عصری تناظر میں دینی قیادت کا رول

مسلمان اس وقت عالمی سطح پرسب وشتم اورآلام ومصائب کا نشانہ بنائے جا ر ہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات مسخ کی جارہی ہیں، مسلمانوں کے وسائل بیرونی قوتوں کے قبضے میں ہیں -مسلمان معیشت، معاشرت، تجارت ، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیچھے اوردوسروں کے دست نگر ہیں۔ باہمی کشمکش،آپس میں لڑنے اور دست وگریبان ہونے میں ان کابیشتروقت صرف ہوتاہے- اغیار کی سازشیں عروج پر ہیں-حالات نے اغیارکو اس قدرحوصلہ دیاکہ وہ  اسلام کے اصول ومبادی میں بھی تحریف وتشکیک کی جسارت کربیٹھے- ان کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں فرعونیت نے سرابھارااورسرمایہ داری نے پروبازو پھیلائے- نتیجہ کے طورپر دنیامیں ظلم وعدوان کا بازارگرم ہوا انسانیت کراہ اٹھی،اخلاقیات کاجنازہ نکل گیا،سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی زندگیوں کوموت کے منہ میں پہنچادیا-

عالم انسانیت کی تصویر

دنیاکی یہ وہ مہیب تصویرہے جوانسانیت کے دلوں کو لرزہ براندام کردیتی ہے- اس کے تدارک اور مصائب سے گلوخلاصی کے لئے آوازیں بلندہوتی ہیں اوراصلاحات کے لئے عالمی سطح پرگاہے حرکت بھی نظرآتی ہے لیکن ان لوگوں کی طرف سے جن کے پاس نہ پیغام رشدوہدایت ہے اورنہ اصلاح وفلاح کا ربانی لائح عمل ہے ۔بے راہ روی کے خلاف ان کی یہ حرکت اس وجہ سے ہے کہ ان کے عقل وشعوراورقلب وضمیرمیں وہ فطرت آج بھی کچوکے لگارہی ہے جسے رب کائنات نے ہر انسان کے اندررکھ چھوڑاہے۔ اس کے برخلاف انسانی سماج کا وہ حصہ بدستورعضو معطل بناہواہے جواپنے پاس پیغام رشد وہدایت بھی رکھتاہے اوراصلاح وفلاح کاربانی لائح عمل بھی-یہ کام سونپاگیاتھاکہ ’’کنتم خیرأمۃ اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکروتؤمنون باللہ‘‘(آل عمران:110) ’’اب دنیامیں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لئے میدان میں لایاگیا- تم نیکی کاحکم دیتے ہو،بدی سے روکتے ہواوراللہ پرایمان رکھتے ہو‘‘- دنیامیں یہ عضومعطل’’امت مسلمہ‘‘کے نام سے جاناجاتاہے۔رب کائنات کی طرف سے کہاگیاتھاکہ یہ نافرمان افراد’’تمہاراکچھ نہیں بگاڑسکتے زیادہ سے زیادہ بس کچھ ستاسکتے ہیں- اگریہ تم سے لڑیں تومقابلہ میں پیٹھ دکھائیں گے‘‘ لیکن اسے وعدہ الٰہی پراعتبارنہ رہا-اس نے ’’نافرمان افراد‘‘ کی فرماں برداری کواپنے لئے سعادت مندی اوردنیاوی کامیابی کاذریعہ تصورکرلیا- اس وقت بالعموم ملت اسلامیہ انہی’’نافرمانوں‘‘کے آگے سرنگوں ہے-

دینی قیادت: ارواح سعیدہ کی کاوشیں

ملت اسلامیہ کی اس تصویرکے علاوہ ایک تصویراور بھی ہے ۔یہ امیدورجاء سے تعلق رکھتی ہے -اس نے نامساعدحالات کانہ صرف مقابلہ کیابلکہ راہ نوردوں کی رہ نمائی کے لئے جگہ جگہ روشنی کے دئے بھی جلائے-’’ولتکن منکم امۃ ید عون الی الخیرو یا مرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولیک ھم المفلحون‘‘ (آل عمران 3:104) ’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہونے چاہیں، جو نیکی کی طرف بلائیں- بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں-جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘-ان ارواح سعیدہ نے رضائے الٰہی اورفلاح کواپنی زندگی ماحصل تصورکرکے دنیاکی رشدوہدایت کے لئے دئے جلائے- اس مقصد کے لئے جگہ جگہ مدارس ومکاتب،مساجد وخانقاہوں کاقیام عمل میں آیا- مجالس اوروعظ ونصیحت کی محفلوں کااہتمام کیاگیا- یہ کام عرصۂ درازسے جاری ہے- قرآن مجید نے انہیں ’’العلماء‘‘’’اہل الذکر‘‘ جیسے القاب سے نوازاہے اوراہل دنیاکو مسائل ومشکلات کی افہام وتفہیم کے لئے ان کی طرف رجوع کرنے اوران سے دریافت کرنے کی ہدایت دی ہے- یہ ملت ہی کی رہنمائی کا نہیں بلکہ عالم انسانیت کی قیادت کابارہے جواس طبقہ پرڈالاگیاہے-’’فسئلوا اھل الذکران کنتم لاتعلمون‘‘(النحل:43) ’’ اگرتم نہیں جانتے تواہل ذکر سے پوچھ لو‘‘ -اس طبقہ نے اس بارکو خندہ پیشانی کے ساتھ نہ صرف قبول کیابلکہ تسلسل کے ساتھ اس کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف ہے-

مسائل ومشکلات کی ہمہ جہتی

دینی قیادت کے سامنے جومسائل ہیں وہ مختلف نوعیت کے ہیں۔

(1)         اغیاروبیرونی قوتوں یعنی”نافرمان افراد”نے انہیں اپناحریف تصورکرتے ہوئے ان کے خلاف سازشوں وشرارتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا- اس وقت عالمی سطح پرعلماء اور دینی قیادت کے خلاف جوبازارگرم ہے اورانہیں بدنام کرنے اور عوام الناس سے ان کے رشتہ کو منقطع کرنے کی جومنصوبہ بند کوشش ہورہی ہے دینی قیادت کی کاوشوں کوبے سمت کرنے یاانہیں بے اثربنانے کے لئے دولت کے درکھول دئے گئے-  بین الاقوامی اورقومی سطح پربڑی شدت کے ساتھ”مدارس کی جدیدکاری”کی جوفکردامن گیرہوئی ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے-

(2)         علماء ،اہل الذکر کے خلاف مہم جوئی کے لئے امت مسلمہ کے اندر سے بھی افراد تلاش کرلئے گئے ہیں- دانشوری کے مظاہرآئے دن اخبارات ورسائل،جلسے وجلوس اورتقاریرمیں نظرآجاتے ہیں- اس وقت نادان مشیروںکاسیلاب سا آگیاہے جن کے عزائم اور تجاویزدیکھ کراہل خرد دانتوں تلے انگلیاں دبانے پرمجبورہوجاتے ہیں-

(3)         امت مسلمہ کے درمیان ایک طبقہ اوربھی ہے – یہ دینداربھی ہے،ذی علم بھی ہے اورملت کی اصلاح وفلاح کے لئے فکرمندبھی ہے لیکن ملت کی طرف سے وہ مقام اوراعتماداسے حاصل نہیں ہوپارہاہے جوعلماء کوحاصل ہے – اس لئے اس طبقہ کی طرف سے بھی ان پرنت نئے الزامات کا سلسلہ جاری رہتاہے-

(4)         ایک مسئلہ “علمائے سوء ” کا ہے۔ “حب دنیا” نے اس طبقے کو اس قدر غافل کردیا ہے گویا موت کی حقیقت اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی ہے- اس کی بے ضمیری،غرضمندی، دنیا طلبی نے امت مسلمہ ہی نہیں انسانی دنیاکے سامنے دینی قیادت کی شبیہ کوخراب کردیاہے-

(5)         دینی قیادت پرتنقیدکرنے والوں کی صف میں ایک اورطبقہ بھی شامل ہوتا نظر آرہا ہے-  یہ وہ طبقہ ہے جس نے خودبھی اہل علم  وعلماء کی صحبتوں میں ماہ وسال گزارے ہیں- مدارس کی چٹائیوں پر بیٹھ کرزانوے تلمذتہہ کیاہے-ہدایت دی گئی تھی کہ “فلولانفرمن کل فرقۃ منھم طآ ئفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون (التوبہ: 122)”ایساکیوں نہ ہواکہ ان کی آبادی کے ہرحصہ میں سے کچھ لوگ نکل کرآتے اوردین کی سمجھ پیداکرتے اورواپس جاکراپنے علاقے کے باشندوں کوخبردارکرتے تاکہ وہ بیدارہوجاتے”اس ہدایت ربانی کے مطابق دین میں تفقہ حاصل کرنے کے بعدلوگوں کوبیدارکرنے کے بجائے اس طبقہ نے دنیا کی انگلی تھام لی۔

دیکھتے ہی دیکھتے اسے مدارس ازکاررفتہ اوراہل مدارس بدعنوان نظرآنے لگے-

حالانکہ یہ وقت وہ تھا کہ مدارس کو ان قربانیوں کوسرآنکھوں پررکھاجائے،ان کی ہرسطح پراورہرطرح سے مددکی جائے-

مدارس کے خلاف مہم جوئی میں کبھی کاوشیں انفرادی ہوتی ہیں توکبھی مفادپرست اِس سلسلے میں باہم متحد ہوتے ہیں-علامہ اقبال علیہ الرحمہ کی یہ تلقین قابل غور ہے:

“ان مکتبوں کو اسی حال میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں، اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اس طرح ہوگاجس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا”(از: ماہنامہ دارالعلوم دسمبر ۹۴ بحوالہ دینی مدارس)

دینی قیادت

تشویش کی بات یہ ہے کہ دینی قیادت نے اس معنی میںاپنے بال وپرسمیٹ لئے ہیںکہ اس کی رہنمائی عموماعبادات تک ہی محدود ہوکررہ گئی ہے- دین کو دنیاسے الگ کردیاگیاہے- چہارجانب سے اس پرہونے والی یلغارنے اسے عالم انسانیت کی قیادت سے غافل کردیا- وہ معروف ومنکرکے مابین فرق کرنے، اس کی قباحتوں سے دنیا کوآگاہ کرنے اورامرونہی کے فریضہ کی ادائیگی سے عمومی طورپر کنارہ کش ہوگئی- اس نے عالم انسانیت کی جگہ امت مسلمہ اوراس کے بھی معدود ے چندشعبوں تک ہی اپنی تگ ودوکومحدودکردیا- نتیجہ کے طورپر عالم انسانیت نے تواسے فراموش کیاہی خود امت مسلمہ نے بھی اسے بھُلادیا- لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ تو یہ دینی قیادت کی مجموعی تصویرہے اورنہ وہ کلی طورپرکبھی اپنے فریضہ سے غافل ہوئی تھی بلکہ اصل منزل کی سمت سفرکے ساتھ ہی داخل کاجائزہ اوراصلاح حال کاعمل بھی جاری رہاہے- خوش آئند امرہے کہ اَب دینی قیادت بیک وقت عالم انسانیت کی رہنمائی،امت مسلمہ کی اصلاح،اپنے داخل کے جائزہ اوراصلاح حال پراب پہلے کی نسبت زیادہ توجہ دے رہی ہے-اس کے ثمرات بھی ظاہرہونے لگے ہیں-عالم انسانیت کی طرف بڑھتی ہوئی توجہ،مسائل حاضرہ سے نبردآزمائی میں اسلامی رہنمائی سے استفادہ کی باتیں،قبول حق کے لئے رغبت میں اضافہ اورخود امت مسلمہ کے حالات میں ظاہرہونے والی تبدیلی اس کاواضح ثبوت ہے- عالمی منظرنامہ بدل رہاہے-  اب جس چیز کی ضرورت ہے اسے مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی  ؒنے ان الفاظ میں بیان کیاہے کہـ: ’’یہ بات بالکل ایسی ہے کہ جہاز کی رفتارکوکنٹرول کرنے والی اورجہازکارخ متعین کرنے والی ایک چھوٹی سی مشین یاایک معمولی ساپرزہ ہوتاہے،اگربال برابربھی اس کی سوئی اپنی جگہ سے کھسک جائے توجہازسیکڑوں میل کے حساب سے اپنی منزل مقصود سے دورہوجاتاہے،علماء کی جماعت درحقیقت ملت وانسانیت کے لئے ’’قطب نما‘‘ہے جس سے قبلہ کی سمت متعین ہوتی ہے،اس لئے اس کا صحیح اورسچارہنااوراپناکام کرتے رہناضروری ہے‘‘(علماء کامقام اوران کی ذمہ داریاں صفحہ 58-59 )- عالم انسانیت کی رہنمائی اورامت مسلمہ کی اصلاح جتنی ضروری ہے علماء واہل ذکرکی خوداحتسابی بھی اتنی ہی ضروری ہے اوراس کی طرف سے صحیح دینی قیادت کوکبھی غفلت کاشکارنہیں ہونا چاہئے ۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2015

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223