امت کا عروج و زوال اور مفکرین کی آراء

بیسویں صدی میں جن اسلامی مفکرین نے نوع انسانیت کو عروج و ترقی کا راستہ دکھایا اور زوال و شکست سے باخبر کیا، ان میں بدیع الزماں نورسی ؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، علامہ اقبالؒ ،مولانا سید ابوالاعلیٰ  مودودی ؒ، مولانا ابوالحسن ندوی ؒ اور ڈاکٹرسید حسین نصر قابل ذکر ہیں ۔زیر نظر مضمون میں عروج و زوال کے تعلق سے ان مفکرین کی چند آراء کا مطالعہ پیش کیا جارہا ہے ۔

بدیع الزماں نورسیؒ(1873-1960)

درویش صفت انسان اور مرد قلندر بدیع الزماں نورسی ترکی کے علاقہ شرقی اناطولیہ کے ایک گاؤں ’’نورس‘‘ میں ۱۸۷۳ء میں پیدا ہوئے۔اسی گاؤں کی نسبت سے انہیں نورسی کہا جاتا ہے ۔ وہ کردی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مقامی مدرسوں میں حاصل کی۔ صرف ۱۸؍سال کی عمر میں ان کا شمار بڑے علماء میں ہونے لگا۔ وہ سیاسی معاملات میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر دلچسپی لیتے تھے بلکہ عملی طور سے بھی وابستہ تھے۔ ثروت صولت کا کہنا ہے کہ’’ ان کی کوششوں سے ترکی میں جس طرح اسلام کا احیا ہوا ہے اس کی مثال شاید پوری اسلامی  تاریخ پیش نہیں کرسکتی ‘‘لیکن ایک طویل تجربے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ عملی طور سے سیاست میں حصہ لینے سے ایک صحت مند سماج کی تعمیر وتطہیر نہیں کی جاسکتی تو انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور ایک مصلح کے طور ر تبلیغی کام کرنا شروع کیا اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی فکر سے متاثر کیا۔ انہوں نے مغربی فکر، سیکولرازم، جدیدیت کا بھرپور رد کیا ۔ وہ سماج میں عوامی سطح پر کام کرنے کے عادی تھے۔ اور ذہنی طور سے لوگوں میں انقلاب لانا چاہتے تھے ۔ وہ متقی، درویش صفت مسلمان تھے اور ان ہی صفات کو لوگوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے الحاد ، مادہ پرستی ،سکولرازم اور اخلاقی برائیوں کے خلاف زبردست جہاد کیا ۔ ان کے افکار کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے امت مسلمہ کی تطہیر و تربیت قرآن کی روشنی میں کی  ۔ نو جلدوں(پانچ ہزار صفحات ) پر مشتمل ’’ رسائل النور ‘‘ ان کا  تصنیفی سرمایہ ہے اور اس میں جگہ جگہ قرآنی آیتوں سے استفادہ کیا ہے ۔ شیخ نے امت کے عروج کا ذریعہ قرآن مجید کو قرار دیا ہے ۔  بدیع الزماں نورسی امت کے عروج و زوال کو دین کے ساتھ جوڑتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ جب تک مسلمان اپنے دین سے چمٹے ہوئے تھے ، انھوں نے اسی کے بقدرترقی کے منازل طے کیے اور جب دین میں کمزوری واقع ہوئی ان کا معاملہ بھی دیگر شکست خوردہ اقوام کی طرح ہوگیا ۔بدیع الزماں نورسی امت کے زوال کا ایک سبب تعلیم کو دو خانوں میں تقسیم کرنا قرار دیتے ہیں ۔وہ نظام تعلیم کی اس دوئی کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جدید علوم کی درسگاہوں میں سائنس کے ساتھ  دینی علوم کو فروغ دیا جائے ۔اسی طرح دینی درسگاہوں میں دینی تعلیم کے ساتھ جدید علوم اور سائنس کو بھی ترویج دینا چائیے ۔ان کا خیال ہے کہ اس طرح  لادینیت ،مذہب بے زاری ،شدت پسندی اور بے مقصدیت جیسے مہلک رجحانات سے نئی نسل کو بچایا جاسکے گا۔

علامہ اقبالؒ(1877-1938)

علامہ اقبال ان ممتاز مفکرین ومصلحین میں سے ہیں جنھوں نے بیسوی صدی میں مشرق ومغرب کو اپنے فکر وخیالات سے متاثر کیا وہ صرف انقلابی شاعر ہی نہ تھے بلکہ  جید اسلامی مفکر اور اسکالر تھے ۔ بہت سارے علوم و نظریات پران کو  درک حاصل تھا ۔ فقہی مسائل سے لے کر سیاسی مسائل تک ان کی نگاہ  وسیع تھی ۔انہوں نے مغربی علوم ،قرآن و حدیث ،فقہ اور تاریخ کا  مطالعہ کرکے اپنی فکری جہت کو وسعت دی۔ علامہ اقبال ؒ اسلام کو مکمل نظام ز ندگی کے طور پر  پیش کرتے ہیں اور ہر مسئلہ میں چاہے وہ سیاسی ہو  یا سماجی ومعاشرتی یاا قتصادی  ،قرآن و سنت کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آج مسلمانوں کو چائیے کہ وہ اپنی اہمیت کو سمجھیں ، بنیادی اصولوں کی روشنی میںاپنی سماجی زندگی کی ازسر نو تشکیل کریں اور اسلام کے حقیقی مقصد کو حاصل کریں ۔اقبال کو اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ مسلمان کسمپرسی ، افسردگی اور اور خست حالی کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اس لئے ان کی دلی تمنا تھی کہ مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت کو پانے کے لیے اپنے آپ کو پہچانیں اور اس عظمت رفتہ کو پھر سے بحال کریں جو مسلمانوں کو ماضی میں حاصل تھی۔ اسلام کا عالم گیر پیغام مقامیت کے خول میں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ اقبال اپنی تشویش کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ ’’توحید کی تعلیمات شرک کے دھبّوں سے کم و بیش آلودہ ہو گئیں ۔اسلام کے اخلاقی آدرشوں کا عالمگیر اور غیر شخصی کردار مقامیت میں گم ہو گیا ہے ۔ ہمارے سامنے اب ایک ہی کھلی راہ ہے کہ  اسلام کے اوپر جمے ہوئے جمود کو کھرچ ڈالیں جس نے زندگی کے بارے میں حرکی نقطہ نظر کو غیر متحرک کر دیا ہے اور اسلام کی حریت مساوات اور یکجہتی کی اصل صداقتوں کو دوبارہ دریافت کرلیں‘‘۔ان کے یہاں اسلام کا تصور حیات جامد Stagnant) (نہیں بلکہ متحرک ہے اسلام کے اس وصف کو اقبال نے نمایاں طور پر واضح کیا ۔انھوں نے اسلام کے نظام حیات اور اس کی بنیادی اقدار کو ان کی اصل شکل میں پیش کیا ۔اقبال نے سطحی سوچ کو رد کیا اور امت کو فکری بلندی اور سوچنے سمجھنے کا تخلیقی زاویہ عطا کیا  ۔مسلمانوں کے زوال کے حقیقی اسباب کا بھی جائزہ لیا اور صرف جائزہ ہی نہیں لیا بلکہ زوال سے باہر نکلنے کا راستہ بھی بتایا ۔اس طرح کا تجدیدی کام عام مفکر کے بس کانہیں یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اجتہادی بصیرت رکھتا ہو ۔انھوں نے مسلمانوں کو ابھارا  :

مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

اقبال، اسلامی فقہ کی تدوین نوکے داعی تھے۔  ان کاماننا ہے کہ عصر حاضر میں قدیم فقہی مواد پر نظر ثانی کرنے کی  ضرورت ہے۔ ا قبال اجتہاد کی اہمیت وافادیت پر زوردیتے تھےالبتہ وہ انفرادی اجتہاد کے بجائے اجتماعی اجتہاد کے حامی تھے۔ اقبال فقہ و قانونِ اسلامی کی اصلاح (Reformation) کے بجائے اس کی تشکیل جدید Reconstructionکا تصور پیش کرتے ہیں، خطبات میں وہ لکھتے ہیں کہ’’ اجتہاد کی یہ آزادی ناگزیر ہے کہ ہم اپنے شرعی قوانین کو فکر جدیدکی روشنی میں اور تجربہ کے مطابق از سر مرتب کریں  اسلامی قانون کی اصطلاح میں اجتہاد کے معنی وہ کوشش ہے جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کیلئے کی جائے‘‘۔علامہ موصوف نے ملوکیت ، ملائیت اور مروجہ تصوف پر تنقید کی ۔ وہ ان  کو زوال کے اسباب میں شمار کرتے ہیں۔

مولانا ابو الکلام آزادؒ(1888-1958)

مولانا ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کے مایہ ناز مفکر تھے ۔ وہ ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے۔اللہ تعالی نے انہیں بے شمار صلاحتوں سے نوازا تھا۔ آپ نے ان کو بخوبی استعمال کیا ۔ مولانا آزاد نے امت کے عروج و زوال کوموضوع بنایا ۔انھوں نے ملت اسلامیہ کوبدحالی کا احساس دلایا اور خواب غفلت سے جگانے کی کوشش کی۔ اس تعلق سے ان کی معروف کتاب’’قرآن کا قانون عروج و زوال‘‘ کافی اہمیت کی حامل ہے ۔مولانا کے نزدیک اگر کوئی دیوار مسلمانوں کا سہارا بن سکتی ہے تو وہ اسلام کی دیوار ہے اور وہ اسی کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دیتے تھے ۔وہ ملت اسلامیہ ہند کی سیاسی اور مذہبی حالت پر سخت بے چین  تھے ۔وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے کی دعوت بھی دیتے تھے ۔ انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ : ’’عزیزو!میرے پاس تمہارے لیے کوئی  نیا نسخہ نہیں ہے وہی پرانا نسخہ ہے جو برسوں پہلے کا ہے ۔وہ نسخہ جس کو کائناتِ انسانی کا سب سے بڑا محسن لایا تھا ،وہ نسخہ ہے قرآن کا یہ اعلان کہ ولا تھنو ا ولا تحزنواوانتم الاعلون ان کنتم مومنین یعنی’’ تم ہمت نہ ہارواور نہ غم کرواور تم ہی غالب ہو اگر تم کامل ایمان رکھتے ہو‘‘ ۔مولانا صرف سیاسی رہنماء نہیں تھے بلکہ مفسر اور عالم دین بھی تھے ۔

مولانا آزاد نے اتحاد و اتفاق کو ملت اسلامیہ کے عروج کا ذریعہ قرار دیا اور تفرقہ  و انتشار کو زوال کے اسباب میں سے شمار کیا ۔ان کہنا ہے کہ انتشار کی زندگی کو بقا وقیام نہیں ہوسکتا ۔ اتحاد اور اتفاق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’قرآن کریم نے جابجا اجتماع کو قومی زندگی کی سب سے بڑی بنیاد اور انسان کے لیے اللہ کی جانب سے سب سے بڑی رحمت و نعمت قرار دیا ہے ۔  مسلمانوں کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ’ ’سب مل جل کر اور سب اکھٹے ہو کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑ لو ۔ حبل اللہ سے وابستہ ہو ‘‘۔ (۳:۱۰۳) مسلمانوں کے عروج و زوال کا جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ قانون اِلٰہی کے مطابق مسلمانو ں کی قومی زندگی کے عروج کا اصلی دور وہی تھا جب ان کی قومی و انفرادی ، مادی و معنوی ،، اعتقادی و عملی زند گی پر اجتماع کی رحمت طاری تھی اور ان کے تنزل و ادبار کی اصلی بنیاد اس وقت پڑی جب  انتشار کی نحوست چھانی شروع ہوگئی ۔‘‘(  قرآن کا قانون عروج و زوال،ص: ۴۴)

مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی ؒ(1903-1979)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو سماعت ،بصارت، عقل اور ضمیر جیسی بنیادی صلاحیتیں  عطا کیں جن کو وہ استعمال میں لاکر ترقی کے  منازل طے کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو متنوع خوبیوں سے بھی نوازا جن میں کرید و جستجو ، تحقیق و تفتیش،سعی جہد اور اجتہاد  بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ۔تحقیق و تفتیش اور تلاش و جستجو ہی ایک فرد یا قوم کو آگے بڑھاتی ہے اور اس کے روز مرہ مسائل کو حل کرنے کاذریعہ بنتی ہے ۔ انسان کے دل و دماغ میں جو شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں ، وہ بھی تحقیق وجستجو سے دور ہوجاتے ہیںنیز مبھم اور غیر معین بات بھی واضح ہوجاتی ہے ۔ تیز رفتار سے آگے بڑھنا ، ترقی کے منازل طے کرنا اور نت نئے مسائل کاحل نکالنا تحقیق و تفتیش کا خاصہ ہے ۔ جب بھی انسان اس سے لاتعلق ہوجاتا ہے یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتا ہے تو زوال و پستی اس کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے اور یوں وہ قصہ پا رینہ بن جاتا ہے جس کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں رہ جاتی  ۔ علم و تحقیق ہی کی بدولت کسی قوم میں حرکت پیداہوتی ہے اور اسی قوم کو دنیا میں غلبہ اور استحکام حاصل ہوجاتا ہے جو علم تحقیق سے چمٹتی رہتی ہے ۔ جو قوم تحقیق و تلاش کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ دوسری قوموں کا آسانی سے نوالہ تر بن جاتی ہے ۔ اس کا نتیجہ مولانا مودودی کی زبان میں یہ برآمد ہوتا ہے کہ’’ جو قوم سوچنا ، تحقیق کرنا ، معلومات جمع کرنا اور نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دے تو وہ جمود میں مبتلا ہوجاتی ہے ، جمود کا نتیجہ آخر کار انحطاط ہوتا ہے اور انحطاط کا نتیجہ آخر کا ر اس پر کسی دوسری قوم کا غلبہ ہوتا ہے پھر جب کسی قوم کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ محض سیاسی اور معاشی حیثیت ہی سے نہیں  بلکہ سب سے بڑھ کر اس کا غلبہ فکری حیثیت سے  ہوتا ہے ۔‘‘غالب قوم اپنے وسائل سے پہلے مغلوب قوم کی فکر و تہذیب کو بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ جب فکری طور سے کوئی قوم دوسرے قوم کی نوالہ تر بن جاتی ہے تو اس کا قومی تشخص بھی ختم ہوجاتا ہے اور اس کے صفحہ ہستی سے مٹنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی ہے ۔

مغلوب قوم کے بارے میں مولانا مودودی کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے کہ ’’تحقیقات دوسرے کرتے ہیں ان کو جمع دوسرے لوگ کرتے ہیں ان کو ترتیب دے کر ایک فلسفہ حیات دوسرے لوگ بناتے ہیں ایک نظام فکر و عمل مرتب دوسرے لوگ کرتے ہیں اور یہ مغلوب قوم ان کے پیچھے پیچھے چلتی ہے اور ان کی ہر چیز کو قبول کرتی چلی جاتی ہے ۔ یہ عمل جتنا  بڑھتا جائے گا اس مغلوب قوم کی انفرادیت ختم ہوتی چلی جائے گی یہاں تک کہ وہ فنا بھی ہوسکتی ہے ‘‘۔

مولانا مودودی کے نزدیک تحقیقات کرنا ، علوم و فنون کو جمع کرنا ،معلومات فراہم کرنا اور ان کو مرتب کر کے ایک تہذیب بنانا غالب قوم کی پہچان ہوتی ہے ۔ وہ صرف سیاست  اور فوج کی بدولت کسی قوم پر غالب نہیں آتی بلکہ اپنی پوری تہذیب کو مغلوب قوم پر غالب کردیتی ہے ۔ مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ ذہنی غلبہ و استیلا ء کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر ہوتی ہے جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا میں چھا جاتے ہیں اور جو قوم ا س راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلد اور متبع بن کے رہنا پڑتاہے  ۔ مولانا اس فطری قانون کا بھی تذکرہ کرتے ہیں جو قوموں کے عروج و زوال میں اہم رول ادا کرتا ہے اس تعلق سے وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ ایک فطری قانون ہے کہ جو قوم عقل و فکر سے کام لیتی اور تحقیق و تفتیش کی راہ میں پیش قدمی کرتی ہے اس کو ذہنی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی بھی نصیب ہوتی ہے اور جو کوئی قوم تفکر و تدبر کے میدان میں مسابقت کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ ذہنی انحطاط کے ساتھ مادی تنزل میں بھی مبتلا ہوجاتی ہے ‘‘۔(ملاحظہ ہو ،تنقیحات)

جب تک مسلمان اسلام کے اصل ماخذو منبع سے اکتساب علم کرتے رہے اور صحیح غور و فکر سے کام لے کر اپنے اجتہاد سے علمی و عملی مسائل حل کرتے رہے اس وقت تک اسلام نہ صرف زمانہ کے ساتھ حرکت کرتا رہا  بلکہ مسلمان بھی عروج  پر رہے ۔ لیکن اہل اسلام کو آج وہ مقام حاصل نہیں ہے کہ جب وہ دنیا کی قیادت و سیادت کر رہے تھے ۔ اس کے اسباب  بیان کرتے ہوئے مولانا مودودی لکھتے ہیں کہ جب قرآن پر غور و فکر کرنا چھوڑ دیا گیا ، جب احادیث کی تــحقیق اور چھان بین بند ہوگئی ،جب آنکھ بند کر کے پچھلے مفسرین اور محدثین کی تقلید کی جانے لگی ، جب پچھلے فقہا ء اور متکلمین کے اجتہادات کو اٹل اور دائمی قانون  بنا لیا گیا ،جب کتاب و سنت سے براہ راست اکتساب علم ترک کر دیا گیا اور جب کتاب و سنت کے اصول کو چھوڑ کر بزرگوں کے نکالے ہوئے فروع ہی اصل بنا لئے گئے تو اسلام کی ترقی دفعتا رک گئی ۔ مسلمانوں نے علم و فن سے متعلق ہر چیز کو چھوڑا ،  اور علوم و فنون سے مغرب نے رشتہ جوڑا تو مسلمان خود بخود زوال کے شکار ہوگئے ۔مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ جب جہاد و اجتہاد کا جھنڈا مسلمانوں نے پھینک دیا تو اس کو مغربی قوموں نے اٹھا لیا ، مسلمان سوتے رہے اور اہل مغرب اس جھنڈے کو لے کرعلم و عمل کے میدان میں آگے آئے یہاں تک کہ امامت کا منصب جس سے یہ معزول ہوچکے تھے ان کو مل گیا ،ان کے افکار و نظریات ، علوم و فنون اور اصول تہذیب و تمدن دنیا پر چھا گئے ان کی فرمانروائی نے صرف اجسام کو ہی نہیں دلوں اور دماغوں کو بھی فتح کر لیا ۔ آخر صدیوں کی نیند سے جب مسلمانوں کی آنکھیں کھلیں تو انھوں نے دیکھا کہ میدان ہاتھ سے نکل گیا ہے ( ملاحظہ ہو تنقیحات، ص: ۲۳ اور ۱۳۴)

مولانا ابوالحسن ندوی ؒ(1914- 1999)

مولانا ابوالحسن ندویؒ عالم اسلام کے ایک جید عالم دین اور مصنف تھے۔ آپ ۱۹۱۴ء کو تکیہ کلا رائے میں ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مولانا کو لکھنے پڑھنے اور تصنیف وتالیف کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ آپ نے دارالعلوم دیوبند، ندوۃ العلماء، اور لکھنو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ تکمیل تعلیم کے بعد صرف ۲۰؍ سال کی عمر میں ندوۃ العماء لکھنو میں عربی ادب اور تفسیر وحدیث کے استاد ہوگئے۔ چونکہ تحریر ی صلا حیت بچپن ہی  سےتھی اس لئے ۱۶؍سال کی عمر میں ان کا پہلا مضمون رشید رضا مصر کے معروف مجلہ ’’المنار‘‘ میں سید احمد شہید کے متعلق شائع ہوا تھا۔ مولاناعلی میاں ندوی نے اکثر کتابیں عربی زبان میں لکھیں کیونکہ عربی زبان پر انہیں زبردست درک حاصل تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض کتابیں اردو میں بھی لکھیں۔ ان کے مضامین عالم عرب کے جید مجلات اور رسائل میں شائع ہوئے ۔ انہوں نے عالم عرب میں ملت اسلامیہ ہند کو متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا ۔ انھوں نے ملت اسلامیہ کی زبوں حالی اور زوال کا گہرائی سے جائزہ لیا اور ایسی راہیں بتائیں جن سے ملت اسلامیہ کو پھر سے عروج حاصل ہوسکتا ہے اس تعلق سے ان کی ایک معروف کتاب ’’ ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین ‘‘ہے جس کا اردو ترجمہ’ انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘ کے نام سے کیا گیا ہے ۔یہ ایک شاہکار کتاب ہے جس میں مولانا نے امت کے عروج و زوال کے اسباب اور اصول بیان کیے ۔

اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر احمد امین لکھتے ہیں کہ ’’یہ کتاب مسلمانوں سے احساس کمتری کو دور کرنا چاہتی ہے جو انحطاط سے اور اپنی کمزوری کے احساس سے پیدا ہوگیا ہے ‘‘  مسلمانوں کا عروج اسی میں ہے کہ وہ اپنے فرض منصبی کی طرف لوٹ آئیں۔وہ فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں میں خود اعتمادی کی روح ، اسلام کی طرف بازگشت کا جذبہ اور جوش عمل پیدا  کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو اپنا مقام یاد دلایا جائے ، اور یہ بتلایا جائے کہ وہ دنیا کی تعمیر و تشکیل کے اہم اور مقدس کام میںایک موثر و فعال عنصر ہیں ۔کسی چلتی ہوئی مشین کا پرزہ اور کسی اسٹیج کے بازی گر اور نقال نہیں۔ ‘‘( انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ،ص:۱۵) مولانا نے باطل عقائد اور افکار پر گرفت کی اور تہذیب جدید پر بھی نقد کیا اور تقلید و جمود کو توڑنے کی کوشش کی۔ مغربی فکر وتہذیب کو آڑے ہاتھوں لیا ۔مولانا موثر اور صالح قیادت کی ضرورت مـحسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسانیت کی مشکل کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ یہ ہے کہ عالگیر قیادت مجرم اور خون سے رنگین ہاتھوں سے نکل کر امانت دار ، فرض شناس ، خدا ترس ،اور تجربہ کار ہاتھوں کی طرف منتقل ہو جو انسانیت کی جہاز رانی کے لیے روزاول ہی سے بنائے گئے ہیں ۔(محولہ بالہ، ص:۳۲۹)

ملت اسلامیہ کے عروج کے تعلق سے مولانا فرماتے ہیں کہ ’’ روحانی ، صنعتی اور فوجی تیاری کے ساتھ عالم اسلام عروج حاصل کر سکتا ہے ، اور اپنا پیغام پہنچا سکتا ہے  ، قیادت ہنسی کھیل نہیں نہایت سنجیدہ معاملہ ہے ، اور منظم جدوجہد ،مکمل تیاری ، عظیم الشان قربانی اور سخت جانفشانی کی محتاج ہے ۔‘‘(حوالہ بالہ ،ص: ۳۵۰) مولانا زوال سے نکلنے کے لئے امت کومشورہ دیتے ہیں کہ وہ نئے ماہرین پیدا کرنے میں کوشش کرے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اب ضرورت ہے کہ مسلمان اپنی بھولی ہوئی تحقیقی روش کو اپنائیں اور مفید و با مقصد طریقہ پر سائنس و صنعت کو کو فروغ دیں سائنسی سرگرمیوں کی ہمت افزائی کریں اور ماہرین فن و سائنس دانوں کی فنی و علمی تحقیقات کا جائزہ لیں اور ان سے استفادہ کر کے تحقیق و تجربے کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔

ڈاکٹرسید حسین نصر : (پ:1933)

سید حسین نصر ایران میں پیدا ہوئے۔انھوں نے ابتدائی تعلیم ایران  میں حاصل کی ۔اس کے بعد علم طبعیات میں ایم ۔آئی۔ٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔پھر انھوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے علم تاریخ میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ڈاکٹر موصوف جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے سابق پروفیسر ہیں ۔موصو ف پچاس کتابوں کے مصنف ہیں اور اسلامی فکر ، اسلامی سائنسز ، اسلامی فلسفہ اور مابعد الطبیعات پر آپ نے قلم اُٹھایا ہے ۔ علمی اور تحقیقی دنیا میں معروف اسلامی فلاسفر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔  انہیں اسلامی سائنس پر زبردست عبور حاصل ہے  ۔نصر نے مسلمانوں کے عروج و زوال پر گفتگو کی ہے۔   وہ جمال الدین افغانی کی اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ وہی مسلمان اسلام کے محافظ ہو سکتے ہیں جو علوم و معارف سے آشنا اور واقف ہوں ۔وہ کہتے ہیں کہ ’’عالم اسلام میں  سائنس اور ٹکنالوجی کی زرخیزی سولہویں صدی تک باقی رہی اس کا انحطا ط سترہویں اور اٹھارویں صدی میں ہوا  جب ریاضی اور دوسرے اہم مضامین کو مدرسوں کے نصاب سے خارج کر دیا گیا ۔ اب اسلامی تعلیم رسمیت ،روایت اورتقلید جامد تک محدود ہوگئی ‘۔ البتہ ان کا یہ بھی موقف ہے کہ’’ جدید سائنس کے اس رویے پر مدلل تنقید کی ضرورت ہے جس کے تحت تصوّر  سائنس نے ایسا ماحول تخلیق کیا ہے جس کے تحت خدا اور عقیدہ آخرت معدوم ہوگیا ہے ‘‘         ۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau