گناہوں سے توبہ – ایمان کا لازمی تقاضا

نیکی ایسا لفظ ہے جس سے دنیا کا شاید ہی کوئی شخص نا واقف ہو۔ عام طورپر لوگ نیکی کی بات کرتے اور نیک عمل کرنے کی کوشش اور جدو جہد کرتے ہیں۔ مسلمان نیکیوں کے حصول کے کچھ زیادہ ہی تمنائی ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے ذہن میں اس سلسلے میں اللہ اور رسولؐ کے احکام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتے ہیں، لہٰذا وہ نیک عمل کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے طلب گار رہتے ہیں تاکہ آخرت میں ابدی کامیابی اور سرخروئی سے سرفراز ہوسکیں۔اسی طرح بدی اور گناہ کے تصور سے بھی کسی مسلمان کا ذہن خالی نہیں رہتا اور عام طور پر لوگ دانستہ ان سے اجتناب کی کوشش اور اپنے رب کے عتاب سے بچنے کی فکر کرتے ہیں۔ لیکن دنیوی زندگی میں انسان کے ساتھ شیطان کی کارفرمائی بھی جاری رہتی ہے اور اس کا اپنا نفس بھی اس کو دھوکے اور فریب میں مبتلا رہنے کی طرف مائل کرتا رہتا ہے۔ اگروہ اس سے حفاظت کی کوششیں نہ کرے تو اُس کی نیکیوں پر بدی و گناہ اور ظلم و ناانصافی کے میلان کاغلبہ ہوتا جاتا ہے اور  بدقسمتی سے وہ وقت بھی آ جاتا ہے جب اس کے دل پر غفلت کی سیاہ چادر چھا جاتی ہے ، اُس کے لئے اللہ اور رسولؐ کے احکام سے روگردانی آسان ہو جاتی ہے اوراُس کا نفس گناہوں کو اُس کے لئے لذت بخش بنا دیتاہے۔ اُس کی بے اعتدالی کی یہ روش خود اس کو بھی تباہ کرتی اور سماج کے لئے بھی بے شمار مسائل پیدا کرتی ہے۔ذیل کی سطور میں ایسے ہی چند مسائل کا ذکر کیا گیا ہے۔

۱۔ حقوق پر دست درازی

اسلام نے قرابت داروں کے واضح حقوق متعین کئے ہیں۔ والدین کے حقوق سب سے زیادہ ہیں۔ ماں کے قدموں تلے جنت کا عالمگیر مثردہ اسلام کی ہی خوبصورت دین ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کے سلسلے میں یہ بھی فرمایا کہ :’’ وہ تمہاری جنت یا جہنم ہیں۔‘‘ لیکن سماج میں ایسے بد قسمت بھی نایاب نہیں ہیں جو اپنے والدین کی خدمت کرنے کے بجائے اُن کے حقوق غصب کرتے اور ان کی زندگی اجیرن کرتے ہیں۔ ایسے خطاکارگھر سے باہر اپنے علم، دولت و ثروت، مقام و مرتبہ اور اپنے سوشل ورک کا ڈھنڈورا پیٹ کر سماج کی آنکھوں میں تو دھول جھونک سکتے ہیں لیکن اللہ کی نگاہ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ اسی طرح جو لوگ اپنے بھائیوں، بہنوں اور دیگر عزیزوں کے اللہ کے عطا کردہ حقوق میں دست درازی کرتے ہیں اور جو لوگ بچیوں کو زندہ رہنے اور لڑکیوں کو باوقار زندگی گزارنے کے حق سے محروم کر دیتے ہیںوہ بھی خدا کی پکڑ سے کہاں بھاگ سکتے ہیں؟

۲۔ گھریلو تشدد

اسلام پر سکون اور راحت افزا خاندان کی بنیاد رکھتا ہے،اس لئے گھریلو تشدد اسلامی سماج میں عام تو نہیں ہے لیکن مسلم ماحول اس سے پاک بھی نہیں ہے۔ شکوہ شکایت گفت و شنید کے ذریعہ حل کر لینے کے بجائے معاملات پولیس تھانوں اور عدالتوں تک پہنچ کر متعلقہ خاندانوں کو مشکلات میں ڈالتے ہیں اور اپنے سماج کے لئے بھی رسوائی کا سبب بنتے ہیں۔ یہ گھریلو مسائل مردوںاور عورتوں، دونوں ہی کی جانب سے پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی مرد ظلم و نا انصافی کرتا ہے اور کبھی عورت بھی شرعی حدود توڑ کر اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو بھی اذیت میں گرفتار کرتی اور گناہوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ مردوں عورتوں دونوں کو سوچنا چاہیے کہ اسلامی عائلی قوانین کی رو سے زیادتی جس کی بھی ہو سب سے اللہ واقف ہوتا ہے اور ایک دن اس کی میزانِ عدل قائم ہو کر حق اور نا حق کا فیصلہ ضرور کرے گی۔لہٰذا ضروری ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں سنوارنے کے لیے خاندانوں میں خوش گوار ماحول قائم کیا جائے۔

۳۔ دل آزاری اور انتشار باہمی:

دل آزاری کو بد ترین جرم کہا گیا ہے، یہ انتشار و افتراق کا سبب بنتی ہے۔اِس کے برعکس اتحاد و اتفاق قرآن کی تعلیم کا عین تقاضا ہے۔ اس واضح حقیقت کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ بعض افراد اپنے گفتار و کردار سے دیگر مسلمانوں، ان کے مسالک اور ان کی تنظیموں اور جماعتوں کی دل آزاری اپنی دینی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں۔وہ ملت میں انتشار برپا کر کے سرخروئی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور یہ فراموش کر دیتے ہیں کہ ایسا کر کے وہ دین و ملت کے بدخواہوں اور شیطان کے ہاتھوں کا کھلونا بن کر خدا کی ناراضی کو دعوت دیتے ہیں، جس سے مکمل اجتناب اور مثبت طرز عمل ہی ان کے نامہ اعمال کو درست کر سکتا ہے۔

۴۔ عزت و آبرو پر حملہ اور بد کاری

عزت و آبرو انسان کی عزیز ترین چیزوں میں سے ہے ۔ اس کی حفاظت کی وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور اس پر حرف آ جائے تو اس کا چین و سکون سب چھن جاتا ہے۔ جس طرح ہر شخص اپنی عزت آبرو کی پاسداری کرتا ہے اُسی طرح اس کو یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ اس کے کسی طرز عمل سے دوسرے کی عزت پر حرف آئے تو اُس کو بھی شاید ناگوار اور اس کی بے چینی و اضطراب کا سبب ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر جب کسی شخص کا مزاج بدکاری کا  بن جائے تو گویا وہ خدا کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ اسی لئے قرآن نے مومنین کو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کی تاکید کی ہے۔ (القرآن سورہ مومنون : آیت ۵،۶) اس جرم کی سنگینی کے سبب اسلام میں اس کی کیا سزا ہے اس سے شاید بہت کم لوگ ہی نا واقف ہوں۔ نیک بازوں کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دیتے ہوئے فرمایا کہ’’ اے قریشی جوانو تم لوگ زنا کا ارتکاب نہ کرنا، جو لوگ عفت و پاک دامنی کے ساتھ زندگی گزاریں گے وہ جنت کے مستحق ہوں گے۔‘‘

۵۔پڑوسی کا حق

پڑوسی کے غیر معمولی حقوق کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات بڑی حساسیت پر مبنی ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کے حقوق کی پاسداری کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے : ’’جس نے پڑوسی سے اپنے گھر والوں اور مال کے بارے میں خطرہ محسوس کیا اور دروازہ بند کر کے سویا تو ایسا پڑوسی مومن نہیں ہے اور وہ بھی مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کے ظلم اور دست درازی سے مطمئن نہ ہو۔‘‘اس کے باوجود رسولؐ کے نام لیوائوں میں ایسے نامرادوں کی کمی نہیں جو پڑوسی کے دروازے پر کوڑا پھینکنے ، اس کی طرف کھڑکی کھولنے، اس کی زمین میں پر نالہ گرانے ، اس کی بے پردگی کرنے ،اس کی عزت و آبرو کے لیے مسائل پیدا کرنے اور اس سے غیر ضروری لڑائی جھگڑا کرنے میں کوئی تکلف کرتے ہوں۔ ایسے افراد کا مل جانا بھی مشکل نہیں جو اپنے پڑوسی کی ملکیت پر ناجائز قبضہ کرنے والے ہوں۔ اللہ رسولؐ اورروزِ آخرت پر ایمان رکھنے والے کسی بھی شخص کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ سب کام عملاً ختم کرے، ان کی تلافی کرے اور پڑوسی کو راضی اور مطمئن کرے۔

۶۔ جائدادوں پر ناجائز قبضہ

ہوس ناکی اور مادہ پرستی کے اس دور میں دوسروں کی زمین جائدادناجائز، حرام اور غیر قانونی طریقے پر غصب کرنے والوں میں مسلمانوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ ایسے افراد گائوں میںدوسروں کے کھیت اور زمین پر اپنی فتنہ پردازی، طاقت و قوت اور اثر و رسوخ کے ذریعہ قبضہ کر لینے، اپنے نام کرا لینے اور دوسرے کو اس کے حق سے محروم کر دینے میں کوئی تکلف نہیں کرتے۔شہروں میں دوسروں کے پلاٹ، فلیٹ اور جائدادوں کو اپنی شر انگیزی اور جھوٹی مقدمہ بازی سے ہڑپ کرنے والے بہت ہو گئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’جس نے کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کیا ، قیامت کے دن اس کو سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔‘‘ لیکن بعض خدا بیزار حاجی اور حجن کہلانے والے لوگ تک اور اُن کے گناہوں میں شریک و معاون اُن کی اولاد فرضی اور جھوٹے مقدمات کے ذریعہ دوسرے کی جائداد کو غصب کرنے کے بھیانک جرم سے باز نہیں آتے۔ دوسرے کے پلاٹ پر فریب و عیاری کے ذریعہ قبضہ کر کے اس پر کثیر منزلہ بلڈنگ تعمیر کر کے فلیٹ فروخت کرنے والے اور آخرت میں اپنے لئے بُرا ٹھکانہ بُک کرانے والے افراد بھی ملت کی صفوں میں موجود ہیں۔ وہ اس سے بے پروا ہیں کہ قیامت میں خدا کی بارگاہ میں کس ذلت و خواری سے دوچار اور کس درد ناک سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔

۷۔ تجاوزات کی ہوس ناکی

نیکی اور بدی کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں سے آگاہ کی گئی امت کو شہری ذمہ داریوں کے پہلو سے بھی مثالی کردار پیش کرنا چاہئے اور اپنی دکان اور مکان اپنی حقیقی حد میں رکھنا چاہئے، لیکن زمین کی ہوس میں گرفتار ملت اسلامیہ کے بہت سے افراد جن میں بہ ظاہر دین دار اشخاص بھی ہوتے ہیں وہ بھی تجاوزات  (Enchroachment)کی بیماری سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پاتے۔ بعض لوگ اپنی دکان سے باہر فٹ پاتھ اور سڑک پر قبضہ کر کے سرکاری ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے ساتھ ہی راہ گیروں کا حق مارتے ہیں اور کچھ تو فٹ پاتھ کو مستقلاً اپنی دکان میں شامل کر لیتے ہیں اور پھر مزید بڑھ کر سڑک پر کاروباری سامان پھیلاکروہاں ٹیبل کرسیاں لگا کر کاروبار کرتے ہیں اور انھیں احساس نہیں رہتا کہ فٹ پاتھ اور سڑک پر مستقل ناجائز قبضہ کر کے جو روزی کمائی جاتی ہے وہ کتنی جائز ہوتی ہے؟ گلیوںاور سڑکوں کو تنگ کر کے ٹریفک کے لئے مشکلات اور راہ گیروں کے لئے مصیبت پیدا کرنے والے غور نہیں کرتے کہ دین رحمت اسلام میں اس کی گنجائش ہے بھی یانہیں؟۔اِسلام تو راستوں کا بھی حق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ آج گلیوں ، سڑکوں اور بالکنیوں (چھجوں)کے تجاوزات کے جرم اور گناہ کا ارتکاب کرنے والے کل کن کن متاثرین کا حق ادا کر پائیں گے؟

۸۔ چوری

چوری ایسا فعل ہے جس کو پوری دنیا نا پسند کرتی،اس کے خلاف قانون بناتی اور چوری ثابت ہونے پر اس کے مرتکب کو سزا دیتی ہے۔ اسلام اس سلسلے میں بھی دنیا کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ وہ جزا و سزا کا ایسا عقیدہ دیتا ہے جس کی بنیاد پر ایک پاکیزہ معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔چوری کے ایک معاملہ میں حضور ؐ نے حد جاری کرنے یعنی کہ ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ ’’قسم اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے اگر فاطمہ ؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ چنانچہ اس کی سنگینی اور قباحت کو محسوس کرتے ہوئے لوگ چوری سے عام طور پر اجتناب کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ اس کے ساتھ ہی کچھ مسلمان ایسے ہیں جومختلف قسم کی چوریوں کے گناہوں میں ملوث ہو کر خود کو داغدار اور گنہ گار کرتے، اپنے گھر اور خاندان کی توہین و تذلیل کرواتے، جیلوں میں زندگی کے قیمتی ایام تباہ کرواتے اور جس کی چوری کرتے ہیں اس کی بددعائوں کا شکار ہوتے اور اپنی عاقبت تباہ کرتے ہیں۔اس روش پر چلنے والوں کو اپنے فائدہ اور نقصان کا موازنہ کرنا چاہیے۔

۹۔جُوا، سٹہ

جوا اور سٹہ بھی سماج کو جونک کی طرح خاموشی سے چاٹتا ہے۔ بلا استحقاق اور بغیر کسی خاص محنت کے ایک شخص یا کچھ لوگ دوسرے بہت سے لوگوں کی دولت پرناجائز قبضہ کر لیتے ہیں۔ قرآن نے اس کو شیطانی کام قرار دیتے ہوئے حرام قرار دیاہے۔(القرآن : ۵:۹۰۔۱۹) اس میں ملوث لوگ قانون کے مجرم اور اللہ کے گنہ گار ہوتے ہیں۔ ایسے افراد سماج کے بھی دشمن ہوتے ہیں کہ لوگوں کو محنت مشقت کے ذریعہ پاکیزہ معاش کے حصول کی جدو جہد سے روک کر ان کو دھوکہ اور فریب کی راہ سے دولت کمانے کی طرف مائل کرتے اور انہیں اللہ کے حدود توڑنے کا عادی بناکر ان کی اور خود اپنی بھی دنیا اور آخرت دونوں خراب کرتے ہیں۔

۱۰۔ سود

انسانی ہمدردی و غم گساری سے بے اعتنائی اور جبر و استحصال کا نام سود ہے۔ بے رحمی و سفا کی کا نام سود ہے۔ کسی انسان کی شدیدضرورت کی خدا کی خوشنودی کے لئے مخلصانہ تکمیل نہ کرنے کا نام سود ہے۔ اسی لئے خدائے رحیم و کریم نے اس کو حرام قرار دے کر سود خوروں کو جہنم کے عذاب کی وعید سنائی ہے اور سود کے جواز کی کوئی صورت باقی نہیں چھوڑی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے :’’ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘ (سورہ البقرہ، آیت ۲۷۵، ۲۷۶، ۲۷۸ سورہ آل عمران آیت ۱۳، سورئہ النساء آیت ۱۶۱)

اللہ تعالیٰ خود بھی رحیم ہے اور اس کا منشا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے کہ انسان دوسروں کی ضرورت پراس کے بے لوث کام آئے۔ اسلامی تاریخ کے دامن میں ایسی کتنی ہی تابناک مثالیں موجود ہیں جب مسلمانوں نے اپنی ضرورت پر دوسروں کی حاجت کو ترجیح دی اور ان سے تعاون کو اپنے لئے سعادت سمجھا۔ مگر افسوس کہ مادہ پر ستی کے اس دور میں سودلینا دینا دنیا کی رگ رگ میں سما سا گیا ہے اور کتنے ہی مسلمان آج اللہ کے حکم سے اعراض برتتے ہوئے سودی لین دین میں اپنی فلاح تلاش کر رہے ہیں۔ جنہیں انسانوں کو پاکیزہ معیشت کے تابندہ اصول دینے تھے وہ خود حرام سودی کاروبار میں ملوث اور ناجائز سودی نظام میں گرفتار ہی نہیں اس کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ قابل مبارک باد ہیں وہ مسلمان جو دنیا بھر میں اس سامراجی، سرمایہ دارانہ اور صہیونی استحصالی نظام کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے مقابل اسلام کے بلا سودی نظام معیشت کی رحمتیں وبرکتیں پیش کر رہے اور انسانوں کو سود کے بے رحم و خود غرض نظام سے آزاد کرانے کی مبارک سعی کر رہے ہیں۔

۱۱۔ ملاوٹ اور کم ناپ تول

ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی بھی انسان کے مسموم ذہن کی اختراع ہے جس کو اسلام حد درجہ نا پسند کرتا ہے ۔ قرآن نے ’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی‘‘(سورہ المطففین: آیت:۱ تا ۶)کہہ کر اس سے بچنے کی تلقین کی ہے اور امیر المومنین حضرت عمرؓ نے ملاوٹ کے خلاف حکم نامہ جاری کیا تھا ۔ لیکن انسان اگر اللہ کی نعمتوں پر قناعت نہ کرے اور اس کا شکر گزار نہ ہو اور ہوس کی وادیوں میں گھومتا پھرے تو راتوں رات دولت جمع کرنے کے خواب دیکھنے لگتا ہے اور ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کو ذریعۂ منفعت بنا لینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔ اس کا ظالمانہ و بے رحمانہ مزاج دودھ، گھی، کھانے پینے اور ضروریاتِ زندگی کی بیشتر اشیاء میں ہی ملاوٹ نہیں کرتا بلکہ انسانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرتے ہوئے حیات بخش دوائوں میں بھی ملاوٹ سے باز نہیں آتا۔

ملاوٹ کے ساتھ جو اشیاء بازار میں فروخت ہوتی ہیں، انسانوں پر مزید ستم کر تے ہوئے انہی کے ہم جنس دوسرے انسان پھر کم ناپ تول کر کے یا اشیائے ضرور یہ کی ذخیرہ اندوزی کر کے ان کا مزید استحصال کر کے اپنی تجوریاں بھرنے کا مکروہ سلسلہ قائم رکھتے ہیں۔اسلام کی پاکیزہ مزاجی نے ان انسانیت مخالف کاموں سے بچنے کی تلقین کی ہے اور ان جرائم پر سخت سزائیں مقرر کی ہیں۔ آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی کتنی تعداد ملاوٹ، کم ناپ تول اور ذخیرہ اندوزی سے سختی سے پرہیز کرتی ہے یہ اعتماد کے ساتھ کہنا مشکل ہے! قابلِ ستائش ہیں وہ لوگ جو مواقع اور آسانی کے باوجود اللہ کا ڈر رکھتے اور ان گناہوں سے دور رہتے ہیں۔

۱۲۔کرپشن اور رشوت ستانی

کرپشن اور رشوت ستانی کی مہذب سماج میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے لیکن زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے کی ہوس میں انسان بغیر کسی استحقاق کے غیر قانونی وغیر اخلاقی طور پر کرپشن اور رشوت کے ذریعہ دوسرے کی جیب کترتا، اس کا خون چوستا اور اس کو روحانی تکلیف پہنچاتا ہے۔ چوری تو انسان چھپ چھپا کر کرتا ہے لیکن کرپشن اور رشوت خوری تو کھلی ڈاکہ زنی ہے جس میں لوگ کسی کو اس کا قانونی حق دینے اور اس کاجائز کام کرنے کے لئے اس سے رشوت طلب کرتے ہیں۔ یہ رشوت چاہے لاکھوں کروڑوں روپے کی ہویا محض سو دو سوروپے کی دونوں ہی صریح ناجائز اور گناہ کا کام ہے اور اسلام نے اس کی کوئی گنجائش نہیںرکھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ وہ جسم جنت میں داخل نہ ہوگا جو حرام سے پلا ہو۔‘‘مگر صدحیف! کہ مسلمانوں کا بھی دامن اس سے پاک نہیں اور یہ خیال انہیں پریشان نہیں کرتا کہ بارگاہ خداوندی میں وہ کس کس کرپشن اور کس کس رشوت خوری کی جواب دہی کر سکیں گے!

۱۳۔ ظلم کی تائید، ظالم کی ثنا خوانی

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اس کو حرام ٹھہرایا ہے، لہٰذاایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔‘‘ چنانچہ مسلمان مزاجاً حق کا طرف دار اور ظلم و ظالم کو نا پسند کرتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کی فطرت مسخ ہو جاتی ہے وہ اپنے لئے ظلم کو روا رکھنے، اس کی علم برداری اور تائید و حمایت کرنے ، حق کی مخالفت کرنے اور اہلِ حق پر مظالم ڈھانے کو باعث فخر سمجھنے لگتے ہیں۔وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا ایک ایک عمل اللہ کے فرشتے نوٹ کرتے ہیں اور قیامت کے روز ان کے ظلم و ستم اور سفاکی کی گواہی دیتی اُن کے گناہوں کی فرد سیاہ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کران کو جواب دہی کے مقام پر کھڑا کرے گی اور ان کی آخرت کو تباہ کر دے گی۔ بعض بد قسمت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ خود تو نہ ظالم ہوتے ہیں نہ ظلم کرتے ہیں لیکن یہی کیا کم ہے کہ تھوڑی سی دنیا کے لالچ میں ظالم کی تائید اور اس کی ثنا خوانی و پرچم برداری کر کے نیز قاتل کو مسیحا کہہ کر خسران کا سودا کرتے ہیں۔

۱۴۔ قتل و خوں ریزی

قتل و خوں ریزی بھی انسان عام طور پر انتقام کے جذبے، مسلکی قومی ملکی عصبیت ، برتری کے اظہار، مال و متاع کے حصول ،اقتدار پر ناجائز قبضے، توسیع پسندانہ عزائم اور نفسانی خواہشات کی تکمیل و تسکین کے لئے کرتا ہے اور خون ناحق کا گنہ گار ہوتا ہے۔ پوری تاریخ انسانی میں بے شمار انسانوں کا خون انسان ہی نے بہایا ہے اور آج بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر یہ جرم انسان ہی کر رہا ہے ۔ مسلمان کے لئے مسلمان کا خون تو حرام ہے ہی، کسی دوسرے انسان کا بھی ناحق خون بہانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ قتل و خوں ریزی کے یہ کام کرنے والے مسلمان روزِ حشر اللہ کے حضور ناحق خون کے کس کس قطرے کی جواب دہی کر سکیں گے اس پر انہیں غور کرنا چاہئے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ جہاں کہیں ہو اللہ سے ڈرو۔‘‘

۱۵۔ شراب اور دیگر منشیات

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بھی کی ہے اور اس سے بے پایاں محبت بھی کرتا ہے ، لہٰذا ہمارے خالق نے ہمیں بہترین عقیدہ بھی دیا ہے اور عمل کے صاف ستھرے و پاکیزہ اصولوں کی راہ نمائی بھی فرمائی ہے۔ اسی لئے اُس نے عقیدہ و عمل دونوں سے انسان کو بھٹکانے والی اُم الخبائث شراب اور ہرطرح کے نشے کو حرام قرار دے کران سے بچنے کی تلقین فرمائی(القرآن : ۵:۹۰۔۹۱)۔ رسولِ رحمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی کشید ، اس کے کاروبا ر اور استعمال پر ہمیشہ کے لئے پابندی لگا دی۔ مگر انسان کے ذہن کے کسی نہ کسی گوشے میں کہیں نہ کہیں موجود اس کا جذبہ نافرمانی، اللہ اور رسولؐ کی واضح ہدایات کے باوجود اس کو مے کشی کی لعنت میں گرفتار ہونے سے بچنے نہیں دیتا اور شراب کے علاوہ دیگر منشیات کا شکار ہو کروہ اپنی صحت اور زندگی کو تباہ کرتا، اپنے عزیزوں کو اذیت و پریشانی میں مبتلا کرتا اور انتظامیہ کے لئے مسائل پیدا کرتا ہے۔ جس کو ان برائیوں سے پاک رہ کر سماج کے سامنے ایک مثالی کردار پیش کرنا چاہئے تھا افسوس کہ وہ اپنے خاندان، اپنی ملت اور اپنے دین کی رسوائی کا سبب بنتا ہے!

۱۶۔ عریانی و فحاشی

قرآن کریم میں عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حسن اور اپنی آرایش کی نمایش نہ کرتی پھریں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :’’کتنی ہی عورتیں ایسی ہیں جو دنیا میں کپڑوں میں ملبوس رہتی ہیں لیکن قیامت کے دن برہنہ ہوں گی‘‘۔حضور ؐ نے فرمایا کہ ’’ حیا ایمان کی ایک اہم شاخ ہے۔‘‘ لہٰذا آرٹ، کلچر، اسپورٹ، فلم، فیشن، بزنس اور موڈرنزم جیسے کسی بھی نام اور عنوان سے انسانوں کے لئے برہنگی و بے حیائی اختیار کرنے کی کوئی گنجائش ہے نہ اجازت۔ لیکن آج شرم و حیا کو طاق پر رکھ کر عریانی و فحاشی اختیار کی جا رہی ہے اور صارفیت کا دور اس کو عام کرنے میں مدد گار بن رہا ہے۔ خاص طور پر عورت کو مختلف حسین نعروں کے  فریب میں مبتلا کر کے اس کو نیم برہنہ بلکہ برہنہ سا کر کے اس کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ وہ خود بھی استحصالیوں کے جال میں خوش دلی سے پھنستی، اپنی عصمت و آبروداغدار کرتی اوراپنی سادگی سے اس کو اپنا حق سمجھتی ہے!دوسری تہذیبوں کی مرعوبیت کے سبب اس کی پیروی وغلامی اختیار کر نے کے لئے اب مسلمان مرد و خواتین بھی دوڑ لگا رہے ہیں۔ شادی کی تقریبات اور مختلف سماجی پروگراموں میں اس کا تکلیف دہ و افسوس ناک مشاہدہ کیا جا سکتا ہے    ؎

ایسا نہیں کہ کوئی برہنہ تھا بزم میں

لیکن کسی کسی ہی بدن پر لباس تھا

 فلم، ٹی وی ،اخبارات اور سوشل میڈیا اس تباہ کن کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ انسان اور انسانیت کشی کا یہ کھیل کھیلنے والوں کو محض مالی منفعت سے غرض ہے۔ ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ انسانیت کی تباہی کا کیا سامان کر رہے ہیں ؟ بربادی کے ان ذرائع سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کو اس کا احساس نہیں کہ اسلام نے انہیں پاکیزہ عقیدہ اور شائستہ عمل کی تعلیم دے کر ان کو خیرامت کے عظیم مرتبہ پر فائز کیا ہے،جس کا تقاضا حیا، شرم، غیرت، پاکیزگی اور تقدس ہے، جس کو وہ اپنی سادہ لوحی سے پامال کر رہے ہیں!

۱۷۔باطل خیال و فکر کی علم برداری

دوسرے بہت سے بڑے گناہوں کی طرح ہی باطل اور خدا بیزار خیال و فکر اور ازم و فلسفہ کے فریب میں گرفتاری اور اس کی علم برداری بھی خدا سے سرکشی اور بغاوت کے مترادف ہے۔ باطل عقیدہ و فکر بہت خاموشی سے انسان کی سرشت کاحصہ بنتا اور اس کی پاکیزہ زندگی کو آلودہ کر کے بگاڑ دیتا ہے۔ پھر انسان ایک خدا کی رضا کے لئے کام کرنے کے بجائے نہ جانے کس کس کی اطاعت میں زندگی تباہ کر دیتا اور آخرت کو دائو پر لگا دیتا ہے۔ حالانکہ انسان پر خدا کے بے شمار احسانات کا تقاضا ہے کہ اطاعت و بندگی اُسی کی کی جائے، زندگی اُسی کی ہدایت کے مطابق گزاری جائے، پیروی اُسی کے برگزیدہ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی کی جائے اور اس عقیدہ پر مضبوط یقین رکھا جائے کہ نجات و فلاح بس اِسی طرزِ حیات میں ہے۔

لمحۂ  فکر

یہ بات لائق شکر اور باعث ستائش و تحسین ہے کہ مسلم معاشرے میں نیکی،خیر، بھلائی،تقویٰ اور خدا پرستی کا ذکر اور گفتگو عام ہے اور اکثر و بیشتر علماء و خطیب اور مقرر حضرات کے خطابات،دینی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی مجالس، اخبارات و رسائل کے صفحات ، ریڈیو، ٹی۔وی اور سوشل میڈیا میں ان کاتذکرہ ہوتا ہے۔ نتیجتاً ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ مسلم سماج ان بڑی بڑی خرابیوں اور برائیوں سے بڑی حد تک پاک ہوتا جن کا مندرجہ بالا سطور میں سر سری تذکرہ ہوا ہے۔ یعنی مسلمان، و الدین کا، بھائی بہنوں اور دیگر قرابت داروں ہی کا نہیں بلکہ عام انسانوں کا حق ادا کرنے والا ہوتا، گھر یلو تشدد جیسی کمزوریوں سے مکمل اجتناب کرنے والا ہوتا، اپنی گفتگو، خطابات، تحریروں اور فتاویٰ سے دوسروں کی دل آزاری سے گریز کرنے اور ملت میں انتشار و افتراق پیدا کرنے سے پر ہیز کرنے والا ہوتا، دوسروں کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے اور بدکاری جیسے قبیح گناہ سے دور رہنے والا ہوتا، پڑوسی کے حقوق ادا کرنے والا اور اس کو اذیت دینے سے پرہیز کرنے والاہوتا، کسی کے کھیت، پلاٹ، فلیٹ اور جائداد پر کسی بھی بہانے نا جائز و غیر قانونی قبضہ کرنے کو حرام تصور کر کے اس کے قریب بھی نہ جاتا، دوسروں کی جائدادوں اورفٹ پاتھ و سڑک کو اپنی جائداد میں شامل کر نے، اس کو استعمال کرنے اور اس پر کاروبار کر کے روزی کمانے کو ناجائز سمجھتا، چوری، جوا، سٹہ، سود، ملاوٹ اور کم ناپ تول، کرپشن اور رشوت ستانی، ظلم کی تائید و ظالم کی ثناخوانی اور قتل و خون کو اسلامی احکام کی خلاف ورزی سمجھ کر ان سے شدید اجتناب کرتا، شراب نوشی اور دیگر تمام نشہ آور اشیاء کے فروغ اور اس سے استفادہ کی تمام صورتوں کو حرام سمجھتے ہوئے اس سے مکمل دوری اختیار کرتا، عریانی فحاشی اور بے حیائی اختیار کرنے اور اس کی اشاعت کے تمام ذرائع کو اسلام کے مزاج کے منافی سمجھ کر اس سے سخت نفرت کرتا اور باطل افکار و نظریات کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عطا کردہ پاکیزہ اصولوں کی نفی کرنے والا جان کر اس کی طرف رخ بھی نہ کرتا۔

لیکن ایمانداری سے جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے! شاید لوگوں کے ذہن میں یہ خیالِ خام اور غلط تصورگھر کر گیا ہے کہ کچھ نیکیاں کر لینے، کچھ خیر خیرات کر لینے، کچھ نمازیں پڑھ لینے ، چندروزے رکھ لینے، کچھ زکوٰۃ بھی ادا کر دینے، کبھی عمرہ اور حج کا سفر کر لینے، یا نیکی وبھلائی کے کچھ اور کام کر لینے سے حق تلفی، ظلم و زیادتی، قتل و خون، دوسروں کی زمینوں، پلاٹوں اور جائدادوں پر ناجائز قبضے، چوری، ڈاکہ، سود خوری، ملاوٹ و کم ناپ تول، کرپشن و رشوت خوری، شراب سے وابستگی اور عریانی و فحاشی کے فروغ کے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے! کیا واقعی ایسا ہو جائے گا یہ بہت سنجیدگی سے سوچنے کا سوال ہے!

جرائم کی تلافی اور توبہ

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فریاد سننے والا، ان کی خطائوں سے درگزر کرنے والا اور انہیں معاف بھی کرنے والاہے۔ لیکن جو جرائم اور گناہ انسان نے انسان کے ساتھ کئے ہیں ان کا مقدمہ تو آخرت میں اللہ کی بارگاہ میں لازماً پیش ہوگا اور روزِ محشر ان کا عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ مجرم اپنے جرائم کی سزا سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکیں گے۔ اللہ کے عادل اور منصف ہونے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ قیامت میں تمام مظلوموں کی داد رسی ہو اور ان کو ان کا حق دلایا جائے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال نامہ میں درج گناہ تین قسم کے ہوں گے، ایک وہ گناہ جسے اللہ ہرگز معاف نہیں کرے گا، وہ شرک کا گناہ ہے۔۔۔۔ دوسرا گناہ جو نامہ اعمال میں درج ہوگا بندوںکے حقوق سے متعلق ہے،اسے اللہ نہیں چھوڑے گا، یہاں تک کہ مظلومین ظالموں سے اپنا حق لے لیں، اور تیسرادرج رجسٹر گناہ وہ ہوگا جس کا تعلق بندہ اور خدا سے ہے، یہ اللہ کے حوالے ہے (وہ اپنے علم و حکمت کے تحت) چاہے گا تو عذاب دے گا (چاہے علم و حکمت کے تحت)معاف کردے گا۔‘‘ لہٰذا ایسے لوگ جنہوں نے کسی بھی صورت میں بندوں کے حقوق غصب کئے ہیں ان کے لئے آخرت کی باز پرس اور سخت سزا سے بچنے کا راستہ یہی ہے کہ کسی خوش فہمی میں پڑے رہنے کے بجائے جتنی ممکن ہوں چھوٹی بڑی نیکیاں ضرور کی جاتی رہیں، لیکن ساتھ ہی جن کے بھی حقوق مارے گئے ہیں وہ سب ادا کئے جائیں، جن کے ساتھ مکرو فریب اور ظلم و ناانصافی کی گئی ہے ان کو ان کا حق واپس کر کے اس کی تلافی کی جائے، پھر صدق دل سے اللہ سے توبہ کر کے اُن سے معافی طلب کی جائے، اس کے بعد ہی امید کی جانی چاہئے کہ خدائے رحیم و کریم ایسے بندے کی طرف نگاہِ عفو و در گزر کرے گا    ؎

اے مرے لوگو نہ جانے کوچ کب کرنا پڑے

کیا کبھی سوچا سفر کی کتنی تیار ی ہوئی

ہے کوئی جس کو اپنی خطائوں کا شدید احسا س ہو؟

ہے کوئی بندوں کے غصب کردہ حقوق انہیں واپس کرنے والا؟

ہے کوئی اپنے جرائم کی تلافی کرنے والا؟

ہے کوئی سچے دل سے اللہ سے توبہ کرنے والا؟

ہے کوئی شرمندگی و ندامت کے ساتھ اللہ کی مغفرت اور اس کی رضا کی طرف قدم بڑھانے والا؟

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223