فہم نماز کی تحریک کی طرح فہم قرآن کی تحریک بھی ضروری ہے سال میں ایک مرتبہ پنجوقتہ نمازوں اور نماز تراویح کے ذریعہ مکمل قرآن تمام نمازیوں کے سامنے پیش ہو جا تا ہے اب اگر تمام نمازیوں کو اپنی ایک سالہ نماز کا علم ہو گیا تو گویا ان کو پورے قرآن کا علم ہو گیا، یہ آیات اور سورتیں نمازیوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے کافی ہیں اگر وہ ان کو سمجھ لیں، جس طرح قرآن مجید میں اقامت نماز کا وسیع تصور ہے اسی طرح حدیث میں بھی اقامت نماز کا وسیع تصور ہے بہ طور مثال ، ایک حدیث میں نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے اور اس کے لئے عُمُوْدُ اور عِمَادُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں مطلب یہ کہ نماز پورے دین کی عمارت کی بنیاد ہے ظاہر بات ہے یہ بات بھی نماز کے حق میں اسی وقت صادق آسکتی ہے جب کہ نماز کو اس کے وسیع تصور کے ساتھ قائم کیا جائے پورے دین کی اقامت اس کا تقاضا ہے۔ فَمَنْ اَقَامَھَا فَقَدْ اَقَامَ الدِّیْنَ وَمَنْ ھَدَمَھَا فَقَدْ ھَدَمَ الدِّیْنَ ’’یعنی جس نے نماز کو قائم کیا تحقیق کہ اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے نماز کو ڈھا دیا تحقیق کہ اس نے دین کو ڈھا دیا‘‘۔
صرف نماز ادا کرنے سے نماز قائم نہیں ہوتی بلکہ نماز کے تقاضوں کو زندگی میں قائم کرنے سے نماز کے پیغام پر عمل ہوتا ہے۔ مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ اقامت دین ، اقامت نماز کا لازمی تقاضہ ہے اور جو نماز کے عمل اور اقامت دین کا تعلق نہ سمجھے گو یا اس نے ابھی نماز کی حقیقت نہیں سمجھی، افسوس ہے کہ بہت سے لوگ اقامت دین کو نماز کا تقاضا نہیں سمجھتے ۔ کچھ نادان ان تحریکات کی مخالفت کرتے ہیں جو معاشرہ میں اقامت دین کے لیے کام کررہی ہیں جب کہ ان کو خوش ہونا چاہئے تھا ۔ واضح رہے کہ زندگی کے تمام شعبوں میں دین اسلام کی تمام تعلیمات کو نافذ و غالب کرنے کا نام اقامت دین ہے ، یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن اگر اہل ایمان اپنی نمازوں کے پیغام کو سمجھ لیں تو یہ کام آسان ہو جاتا ہے ۔ اہل ایمان صرف اقامت دین کی جدوجہد کے مکلف ہیں۔ اگر اہل ایمان مکمل دین کو عملاً غالب کرنے کی جدوجہد کرتے رہیں لیکن دین غالب نہ ہو سکے تو اس سلسلے میں اہل ایمان سے نہیں پوچھا جا ئے گا کہ تم نے دین کو غالب کیوں نہیں کیا حضرت نوحؑ ساڑھے نو سو سال دین کی تبلیغ کرتے ر ہے لیکن چند ہی لوگوں نے دین قبول کیا ، لیکن اس سلسلے میں اللہ کی طرف سے حضرت نوحؑ کی کوئی باز پُرس نہیں ہوئی بلکہ ان کی مخالف قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہو گیا ۔
دین اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے اور اس کو اسی حیثیت سے قبول کرنا اور پیش کرنا ضروری ہے لیکن افسوس ہے کہ ابھی بہت سے پنجوقتہ نمازیوں نے دین اسلام کو صرف عقیدہ و عبادت تک محدود کیا ہوا ہے اور صرف عقیدہ و عبادت کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے میں لگے ہوئے ہیں جب کہ نماز کی تَکْبِیرِ تَحْرِیْمَہْ ہی میں دین اسلام کو ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے قبول کرنے کی دعوت ہے، اَللّٰہُ اَکْبَرْ کے معنی ہیں اللہ سب سے بڑا ہے چنانچہ زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کا حکم بھی سب سے بڑاہے ، مکہ کے کافر بھی اللہ تعالیٰ کو زمین و آسمان کا خالق و مالک مانتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے نزدیک کافر قرار پائے تو اس کا بنیادی سبب یہی تھاکہ وہ اللہ کے حکم کو نہیں مانتے تھے ۔ اللہ کو سب سے بڑا ماننے کا لازمی تقاضہ ہے کہ اللہ کے حکم کو بھی زندگی کے تمام شعبوں میں سب سے بڑا سمجھا جائے۔یہی اسلام کی دعوت ہے اور یہی نماز کی اور اذان کی دعوت ہے ۔ اذان و نماز میں اَللّٰہُ اَکْبَرْ کی تکرار اسی لئے ہے کہ ہر مسلمان کے ذہن میں اللہ کی بڑائی ہر وقت تازہ رہے ۔
افسوس کی بات ہے کہ بہت سے لوگ برسہا برس گزرنے کے باوجود اذان و نماز کا مطلب جاننے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ جو تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ اس کے مطابق عمل کا حق ادا نہیں کرتے۔ پھر بھی خوش آئند بات یہ ہے کہ اب کچھ نمازی اذان و نماز کا مطلب جان کر اس پر عمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ نماز کو قائم کرنے کا یہی وسیع تصور آنحضورﷺ نے ایک نہر کی مثال کے ذریعہ سمجھایا، چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کی حدیث ہے۔ عَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَرَاَیْتُمْ لَوْ اَنَّ نَھْرَاً بِبَابِ اَحَدِکُمْ یَغْتَسِلُ فِیْہِ کُلَّ یَوْمِ خَمْسَاً ھَلْ یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہِ شَیئُ قَالُوْا لَا یَبْقٰی مِنْ دَرَنِہِ شَیئُ قَالَ فَذَالِکَ مَثَلُ الصَّلَوٰاتِ الْخَمْسِ یَمْحُواللّٰہُ بِھِنَّ الْخَطَایَا۔ (بخاری و مسلم) باب کتاب الصلوٰۃ) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ‘بتائو تم میں سے کسی کے دروازہ کے سامنے ایک نہر ہو جس میں وہ ہر روز پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس پر کچھ میل باقی رہ سکتا ہے تو صحابہؓ نے کہا کہ اس پرکچھ بھی میل باقی نہیں رہ سکتا، تو آپؐ نے فرمایا پس اسی طرح پانچ نمازوں کی مثال ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ گناہوں کومٹا دیتا ہے) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نماز پڑھنے والا ہر نماز میں اللہ تعالیٰ کی بندگی کا عہد کرتا ہے اسی طرح سیدھے راستہ پر چلنے کی دعا کرتا ہے اور گمراہی کے راستہ سے بچنے کی دعا کرتا ہے تو توقع ہے وہ نماز کے بعد کے عمل میں سیدھے راستہ کو اختیار کرے گا اور گمراہی کے راستہ سے بچے گا، ایک نمازی سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ نماز میں جو پڑھے اور سنے نماز کے بعد اس کے خلاف عمل کرے۔ نماز کی یہ تاثیرنمازی کے اندرپیدا ہو سکتی ہے جب نمازی ، نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی آیات اور سورتوں کو سمجھے ۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔اِنَّ الْصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ ، یعنی بیشک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بُرے کاموں سے، یعنی نماز کا پیغام نمازی کے لئے بے حیائی اور بُرے کاموں سے روکنے کا باعث بنتا ہے اس لئے نماز کے متعلق یہ بات کہی گئی ، یہ کیفیت نمازی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے جب اس کو اپنی نماز کے پیغام کا علمہوگا، مذکورہ آیت میں نماز کو برائیوں سے روکنے والی قرار دیا گیا ہے۔ افسوس ہے کہ آج بہت سے نمازی معاشرہ میں پھیلی ہوئی برائیوں سے با خبرنہیں ہیں۔ سورئہ فاتحہ میں ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الْضَّآلِّیْنَ اس جملے کو کہہ کرنمازی نے گمراہی سے بچنے کا تقاضہ اپنے اوپر عائد کر لیا۔
اسی طرح اِھِدِنَا الْصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہہ کر نمازی نے زندگی کی راہ چلنے کا عزم کیا۔ اب اگر وہ زندگی کے شعبوں میں نیکی کا علم حاصل نہیں کرتا تو وہ نماز کے پیغام کی خلاف ورزی کر رہا ہے ، ایک نمازی کیلئے ضروری ہے کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق دین اسلام کی تعلیمات کا علم حاصل کرے اور اس علم پر عمل کرے ۔اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ غلط راہوں سے باخبر ہو۔ اور ان سے بچے ، لوگوں نے صرف نماز کی ادائیگی کے طریقہ اور فرائض و واجبات و سنتوںکو جاننے کو ہی نماز کا مکمل علم سمجھ لیا، جب کہ یہ صرف نماز کی ادائیگی کا علم ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے صرف نماز کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ نماز کو قائم کرنے کا حکم دیا ۔ اس لئے ضرورت ہے کہ نماز پڑھنے والے نماز کو زندگی میں قائم کرنے کے لیے درکار علم حاصل کرے ۔ جب کہ وہ پورے دین کی ایک نمائندہ عبادت ہے اور اس کا مقصد زندگی میں اس کو قائم کرنا ہے ۔ شاعر اسلام علامہ اقبالؒ نے نماز کے وسیع تصور کو اپنے کلام میں پیش کیا ہے چنانچہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔
سطوتِ توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی
وہ نماز یں ہند میں نذرِ برہمن ہوگئیں
نماز اسی لئے فرض ہوئی کہ پوری زندگی اس کے مطابق گذرے، ایک اور شعر میں علامہ اقبالؒ نے نماز کے ناقص تصور پر تنقیدکی چنانچہ فرماتے ہیں۔
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدہ کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
لوگوں نے نماز کی ادائیگی کی اجازت کو اسلام کی آزادی سمجھ لیا جب کہ اسلام کی آزادی وسیع تر مفہوم کی حامل ہے اور نماز کی ادائیگی اس کا جُز ہے ، ایک اور شعر میں فرماتے ہیں۔
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے ؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام
مذکورہ شعر میں بھی علامہ اقبالؒ نے ناقص تصور دین کو واضح کیا کہ لوگوں نے صرف نماز کی ادائیگی کو کافی سمجھ لیا قوم کی امامت کے تقاضے وسیع ہیں جن میں نماز کو معاشرہ میں قائم کرنے کا عمل بھی شامل ہے۔ علامہ اقبالؒ کے مذکورہ اشعار آج سے تقریباً ایک سو سال پہلے کے ہیں جب کہ پاکستان او ر بنگلہ دیش کا کوئی وجود نہیں تھا اور یہ دونوں ملک بھی ہندوستان ہی کا حصہ تھے، علامہ اقبالؒ کا انتقال ۱۹۳۸ء میں ہوا یعنی پاکستان کے وجود میں آنے سے نو سال پہلے علامہ اقبالؒ نے تنقید برائے نصیحت کی ہے اور نہایت درد و دلسوزی کے ساتھ علامہ اقبالؒ نے ہند کے علماء ائمہ اور عوام کو نماز کے وسیع تصور کا پیغام دیا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندہ مومن کی اذاں سے پیدا
الفاظ و معافی میں تفاوت نہیں لیکن
مُلّا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالیؓ نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجد یں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
تیری نماز بے ُسرور تیرا امام بے حضور
ایسی نماز سے گزرایسے امام سے گزر
جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اسلامی زندگی کا کوئی تقاضہ ایسا نہیں ہے جو نماز سے نسبت نہ رکھتا ہو۔ اسلامی زندگی کا ایک اہم تقاضہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ کے ایک معبود ہونے اور محمدﷺ کے رسول ہونے پر ایمان کی دعوت دی جائے ساتھ ہی مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد میں حاضر ہونے کا اعلان ہو، چنانچہ اس ضرورت کی تکمیل کا انتظام اللہ تعالیٰ نے ہر فرض نماز سے پہلے اذان کا حکم دیکر کر دیا ، اذان میں جہاں نماز کا اعلان ہے وہیں اسلام کی دعوت بھی ہے یہ دعوت جامع انداز میں ہے آنحضورﷺ سے اذان کے بعد کی دعا منقول ہے اس میں اَللّٰھُمَّ رَبَ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ کے الفاظ ہیں (یعنی اے اللہ اس مکمل دعوت کے رب ،) مطلب یہ کہ اذان کے کلمات اسلام کی دعوت کومحیط ہیں۔ مسلمان شعوری طور پر اذان کے کلمات کا مفہوم و مطلب سمجھ لیں تو دن میں پانچ مرتبہ انہیں اسلام کی مکمل دعوت کا شعور حاصل ہوگا۔
اسی طرح مسلمان اگر غیر مسلموں کو اذان کے کلمات کا مفہوم و مطلب سمجھا دیں تو روزانہ ان کے سامنے اذان کی آواز کے ذریعہ پانچ مرتبہ اسلام کی مکمل دعوت پہونچ جائیگی اس کے باوجود اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو وہ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے مسلمانوں پر ان کے اسلام قبول نہ کرنے کا الزام نہیں آئیگا، کیونکہ مسلمانوں نے دن میں سے پانچ مرتبہ انہیں اذان سنا کر اسلام کی دعوت پہنچادی،لیکن افسوس ہے کہ ابھی خود مسلمانوں نے اذان کے تمام کلمات کا مفہوم و مطلب پورے طور پر نہیں سمجھا اور اگر کچھ مسلمانوں نے سمجھا بھی تو ان میں سے بہت کم لوگوں نے اذان کے کلمات کی دعوت قبول کی اذان کے پہلے کلمہ کی دعوت ہی اَللّٰہُ اَکْبَرْ کی دعوت ہے اور یہی کلمہ اذان میں سب سے زیادہ دُہرایا جاتا ہے یعنی ایک اذان میں چھ مرتبہ جس کے معنی اللہ سب سے بڑا ہے، اور صرف ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ حکم کے لحاظ سے بھی سب سے بڑا ہے ۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ فروری 2019