ظلم کے خلاف مزاحمت

ماہ دسمبر۲۰۱۹ کے اشارات میںتفصیل سے واضح کیا گیا تھا کہ ملت اسلامیہ ہند کی ایک بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے ملّی نصب العین کا شعور حاصل کرے اور اُس کے حصول کی خاطرطویل المیعاد جدوجہد پر اپنی توجہات کو مرکوز کردے۔ اس سلسلے میں ایک چار نکاتی ایجنڈا بھی تجویز کیا گیاتھا اور یہ بات بھی واضح کی گئی تھی کہ ردّ عمل پر مبنی نفسیات اور محض مدافعانہ کوششوں تک خود کو محدود رکھنے کا طرز عمل امت کے لیے نہ تو مفید ہے اور نہ اُس کے مقام و منصب کے شایان شان ہے۔اس ماہ، اس سوال پر گفتگو پیش نظر ہے کہ رکاوٹوں، خاص طور پر مظالم کے ازالے اور اس کے خلاف مزاحمت کا اسلامی تحریک کی اسکیم میں کیا مقام ہونا چاہیے؟ اس سلسلہ میں انبیاء علیہم السلام کے اسوے اور قرآن و سنت کی تعلیمات میں کیا رہنمائی ملتی ہے؟ اور یہ کہ مقصد ونصب العین کے حصول کی اصل جدوجہد اورمظالم اور زیادتیوں کے خلاف مزاحمت اور ان کے سد باب کی کوششوں کے درمیان کیا توازن مطلوب ہے؟

ظلم کی مزاحمت انسان ہی نہیں ہر جاندار کی فطرت کا حصہ ہے۔ معمولی چیونٹی کو بھی تکلیف پہنچانے، ہلاک کرنے یاراستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو وہ مزاحمت کرتی ہے۔ افراد کی طرح قوموں کی بقا کا انحصار بھی مظالم کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ ہر ظالم مظلوموں سے مکمل خود سپردگی کا تقاضا کرتا ہے اور اُس سے کم پر راضی نہیں ہوتا۔ لیکن ظلم و سفاکیت کے مقابلہ میں خود سپردگی اور مداہنت کا رویہ اختیار کرنے والی قوم کا مقدر یہی ہوتا ہے کہ وہ کچل اور مسل ڈالی جائے۔ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مزاحمت کے معقول طریقوں کو اختیار کیے بغیر کسی قوم نے اپنے اوپر ظلم کرنے والوں سے نجات حاصل کی ہو یا خود ظالم نے رحم کھا کر اس کی جان بخشی کردی ہو۔ ظلم کے مقابلہ میں ڈٹ کر کھڑا ہونا یقینا آسان کام نہیں ہے۔ یہ قدم قدم بلائوں کی راہ ہے اور قربانیوں کے نذرانے کے بغیر اس راہ سے گزرنا ممکن نہیں۔ لیکن ظلم سے نجات کی بس یہی ایک راہ ہوتی ہے۔ ہر ظلم کی تاریخ یا تو مظلوم قوم کے خاتمہ پر ختم ہوتی ہے یا ظلم کی مزاحمت کے نتیجہ میں ظالم کی شکست اور ظلم کے خاتمہ پر۔

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں                  کب کوئی بلا صرف دعائوں سے ٹلی ہے

اسلام کی تعلیمات اورظلم کے خلاف مزاحمت

قرآن مجید نے مسلمانوں کی ایک اہم خصوصیت یہ بتائی ہے کہ وہ ظالموں کے لیے نرم نوالہ نہیں ہوتے۔ وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْن۔سورۃ الشوریٰ آیت ۳۹(اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں)

مولانا مودودیؒ نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے۔

یہ بھی اہل ایمان کی بہترین صفات میں سے ہے۔ وہ ظالموں اور جباروں کے لیے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ ان کی نرم خوئی اور عفو و درگزر کی عادت کم زوری کی بنا پر نہیں ہوتی ۔انہیں بھکشوؤں اور راہبوں کی طرح مسکین بن کر رہنا نہیں سکھایا گیا ہے۔ ان کی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ جب غالب ہوں تو مغلوب کے قصور معاف کردیں، جب قادر ہوں تو بدلہ لینے سے در گزر کریں، اور جب کسی زیر دست یا کم زور آدمی سے کوئی خطا سرزد ہوجائے تو اس سے چشم پوشی کر جائیں، لیکن کوئی طاقتور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں اور اس کے دانت کھٹے کردیں۔ مومن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لیے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے جسے چبانے کی کوشش کرنے والااپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔۱؎

اسلام کے ماننے والوں کے لیے ظلم کی مزاحمت صرف ایک فطری ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ اُن کے دین کا ایک اہم ترین مطالبہ اور ان کے مقام ومنصب کا تقاضا بھی ہے۔یہ اہل اسلام کا مشن ہے کہ نہ صرف اُن کے اوپر سے بلکہ دنیا کے تمام مظلوموں پر سے ظلم کے بادل چھٹ جائیں اور آدم کے ہر بیٹے اور بیٹی کو آزادی کی کھلی فضا میسر آئے۔ عدل کا قیام اور ظلم کا استیصال، دینِ اسلام کے مقاصد میں شامل ہے۔ اس کی اہمیت اور دین میں اس کی مرکزیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انسانوں کے درمیان عدل و قسط کے قیام کو اللہ تعالٰی نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا ایک مقصد قرار دیا ہے۔لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَامَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ  لِیَقُوْمَ  النَّاسُ  بِالْقِسْط۔(سورۃ الحدید، آیت ۲۵) (بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں)پیغمبروں کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ نہ صرف خود پر ظلم کی مزاحمت کریں بلکہ عدل و انصاف کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے بنیںاور جہاں کہیں ظلم ہورہا ہو ، اسے روکنے کے لیے ممکنہ جدوجہد کریں۔ یاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُوْنُوْاقَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہ۔ (سورۃ النساء ، آیت ۱۳۵) (اے لوگو جو ایمان لائے ہو،خدا واسطے انصاف کے علمبردار اوراس کے گواہ بنو)

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒنے تو یہاں تک لکھا ہے کہ انّ من اعظم المقاصد التی قصدت ببعثۃ الانبیاء علیہم السّلام دفع المظالم من بین الناس، فانّ تظالمہم یفسد حالہم ، ویضیق علیہم ولاحاجۃ الی شرح ذالک(بے شک انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک انسانوں میں سے ظلم و زیادتی کا ازالہ ہے۔ مظالم انسانی زندگی کے احوال کو درہم برہم کردیتے ہیں اور ان کو سخت تنگیوں میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اور یہ بات اتنی واضح ہے کہ اس کے لیے کسی تفصیل کی ضرورت نہیں ہے۔)۲؎

ظلم کے مقابلہ اور مزاحمت ہی کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ ظلم کے مقابلہ میں خاموشی اور بے حسی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے واضح الفاظ میں یہ بات فرمائی ہے کہ ظلم کی مزاحمت نہ کرنا اللہ کے غضب اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَاب (لوگ جب کسی ظالم کو دیکھیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو عنقریب اللہ ان سب پر اپنا عذاب نازل کرے گا۔)۳؎

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اسلام کا ایک اہم رکن اور حکم ہے۔ ظلم کی مزاحمت، نہی عن المنکر کا نہایت اہم تقاضا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بنی اسرائیل کی تباہی کا ایک اہم سبب یہ بتا یا ہے کہ اُن کے سربر آوردہ لوگوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام چھوڑدیا تھا۔ اس سلسلہ کی ایک مشہورحدیث کا اختتام آںحضرتﷺ کی امت کے نام اس اہم تنبیہ پر ہوتا ہے کہ كَلَّا وَاللَّهِ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَلَتَأْخُذُنَّ عَلَى يَدَيِ الظَّالِمِ، وَلَتَأْطُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ أَطْرًا، وَلَتَقْصُرُنَّهُ عَلَى الْحَقِّ قَصْرًأَوْ لَيَضْرِبَنَّ اللَّهُ بِقُلُوبِ بَعْضِكُمْ عَلَى بَعْضٍ، ثُمَّ لَيَلْعَنَنَّكُمْ كَمَا لَعَنَهُمْ(اللہ کی قسم ، یا تم خیر کا حکم دو گے اور منکر سے روکو گے اور ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکوگے اور اسے عدل کرنے اور حق پر قائم رہنے پر مجبور کرو گے، (ورنہ) یا اللہ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا دے گا اور تم پر لعنت کرے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر کیا تھا۔)۴؎

یہی وجہ ہے کہ ظلم و زیادتی کا استیصال انبیاء علیہم السلام کی جدوجہد کا ایک اہم عنوان رہا ہے۔ انبیائی جدوجہد کا یہ پہلو خاص طور پر موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں بہت ابھر کر سامنے آتا ہے جسے قرآن نے متعدد جگہ ، بلکہ دیگر واقعات کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مرتبہ،بیان کیا ہے۔(موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کا تذکرہ اور اشارہ قرآن مجید میں تیس سورتوں میں تقریباً سو مقامات پر آیا ہے۔) فرعون ایک نسل پرست، ظالم اور استحصالی حکمران تھا۔ جبکہ موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں مبعوث ہوئے تھے جو فرعون کے نسل پرستانہ مظالم کے شکار تھے۔ اللہ کے ایک برگزیدہ رسول کی حیثیت سے موسیٰ علیہ السلام کا اصل کام تو دعوت الی اللہ تھا لیکن ساتھ ہی ان سے یہ بھی کہا گیا کہ  فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ( سورۃ طہ، آیت ۴۷ ) (پس اس کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ ہم دونوں تیرے رب کے رسول ہیں، تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان کو عذاب میں مبتلا نہ رکھ۔)

خود نبی کریم ﷺ نے بھی ظلم کے خاتمہ اور عدل کے قیام کو اپنا مشن قرار دیا ۔

وَاللَّهِ لَيَتِمَّنَّ هَذَا الأَمْرُ، حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لاَ يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ (خدا کی قسم ، یہ مشن مکمل ہوکر رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعا ءسے حضرت موت تک جائے گا اور اسے خدا کے سوا کسی کا خوف نہیں ہوگا۔۵؎) اس طرح کے متعدد اقوال میں ظلم اور زیادتیوں کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کو نبوی مشن کی تکمیل کی اہم علامت قرار دیا گیا ہے۔ حلف الفضول کا معاہدہ ظلم کی روک تھام ہی کا معاہدہ تھا جو نبوت کے نزول سے قبل اس وقت طے پایا تھا جب آپﷺ کی عمر مبارک بیس سال تھی لیکن جس کے بارے میں آپ ﷺنے بعد میں یہ بات فرمائی کہ اگر زمانہ اسلام میں بھی مجھے اس کا واسطہ دے کر بلایا جائے تو میں حاضر ہوں گا یا یہ کہ یہ معاہدہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔)ما احب ان لی بہ حمر النعم، ولو دعیت بہ فی الاسلام لاجبت(  ۶؎

حضرت ربعی بن عامرؓ نے رستم کے دربار میں جو تقریر کی تھی اُس میں بھی رسول اللہ کے مشن کی یہی تشریح ملتی ہے۔

اللَّهُ ابْتَعَثْنَا لِنُخْرِجَ مَنْ شَاءَ مِنْ عِبَادَةِ الْعِبَادِ إِلَى عِبَادَةِ اللَّهِ، وَمِنْ ضِيقِ الدُّنْيَا إِلَى سِعَتِهَا، وَمِنْ جَوْرِ الْأَدْيَانِ إِلَى عَدْلِ الْإِسْلَام (اللہ تعالی نے ہم کو مبعوث کیا ہے تاکہ ہم اس کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلائیں اور اللہ کی بندگی میں لائیں اور دنیا کی تنگنائیوں سے اس کی وسعتوں کی طرف لے جائیں اور جھوٹے مذاہب  کے مظالم سے نکال کر اسلام کے عدل میں لے جائیں۔)۷؎

انبیاء علیہم السلام کے بعد ، ہر زمانہ میں امت مسلمہ کی بزرگ شخصیتوں اور مجددین دین ، کی جدوجہد میں بھی یہ پہلو بہت نمایاں رہا۔ اسلام کی دینی تاریخ کی تمام اہم شخصیتوں کے ساتھ، ظلم وزیادتی کے خلاف جدوجہد کے ولولہ انگیز واقعات وابستہ ہیں اور ان میں سے اکثر کو اس جدوجہد کے دوران آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑا ہے۔ رسول اللہﷺ کے بعد آپ کے نواسہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا اصل سبب ظالمانہ بادشاہت کے خلاف آپ کی بے باک مزاحمت ہی تھا۔ یہی سبب حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی شہادت کا بھی بنا جو حجاج بن یوسف کے مظالم کے شکار ہوئے۔ امام اعظم ابو حنیفہ ؒنے اپنے عہد کے حکمرانوں کے مظالم کے خلاف آواز بلند کی۔ یہ واضح موقف اختیار کیا کہ حکمرانوں کے مقابلہ میں نہی عن المنکر کا کام کیا جائے گا اور یہ ضروری ہے۔ خراسان کے فقیہ ابراہیم الصائغ سے ان کی جو گفتگو ہوئی تھی وہ اکثر اس موضوع سے متعلق مباحث میں نقل کی جاتی ہے۔ امام صاحب نے اُن سے کہا تھا کہ حکمران اگر غلط کام کرے تو اس کی نکیر واجب ہے۔ پھر اللہ کے رسول کی یہ حدیث سنائی کہ سید الشہداء ایک تو حمزہ بن عبد المطلب ؓ ہیں اور دوسرا ہر وہ شہید جو ظالم حکمران کے سامنے کھڑا ہو، اُسے ظلم سے روکے اور اس کے نتیجہ میں ماردیا جائے۔۸؎  ۱پنی حق گوئی اور حکمرانوں کے غلط رویوں کی تائید سے انکار کے رویے کی وجہ سے امام صاحب کو تین حکمرانوں کے دور میں قید و بند اور کوڑوں کی مار کا ظلم سہنا پڑا یہاں تک کہ قید کے دوران ہی اُن کی موت ہوگئی جو بعض سوانح نگاروں کے نزدیک اُس زہر کا نتیجہ تھی جو حکمرانوں نے ، دوران قید،ان کے کھانے میں شامل کردیا تھا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒنے آزادی اظہار رائے کا سودا کرنے سے انکار کیا۔ کئی برس جیل میں قید رہے ،یہاں تک کہ دمشق کے قید خانے ہی سے آپ کا جنازہ اٹھا۔ مجدد الف ثانیؒ کو گوالیار کے قلعہ میں قید رہنا پڑا۔ قریبی دور میں مغربی استعمار کے مظالم کے خلاف جدوجہد، عالم اسلام کے ہر خطہ میں زعمائے اسلام کا نشان امتیاز رہا ہے۔ ہمارے ملک کی آزادی کی تاریخ بھی سید احمد شہیدؒ، سید اسماعیل شہیدؒ، مولانا محمود حسنؒ وغیرہ کی عظیم قربانیوں کے تذکرے کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہوسکتی۔

بیسویں صدی کے نصف آخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کی تاریخ ، اسلامی تحریکوں کی ظلم کے خلاف بھرپور مزاحمت اور اس کے لیے بے نظیر قربانیوں کی تاریخ ہے۔ حسن البنا شہید ؒکی عین جوانی میں شہادت، سید قطبؒ شہید کی پھانسی، مولانا مودودیؒ کی طویل قید ، اور اخوان المسلمون، فلسطین کی تحریک مزاحمت اور دنیا کے مختلف ملکوں میںظالموں کے مقابلہ میں اسلامی تحریکوں کی صبر و استقلال کے ساتھ حوصلہ مند جدوجہد، اسلامی تاریخ کا سرمایہ افتخار ہیں اور واقعہ یہ ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی اس قدر کثیر اور ایسی مسلسل مثالیں،کسی اورقوم یا مذہب کی تاریخ میں نہیں ملتیں۔

 مزاحمت ۔ مسلح یا پر امن؟

طاغوت کی ظالمانہ قوت کے مقابلہ میں اوراُس کے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو قرآن جہاد کہتا ہے اور اسے اہل اسلام کا ایک اہم فریضہ قراردیتا ہے۔ جہاد کے بارے میں یہ بات اسلامی احکام میں بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ اُس کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ جہاد پر امن مزاحمت کے روپ میں بھی ہوتا ہے اور بعض صورتوں میں شریعت کی دی ہوئی شرطوں کے مطابق مسلح جنگ کے روپ میں بھی۔ جہاد کی شکلیں حالات کے لحاظ سے متعین ہوتی ہیں لیکن ظلم و استحصال کے خلاف جدوجہد ایک ایسا فریضہ ہے جو ہر حال میں اہل اسلام پر عائد ہوتا ہے۔

اسلام ، حکمرانوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ بشرط قوت، ظلم کے خاتمہ کے لیے قتال کریں اور قوت کا استعمال کریں۔

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ( سورۃ النساء ؛ آیت ۷۵)

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کم زور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔

ظلم کے خلاف مسلح جدوجہد، عام طور پر حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ مسلح جہاد کی شرطوں پر گفتگو اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ اس لیے اس کی تفصیلات سے قطع نظر،جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے،اکثر صورتوں میں، اسلام انہیں اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف پر امن مزاحمت کریں۔ خاص طور پر اگر ظلم ، جان و مال پر راست حملہ کی صورت میں نہ ہو بلکہ حقوق کو غصب کرنے کی صورت میں ہو تو مزاحمت پر امن ہی ہونی چاہیے۔

مزاحمت اگرپر امن ہو تو مزاحمت کاروں کو اخلاقی برتری حاصل ہوجاتی ہے۔ موجودہ جمہوری معاشروں میں رائے عامہ کو اجتماعی امور میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ امن، تشدد سے گریز اورظالم حریفوں کی جانب سے اُن پر تشدد کے یک طرفہ سلسلے، دھیرے دھیرے رائے عامہ کو مزاحمت کاروں کے حق میں بدلنے لگتے ہیں۔ اس اخلاقی فتح سے ظلم کو شکست دینے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

پر امن مزاحمت کے نتیجہ میں تحریک زیادہ عوامی ہوجاتی ہے۔ شامل ہونے والے افراد کے لیے رسک کم ہوتا ہے اس لیے وہ زیادہ بڑے پیمانے پر شامل ہونے لگتے ہیں۔ ایسی تحریک زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ موجودہ دور میں کسی پر امن مزاحمت کی کامیابی کے امکانات، پر تشدد مزاحمت کے مقابلہ میں کم سے کم دس گنا زیادہ ہیں ۹؎ ۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۹۰۰؁ سے ۲۰۱۵؁ تک دنیا بھر میں پچاس فیصد سے زیادہ پر امن تحریکات کامیاب رہی ہیں جبکہ پر تشدد تحریکوں کی کامیابی کی شرح بہت کم ہے۔ ۱۰؎

جدید دور میںریاستوں کے پاس، ترقی یافتہ اسلحہ، منظم فورس اور کمیونکیشن اور حمل و نقل پر غیر معمولی کنٹرول کی صورت میں بے پناہ قوت موجود ہوتی ہے۔ عام لوگوں کے لیے اس کا مقابلہ ممکن نہیں ہوتا لیکن ریاست اور اس کی قوت بھی رائے عامہ کے سامنے مجبور ہوتی ہے۔ اس لیے پر تشدد تحریک کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

پر تشدد تحریک کو منتشر کرنا نہایت آسان ہوتا ہے جبکہ پر امن تحریک آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔ وہ مسلسل جاری رہتی ہے اور نئے نئے روپ اختیار کرتی رہتی ہے۔ اس کے تسلسل کی وجہ سے سماج کے بااثر عناصر بھی دھیرے دھیرے ظالم قوتوں کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔

اگرمعمولی درجہ کا بھی تشدد شامل ہوجائے تو اس سے تحریک کو کچلنا اورختم کرنا نہایت آسان ہوجاتا ہے۔اس لیے موجودہ دور میں دنیا کی ظالم قوتیں خود یہ کوشش کرتی ہیں کہ اُن کے خلاف تحریک مزاحمت ، پر تشدد ہوجائے یا اس میں متشدد عناصرداخل ہوجائیں جو خون خرابے کی طر ف تحریک کو موڑ سکیں۔

اسلام نے عام لوگوں کے لیے ، عام حالات میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے مسلح کوششوں کو پسند نہیں کیا ہے بلکہ پر امن مزاحمت کو ترجیح دی ہے۔ بعض مصنفین نے تو یہ بات تک لکھی ہے کہ گاندھی جی نے عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کا جو ماڈل دیا تھا وہ اسلام سے متاثر تھا۔۱۱؎

پر امن مزاحمت کے جو طریقے اور اصول ہم کو اسلام کی تعلیمات میں ملتے ہیں، اس کی کچھ تفصیل نیچے درج کی جارہی ہے۔

پر امن مزاحمت کی پہلی اوربنیادی شکل یہ ہے کہ ظلم کو ظلم کہا جائے۔ حکمرانوں کو ظلم سے باز رہنے کی تلقین کی جائے۔ اُن کے غلط رویوں پر تنقید کی جائے اور اس بات کی پروا نہ کی جائے کہ اس حق گوئی کے نتیجہ میں کن مصائب و مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَفْضَلُ الْجِهَادِ كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِر۔ (نبی کریم ﷺ نے فرمایا: افضل جہاد ایک ظالم حکمران کے سامنے سچی بات کہنا ہے۔)۱۲؎

عام حالات میں شریعت نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ لوگوں کی برائی علانیہ بیان کی جائے یا اس کا چرچا کیا جائے لیکن مظلوم کو اس کی اجازت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا۔(النساء ۔۱۴۸) (خدا اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور خدا (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔)

تفسیر احسن البیان میں اس کی تشریح میں کہا گیا ہے۔

‘‘شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ۔ اسی طرح کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ ایک تو برائی کا ارتکاب ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے پردے کے اندر ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا اسے سرعام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے۔ البتہ اس سے الگ ہے کہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ جس سے ایک فائدہ یہ متوقع ہے کہ شائد وہ ظلم سے باز آجائے اور اس کی تلافی کی سعی کرے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے لوگ اس سے بچ کر رہیں۔’’

بعض لوگوں نے اس آیت سے احتجاج کے جدید طریقوں کے حق میں استدلال کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر ؒنے اسی آیت کی تشریح میں وہ مشہور واقعہ نقل کیا ہے جو احتجاج کی جدید شکلوں سے بہت قریب ہے ۔

رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے اپنے پڑوسی کے خراب رویے اوراس کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں کی شکایت کی۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ نے اسے صبر کی تلقین کی۔ متعدد دفعہ شکایات سننے کے بعد ، ابوہریرہ ؓ سے مروی روایت میں کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایاکہ اپنے سامان لے کرراستے پر آجائو۔ راوی کہتے ہیں لوگ راستے سے گزرتے اوراس پر (پوراواقعہ سن کر پڑوسی کو تکلیف پہنچانے والے پر )لعنت کرتے۔ (یہاں تک یہ خبر ستانے والے پڑوسی تک پہنچی اور اسے معلوم ہوا کہ ہر طرف لوگ اس کو لعنت ملامت کررہے ہیں تو) اس نے خودآکر اپنے پڑوسی کاسامان اٹھا یا اور کہا

ارْجِعْ لَا تَرَى مِنِّي شَيْئًا تَكْرَهُهُ واپس چلیے آئندہ آپ کو مجھ سے کوئی ناگوار بات دیکھنے کو نہیں ملے گی۔۱۳؎

ظلم کی موجودہ شکل

قارئین یہ بات سمجھ ہی چکے ہوں گے کہ اس بحث کا اصل پس منظر احتجاج و مزاحمت کا وہ سلسلہ ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں جاری ہے۔ اب یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آگئی ہے کہ فرقہ پرست قوتیں اس ملک کے مسلمانوں پر مختلف طریقوں سے عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتی ہیں اور بالآخر ان کی شہریت کو مشکوک بنانا چاہتی ہیں۔ ہم نے اپنی کتاب‘بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر ’میں تفصیل سے بحث کی ہے کہ ہر ظالم کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ علانیہ یا پوشیدہ طور پر اور شعوری یا غیر شعوری طور پر، انسانوں کی تقسیم کے فلسفہ میں یقین رکھتا ہے۔۲۰؎  انسانوں کو تقسیم کرکے کچھ انسانوں کو ذات، رنگ، نسل، یا طبقہ کی بنیاد پر ‘اپنا ’ یا اپنے جیسا سمجھا جاتا ہے اور باقی کم زور انسانوں کو ‘غیر’ سمجھا اور باور کرایا جاتا ہے۔ ہم دردی اور انسانیت کے سارے جذبات ‘اپنوں’ تک محدود کرالیے جاتے ہیں۔ ‘غیر’ کے سلسلہ میں جذبات ویسے ہی ہوتے ہیں جیسے عام طور پر جانوروں کے سلسلہ میں ہوتے ہیں۔ ان کی موت یا ان کی اذیتوں پر کسی حساس دل آدمی کو درد ہو بھی تو بس اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کسی جانور کی تکلیف پر ہوسکتا ہے ۔ظلم کی اس نفسیات پر بھی قرآن مجید نے روشنی ڈالی ہے۔إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ۔وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ ۔ وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ۔(سورۃ القصص؛ آیت ۴ ) (واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا، اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو جیتا رہنے دیتا تھا فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھااور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے اور انہیں پیشوا بنا دیں اور انہی کو وارث بنائیں۔ اور زمین میں ان کو اقتدار بخشیں اور ان سے فرعون و ہامان اور ان کے لشکروں کو وہی کچھ دکھلا دیں جس کا انہیں ڈر تھا۔)

اس طرح شہریت کے غیر منصفانہ قوانین اور اس کے ثبوت طلب کرنے کے نا معقول طریقوں کا ایک مقصد ملک کے عوام کے درمیان اس تفریق کو پیدا کرنا اور اس کے ذریعہ ظلم کی راہ ہم وار کرنا ہے اور دوسرامقصد اسلام کی نظریاتی طاقت کے آگے بند باندھناہے۔ اس وقت اسلام مخالف طاقتوں پر اسلام سے خوف یا اسلامو فوبیا کا جو اثر ہے، اس کی وجہ سے وہ اسلام کے وجود کو کم زور سے کم زور ترکرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ وہ چاہتے ہیں کہ بالآخر، شہریت اور بنیادی حقوق ، اسلام اور اسلامی تشخص سے دستبرداری کے ساتھ مشروط ہوجائیں۔ یہ دھمکی کہ ہمارے درمیان رہنے کے لیے تمہیں اپنا دین بدلنا ہوگا، اسلام کے مقابلہ میں باطل طاقتوں کابہت پرانا حربہ ہے۔ شعیب علیہ السلام کی قوم کے بارے میں کہا گیا۔قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يَا شُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا۔(سورۃ الاعراف ۸۸)(اس کی قوم کے سرداروں نے، جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، ا س سے کہا کہ ‘‘اے شعیب، ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا۔’’ )  لوط علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی دھمکی دی:فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ۔ (سورۃ النمل ؛ آیت ۵۶)(مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا ‘‘نکال دو لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے، یہ بڑے پاکباز بنتے ہیں۔’’ )

خود نبی کریم ﷺ کے بارے میں قرآن کہتا ہے۔ وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذًا لَا يَلْبَثُونَ خِلَافَكَ إِلَّا قَلِيلًا۔ (سورہ بنی اسرائیل ؛ آیت ۷۶) (اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمہارے قدم اِس سر زمین سے اکھاڑ دیں اور تمہیں یہاں سے نکال باہر کریں لیکن اگر یہ ایسا کریں گے تو تمہارے بعد یہ خود یہاں کچھ زیادہ دیر نہ ٹھیر سکیں گے۔)

تحریک اسلامی اور ظلم کی مزاحمت

اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ صورت اہل اسلام کے لیے کوئی نئی آفت نہیں ہے۔ ظلم کی اس شکل اور دیگر شکلوں سے اکثر انبیاء علیہم السلام کا سامنا ہوا۔ انہوں نے اس کے مقابلے میں جس رد عمل کا مظاہرہ کیا وہی ہمارا بھی رد عمل ہونا چاہیے۔

ہم اوپر کی سطروں میں واضح کرچکے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ظلم کو صاف صاف ظلم کہا۔ ظالم کو روکنے کی جو ممکن کوشش ہوسکتی تھی وہ کوشش کی۔ یہ کوشش ان کے مشن کا تقاضا تھی۔ جس دعوت کے وہ علم بردار تھے اُس کی عملی شہادت کا ذریعہ تھی۔

آج بھی اسلامی تحریک اپنے اطراف و اکناف ہورہے ظلم سے بے خبر اور بے تعلق نہیں رہ سکتی۔ یہ اس کے مزاج و منہج کے خلاف بات ہوگی۔ خاموشی اور لاتعلقی ایک معکوس عملی شہادت ہوگی، جو اُن اصولوں اور قدروں سے متصادم ہوگی جن کی تحریک داعی ہے۔ اسلامی تحریک کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ صاف صاف ظلم کو ظلم کہے۔ اُسے بے نقاب کرے۔ اس کے خلاف رائے عامہ ہم وار کرے۔ ظلم کے خلاف یہ واضح موقف تحریک کی اصولی دعوت کی تفہیم و تشریح اور اس کے ذریعہ رائے عامہ کی تربیت کا بھی ذریعہ ہوگا۔

دوسری بات یہ ہے کہ ظلم اور حق تلفی کے خلاف یہ مزاحمت لازماً پر امن اور ہر طرح کے تشدد سے پاک ہوگی۔ تحریک نہ تو خود کسی بھی طرح کے تشدد کا کسی حال میں حصہ بنے گی اور نہ تشدد پر مبنی کسی تحریک سے اپنا رشتہ جوڑے گی۔ اور یہ احتیاط بھی کرے گی کہ اس کی تحریک کو شر پسند عناصر پر تشدد رخ نہ دینے پائیں۔

تیسری بات؛ تحریک کی اصل دعوت اسلام کی دعوت ہے۔ ظلم کے خلاف مزاحمت میں بھی وہ نہ کوئی ایسی بات کہے گی اور نہ کوئی ایسا عملی رویہ اختیار کرے گی جو اسلام کی تعلیمات سے متصادم ہو۔ جنگ کے دوران بھی قبائلی عصبیتوں پر مبنی جاہلی نعروں کو اللہ کے رسول ﷺ نے پسند نہیں فرمایا۔

وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ، أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ، أَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً، فَقُتِلَ، فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ۔   اور جس نے  اندھیرے میں رہتے ہوئےانجانے پرچم تلے جنگ کی، عصبیت کی وجہ سے غصہ میں آیا؛یا جس  نے عصبیت کی طرف دعوت دی،یا جس نے عصبیت کے کام میں مدد کی اور مارا گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔۱۴؎  دشمنوں کے ساتھ بھی نا انصافی سے باز رہنے کی قرآن نے تاکید کی۔ (سورۃ المائدۃ؛ آیت ۸) یہ انتہائی احتیاط ضروری ہے کہ ظلم کے خلاف مزاحمت فرقہ وارانہ کشمکش میں نہ بدلے اور تحریک ایک فرقہ پرست گروپ کی صورت میں سامنے نہ آئے اور نہ ہی ایسا ہو کہ دیگر امن پسند سیکولر طاقتوں سے تعاون و اشتراک کے نتیجہ میں ہماری اصولی دعوت گم ہوجائے اور ہم طبقاتی کشمکش کے ایک فریق بن جائیں۔ ہم نہ فرقہ پرستی کو صحیح سمجھتے ہیں اور نہ طبقاتی کشمکش کو ۔ ہم سارے انسانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور ایک خدا کی بندگی کے داعی ہیں۔ اس حقیقت پر ایک لمحہ کے لیے بھی پردہ پڑتا ہے تو یہ تحریک کے لیے باعث نقصان ہوگا۔

چوتھی اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ ظلم کی مزاحمت ، تحریک کے اصل اور مستقل کام میں اضمحلال یا اس سے انحراف کا ذریعہ بننے پائے، یہ احتیاط بھی سختی سے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اسلام مخالف طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور شرارتوں کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ حق و انصاف کی حامل قوتیں ان میں الجھ کر رہ جائیں اور اپنے اصل کام سے غافل ہوجائیں۔ اللہ کے دین کی دعوت، امت مسلمہ کی اصلاح اور اس کی تعمیر و ترقی کی کوشش اور انسانوں کی خدمت اور ان کے دلوں کو جیتنے کی کوشش، تحریک اسلامی کا مستقل ایجنڈا اور اس کا اصل کام ہے۔ حقیقی، مکمل اور پائیدار عدل ، اسی راستہ پر صبر و استقامت کے ساتھ آگے بڑھنے کے نتیجہ میں حاصل ہوسکتا ہے۔ اس لیے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ راستہ کی وقتی رکاوٹیں ، اصل راستہ سے منحرف نہ کرنے پائیں۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نسل پرستانہ تعذیب پر مبنی، ظلم کی نہایت بدترین صورت حال کے درمیان بھی جو اصل کام دیا گیا تھا وہ دعوت الی اللہ ہی کا کام تھا چنانچہ حکم دیا گیا کہ اذْهَبْ أَنْتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي۔(سورۃ طہ، آیت ۴۲ ) (تم اور تمہارا بھائی (ہارون) میری نشانیاں لے کر جاؤ اور میرے ذکر میں سستی نہ کرنا۔) نبی کریم ﷺ کو بار بار تاکید کی گئی کہ لوگوں کی ایذا رسانیوں کی پروا کیے بغیر آپ دعوت حق کاکام انجام دیتے رہیں۔ اور آپ ﷺ کا اسوہ بھی یہی ہے کہ چاہے شعب ابی طالب کی گھاٹی ہو یا ہجرت کا صبر آزما سفر، آپ کی دعوتی جدوجہد کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی کم زور نہیں ہوئی۔ آج بھی ہمارے لیے یہی راستہ ہے کہ ظلم کے خلاف، ہم آواز لازماً بلند کریں اور اس کا بھر پور مقابلہ بھی کریں لیکن اپنے اصل اور بنیادی کام سے کبھی دستبردار نہ ہوں۔

حواشی و حوالہ جات

۱۔تفہیم القرآن، جلدچہارم، سورۃ الشوریٰ، حاشیہ ۶۳

۲۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی؛حجۃ اللہ البالغہ، جلد دوم؛ دارالجیل، بیروت، ۲۰۰۵؛ ص ۲۳۴

۳۔ سنن الترمذی؛کتاب الفتن عن رسول اللہ؛ باب ماجاء فی نزول العذاب؛رواہ ابی بکرالصدیقؓ؛صححہ الالبانی

۴۔سنن ابی داود؛ کتاب الملاحم، باب الامر و النھی، رواہ عبد اللہ بن مسعودؒ؛

۵۔صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام؛ روایت خباب بن الارت ؓ

۶۔ طبقات ابن سعد 1/129

۷۔البدایۃ و النہایۃ، الجزء السابعِ؛ غزوۃ القادسیۃ

۸۔رواہ الحاکم  3/215، و صححہ الالبانی

۹۔اس موضوع پر گہرائی سے مطالعہ کے لیے ملاحظہ فرمایئے ایک دلچسپ کتاب

Chenoweth Erica and Stephen Maria J.; Why Civil Resistance Works:The Strategic Logic of Non Violent Conflict; Columbia University Press; New York; 2011

Chenoweth Erica and Stephen Maria J.;”How the World is Proving Martin Luther…” in Washington Post, January 18, 2016

۱۰۔Chatterjee Margaret; Gandhi and the Challenge of Religious Diversity; Promilla and Co Publishers; New Delhi; 2005; pages 119 onwards.

۱۱۔ سنن ابی داود؛ کتاب الملاحم؛ باب الامر و النھی، رواہ ابی سعید خدریؒ، وصححہ الالبانی۔

۱۲۔ابو داود کتاب الادب، باب فی حق الجوار ،الالبانی حسن صحیح۔ اور ابن کثیر (تحقیق: سامی بن محمد السلامہ)؛ تفسیر القرآن العظیم؛ الجزء الثانی؛ دار طیبۃ لنشر والتوزیع؛الطبعۃ الثانیۃ؛  الریاض؛ الجزء الثانی؛ ص۴۴۴

۱۳۔سید سعادت اللہ حسینی؛بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر؛ ہدایت پبلی کیشنز ؛ نئی دہلی، ۲۰۱۹؛ ص۸۰ تا ۸۵

۱۴۔صحیح مسلم؛ کتاب الامارۃ؛ باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہور الفتن؛ رواہ ابی ہریرۃ

مشمولہ: شمارہ فروری 2020

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau