اذان اور دعوت میں تعلق

(14)

چوتھی نماز مغرب کی ہے تاکہ عصر اور مغرب کے درمیان کے وقفہ میں جو غفلت طاری ہوئی وہ دور ہو جائے ساتھ ہی عصر اور مغرب کے درمیان جو حالات پیش آئے اس کا علم سب کو رات کا اندھیرا ہونے سے پہلے ہی ہو جائے ، یقینا عصر اور مغرب کے درمیان کا وقفہ کم ہے جو گھنٹہ سو ا گھنٹہ کا ہوتا ہے لیکن نظام زندگی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وقفہ کافی ہے سورج غروب ہونے کا مطلب دن کا رخصت ہونا اور رات کا آنا ہے اور معاشرہ میں بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے محلہ بستی اور شہر سے کاموں کے سلسلہ میں نماز فجرکے بعد روانہ ہوتے ہیں، اوران کی ظہرو عصر کی نمازیں سفر، کھیت اور جنگل میں ادا ہوتی ہیں ،اور وہ اپنے مقام پر مغرب ہی میں پہنچ پاتے ہیں چنانچہ سفر ،کھیت اور جنگل میں جانے والوں کو محلہ اور بستی کے دن بھر کے حالات کا علم رات کا اندھیرا چھانے سے پہلے ہی ہو جاتا ہے۔ وہ نماز مغرب میں امام صاحب سے قرآن کی جہری قرآت کو سن کر دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اور اپنے ذہن کی غفلت کو دورکرتے ہیں۔ آخری نماز عشاء کی ہے مغرب اور عشاء کے درمیان دیڑھ گھنٹہ کا وقفہ ہوتا ہے، اگرچہ عشاء کا وقت صبح صادق تک رہتا ہے۔لیکن ادائیگی کے لحاظ سے عشاء کی نماز مغرب کی نماز سے دیڑھ دو گھنٹہ کے بعد ہی ادا کرلی جاتی ہے تاکہ عشاء کی نماز کی جماعت میں لوگوں کی شرکت بھی زیادہ ہو اور سونے سے پہلے اللہ کی عبادت بھی ہو جائے اور نماز عشاء میں امام صاحب سے قرآن سن کر دین کی تعلیم بھی حاصل ہوجائے۔

مغرب ،عشاء اور فجر کی نمازوں میں قرآن کی تلاوت بلند آواز میں رکھی گئی ہے تاکہ تمام مقتدیوں کو قرآن کی تعلیم ملے جو ان کی تربیت کا ذریعہ بن سکے ان تینوں نمازوں میں قرآن کی تلاوت بلند آواز میں رکھنے کی ایک مصلحت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مغرب عشاء اور فجر کی نمازوں کا شمار رات کی نمازوں میں ہوتا ہے اور رات کو نزول قرآن سے ایک خاص نسبت ہے ا سلئے کہ قرآن لیلۃ القدر میں نازل ہوا۔ رات کا وقت یکسوئی اور خاموشی کا ہوتا ہے اور بات ذہن و دل پر زیادہ اثر کرتی ہے آنحضورﷺ کو بھی خصوصیت کے ساتھ رات میں قرآن پڑھنے کا حکم تھا ، چنانچہ سورئہ مزمل کے شروع میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ یٰاَ یُّھَا الْمُزَّمِّلُ (۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(۲) نِصْفَہُ اَوِ نْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً (۳)اَوْ زِدْعَلَیْہِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ۔ ’’ترجمہ : اے چار اوڑھنے والے اٹھیئے رات کو مگر تھوڑا، آدھی رات یا اس سے کم یا اس پر اضافہ کردیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے‘‘۔

مذکورہ آیت میں آنحضورﷺ کو جہاں قیام لیل کا حکم دیا گیا ہے وہیں قیام لیل کا مقصد بھی بتا دیا گیا اور وہ ہے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا، اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُ لُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا ۔ وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰیٓ اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً (آیت ۷۸۔۷۹) قائم کیجئے نماز سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور فجر کا قرآن بھی قائم کیجئے بیشک فجر کا قرآن گواہ بنایا گیا ہے ۔ مذکورہ آیات میں جو ہدایات ہیں وہ تمام مومنین کے لئے ہیں صرف ان میں سے تہجد میں قرآن پڑھنا آنحضورﷺ کے لئے ضروری تھا اور مومنین کے لئے نفل ہے، مذکورہ آیت میں جہا ں پانچوں نمازوں کے قائم کرنے کا حکم ہے ،وہیں نمازوں کو قائم کرنے کے مطلب کی وضاحت بھی ہے ، سورج ڈھلنے سے لے کر رات کے اندھیرے تک میں ظہر، عصر،مغرب ،عشاء چار نمازیں آگئیں، اور قرآن الفجر میں فجر کی نماز آگئی یہ فجر کی نماز کا صفاتی نام ہے کیونکہ اس میں دیگر نمازوں سے قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے ، اور اس نماز میں قرآن زیادہ رکھنے کی وجہ بھی بتلادی گئی وہ یہ کہ فجر کا قرآن پڑھنا او رسننا دن بھر گواہ کا کام انجام دیتا ہے مطلب یہ کہ نماز فجر کا قرآن پڑھنا اور سننا نمازی کو دن بھر یہ یاد اور احساس دلاتا ہے کہ توُنے نماز فجر میں قرآن پڑھا اور سنا اس لئے تجھے قرآن کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہئے ۔

اس ہدایت پر عمل اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ قرآن پڑھنے اور سننے والا قرآن کو سمجھے ، اس لئے نمازی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی سورتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ یہ نماز کے لازمی تقاضوںمیں سے ایک اہم تقاضہ ہے افسوس ہے کہ بہت سےنمازیوں نے بھی نماز کی سورتوں اور اذکار کو سمجھنا اپنی ذمہ داریوں میں شامل نہیں کیا جس کی وجہ سے دن بھر میں ان سے اپنی نماز کے خلاف سینکڑوں کام سرزد ہو جاتے ہیں لیکن انہیں احساس نہیں ہوتا ۔ سورئہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت یا ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنے سے ایک رکعت کی قرآت مکمل ہوتی ہے ، اب اگر کسی نمازی کو سورہ فاتحہ کا مفہوم و مطلب معلوم ہو جائے جس میں پورے دین اور قرآن کا خلاصہ ہے تو صرف یہی گمراہی سے بچنے کا محرک ہو جائے، ہر نمازی سورئہ فاتحہ میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ، صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الَّضَآلِّیْنَ ۔پڑھتا اور سنتا ہے سیدھے راستہ کی رہنمائی میں زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین آگئی ، چاہے وہ عقائد کا شعبہ ہو یا عبادات کا ،یا معاملات کا ،یا سیاسیات کا، ساتھ ہی سیدھے راستہ کی ہدایت کی دعا سے ہر نمازی پر یہ بات عائد ہو گئی کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں سیدھے راستہ کا علم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے اب اگر وہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کا علم حاصل نہیں کرتا تو گویا اس نے اپنی نماز کے تقاضہ کو پورا نہیں کیا۔

سورہ فاتحہ کی دعا میں غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الَّضَآلِّیْنَ کا تذکرہ ہے مطلب یہ کہ ہر نمازی اپنی نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستہ پر مت چلا جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور جو گمراہ ہو گئے ، اب اس دعا میں زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی دعا شامل ہو گئی چاہے وہ عقائد کا شعبہ ہو یا عبادات کا، یا معاملات کا،یا سیاسیات کا، اس لحاظ سے اب ہر نمازی پر یہ بات عائد ہو گئی کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق گمراہی کی پہچان حاصل کرے اور اس سے بچے ، شدید ضرورت ہے کہ نمازیوں میں یہ تحریک و دعوت زور و شور سے چلے کہ نماز پڑھنے والے اپنی نمازوں کا علم حاصل کریں، تاکہ ان کے لئے زندگی میں نماز قائم کرنا آسان ہو جائے ، اور جو بے نمازی ہیں وہ بھی نماز ادا کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے بنیں۔اگر نمازیوں نے اپنی نماز کا علم حاصل نہیں کیا اور نہ نمازوں کے تقاضہ پر عمل کیا تو سورئہ ماعون میں اللہ کا ارشاد ہے ۔ فَوَیْلُ لِّلْمُصَلِّیْنَ (۴) اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ (۵) اَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَ آئُ وْنَ (۶) وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (۷) (ماعون آیت ۴تا ۷) ۔ ترجمہ : پس خرابی ہے اُن نمازیوں کے لئے جواپنی نمازوں سے غافل ہیں، جو دکھا وا کرتے ہیں ، اور ضرورت کی چیزیں نہیں دیتے، )مذکورہ آیت میں مراد اولین طور پر دور نبوی کے منافقین ہیں لیکن یہ وعید عام ہے جن نمازیوں میں بھی ،مذکورہ آیات میں بیان کی ہوئی تین صفات ہوں گی ان تما م کے لئے یہ وعید اور تنبیہ ہے ۔

جن نمازیوں کے لئے ناکامی کی وعید سنائی گئی ان کی پہلی صفت سَاھُوْ نَ بیان کی گئی ہے جس کے لفظی معنی بھولنے اور غفلت کے ہیں مطلب یہ کہ نماز کے باہر کی زندگی میں اس کے پیغام کو بھلا دیا اور اس سے غافل ہو گئے ، جبکہ نماز اس لئے تھی کہ وہ نماز کے باہر کی زندگی میں قرآن کی تعلیم کی یاد دہانی کا ذریعہ بن سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے ایک اہم مقصد کو ان الفاظ میں بیان فرمایا وَ اَقِمِ الَّصلٰوۃٰ لِذِکْرِیْ (طہٰ ۱۴) اور نماز قائم کیجئے میرے ذکر کے لئے ، لفظ ذکر قرآن مجید میں قرآن کے صفاتی نام کے طور پر بیان ہوا ہے اسی طرح اللہ کی پہلی کتابوں کیلئے بھی صفاتی نام کے طور پر بیان ہوا ہے ، جیسا کہ خود قرآن میں قرآن کے لئے بیان ہوا ہے۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الْذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ (حجر آیت۹) یعنی بیشک ہم نے ذکر یعنی قرآن نازل کیا اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مذکورہ آیت میں ذِکْر سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک قرآن ہی ہے اسی طرح جو توریت اور انجیل کا حقیقی علم رکھتے تھے ان کا تعارف قرآن میں اہل ذکر کے طور پر پیش کیا گیا ، چنانچہ قرآن میں ایک مقام پر فرمایا گیا ، فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (سورئہ انبیاء آیت ۷) پس اہل ذکر یعنی توریت اور انجیل کے حقیقی علماء سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو مذکورہ آیت میں ان لوگوں کے سامنے ایک تجویز رکھی گئی جو آنحضورﷺ کی نبوت میں شک کرتے تھے یا نہیں مانتے تھے ،مذکورہ دونوں ہی آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ ذکر اللہ کے کلام کا صفاتی نام ہے ذکر کے معنی نصیحت و یاددہانی کے ہیں چونکہ قرآن مجید یا د دہانی و نصیحت کا سرچشمہ ہے اس لئے اس کا نام ذکر ہے ۔

مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نماز کا ایک اہم مقصد قرآن کی تعلیم کی یاد دہانی ہے قرآن کی یاددہانی در اصل اللہ کی یاد دہانی ہے کیونکہ قرآن کے بغیر نہ اللہ کو یاد کیا جا سکتا ہے اور نہ اللہ کو یاد رکھا جا سکتا ہے ، اس لحاظ سے نماز کو قائم کرنا در اصل قرآن کو قائم کرنا ہے اور قرآن کو قائم کرنا در اصل دین کو قائم کرنا ہے ا سلئے کہ دین کا اصل سر چشمہ قرآن ہی ہے یہی وجہ ہے کہ نماز میں جو چیز بہ طور قرات رکھی گئی ہے وہ قرآن کی تلاوت ہے یہاں تک کہ قرات کے علاوہ جو کلمات بطور تکبیرات و تسبیحات رکھے گئے ہیں وہ بھی قرآن ہی سے ماخوذ ہیں، چاہے وہ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ہو یا سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم یا سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ ہو۔اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ پنجوقتہ نماز ایمان والوں کو دن میں پانچ مرتبہ قرآنی تعلیم سے جوڑنے کی ایک زبر دست عالمی تحریک ہے تعلیم قرآن کی اس عالمی تحریک سے نمازیوں کو اسی وقت فائدہ پہنچے گا جب وہ نماز میںپڑھی اور سنی جانے والی آیات اور سورتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں گے مطلب یہ کہ وہ ادائیگی نماز کے ساتھ فہم نماز سے بھی جڑیں گے ، اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مسلم معاشرہ میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ فہم نماز کی بھی تحریک چلے، اسلئے کہ نماز کو سمجھنا ایک طرح سے دین کو سمجھنا ہے اور نماز کو نہ سمجھنا ایک طرح سے دین کو نہ سمجھنا ہے ، لیکن افسوس ہے بہت سے افراد اپنی ایک رکعت کی قرات کو بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

(جاری )

مشمولہ: شمارہ جنوری 2019

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223