قوموں کے عروج و زوال کی داستان ’تاریخ کا ایک ایسا البم ہے،جس میں جہاں قوموں کی جاہ و حشمت ’ شجاعت و دلیری ’ مہارت و فن کاری کی کتنی ہی خوب صورت تصویریں گوہر و موتی کی طرح چمک رہی ہیں تو دوسری طرف قوموں کی شکست و ریخت کے سبق آموز قِصّے’ بیکسی و بے چار گی کی دل سوز کہانیاں اور ان کی محرومی ومایوسی کی سیاہ حکایتیں بکھری پڑی ہیں۔
زندہ قومیں ان حکایتوں پر کان دھرتی ہیں۔ ان سے سبق لیتی ہیں کہ انھوں نے ٹھوکریں کہاں کھائیں۔ اپنے اندرون کو ٹٹول کر دیکھتی ہیں کہ ان کا قافلہ کیوں لُٹا۔مسلسل غور وفکر میں ہوتی ہیں کہ وہ کیا عوامل تھے جو ان کے تاب ناک عروج اور پھر دردناک زوال کا باعث بنے۔ اسی طرح وہ آگے آنے والے وقت کی دھمک بہت پہلے سُن لیتی ہیں اور اس کے مطابق اپنی حکمت عملی تیار کرتی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں:
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں
کمال صدق و مروت ہے زندگی ان کی
معاف کرتی ہے فطرت بھی ان کی تقصیریں
قلندرانہ ادائیں، سکندرانہ جلال
یہ امتیں ہیں جہاں میں برہنہ شمشیریں
اس مضمون میں ہم قوموں کے عروج و زوال میں کار فرما اُصولوں کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے کہ اس سے ہمیں مستقبل کے لیے کچھ راہِ ہدایت مل سکے۔
عروج و زوال کے قوانین
مولا نا آزاد ؒ نے اپنی کتاب ‘قرآن کا قانونِ عروج و زوال ’ میں قوموں کے عروج و زوال کے دو قرآنی قوانین بتائے ہیں۔ پہلا بقائے انفع کا قانون’ اور دوسرا ‘اقامتِ عدل کا قانون ’۔ بقائے انفع کے قانون کے مطابق دنیامیں وہی چیز باقی رہ سکتی ہے جس میں نفع ہو۔ وہ چیز جس میں نفع نہیں ہوتا قدرت اسے محو کردیتی ہے۔ مولانا آزاد ؒ لکھتے ہیں۔‘‘اگر فطرت برائی و نقصان چھانٹتی نہ رہتی اور بقا اور قیام ’ صرف اچھائی اور خوبی کے لیے نہ ہوتا تو تمام کارخانۂ ہستی درہم برہم ہوجاتا۔’’پس قوموں کی قسمت کا دارومدار ’کائنات میں ان کی افادیت پر ہے کہ وہ دنیا میں کس قسم کی حصہ داری کرتی ہیں۔
مولانا آزاد ؒ دوسرے قانون ‘ اقامتِ عدل ’ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
نظامِ عالم کے قوانین کی اساس و بنیاد صرف قیامِ عدل کی قدرت و قوت پر ہے۔ خداوند دنیا میں انبیا علیہم السلام کو بھی اس لیے بھیجتا رہتا ہے کہ دنیا میں عدل کو قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا فرضِ منصبی ’ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قرار دے کر ’ ان کو قیامِ عدل کے لیے منتخب فرمایا۔ پس مسلمانوں کے ظہور کی اصلی علت غائی صرف یہ ہے کہ شہادت علی الناس کا فریضہ باحسن و جوہ پورا ہو۔ قرآن نے ہمارے ظہور کی علت غائی جو فرمائی ہے۔ وہی ہمارے عروج کی علت قرار دی ہے۔’’چناں چہ اس‘ اقامتِ عدل کے قانون ’ سے یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں وہی قومیں عروج کی منزلیں طے کریں گی جو ‘اقامتِ عدل کی علم بردار ہوں گی۔
مندرجہ بالا دونوں اُصولوں کی روشنی میں صاف نظر آتا ہے کہ جب تک مسلمان دنیا کے لیے نافع رہے’ مختلف شعبۂ حیات میں وہ مثبت انداز میں حصہ لیتے رہے’ جب تک ان کی درسگاہیں علوم و فنون کی روشنی لُٹاتی رہیں ’ جب تک وہ کائنات کی عظیم طاقتوں اور اُصولوں کو باز یاب کرکے اسے فلاحِ انسانی کے لیے استعمال کرتے رہے ’ وہ عروج کی منزلیں چڑھتے رہے۔
اسی طرح جب تک وہ ظلم اور بدعنوانی کے خلاف جدو جہد کرتے رہے اقامتِ عدل کا فرضِ منصبی نبھاتے رہے’ دنیا کی زمامِ اقتدار ان کے ہاتھوں میں رہی۔ جو ں ہی انھوں نے اس فرضِ منصبی سے کوتاہی برتی اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے ظالم کی صفوں میں شامل ہونے کی گستاخی کی، خدا کا قانونِ عروج و زوال جوش میں آیا اور انھیں ایسی پٹخنی لگائی کہ آج تک وہ اس سے سنبھل نہیں پائے۔
مسلمانوں کے بر خلاف اگر آج دنیا پر مغرب کی بالادستی قائم ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ان اُصولوں کی روح کو سمجھتے ہیں۔ مغرب کی کام یابی کی بڑی وجہ ان کا worldview ہے کہ کس طرح ایک فرد یا قوم ’سماج یا دنیا کی تعمیر میں اپنا مثبت حصہ دے سکتی ہے۔ یہ بقائے انفع کا قانون ہی ہے۔
عروج و زوال میں ٹرگرمیکنزم کا رول
قومو ں کاعروج و زوال کسی ایک وجہ کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ اس میں کئی وجوہات شامل ہوتی ہیں۔ مختلف قوموں کے عروج و زوال کی وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں۔ جن میں اُس وقت کے مخصوص حالات و واقعات کا اہم رول ہوتا ہے۔ محمد عمر چھاپرا اپنی کتاب Muslim Civilization میں لکھتے ہیں کہ ان مختلف وجوہات میں چند عوامل ایسے ہوتے ہیں جو (trigger mechanism) عروج کے لیے اُکسانے کے عمل کا کام کرتے ہیں۔ ان ٹرگر میکنزم سے پھر دوسرے عوامل بھی متاثر ہوتے ہیں اور معاشرہ پھر عروج کی جانب رواں دواں ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کچھ عوامل اس ٹرگرمیکنزم کے ذریعے دوسرے عوامل کو منفی طور پر اثر انداز کرتے ہیں۔اور اس کے نتیجے میں ایک خاصا ترقی یافتہ معاشرہ زوال کی طرف گامزن ہونے لگتا ہے۔
جس طرح ماضی میں متعد د محققین اور مفکرین نے قوموں کے عروج و زوال میں کار فرما مشترکہ عوامل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح ٹرگر میکنزم کے مشترکہ اُصولوں کو دریافت کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ ان مفکرین میں اہم نام ابن خلدونGibbon ‘Sorkin ‘Kennedy’ Sehweitzer’ Spengler’ اور ٹائن بی کے ہیں۔ ان مفکرین کے پیش کیے گئے ماڈلس میں متعدد خامیاں نظر آتی ہیں۔اسی طرح ان کے پیش کردہ ماڈل ہر قسم کے حالات پر پوری طرح فِٹ نہیں ہوتے۔
اس کے برعکس قرآنی اُصول‘ بقائے انفع کا قانون’ اور دوسرا ‘اقامتِ عدل کا قانون’ زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ یہ دونوں قوانین قوموں کے عروج و زوال میں ٹرگرمیکنزم کاکام کرتے ہوئے دکھائی پڑھتے ہیں۔ اس بات کو تین بڑی بڑی سلطنتوں مملکتِ روم ’ اُمّوی و عباسی خلافت اور سلطنتِ مغلیہ کے عروج و زوال کے مطالعے سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔
مملکتِ روم
مملکتِ روم تاریخ کی عظیم ترین اور طویل ترین مملکتوں میں سے ایک ہے۔ مملکتِ روم کے عروج میں بقائے انفع کا قانون ہمیں صاف نظر آتا ہے۔ آغاز افتخار حسین اپنی کتاب ‘قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ ’میں لکھتے ہیں کہ ‘ مملکتِ رومانے دنیا کو بہت کچھ دیا۔ رومن قانون دو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے فنِ تعمیر کو بلندیوں پر پہنچا یا۔( کنکریٹ انھی کی ایجاد ہے )۔ شہنشاہیت میں جمہوریت کی گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انتظامیہ میں اصلاح کی اور نئی اکائیاں بنائیں۔ مملکتِ روم نے یورپ اور دنیا کی دوسری قوموں کے تمدن پر گہرے نشان چھوڑے ہیں۔’
مملکتِ روم کے زوال میں شامل اسباب درج ذیل ہیں۔ ناقص نظامِ تعلیم ’ جذبات پرستی’ عقل و خرد سے دشمنی ’ فکری انتشار ’ روحِ مذہب سے انحراف ’ مذہب کے نام پر عوام کا استحصال وغیرہ۔ لیکن ان تمام اسباب میں جس سبب نے ٹرگرمیکنزم کا رول ادا کیا وہ ظلم کی فراوانی ہے۔ آغا افتخار حسین لکھتے ہیں۔‘ملک کی معیشت اس طرح تشکیل دی گئی تھی کہ جس میں امیر ’ امیر تر ہوتے چلے جائیں اور غریب ’غریب تر ہوتے چلے جائیں۔ کاشتکاروں اور تجارت پیشہ طبقے پر کمر توڑ ٹیکس لاد دیا گیا۔ اس سے پریشان ہوکر کاشتکاروں اور تجارت پیشہ افراد نے اپنا پیشہ ترک کرکے دوسرے پیشے اختیار کرنا شروع کیے۔چناچہ اس کے نتیجے میں غلّے کا قحط پڑا، حکومت کے ٹیکس میں کمی ہوئی اور معیشت تباہ و برباد ہوگئی۔ ’
ایڈورڈگبن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ‘The Decline ‘ Fall of the Roman Empire’ میں رومن سلطنت کے زوال کے لیے بیرونی حملوں کے ساتھ ساتھ سلطنت کے اندرونی زوال اور سلطنت میں روا ظلم و استحصال پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ حمید احمد انصاری ’ اپنی کتاب ‘تاریخِ روما ’ حصّہ اول ’میں لکھتے ہیں۔ ‘‘ جتنے مصنفوں نے چوتھی صدی کے حالات لکھے ہیں سب کے سب روما کے انحطاط اور زوال کے آثار کا رونا روتے ہیں اور لاکٹانٹیسؔ سے زوسمیسؔ تک جتنے مصنف گزرے ہیں سب باشندگان صوبحات کے مصائب اور بددلی کا تذکرہ کرتے ہوئے آئے ہیں۔ کیوں کہ افواج ’ عہدہ داروں اور دربار کے اخراجات کثیرکے لیے نہ صرف رعایا پر محصولات کی بھر مار ہورہی تھی بلکہ ان کے وصول کرنے میں حد درجہ ظلم روا رکھا جاتا کہ غریب محصول دینے والے کے پاس ایک پیسہ بھی نہ رہنے پائے اور خزانۂ شاہی معمور رہے۔ ’’
چناں چہ اس سے واضح ہے کہ سلطنتِ روما کے عروج میں بقائے انفع کا قانون شامل تھا۔ اسی طرح اس کے زوال میں ‘اقامتِ عدل کی عدم موجودگی اور ظلم و بدعنوانی کی فراوانی شامل تھی۔
اموی وعباسی خلافت
متعدد مفکرین نے اس پہلو پر غور و خوض کیا ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جس نے ایک بدوی معاشرے کو مختلف شعبہ ہائے حیات میں دنیا کاامام بنادیا۔ مفکرین مثلاََ ‘Hitty ‘Toynbee’ Baeck ‘Hudgson اور Lewis نے اس انقلابی تبدیلی کا ذمہ دار اسلام کو قرار دیا ہے کہ جس کے عطا کردہ ٹرگرمیکنزم کے ذریعے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے اور زندگی کے ہر مرحلہ میں اور اس کی ہر سطح پر زبردست ترقی کرنے کی اہلیت سے مسلمان سرفراز ہوئے۔ مسلمانوں کی اس بے مثال ترقی میں ان کے تصور بقائے انفع کا اہم رول ہے۔
محمد عمر چھا پرا ’ نے اپنی کتاب ‘مسلم سیولائزیشن ’میں مسلمانوں کے زوال کی مندرجہ ذیل وجوہات بیان کی ہیں۔ ‘‘اخلاقی گراوٹ میں اضافہ ’ اسلام میں تحریکیت کا آہستہ آہستہ ختم ہوجانابالخصوص انتہا پسندی اور ہٹ دھرمی میں dogmatism کے متعارف ہونے کے نتیجے میں ’ فکری اور سائنسی سرگرمیوں میں اضمحلال’ اندرونی بغاوتیں ’ معاشی کم زوریاں اور معاشی ناہمواری وغیرہ۔
تاریخ میں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ سلطنتیں اکثر اندر سے کھوکھلی ہوتی جاتی ہیں اور پھر بالآخر اپنے زوال کو پہنچتی ہیں۔ان کو کھوکھلا بنانے میں معاشی اسباب کا اہم رول ہوتا ہے۔ اموی و عباسی خلافتوں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ محمد عمر چھاپرا کے مطابق عباسی دور میں سیاسی جواب دہی کے ختم ہونے کے نتیجے میں سرکاری اخراجات پر کوئی روک ٹوک نہ رہی جس کے نتیجے میں عوامی مسائل پر نگاہ رکھنے اور ان کی حفاظت کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ اسی طرح بنو اُمیہ اور بنو عباس نے نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کے مفتوحہ علاقوں میں زمینوں کے سلسلے میں فیء کی پالیسی کو ترک کردیا اور اس کے برخلاف بڑی بڑی زمینیں حکمراں خاندانوں اور حکومت کے معاون و فاداروں کو بطور عطیہ دینے لگے۔ یہ پالیسی اقطاع اور تیمار کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس پالیسی نے عالمِ اسلام میں ایک طرح کے جاگیردارانہ نظام کی بنیاد ڈال دی۔
سلطنتِ روم کی طرح ’ اقطاع اور تیمار کی پالیسی نے بالآخرظالمانہ اور غیر منصفانہ ٹیکس کی پالیسی کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں معاشی انحطاط میں اضافہ ہوا۔ زرعی اور سائنسی انقلاب جو ابتدائی اسلامی دور میں کارفرما ہوچکا تھا وہ صنعتی انقلاب کے دور میں داخل نہ ہوسکا۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک سیاسی لاقانونیت تھی۔ جس کے نتیجہ میں نجی حقِ ملکیت محفوظ نہ رہ سکا۔ لوگوں نے ظالمانہ ٹیکسوں سے بچنے اور دولت پر غاصبا نہ قبضہ کے خوف کی بنا پر اپنی دولت کو چھپایا اور اس طرح کارخانے اور کاروبار چھوٹے ہی رہے۔
انحطاط کے معاشی وجوہات کے ساتھ ساتھ اہم وجہ خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہوجانا تھی۔ اس کی وجہ سے حکومتی جواب دہی کا تصور ختم ہوگیا اور اس کے نتیجے میں حکومتیں اپنی بنیادی ذمہ داری ‘قیامِ عدل ’عوام کی بھلائی کے لیے کام کرنا اور حکومت کا نظم و نسق احسن طریقے سے چلانا ’ سے روگردانی کرنے لگیں۔ انحطاط کے ان تمام عوامل میں ٹرگر میکنزم کا رول اقامتِ عدل کے فقدان اور ظالمانہ پالیسیوں نے کیا۔
مسلمانوں کے زوال کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے بقائے انفع اور قیامِ عدل کے پیغمبرانہ مقصد کو ترک کردیا تھا اور خود بدعنوانی اور ظلم میں شریک ہوگئے تھے۔ سقوطِ بغداد اس لیے ہوا کیوں کہ مسلمان اندرونی طور پر کم زور ہوگئے تھے۔ اگر عباسی حکومت مضبوط ہوتی تو ہلاکو کو اس پر حملے کی کبھی جرأت نہیں ہوتی۔ اسی لیے مشہور مورخ ٹائن بی نے کہا تھا کہ‘ ‘ تہذیبیں قتل سے نہیں بلکہ خودکشی سے ختم ہوتی ہیں۔ ’’
مغلیہ سلطنت
مغلیہ سلطنت کے عروج میں بھی بقائے انفع کا قانون نظر آتا ہے۔ مغلوں نے ہندوستانی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ایک متحدہ ہندوستانی کلچرکی بنیاد ڈالی۔ ہندوستان کو ایک مضبوط اور منصفانہ مرکزی نظم و نسق دیا۔ صنعت و حرفت ’کلا’ اور سائنس ’ ادب اور شاعری ’ چترکاری ’ مصوری وغیرہ کی آبیاری کی اور اُسے بلندیوں پر پہنچایا۔ تاریخ داںستیش چندرا(Satish Chandra) کے مطابق Jagirdari-Crisis اور تاریخ داں عرفان حبیب کے مطابق Agrarian-Crisis نے مغلیہ سلطنت کے زوال میں ٹرگر میکنزم کا روال ادا کیا ہے۔
عرفان حبیب نے مغلیہ سلطنت کو “The protective arm of the exploitative class”” قرار دیا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں Crisis میں ظلم اور استحصال کا پہلو شامل ہے۔
غرض جب ظلم بڑھتا ہے تو خدا کا قانونِ زوال حرکت میں آتا ہے۔ پھر چاہے وہ عظیم الشان رومن سلطنت ہو ’اموی و عباسی خلافتیں ہو یا مغلیہ سلطنت۔ کوئی اس کے عقاب سے نہیں بچ پاتا۔ بڑی بڑی حکومتیں ایسے ختم ہوتی ہیں کہ ان کے نام ونشان بھی نہیں ملتے۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
(ساحر لدھیانوی )
خلاصہ بحث
ہم نے اپنی بحث میں دیکھا کہ کسی طرح بقائے انفع اور اقامتِ عدل کے قوانین قوموں کے عروج و زوال میں اہم رول اداکرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جب ہم مسلمانوں کے عروج و زوال کا تجزیہ کرتے ہیں تو چند بنیادی نکتوں پر توجہ ضروری ہے۔
جب ہم بقائے انفع کی بات کرتے ہیں تو یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ آج کے مسلمان عالمِ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کیا کنٹری بیوٹ کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ابتدائی دور کے برخلاف ، اگر آج ہم علوم و فنون میں ان کی حصہ داری کا جائزہ لیں تو ہمیں مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ اگر ہم نوبل پرائز کو کسوٹی کے طور پر لیں تو صورت حال خود بخود واضح ہوجاتی ہے۔ 1901-2000 کے نوبل پرائز کے ڈاٹا کا تجزیہ کریں تو نظر آتا ہے کہ مسلمان دنیا کی آبادی کا 20فی صد تھے جب کہ نوبل پرائز صرف 5 مسلمان لوگوں کو ملا تھا جو 0.8 فیصد ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف یہودی دنیا کی آبادی کا 0.2 فیصد تھے۔ کل 138 یہودیوں کو نوبل پرائز مل چکا تھا۔ جو تناسب میں 20 فیصد ہوتا ہے۔یہ صورت حال آج بھی جوں کی توں ہے۔ جب تک اسی صورت حال کو تبدیل نہیں کیا جاتا ’ عروج کی طرف واپسی مشکل ہے۔
مسلم دنیا میں ایک دوسرا مسئلہ یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مغربی تہذیب کو اپنے حریف کے طور پر تصور کرتی ہے۔ زوال کے دنوں میں اکثر قوموں کے ذہنوں پر تنگ نظری چھاجاتی ہے اور وہ دوسروں سے سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے عروج کے دور میں یونانی، ہندوستانی اور تمام علومِ حاضرہ و متقدمہ سے خوب خوب فائدہ اُٹھایا اور ان علوم کو اپنی کوششوں سے نئی بلندیوں پر پہنچایا۔ آج بھی مغربی علوم وفنون سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس طرح مثبت تہذیبی روایات اور اقدارپر کسی قوم کی اجارہ داری نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک تدریجی مرحلے سے گزرتے ہوئے نوعِ انسانی تک پہنچتے ہیں۔ ان اقدار کی نشوونما میں تمام سابقہ وموجودہ قوموں کا حصہ شامل ہے۔ یہ تمام نوعِ انسانی کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ مغربی تہذیب کی اقدار liberty, equality ‘ fraternity کی گونج اسلام کے ‘نظریۂ حریت’ مساوات اور اخوّت کی شکل میں بہت پہلے سے پائی جاتی ہے۔ اسی طرح ان اقدار پر قرآنی نظریۂ عدل کی چھاپ بھی دکھائی پڑتی ہے۔ مغربی تہذیب کی خامیوں سے قطع نظر’ ہم ان کی خوبیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔مثلاََ ان کی محنت کی عادت ’ ایفائے عہد ’ پابندی وقت ’ کاروباری دیانت’ علم دوستی ’ احترامِ انسانی’ شائستگی ’ حکومتی جواب دہی ’ ویلفیر اسٹیٹ وغیرہ۔ علامہ اقبالؔ کہتے ہیں۔
مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا قومیں ایک مرتبہ زوال کا شکار ہونے کے بعد ’دوبارہ عروج کی طرف مائل ہوسکتی ہیں۔ کیا مسلمان اور اسلام دنیا کے اسٹیج پر پھر ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم دنیا کا موجودہ منظر نامہ دیکھیں تو اس کا جواب مثبت میں نظر آتا ہے۔ رامسے کلارک، جو امریکہ کا اٹارنی جنرل رہ چکا ہے، اس کے بقول شاید اس زمین پر آج بھی اسلام سب سے زیادہ ناگزیر روحانی اور اخلاقی قوت ہے۔ مغربی تہذیب کی خوبیوں کے قطعِ نظر اس کی چند خامیاں بھی ہیں۔مثلاََ مادیت پسندی ، مطلق عقلیت پسندی ، اور سائنس کی ہلاکت آفرینی۔ان تمام کی وجہ سے آج انسانیت سسک رہی ہے۔ مغربی تہذیب کے بالمقابل اسلام ایک ایسے نظریۂ حیات کے روپ میں سامنے آتا ہے جس کے پاس لچک ہے، روحانی اور اخلاقی قوت ہے، جو ایک عادلانہ و منصفانہ سیاسی، معاشی و سماجی نظام کا خاکہ پیش کرتا ہے۔ ما بعد سرد جنگ کے دور میں ایک اسلام ہی ہے جو مغربی تہذیب کے بالمقابل دنیا کو ایک بہتر سسٹم دے سکتا ہے۔ مغربی مفکرین اسلام کی اس طاقت کو خوب پہچانتے ہیں۔ چناں چہ سیموئل ہنگٹنگٹن اپنی تھیوری ‘ تہذیبوں کے تصادم ’ کے ذریعے کہتا ہے کہ اب تصادم مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کے درمیان ہے۔ یہاں سوال یہ اُٹھتا ہے کہ کیا مسلمان اپنی طاقت کو پہچانتے ہیں؟ ہم مانتے ہیں کہ آج بھی اگر مسلمان قوموں کی عروج و زوال کی تاریخ سے سبق سیکھیں تو وہ دنیا کے اسٹیج پر اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔
اقبال ؔکہتے ہیں :
چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری
وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
کتابیات
- Muslim Civilization: محمد عمر چھاپرا (اُردو ترجمہ محمد ذکی کرمانی )
- قرآن کا قانونِ عروج و زوال ’ : مولانا آزاد ؒ
- قوموں کی شکست و زوال کے اسباب کا مطالعہ ’ : آغا افتخار حسین
- History of Decline ‘ Fall of Roman empire: ایڈورڈگبن (اُردو ترجمہ سید مطلب حسین )
- تاریخِ روما : حمید احمد انصاری
- Satish Chandra :Medieval India
- Irfan Habib :Agrarian System of the Mughal India
- John F. Richards: New CombridgeHistory of India
- Volume -1, Part -5, The Mughal Empire
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2021