اسی کے سبب ہر جانور اپنے بچہ سے محبت کرتا ہے اور اس کے رہنے اور کھانے کا نظم کرتا ہے،اور اسی ہدایت کے سبب ہر جانور کا بچہ پیدائشی طور پر دودھ پینے کا علم لے کر پیدا ہوتا ہے ،اور اسی ہدایت کی سبب ہر جانور اور ہر پرندہ اپنے بچہ کی محبت اور نگہداشت کے علم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، اور اسی ہدایت کے سبب ہر انسان کا بچہ چاہے مسلم کا ہو یا کافر کا اپنی ماں کے تھنوں سے دودھ چوسنے کے علم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، اور اسی ہدایت کے سبب ہر باپ اور ماں چاہے مسلم ہو یا کافر اپنے بچہ سے محبت و نگہداشت کے علم کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، قرآن مجید میں اس پیدائشی اور فطری ہدایت کا تذکرہ کئی مقامات پر آیا ہے، یہاں صرف دو مقام کی تین آیات پیش کی جارہی ہیں ۔ قَالَ رَبَّنَا الَّذِی اَعْطٰی کُلَّ شئی ئِِ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدٰی(طٰہٰ ۵۰)کہا(حضرت موسیٰؑ نے ) ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت عطا کی پھر اس کو ہدایت دی ، مطلب یہ کہ ہر چیز کو اس نے اس کے مناسب حال پیدا کیا، پھر اس کے مناسب حال اس کو ہدایت دی ، یعنی تخلیقی تقاضوں میں اس کی رہنمائی فرمائی، اسی پیدائشی اور فطری ہدایت کا تذکرہ قرآن مجید کے سورئہ اعلیٰ میں بھی ہے ، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے ۔ اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوَّی ۔ وَالّذِی قَدَّرَ فَھَدٰی( اعلیٰ ۲؍۳) یعنی اللہ وہ بلند رب ہے جس نے پیدا کیا پس اس کو درست کیا ، اور جس نے تقدیر بنائی پس ہدایت دی، مطلب یہ کہ اللہ وہ پاک و برتر ہستی ہے، جس نے ہر مخلوق کو ایک درست حالت پر پیدا فرمایا، اور جس نے ہر مخلوق کی ایک تقدیر متعین کی اور اس کی رہنمائی فرمائی ۔
چنانچہ اسی رہنمائی میں تمام مخلوقات زندگی گزارنے کی پابند ہیں ،یہاں تک کہ تمام انسان بھی تخلیقی طور پر اسی ہدایت کے پابند ہیں مطلب یہ کہ ہر انسان پیدائشی طور پر مسلم ہیں، کیونکہ وہ اللہ کی مرضی سے پیدا ہوا ہے، اور اس کے پورے جسمانی اعضاء بھی مسلم ہیں چاہے دل ہو ، دماغ ہو، آنکھیںہوں، کان ہو، ناک ہو، زبان ہو، ہاتھ، پیر ہوں یا اور کوئی عضو ہو، اور یہی بات ہے جو ایک حدیث میں ان الفاط میں بیان کی گئی ہے۔ کُلُّ مَوْلُوْدِِ یُولَدُ عَلیَ الْفِطْرَۃِ اور ایک روایت میں عَلیَ فِطْرَۃِ الْاسْلاَمِ کے الفاظ ہیں، یعنی ہر پیدا ہونے والا اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے ، مطلب یہ کہ پیدائشی طور پر مسلم ہوتا ہے لیکن حدیث میں اس کے بعدیہ الفاظ بھی ہیں ، فَاَبَواہُ یُھَوّدَا نِہِ اَوْیُنصّرانِہِ اَوْ یُمَجّسٰنِہِ ۔یعنی اس کے والدین اسے یہودی بنا لیتے ہیں یا اسے نصرانی بنا لیتے ہیں یا اسے مجوسی بنا لیتے ہیں ، مطلب یہ کہ عقل و شعور آنے کے بعد اس پر غلط ماحول کا اثر غالب آجاتا ہے ،اور وہ پیدائشی طور پر مسلم ہونے کے باوجود اختیاری لحاظ سے غیر مسلم ہو جاتا ہے، اور اللہ کے نزدیک اس کا شمار کافروں میں ہو جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اورجنوں کے لئے عقل و شعور آنے کے بعد ایک دوسری قسم کی ہدایت کا انتظام کیا ہے ،اسے روحانی اور ایمانی ہدایت بھی کہہ سکتے ہیں، اور یہ پیدائشی طو ر پر حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اختیاری طور پر حاصل ہوتی ہے، اور اس کا سر چشمہ وحی الٰہی ہے۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2017