معلم اپنے شاگردوں کو معلومات، فراهم كرنے، معانی ومطالب کو سکھانے اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے جوذرائع اختیار کرتا ہے انهیںوسيلہ تعلیم کہا جاتا ہےـ عہد قدیم سے مختلف وسائل کا استعمال ہوا ہے، قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں قابیل اور ہابیل کا واقعہ مذکور ہے، قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو ناحق قتل کردیا ،لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اپنے بھائی ہابیل کی نعش کو کیاکرے، پھر اللہ تبارک وتعالی نے ایک کوّے کو بھیجا اس کوّے نے اپنی چونچ اور پنچوں سے زمین میں گڑھا کھودا اور اس میں مرے ہوئے دوسرے کوّے کو دفن کردیا ۔ اس طرح قابیل کو عملی مشاہدہ کے ذریعہ معلوم ہوا کہ ہابیل کی نعش کو زمین میں گڑھا کھود کر دفن کردینا چاہئے، چنانچہ اس نے ایک گڑھا کھودا ، اور اس میں اپنے بھائی ہابیل کی نعش کو دفن کردیا۔ارشاد باری تعالی ہے :
’’فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِين‘‘ (المائدة: 30-31)
آخرکار اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کردیا اور اس نے اس کو قتل کرڈالا جس سے وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگیا۔ پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ کہ کس طرح وہ اپنے بھائی کی نعش کو چھپادے ۔ وہ کہنے لگا ہائے افسوس میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی نعش کو دفنا دیتا پھر وہ اپنے کئے پر بہت پچھتایا۔
بہترین معلم
تاریخ کے مختلف ادوار میں لوگوں نے اپنے بچوں کو زراعت، تجارت، صناعت اور جنگی رموز وغیرہ سکھانے کے لئے مختلف اسالیب و ذرائع کو اختيار کیا ہے۔ وسائل تعليم كے لحاظ سے دور نبوی ایک عظیم مثالی دور رہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہترین معلم ہیںـ معاویہ بن الحَکم السُلمی رضی اللہ عنہ كا قول ہے: ’’ میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں ۔مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر معلم نہیں ملا‘‘ (مسلم 537)
قرآن وحدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بحیثیت معلم مبعوث کئے جانے کا ذکر ہےـ اللہ تعالی کا ارشا دہے :
’’هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ‘‘ (الجمعة 2).
وہی ہے جس نے امیوں کے اندر ایک رسول خود انہیں میں سے بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنی امت کو اس ذمہ دای کے بارے میں خبر دی ہے’’یقینا الله نے مجھے لوگوں کو جھڑکنے کے لئے مبعوث نہیں فرمایا بلکہ مجھے لوگوں کے لئے آسانی پیداکرنے والا معلم بناکر بھیجا ہے‘‘(احمد ۱۴۵۱۵)۔
عہدِ نبوی میں تعلیم کا خوب اہتمام کیا گیا ،لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی طورپر اصلاح کی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے مختصر مدت میں عہد نبوی کا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی تعلیم وتربیت کے لئے مختلف وسائل کا استعمال کیا، ان میں سے چند وسائل کی طرف اس مضمون میں اشارہ کیا گیا ہے ۔
لكيروں اور شکلوں كا استعمال :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر مختلف مسائل کو اچھی طرح سمجھانے کی خاطر لکیریں کھینچ کر اور مختلف شکلیں بنا کر وضاحت فرمایا کرتے تھے، تاکہ صحابہ کرام کو بات اچھی طرح ذہن نشیں ہوجائے، اس سلسلے میں چند احادیث پیش کی جا رہی ہیںـ
قربِ موت اور دراز آرزؤں کو سمجھانے کے لئے لکیریں کھینچنا:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مربع شکل بنائی اور اس کے درمیان سے ایک لکیر کھینچی جو اس سے باہر نکلی ہوئی تھی اور اس مربع شکل کے درمیانی لکیر کی طرف چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے اور فرمایا: یہ آدمی ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اس کو گھیرے ہوئے ہے، اور وہ خط جو باہر نکلا ہوا ہے اس کی دراز آرزوئیں اور امیدیں ہیں، اور چھوٹی چھوٹی لکیریں مصائب ہیں، اگر وہ ایک سے نکلتا ہےتو دوسری میں گرفتارہوجاتا ہے، اور دوسری سے نکلتا ہےتو تیسری میں گرفتار ہوجاتا ہے۔‘‘
اس حديث شريف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےصحابہ کرام کو ایک مربع شکل بناکر یہ بات سمجھائی کہ انسان اور اس کی دراز آرزؤں وامیدوں کے درمیان موت یا مختلف مصائب حائل ہوجاتی ہیں ۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا: حدیث میں وارد لفظ ’’هَذَا الإِنْسَانُ یعنی یہ انسان ہے‘‘ درمیانی نقطہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ کے الفاظ یعنی یہ اس کی موت ہے جو اس کو گھیرے ہوئے ہے سے مراد مربع شکل ہے ۔ اور مربع شکل سے باہر نکلی ہوئی لمبی لکیر اس کی آرزوئیں ہیں اور لمبی لکیر سے متصل چھوٹی چھوٹی لکیریں مصائب واعراض ہیں جس میں انسان گرفتار رہتا ہے ۔ (فتح الباری ۱۱/۲۳۸)
راہ حق اور طاغوتی راہوں کو سمجھانے کے لئے خطوط کھینچنا:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
’’حضور اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا : یہ اللہ کا راستہ ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دائیں اور بائیں جانب لکیریں کھینچیں پھر فرمایا: یہ راہیں ہیں ان میں سے ہر راہ پر شیطان بلارہا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی ایک آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے ‘‘اور یقینا یہ میری راہ ہے جو سیدھی ہے تم اس پر چلو اور دوسروں کی راہوں پر مت چلو وہ تمہیں سیدھی راہ سے بھٹکا دینگے‘‘۔
اس حديث ميں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو باخبر کیا کہ راہ حق ایک ہے اور وہ صراط مستقیم ہے ضلالت وگمراہی کےبے شمار راستے ہیں اور وہ شیطانی راہیں ہیں اس بات کو سمجھانے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لکیروں کا استعمال کیا۔
امام طیبی اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھانےاور ذہن نشیں کروانے کے لئے لکیریں کھینچیں کیونکہ مخفی معانی کو بیان کرنے اور پوشیدہ رموز کی توضیح کی غرض سے تصویر وتمثیل استعمال کی جاتی ہے تاکہ وہ مرئی اور محسوس چیزوں کی طرح آشکار ہوجائیں اور بات سمجھنے میں انسانی عقل کی مدد کریں (شرح الطیبی علی مشکاة المصابيح 2/635).
ڈاکٹر یوسف قرضاوی لکھتے ہیں : اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ انعام کی دس وصیتوں میں سے آخری وصیت کی توضیح وتفسیر بیان کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی تفسیر ہی کا سہارا نہیں لیا، بلکہ آیت کا مفہوم سمجھانے کے لئے بلیک بورڈ کی جگہ پر زمین پر پڑی ہوئی ریت کا استعمال کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریت پر ایک سیدھی لکیر کھینچی اور صراط مستقیم کا مفہوم سمجھایا، اس لکیر سے ٹیڑھی میڑھی دائیں بائیں مختلف لکیریں کھینچیں اور فرمایا کہ یہ شیطانی راہیں ہیں، اور پھر اس عملی توضیح کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی ایک آیت تلاو ت فرماتے ہیں جس سے سامعین کے دل ودماغ میں ایک گہرا اثر پڑتا ہے آیت کا مفہوم سمجھنے میں کان اور آنکھ دونوں کا بیک وقت استعمال ہورہا ہےـ (الرسول المعلم ص ۱۴۰)
چار خواتین کی فضیلت چار لکیروں کی مدد سے سمجھانا
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں پھر فرمایا : تم جانتے ہو یہ کیا ہے صحابہ کرام نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنتی عورتوں میں سب سے فضیلت والی عورتیں خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد ،مریم بن عمران، اور فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم ہیں‘‘۔
اس حديث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار جنتی عورتوں کی فضیلت بیان کرنے کے لئے چار لکیریں کھینچیں تاکہ یہ بات لوگوں کے دل ودماغ میں راسخ ہوجائے ۔
لمبی آرزؤں اور قرب موت کو سمجھانے کے لئے لکڑیوں کا استعمال کرنا:
ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’حضو اكرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین میں ایک چھڑی اپنے سامنےگاڑی ، دوسری اس کے قریب اور تیسری زیادہ دور، پھر فرمایا:تم جانتے هو یه كیا هے؟ صحابه نے فرمایا الله اور اس كے رسول بهتر جانتے هیں، رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا : یہ انسان ہے اور یہ اس کى موت ہے اور یہ تمناؤں کو پانے کی کوشش ہے لیکن تمناؤں کی تکمیل سے پہلے ہی موت اس کو آپہونچتی ہے‘‘۔
اس حديث شريف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو لمبی امیدوں اور موت کے قرب کی حقیقت تین چھڑیوں کو زمین میں گاڑ کر سمجھائی تاکہ نصيحت بالکل سمجھ میں آجائے ۔
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم کو سمجھانے کے لئے دوسرا ذریعہ اختیار کیا۔
انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین پتھر لیے، ایک پتھر رکھا پھراس کے سامنے دوسرا پتھر رکھا اور تیسرا پتھر دور پھینک دیا اور فرمایا: یہ ابن آدم ہے یہ اس کی موت ہے اور دور پھینکا گیا پتھر اس کی آرزو ہے ۔
اس حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تنبیہ کردی کہ امیدوں کی تکمیل سے قبل موت کی تیاری کرلو، اور اس کے لئے تین پتھروں کا استعمال کیا ،پہلا اور دوسرا پتھر قریب قریب رکھا، جس سے مراد انسان اور اس کی موت ہے اور تیسرا پتھر دور پھینک دیا جس سے مراد انسان کی آرزوئیں ہیں انسان آرزئوں کی تکمیل میں منہمک رہتا ہے اور اچانک وہ موت کا شکار ہوجاتا ہےـ۔
ان احاديث کی روشنی میں معلم کو چاہیے کہ بچوں کو سمجھانے کے لئے، شکلوں ، ڈائیگرام اور نقشوں کا بکثرت استعمال کریں کیونکہ یہ ساری چیزیں تعلیم وتعلم میں مفید اور کارآمد ہیں۔
آج مغربی ماہرین تعلیم ان وسائل کے استعمال پر زور دے رہے ہیں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے ہی ان کی طرف اشارہ فرمادیا ہے۔
حقیقی اشیاء و وسائل تعلیم کے طور پر استعمال کرنا
حقیقی اشیاء سے مراد کسی چیز کو بغیرکسی ردو بدل کے اس کی حقیقی شکل میں پیش کرنا ہوتا ہے جیسے جنگل میں شیر کا مشاہدہ کرنا وغیرہ۔ اس کا شمار اہم وسائل تعلیم میں ہوتا ہے، اگر معلم اپنے متعلمین کو کسی خاص چیز کے ہیئت وساخت کے بارے میں گھنٹوں سمجھاتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ ہر باریک چیز کو تفصیل سے نہ سمجھا سکے، لیکن ا س کے برخلاف معلم اسی حقیقی چیز کو متعلمین کے سامنے پیش کردے تو معلم ہر چیز کو تفصیل سے سمجھا سکتا ہے، اس کی گفتگو وزن دار ہوگی، اس کے اندر اعتماد پیدا ہوگا، ساتھ ہی ساتھ طلبہ بھی درس سے محظوظ ہونگے ان کے اندر درس کے تئیں شوق پیدا ہوگا ذہنی طور پر تیار رہیں گے اور بآسانی درس کو سمجھ جائیں گے۔
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کرام کو سمجھانے کے لئے حقیقی اشیاء کا استعمال کیا ۔ اس سلسلے میں چند احادیث پیش کی جاررہی ہیں۔
حقیقی ریشم اور سونا دکھا کرکے اس کا حکم بتلانا
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’نبی كریم صلی الله علیه وسلم نے ریشم كو اپنے دائیں هاتھ میں ركھا اور سونا لے كر اسے اپنے بائیں هاتھ میں ركھاپھرفرمایا یه دونوں چیزیں میری امت كے مردوں پر حرام هیں‘‘۔(ابو داود ۴۰۵۷)
اس حديث شريف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو شوق دلانے ، اپنی طرف متوجہ کرنے اور ذہنی طور پر تیار کرنے کے لئے ریشم اور سونا کو ذریعہ تعلیم کےطور پر استعمال کیا تاکہ بات بالکل واضح ہوجائے، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہاتھ میں ریشم اور دوسرے ہاتھ میں سونا لیکر منبر پر چڑھنے لگے تو صحابہ کرام متوجہ ہوگئے اور ان کے اندر یہ جاننے کی جستجو پیدا ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ریشم اور سونے کے بارے میں کیا حکم فرمانے والے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں چیزیں میری امت کے مَردوں پر حرام ہیں ۔ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھ کرکےصرف زبانی حکم صادر فرمادیتے تب بھی صحابہ کرام آپ کی بات کو سمجھ جاتے، کیونکہ ریشم اور سونا سے وہ لوگ اچھی طرح واقف تھےـ لیکن ریشم اور سونا دکھاکر رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے صحابہ کرام کو تعلیم دی تاکہ بات بالکل ذہن نشین ہوجائے ۔
اس میں معلمین کے لئے یہ نصیحت ہے کہ کلاس روم میں طلبہ کو سمجھانے کے لئے اس اسلوب کو اختیار کریں تاکہ طلبہ کے اندر پڑھنے کا شوق پیدا ہواور درس سمجھنے میں انہیں آسانی ہو۔
جمرات کو مارنے کے لئے استعمال ہونے والی کنکریاں دکھاکر مسئلہ سکھانا:
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جمرہ عقبہ کو رمی کرنے کے دن صبح کے وقتحضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سےکہا: میرے لئے کنکریا ں چن دو ، میں نےکنکریاں چن دیں جو انگلیوں میں پکڑکر پھینکنے کے قابل تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِن جیسی کنکریا ں مارو، پھر فرمایا : دین میں غلو کرنے سے پرہیز کرو‘‘۔ (ابن ماجہ ۳۰۲۹، النسائی ۳۰۵۷)
اس حديث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کوان کنکریوں کا سائز بتانا چاہاجو حج کے موقع پر جمرات کو مارنے کے لئے استعما ل ہوتی ہیں، اس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے اعلی اور ارفع اسلوب اختیار کیا ۔ کنکریاں اپنے ہاتھ میں لیکر صحابہ کرام کی آنکھوں کے سامنے پیش کردیں پھر فرمایا کہ اسی طرح کی کنکریاں جمرات کو مارنے کے لئے استعمال کرواور دین میں غلو سے بچتے رہو۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ اگست 2019