توبہ— شرائط اور آداب

انسان گناہوں کا پُتلا ہے ۔ اس سے ہر وقت چھوٹے بڑے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔بڑا سے بڑا متقی اور پرہیز گار شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک ہے یااس سے کبھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہے۔لیکن ایک مومن اور غیر مومن میں فرق یہ ہے کہ مومن جب کسی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ فوراً اپنے رب کی جانب پلٹتا ہے اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہے ۔قرآن ایسے لوگوں کی یہ صفت بیان کرتا ہے :

وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ ذَكَرُوا اللہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۝۰۠ وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللہُ۝۰ۣ۠ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَھُمْ يَعْلَمُوْنَ۔ (آل عمران:۱۳۵)

’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی برا کام کرتے یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا گناہ معاف کرنے والا ہے بھی کون؟اور وہ اپنے کیے ہوئے کام پر اصرار نہیں کرتے اور وہ یہ بات بھی جانتے ہیں‘‘۔

جب کہ غیر مومن ایسا نہیں کرتا ہے۔اسی کو حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ نے اس طرح سے فرمایا ہے:

’’ان المؤمن یری ذنوبہ کأنہ قاعد تحت جبل یخاف أن یقع علیہ۔و ان الفاجر یریٰ ذنوبہ کذباب مر علیٰ أنفہ فقال بہ ھکذا۔أی بیدہ۔فذبہ عنہ ‘‘(مسند احمد:۳۶۲۷)۔

’’مومن اپنے گناہوں کو یوں دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہو اور ڈرتا ہو کہ وہ اس پر گر نہ پڑے اور فاجر اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے گویا ایک مکھی تھی جو اس کی ناک پر بیٹھ گئی تھی اور جسے اس نے ہاتھ ہلا کر اڑا دیا‘‘۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کے دور میں رفتہ رفتہ جب امت ِ مسلمہ کا زوال شروع ہوا تو بعض گناہوں کو چھوٹا اور کم تر سمجھ کر نظر انداز کیا جانے لگا۔ حضرت عبادۃ بن قرطہؓ  اپنے شاگردوں سے مخاطب ہو کرفرماتے ہیں:

’’انکم لتأ تون امورا ھی أدق فی أعینکم من الشعر،کنا نعدھا علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الموبقات۔و الموبقات ھی المھلکات ‘‘(الدارمی:۲۸۱۰)۔

’’تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظروں میں بال سے بھی باریک ہوتے ہیں جب کہ ہم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہلاک کر دینے والے کام شمار کرتے تھے‘‘۔

آج ہماری یہ حالت ہے کہ ہم برابر چھوٹے بڑے گناہ کرتے رہتے ہیں لیکن اس کو گناہ نہیں سمجھتے یا بہت معمولی گناہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔جیسے آفس کی چیزوں کو خواہ وہ کتنی ہی معمولی ہی کیوں نہ ہو، ذاتی سمجھ کر استعمال کرنا خیانت اور گناہ ہے، لیکن ہم میں سے اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں ۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمارے دلوں سے اللہ تعالی پر یقین، جزا و سزا کا احساس اور حلال و حرام کی تمیز نکل چکی ہے۔جب کہ ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ایاکم و محقرات الذنوب،فانما مثل محقرات الذنوب کمثل قوم نزلوا  بطن واد،فجاء ذا بعود،وجاء ذابعود حتی حملوا ما أنضجوبہ خبزھم،و ان محقرات الذنوب متی یؤخذ صاحبھا تھلکہ‘‘(مسند احمد:۲۲۲۱۵)

’’گناہوں کو حقیر سمجھنے والی باتوں سے بچو۔گناہوں کو حقیر سمجھنے والوں کی مثال ان لوگوں کی ہے جو ایک وادی کے دامن میں اترے ۔ہر شخص نے ایک ایک لکڑی جمع کی حتی کہ اتنی لکڑیاں اکٹھی ہو گئیں جن سے انہوں نے اپنی روٹیاں پکائیں اور گناہوں کو حقیر سمجھنے والی باتیں کبھی اپنے کرنے والے ہی کو پکڑ لیتی ہیں اوراسے ہلاک کر دیتی ہیں‘‘۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صغیرہ گناہوں سے بھی بچنا چاہیے ورنہ یہ انسان کو کبیرہ گناہوں سے جا ملاتی ہیں۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب صغیرہ گناہوں کو بار بار انجام دیا جائے تو وہ کبیرہ بن جاتا ہے اور اگر کبیرہ گناہوں پر استغفار کیا جائے تو وہ کبیرہ نہیں رہتا۔

گناہوں کے نقصانات

ابن قیم ؒ نے اپنی کتاب الداء والدواء میں گناہوں کے کئی نقصانات بتائے ہیں جو درج ذیل ہیں:

’’علم سے محرومی،دل میں وحشت،کاموں کا گراں بار ہونا،بدن کا کم زور ہوجانا،برکت کا اٹھ جانا،توفیق کی کمی،سینہ میں گھٹن،برائیوں کا پیدا ہونا،گناہوں کا عادی ہونا،اللہ تعالی اور دنیا والوں کی نگاہوں میں گر جانا،دل پر مہر لگ جانادعا کا قبول نہ ہونا،شرم و حیا اور غیرت کا ختم ہو جانا،لوگوں کا رعب دل میں بیٹھ جانا اور دنیا و آخرت میں عذاب کا مستحق ہو جانا وغیرہ‘‘۔

اس لیے انسان کو گناہوں سے بچنا چاہیے اور اگر کوئی گناہ ہو بھی جائے تو فوراً اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرنی چاہیے کیوں کہ اللہ تعالی انتہائی رحم کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے ۔ وہ ایسے بندوں پر رحمت و شفقت فرماتا ہے جو اس کی طرف حقیقی معنوں میں رجوع کرتے ہیں۔قرآن کریم میں اس کی جگہ جگہ ترغیب دلائی گئی ہے:

توبوا الی ٰاللہ جمیعاًایہ المؤمنون لعلکم تفلحون(النور:۳۱)

اے مومنو!تم سب مل کراللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرو ،توقع ہے کہ تم فلاح پا ؤ گے۔

ایک اور جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

یا ایھا الذین آمنوا توبوا الی اللہ توبۃ نصوحاً(التحریم:۸)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اللہ تعالی سے توبہ کرو،خالص توبہ۔

خوداحادیث میں بھی لوگوں کوتوبہ پر ابھارا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ متقی اور پرہیزگار شخص کون ہو سکتا ہے ؟لیکن آپؐ فرماتے ہیں:

’’ اے لوگو! توبہ کیا کرو، میں خود دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں‘‘(الدارمی:۲۷۶۵)۔

اللہ تعالی توبہ کے لیے انسان کو کچھ مہلت عطا کرتا ہے اور اسے موقع دیتا ہے کہ وہ توبہ کر لے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ان صاحب الشمال لیرفع القلم ست ساعات عن العبد المسلم المخطی فان ندم و استغفر اللہ منھا ألقاھا،و الا کتبت واحدۃ‘‘      (المعجم الکبیر للطبرانی:۷۶۶۳)۔

’’بائیں طرف والا فرشتہ خطا کرنے والے مسلمان بندے سے چھ گھڑیاں قلم اٹھائے رکھتا ہے پھر اگر وہ نادم ہو اور اللہ تعالی سے معافی مانگ لے تو نہیں لکھتا ورنہ ایک برائی لکھی جاتی ہے‘‘۔

بارگاہ الٰہی میں توبہ کی قبولیت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک انسان جان کنی کے عالم میں نہ پہنچ جائے ۔اس کے بعد قبولیتِ توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا:

’’من تاب الی اللہ قبل ان یغر غر قبل اللہ منہ و من تاب قبل ان تطلع الشمس من مغربھا تاب اللہ علیہ‘‘(مسند احمد)۔

جو شخص نزع کے وقت سے پہلے اللہ کے حضور توبہ کر لے اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور جس شخص نے سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے توبہ کر لی اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔

توبہ کی شرطیں

توبہ کرنا بظاہر بہت آسان کام لگتا ہے کہ زبان سے بس توبہ کا لفظ کہہ دیا اور توبہ ہو گئی اور سارے پچھلے گناہ معاف ہو گئے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔اگرہم قرآن کریم کی اس آیتِ کریمہ’’ وان استغفروا ربکم ثم توبوا الیہ(ھود:۳)(اور یہ کہ اپنے پروردگار سے بخشش طلب کرو ۔ پھر اس کے حضور توبہ بھی کرو)پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ توبہ صرف استغفار کا نام نہیں ہے،بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ’انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا رہا ہے اس کو وہ فوراً مکمل طور سے ترک کر دے،اسے اپنے کیے پر ندامت ہو،اسے دوبارہ نہ کرنے کا عہد کرے ،جن پر اس نے ظلم کیا ہے یا حق دبایا ہے تو اس کو واپس کرے اور ان سے معافی طلب کرے۔ان کے علاوہ ایک سچی توبہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان گناہ کوصرف اور صرف اللہ تعالی کے ڈر سے ترک کرے۔لوگوں کا ڈر ،بدنامی کا خوف،شہرت پر دھبہ لگنے کا اندیشہ ،طاقت اور قدرت کی کمی کی وجہ سے دوبارہ اسے انجام نہ دے پانا وغیرہ سبب نہ بنے ۔ جیسے کسی انسان کا بدن شل ہو جائے اور وہ چوری ہی نہ کر سکے تو توبہ کرلے ‘۔

توبہ پر ثابت قدمی کیسے؟

سب سے پہلے تو انسان کو جلد ازجلد توبہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ،کیونکہ  اس میں تاخیر کرنا بذات خود ایک بڑا گناہ ہے،ساتھ ہی اس کو اس بات کا ڈر ہوناچاہیے کہ معلوم نہیں اس کی توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں؟اس سے وہ دوبارہ اس کا مرتکب ہونے سے بچ سکے گا،وہ گناہوں والی جگہوں اور برے ساتھیوں کو بھی چھوڑ دے ورنہ ان میں لوٹ جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے،اگر اس کے پاس کچھ حرام اشیا ہوں تو ان کو تلف کر دے ورنہ یہ چیزیںاس کو دوبارہ برائیوں میں مبتلا کر دینے کا سبب بن سکتی ہیں ، نیک دوستوں کا انتخاب کرے تا کہ وہ اس کو توبہ پر ثابت قدم رکھنے میں مدد کر سکیں،ایسے علمی مجالس اور ذکر کے حلقوں میں شرکت کرے جو اس کو ان گناہوں سے باز رکھ سکیں، حلال کمائی سے اپنی پرورش کرے اورکسی بھی گناہ کو کم تر نہ سمجھے۔ان تمام اصولوں سے وہ توبہ پر ثابت قدم رہ سکتا ہے۔

توبہ کرنے میں شیطان کی طرف سے رکاوٹیں

شیطان کبھی نہیں یہ چاہتا کہ انسان اللہ تعالی کی اطاعت کرے اور نیک راستے پر چلے۔ اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہتی ہے کہ اگر کوئی توبہ کر کے سیدھے راستے پر چلنا چاہے تو اسے روکے ۔اس کے لیے وہ مختلف حیلوں، بہانوں اور وسوسوںسے کام لیتا ہے۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں توبہ توکرنا چاہتا ہوں، لیکن کیا اس کی کوئی ضمانت ہے کہ اگر میں توبہ کروں تو اللہ تعالی مجھے معاف فرما دیں گے؟اگر مجھے یقینی طور پر علم ہو جائے کہ اللہ تعالی مجھے معاف فرما دیں گے تو میں توبہ کر لوںیا یہ کہ مجھ سے اتنے زیادہ گناہ ہو گئے ہیں اور اس کی کوئی ایسی قسم نہیں ہے جسے میں نے انجام نہ دیا ہو تو کیا اللہ تعالی کے لیے مجھے معاف کر دینا ممکن ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کی تمام باتیں ایک مومن کو زیب نہیں دیتی ہیں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے کو اللہ تعالی کی قدرت ،اس کی رحمت کی کشادگی پر یقین نہیں ہے ۔جبکہ قرآن کہتا ہے :

’’و رحمتی وسعت کل شئی‘‘ (الاعراف:۱۵۶)۔

اور میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے۔

اسی طرح وہ اس بات پربھی یقین نہیں رکھتا کہ اللہ تعالی اس کے تمام گناہ بخش سکتا ہے اور معاف کر دینے کے بعد بھی اس کے گناہوں کو مٹانے کی قدرت نہیں رکھتا(نعوذ باللہ)۔جب کہ اللہ تعالی حدیثِ قدسی میں فرماتے ہیں:

’’یا ابن آدم انک ما دعوتنی و رجوتنی غفرت لک علی ما کان منک و لا ابالی،یا ابن آدم لو بلغت ذنوبک عنان السماء ثم استغفرنی غفرت لک ولاابالی، یا ابن آدم لو انک وأتیتنی بقراب الأرض خطایا ثم لقیتنی لا تشرک بی شیئا لأتیتک بقرابھا مغفرۃ‘‘ (ترمذی:۳۵۴۰)۔

’’اے ابن آدم!تو جب بھی مجھے پکارے اور مجھ سے توقع رکھے تو تیرے جتنے بھی گناہ ہوں گے میں بخش دوں گا اور مجھے اس کی ذرا بھی پروا نہیں،اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی کو پہنچ جائیں پھر تو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں،اے ابن آدم!اگر تو زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر مجھ سے اس حال میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو تو میں زمین بھر بخشش لے کر تیرے پاس آؤں گا‘‘۔

اور رہی بات گناہوں کو مٹانے کے لیے اللہ تعالی کی قدرت کی توایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی فرماتے ہیں:

’’من علم انی ذو قدرۃ علی مغفرۃ الذنوب غفرت لہ و لا ابالی،مالم یشرک بی شیئا و ذلک اذا لقی العبد ربہ فی الآخرۃ‘‘(المستدرک علی الصحیحین،۴:۲۵۷)۔

’’جسے علم ہو گیا کہ میں گناہ معاف کرنے کی قدرت رکھتا ہوں تو میں اس کے گناہ بخش دوں گا،بشرط کہ اس نے میرے ساتھ شرک نہ کیا ہو ۔اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہ بات آخرت میں ہو گی جب بندہ اپنے پروردگار سے ملے گا‘‘۔

اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں توبہ تو کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے ساتھی مجھے اس سے روکتے ہیں اور وہ میرے ماضی کے گناہوں اور رازوں کو عام کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں ۔

درحقیقت یہ لوگ انسان کو راہِ راست پر دیکھنا نہیں چاہتے ہیں اس لیے وہ اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں۔ایسے موقع پر اللہ تعالی سے مدد طلب کرنی چاہیے اور’’ حسبنا اللہ و نعم الوکیل ‘‘(آلِ عمران:۱۷۳)(ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے جو بہترین کار ساز ہے)پڑھنا چاہیے۔کیوں کہ اللہ تعالی ہی مومنوں کا مددگار ہے اور انہیں کبھی وہ مشکل میں تنہا نہیں چھوڑتا ہے ۔ارشادِ ربانی ہے:

يُثَبِّتُ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَۃِ۝۰ۚ وَيُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِيْنَ۝۰ۣۙ وَيَفْعَلُ اللہُ مَا يَشَاۗءُ۔(ابراہیم:۲۷)

’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت،دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے‘‘۔

پھر بھی اگر زیادہ مسئلہ ہو جائے اور اس بات کا ڈر ہو کہ پرانی باتوں اور گناہوں سے معاملہ بگڑ سکتا ہے تو قریبی لوگوں کو اعتماد میں لے کر بتا دینا چاہیے کہ مجھ پر شیطان حاوی تھا اور غلطیاں ہو گئیں تھیں، لیکن میں نے اب توبہ کر لی ہے ۔ویسے بھی حقیقی رسوائی وہ ہے جو قیامت کے دن اللہ تعالی کے سامنے ہو گی اور اس وقت حضرت آدم ؑ سے لے کر آخری انسان تک موجود ہوں گے۔اس لیے اس دنیا ہی میں ہم سب کو اپنے گناہوں سے توبہ کر لینی چاہیے۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انسان پھر نیکیوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے ۔وہ بھی اس طرح سے کہ بسا اوقات شیطان بھی افسوس کرنے لگتا ہے کہ کاش میں نے اس کو اس گناہ میں مبتلا نہ کیا ہوتا۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2014

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau