تکریم انسانیت اور وحدت بنی آدم

دعوتی نقطئہ نظر سے (1)

جماعت اسلامی ہند کی میقاتی دعوتی پالیسی میں وحدت بنی آدم ‘ تکریم انسانیت اور انسانی مساوات کے اسلامی تصورات کی وضاحت کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے ۔ ان تصورات کو برادران وطن پر واضح کر تے ہوئے انہیں رنگ و نسل اور زبان و علاقہ کی عصبیتوں سے آزاد کرانا مقصود ہے ۔ ان تصورات میں تکریم انسانیت ہمارے اظہار خیالات کا محرک ہے ۔عربی لغت کی رو سے کرامَۃً کے معنیٰ بزرگی اور فضیلت کے ہیں ۔ انگریزی میں اِسے Having greater regard ‘ To be generous اور Honour کے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے ۔ قرآن کریم میں تخلیق آدم اور آ دم و ابلیس کی ازلی مخاصمت کی وجہ بھی یہی مسئلہ بنا جسکا اظہار ابلیس کی زبانی یہ معلوم ہوا :۔

قَالَ أَرَ‌أَيْتَكَ هَـٰذَا الَّذِي كَرَّ‌مْتَ عَلَيَّ ۔ ﴿سورہ بنی اسرائیل : ۶۲﴾

پھر وہ﴿ ابلیس﴾ بولا ’’ دیکھ تو سہی’ کیا یہ اس قابل تھا کہ تو نے اسے مجھ پر فضیلت دی ‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم اور خلافت ارضی کے حوالے سے ملائکہ اور اجنّا پر فضیلت دی تھی اور انہیں آدم کو سجدہ کر نے کی ہدایت ﴿حکم﴾ دی تھی جس سے ابلیس نے سرتابی کی ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی آدم کو تمام مخلوقات پر جو فضیلت دی وہ بھی مذکورہ پہلو سے اہمیت کی حامل ہے :

وَلَقَدْ كَرَّ‌مْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ‌ وَالْبَحْرِ‌ وَرَ‌زَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ‌ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ۔ ﴿سورہ بنی اسرائیل : ۷۰﴾

’’ یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو ’’ بزرگی دی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی ‘‘۔

اس آیت کی تفسیرمیں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ  لکھتے ہیں:

’’ یعنی یہ ایک بالکل کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ نوع انسان کو زمین اور اسکی اشیائ پر اقتدار کسی جن یا فرشتے یا سیارے نے نہیں عطا کیا ہے نہ کسی ولی یا نبی نے اپنی نوع کو یہ اقتدار دلوایا ہے۔  یقینا یہ اللہ ہی کی بخشش اور اسکا کرم ہے ۔ پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور جہالت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اس مرتبے پر فائز ہو کر اسکی مخلوق کے آگے جُھکے ‘‘۔ ﴿تلخیص تفہیم القرآن،ص:۴۶۱﴾

اس کھلی ہوئی حقیقت کا ادراک جب جب دھندلا پڑا انسان بت پرستی‘ شرک ‘ آبا واجداد کی اندھی تقلید بلکہ آباپرستی میں مبتلا ہو تا رہا اور اب بھی انسانیت کا بہت بڑا حصہ ان گمرا ہیوں میں مبتلا ہے ۔ سلسلہ رسالت اور ختم المرسلین کی بعثت کا مقصد دراصل گمراہ انسانوں کو راہ راست دکھلانا تھا اور اُمت آخر الزماں کا مشن بھی یہی ہے کہ کار رسالت کا جو فریضہ اس پر عائد ہے اس کا حق ادا کر تی رہے ۔ اس کو جو فضیلت ملنی ہے وہ کار رسالت کی ادائی سے مشروط ہے ۔اسی لئے قرآن مجید بھی اس امر حق کا دو ٹوک اظہار کر تا ہے کہ معیار کرامت و فضیلت تقویٰ و پرہیز گاری  ہے:

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                               ﴿سورہ حجرات ۱۳﴾

’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے‘‘۔

اس آیت میں انسان اور انسان کے درمیان فضیلت اور برتری کی بنیاد صرف اخلاقی فضیلت کو قرار دیا گیا ہے— پیدائش کے اعتبار سے تمام انسان یکساں ہیں ۔ اصل چیز جس کی بنائ پر ایک شخص کو دوسروں پر فضیلت حاصل ہو تی ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے بڑھ کر خدا سے ڈرنے والا‘ برائیوں سے بچنے والا اور نیکی و پاکیزگی کی راہ پر چلنے والا ہو ۔

اس لحاظ سے تمام انسان بس دو ہی حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ ایک نیک اور پرہیز گار ‘ جو اللہ کی نگاہ میں عزت والا ہے ۔ دوسرا فاجر اورشقی جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہے۔ ورنہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا تھا ۔﴿ترمذی﴾

انسانیت کی فضیلت اور اس کی معراج اسکا اخلاقی وجود ‘ تقویٰ و پرہیزگاری تو ہے ہی اس کی بہترین تخلیق اور اعلیٰ جسمانی قویٰ اور ساخت بھی ہے جو دیگر حیوانات پر اسکو فوقیت عطا کرتی ہے ۔

لَقَدْ خَلَقْنَاالاْنَسانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیم۔ ﴿سورہ التین ۔۴﴾

’’ہم نے انسان کو بہتر ین ساخت پر پیدا کیا ‘‘۔

انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کر نے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو وہ اعلیٰ درجے کا جسم عطا کیا گیا، جو کسی دوسری جاندار مخلوق کو نہیں دیا گیا اور اسے فکر و فہم اور علم و عقل کی وہ بلند پایہ قابلیتیں بخشی گئی ہیں، جو کسی دوسری مخلوق کو نہیں بخشی گئیں ۔ پھر چونکہ نوع انسانی کے اس فضل و کمال کا سب سے زیادہ بلند نمونہ انبیاء  علیہم السلام ہیں اور کسی مخلوق کے لیے اس سے اونچا کوئی مرتبہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اسے منصب نبوت عطا کر نے کیلئے منتخب فرمائے۔ اس لئے انسان کے احسن تقویم پر ہونے کی شہادت میں ان مقامات کی قسم کھائی گئی ہے جو خدا کے پیغمبروں سے نسبت رکھتے ہیں ۔                                                                                                                                   ﴿تلخیص تفہیم القرآن صفحہ ۱۰۲۶﴾

اس مقام ِ فضیلت و کرامت کی جو کوئی انسان یا گروہ انسانیت قدر نہیں کر تا ۔ اپنے ہاتھ سے بنا ئے ہوئے بتوں کی پرستش ‘ ان کے سامنے سرنگوں ہو نا‘ دیگر مخلوقات یا ان کی خیالی تصویروں ‘ مجسموں ھئےّتوں یا ھئیت کذائی کو اپنا مرکز عبودیت یا ماویٰ قرار دے لینا انسانیت کی تذلیل اور اس شرف کی ناقدری ہے جو خالق ارض و سما اور مالک انسان نے اسے عطا کیا تھا ۔

اسی بات کو آیت کے اس ٹکڑے میں بیان کیا گیا ہے :

ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِینَ۔

’’پھراسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا‘‘

یعنی جب انسان اپنے جسم اور ذہن کی طاقتوں کو برائی کے راستے میں استعمال کر تا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے برائی ہی کی توفیق دیتا ہے اور گراتے گراتے اسے گراوٹ کی اس انتہا تک پہنچا دیتا ہے کہ کوئی مخلوق گراوٹ میں اس حد کو پہنچی ہوئی نہیں ہوتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جو انسانی معاشرے کے اندر بکثرت مشاہدے میں آتی ہے ۔ حرص ‘ طمع ‘ خود غرضی ‘ شہوت پرستی ‘ نشہ بازی ‘ کینہ پن‘ غیظ و غضب ‘ ظلم و بربریت اور ایسی ہی دوسری خصلتوں میں جو لوگ غرق ہو جاتے ہیں وہ اخلاقی حیثیت سے فی الواقع سب نیچوں سے نیچ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔﴿تلخیص تفہیم القرآن صفحہ ۱۰۲۶﴾

اسی طرح جسمانی ‘ روحانی ‘ اخلاقی اور نفسیاتی برتری کی حامل مخلوق کو نہ تو اپنا تناسلی رشتہ یا ارتقائی درجہ کسی حیوانی دنیا سے جوڑنے کی حاجت ہے نا اجرام فلکی سے اپنے روحانی تعلق کو استوار کر نے کی مجبوری ہے اور نہ دیگر مخلوقات ﴿اجنّا یا فرشتوں ‘ ارواح﴾ سے اپنی حاجت روائی کے لیے دست نگر ہو نے میںبھلائی ہے اور نہ اپنی دنیوی و اخروی حیات و انجام کا معاملہ ان سے کرنے کا ہے ۔ بلکہ اپنے خالق ‘ مالک‘ حاکم و پروردگار کی ہدایت و رہنمائی میں چلنے اور ان کے عطا کردہ مقام و حیثیت کا شعور حاصل کر کے اس کے تقاضے پورا کر نے ہی میں بھلائی ہے ۔اور یہی وہ مقام و حیثیت ہے جسے تکریم انسانیت کہا گیا ہے ۔

تکریم انسانیت عمل کی کسوٹی پر

اسلام نے وحدت بنی آدم ‘ تکریم انسانیت اور انسانی مساوات کے تصورات سے دنیا کو روشناس کرایا تو یہ محض لفظ و بیان کا حسین انداز ‘ فکرو خیال کے سنہری جامے اور فلسفے اور نظریات کی خیالی جنتوں کی سیر و تفریح نہیں تھی۔حقیقت و عمل کے جیتے جاگتے نمونے دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اسلام کے قول و عمل کی یکسانیت کو تسلیم کیا ۔ سیاست و بادشاہت کی دنیا میں انقلاب آگیا ۔ موروثی و خاندانی باد شاہی کے تخت و تاج قصئہ پارینہ ہو گئے ۔ بر صغیر ہند و پاک میں غلامان اور مشرق و سطیٰ‘ مصرو شام میں مملوکوں کے عنوان سے کم و پیش پانچ سو سال غلاموں کی حکمرانی کے نئے ابواب رقم ہوئے ۔ صنف نازک جسے خاندانی عا ر سمجھ کر زندہ درگور کر دیا جاتا تھا اور جنسی ہوا و ہوس کے تحت جس طرح چاہے استعمال کیا جاتا تھا اسلام نے اسے ماں ‘ بیوی‘ بیٹی اور بہن کی شکل میں گھروں کی زینت ‘ ملکہ‘ عزت ووقار کی حامل اور جنت ماں کے پائوں تلے کا مصداق بنا دیا ۔حقوق وراثت و مال و ملکیت میںبرابری کے سلوک اور اللہ کی نظر میں یکساں اجرو استحقا ق کی حامل قرار دیا ۔سماجی ‘ معاشی ‘ سیاسی اور معاشرتی پہلوئوں سے تکریم انسانیت کے تصور سے عدل و انصاف کے دائرے میں بھی دوررس تبدیلیاں آئیں مگر توحید خالص کا تصور ابھارنے میں جدید علوم و انکشافات کے ماہرین میں اس تصور کو اجا گر کرنے کی ضرورت ہے ۔ توہمات کے ازالے ‘ تخلیق کائنات کے پیچھے آئین اسٹائین نے جس THE MIND کا نظریہ پیش کیا تھا اور دنیا کے 50 مشہور سائنسدانوں نے اپنے تجربات  Universe Evidence of God in the expanding  نامی کتاب میں پیش کر دیے ہیں۔ اس پر مزید کام کر نے کی ضرورت ہے ۔ خالق کائنات نے جس نسل انسانی کو اپنی ساری مخلوق میں بر ترمقام دیا وہ تذلیل کے اس مقام پر نظر آئے کہ کیڑے مکوڑوں سے لیکر درندوں تک اور ان کی مختلف عجوبہ شکلوں میں وہ اس کے مرکز پرستش بنے ہوں۔ یہ نہ صرف باعث عبرت ہے بلکہ مضحکہ خیز بھی ہے۔ سائنس داں کسی God Particle یعنی Big Boson کی تلاش میں ہیںجس نے  Big Bang کے لمحے Protons کے ٹکرائو کو Matterمیں تبدیل کر کے وجہ تخلیق کائنات بنایا ۔ یہ تصور اگر چہ بجائے خود باعثِ حیرت ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ذات باری تعالیٰ کو نظر انداز کر کے ڈارون سے لے کر اب تک ہماری سائنسی کھوج ایسے ہی عجوبۂ روزگار و اہمات کی تلاش میں سرگردان ہے ۔ ناطقہ سربہ گریباں ہے اسے کیا کہیے !

اسلام کا تصور توحید خالق کائنات کے ہمہ وقتی احساس پر مبنی ہے ۔قرآن حکیم نے اسے ذکر اللہ ﴿یا د الٰہی ﴾ تقویٰ اللہ ﴿خوف و رجائ کے عالم میں ہمہ دم مشغول یاد باری تعالیٰ ﴾ کہا ہے ۔ کائنات اور انسان کی تخلیقی حکمتوں پر غور و خوض‘ تحقیق و جستجو اور اکتشافات میں ہمیشگی سرگرداں رہنا: ’’کہ یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون‘‘ مظاہر فطرت کا گہرا مطالعہ۔ قوانین فطرت کی وحدانیت وہم آہنگی اگر ان کے اجرا کے سرچشمہ واحدکی گواہی دے رہے ہوں تو یہ ناممکن ہے کہ دانشوران سائنس علم و اکتشاف اس ذات واحد کو معلوم کر لینے سے قاصر رہ جائیں۔ اگر چہ مادہ پرستی نے خالق کائنات ‘ کائنات و فطرت (Nature) اور انسان کے درمیان باہمی رشتہ کی کڑی گم کر دی ہے اور اس میں ملحدین ‘ مادہ پرستوں کی طرح رہبان زدگی ‘اور مذہب پرستوں کی دنیوی قیادت سے محرومی کو بڑا دخل ہے، جنہوں نے تکریم انسانی کی معراج کا مقام کھو کر انسانیت کو توہین و تذلیل کے قعر مذ لتّ میں دھکیل دیا ہے۔ قرآن حکیم ایک مخصوص پیرائے میں تخلیق انسانی کے مختلف مراحل بیان کر کے فرماتا ہے :۔

وَجَعَلَ لَکُمْ السَّمَعَ وَاْلاَبْصَارَ وَالْاَفْیئدَۃَ قَلِےْلاً مَّاتَشْکُروْنَ۔

’’اور تم کو کو کان دیے‘ آنکھیں دیں اور دل دیے تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو‘‘ ۔

مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒ  اس آیت کی تشریح کر تے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ کا نوں اور آنکھوں سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کر تا ہے ۔ اگر چہ حصول علم کے ذرائع ذائقہ‘ لامسہ و شامّہ بھی ہیں لیکن سما عت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں ۔ اسی لئے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیوں کی حیثیت سے پیش کر تا ہے ۔ اس کے بعد دل سے مراد وہ ذہن (Mind) ہے جو حواس کے ذریعے سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کر تا ہے اور اس پر چلنے کا فیصلہ کر تا ہے۔ یہ عظیم القدر انسانی روح اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لئے تو عطا نہیں کی گئی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لئے بس وہی نقشہ زندگی بنالو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لئے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کیلئے ۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کیلئے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے ۔ یہ دل تمہیںاس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کر و‘ نہ اس لئے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کر نے میں صرف کر دو اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریت یا شرک اختیار کر تے ہو‘ جب تم خود خدا یا دوسرے خدائوں کے بندے بنتے ہو ‘ جب تم خواہشوں کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہو جا تے ہو تو گویا اپنے خدا سے کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے ہمیں انسان بنانے کے بجائے تجھے ایک بندر بھیڑیا ‘ مگر مچھ یا ایک کوّا بنانا چاہیے تھا‘‘ ۔ ﴿تفہیم القرآن جلد چہارم ‘ السجدہ ۔ ۹﴾

﴿جاری﴾

مشمولہ: شمارہ اپریل 2013

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau