یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کائنات اور کائنات کی ہر شے کاخالق و مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس کی فرماں روائی ہر شے پر قائم ہے۔ وہ جہاں ہر جاندارکو اس کا رزق بہم پہنچاتا ہے وہیں اس نے انسان کو تمام مخلوقات ارضی میں سب سے اشرف بناکر اس کے لیے روحانی غذا کا بھی انتظام فرمایا ہے اور اپنی کتاب و سنت رسولؐ کی شکل میں زندگی کے شعبہ جات کے لیے احکام و ہدایات فراہم کیے ہیں جن کی پابندی و عمل آوری ہی کسی بندۂ مومن کے لیے باعث فلاح و نجات ثابت ہوسکتی ہے۔ اخروی کامیابی فی الحقیقت اسی سے وابستہ ہے، نہیں تودنیا کے مال و اسباب، زرو دولت اور آل اولاد نہ صرف یہ کہ حشر کے میدان میں کام آنے والے نہیں ہیں بلکہ نعوذباللہ باعث خسارہ و ناکامی بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچائے اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، جس پر نہایت تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوںگے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انھیں دیاجاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘(التحریم:۶)
آیت کریمہ نارجہنم کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہر مسلمان مرد، عورت کو خواہ وہ امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا جاہل، ہر حال میں جہنم سے بچنے کی تلقین کررہی ہے اور اپنے اہل و عیال کو بھی بچانے کی طرف متوجہ کررہی ہے۔ یہ آگ چشم پوشی برتنے اور صرف نظر کرنے کی چیز نہیں ہے جب کہ قرآن مجید کی متعدد آیات اس کی شدت اور سختی سے باربار آگاہ کررہی ہیں، دوسری جگہ فرمایاگیاہے:
’’ہرگز نہیں وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہوگی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی، پکارپکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو جس نے حق سے منھ موڑا اور پیٹھ پھیرلی اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا۔‘‘(المعارج:۱۵ تا ۱۸)
آیت سے واضح ہوتاہے کہ یہ آگ بذات خود ہر کس و ناکس کو اپنے جبڑوں میں کسنے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ یہ صرف ان لوگوں کو پکارے گی جنھوںنے دین حق سے روگردانی کرتے ہوئے من مانی زندگی بسر کی اور دنیا کی رنگینیوں میں کھوکر اس کے حصول میں متاع حیات کے بیش بہا قیمتی لمحات ضائع کردیے، انھوںنے اس کارگاہ حیات کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ کے متعین کردہ ضابطہ حیات کی مطلق پروا نہ کی جس کی تفصیلات قرآن وسنت میںمندرج ہیں بلکہ انھوںنے اخروی زندگی کے تصور کو ہی پست پشت ڈالے رکھا اور اللہ تعالیٰ کے احکام شریعت سے منھ موڑکر آزادانہ زندگی بسر کی اور انھیں کبھی یہ احساس دامن گیر نہیں ہوا کہ وہ اپنے اعمال کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے یہاں جوابدہ بھی ہیں۔
ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا:
’’میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی پھر جب اس کے گرد روشنی ہوگئی تو پتنگے اور کیڑے جو آگ پر (مرے پڑتے ہیں) آگ میں گرنے لگے اور وہ شخص ان کو روکنے لگا لیکن پتنگے اس پر غالب آگئے اور آگ میں گرتے چلے گئے یہی میری اور تمھاری مثال ہے، میں کمر سے پکڑپکڑکر تمھیں جہنم سے بچارہاہوں اور آواز دے رہاہوں: لوگو! آگ سے دور رہو لیکن تم مجھ پر غالب ہونے کی کوشش کررہے ہو، آگ میں جانا چاہتے ہو۔‘‘ (مسلم، ابوہریرہ)
قرآن مجید میں رسولؐ سے ارشاد ہوا:
’’کہہ دیجیے میرا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچادوں۔‘‘ (الجن:۲۲،۲۳)
اب جو بھی اللہ اور اس کے رسولؐ کی بات نہ مانے گا اس کے لیے جہنم کی آگ ہے اور ایسے لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
اس ضمن میں کفار کو تنبیہ کرتے ہوئے خود آپؐ کو بھی قرآن میں تذکیر کی گئی:
’’اے نبی! کہہ دو، اگر میں اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کروں تو میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں، جو شخص اس دن اِس سے دور رکھا گیا درحقیقت وہی ہے جس پر خدا نے رحم فرمایا اور یہی کھلی کامیابی ہے۔‘‘(الانعام:۱۵،۱۶)
آیات کی رو سےدنیا کی پُرتنعم آسائشی زندگی، جس کے لیے آج کا انسان ہمہ وقت سرگرداں ہے اگرچہ اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت و رحمت ہے لیکن بندۂ مومن کااصل مطلوب و مقصود یہ ہواکہ آخرت میں اللہ کی نعمتوں ورحمتوں کا سزاوار قرار پائے اور یہی درحقیقت اصل کامیابی ہے اس کے برعکس دنیا کی کامیابیوں کو یہی اصل سمجھتے ہوئے آخرت کی فوزو فلاح کو نظرانداز کردینا، اس فانی زندگی کے مقابلہ میںدائمی زندگی کی بدبختی و محرومی کو نعوذباللہ دعوت دینا ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ کرم فرمائی ہے کہ اس نے اپنے پیغمبرؐ کے ذریعہ بداعمالیوں کے نتائج اور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے آگاہ کردیا اور اپنے بندوں کو ا س آگ سے بچنے بچانے کی ہدایت بھی فرمادی۔ اب نہ صرف اہل ایمان کی بلکہ پوری انسانیت کی اپنی ذمہ داری ہے کہ وہ عقل و خرد سے کام لے کر اپنے معبود حقیقی کو پہچانے اور کل زندگی میں اس کی تابعداری کو اختیار کرلے یہی نجات کا واحد راستہ ہے۔
خود آپؐ کو حکم دیاگیا:
’’اور ڈراؤ اپنے قریبی رشتہ داروں کو‘‘
تو حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ:
رسول اللہؐ اس آیت کے نزول کے بعد قریش کے لوگوں کو بلا بھیجا، سب اکٹھا ہوئے تو (پہلے) آپؐ نے سب کو عمومی طورپر ڈرایا پھر (الگ الگ نام لے کر) خواص کو ڈرایا اور فرمایا:
’’اے کعب بن لودی کی اولاد! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ،اے مرہ بن کعب کی اولاد! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے ہاشم کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے عبدالمطلب کی اولاد! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اے فاطمہ! (بنت محمدؐ) ! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، اللہ کے مقابلے میں (قیامت کے روز میں) تمھارےکسی کام نہیں آسکوںگا البتہ (دنیامیں) تم سے میرا جو رشتہ ہے اسے جوڑتا رہوں گا۔‘‘(مسلم)
یہ اور اس طرح کی دیگر آیات وحدیث ہمیں بہت ہی محتاط اور ذمہ دارانہ زندگی گزارنے، اورامر الٰہی پر عمل درآمد کرنے اور نواہی سے اجتناب کرنے کی ترغیب دلارہی ہیں۔ ساتھ ہی اپنے زیرکفالت وسرپرستی افراد کے تئیں بھی احساس ذمہ داری پیدا کررہی ہیں، کہ دنیا کے اسباب و وسائل اور عیش و عشرت سے پُرزندگی کا حصول اگرچہ لازمی ہے لیکن حقیقی محبت کا تقاضا انھیں آخرت کی ابدی لازوال نعمتوں کے حصول کے لیے تیار کرنا ہے لہٰذا اسی کو ترجیحی بنیاد پر اولین حیثیت دی جانی چاہیے ، رہی دنیا تو وہ مومن و کافر سب کے لیے ہے، اسے بہرحال آخرت کے مقابلے میں ثانوی حیثیت حاصل ہے۔
یہ ہمارا کام ہے کہ درج بالا تنبیہات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنا جائزہ لیں کہ اس سلسلے میں کیا کچھ کررہے ہیں؟ اور کیا کیاجانا چاہیے؟ وہ کیا طریق زندگی ہے جسے اختیار کرکے نار جہنم سے آزادی ممکن ہے؟
آج ایک سرسری جائزہ اس بات کا غماز ہے کہ سربراہ اہل خانہ خواہ وہ باپ ہو یا کوئی اور، بیوی بچوں اوردیگر اہل خانہ کے نان و نفقہ کی ذمہ داری تو بخوبی محسوس کرتا اور اس کی ادائیگی کے لیے قدرے متفکر ہوتاہے اور بطریق احسن گھر کا نظم ونسق چلانے کے لیے بہتر سے بہتر ذریعۂ معاش اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ان کی اخروی زندگی کی آسائشیں اور عواقب و انجام پر اس کی نگاہ بہت کم ہی ہوتی ہے بلکہ بسااوقات اہل و عیال کی ضروریات زندگی کی فراہمی اور اس کے لیے انتھک جدوجہد اور تگ ودو خود ان کو اپنے مقصد زندگی اور اخروی فوزو فلاح سے بے نیاز اور غافل کردیتی ہے۔
آیت کے مخاطبین میں خواتین بھی شامل ہیں جن کی گودوں میں نسلیں پروان چڑھتی ہیں،خواتین کھلانے، پہنانے میں بچوں کے اعلیٰ ذوق و اعلیٰ معیار کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بچہ اپنے لباس اور وضع قطع میں اپنے ہم عمروں میں نمایاں نظرآئےاور یہی بچوں کی والہانہ محبت والدین کو حدودِ شریعت سے بھی غافل کردیتی ہے۔
والدین کے لیے یہ امر بڑا ہی باعث تفکر ہوتاہے کہ اولاد کا مستقبل مادی لحاظ سے مستحکم ہو اور وہ دنیا کی فانی زندگی مکمل عیش وعشرت اور سرور وشادمانی کے ساتھ بسر کرکے، اس کے لیے عصر حاضر کی جدید تعلیم اور جملہ پروفیشنل کورسز پر نگاہ رکھ کر، بچپن ہی سے بچہ کی صلاحیت و دلچسپی کے مطابق کورس متعین کرکے بھرپور توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ کمپٹیشن کے اس دور میں بچہ اپنی مطلوبہ سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوسکے اور اس کا مستقبل روشن ہوسکے، یہ امر لائق ستائش بھی ہے کہ اسلام انسان کو خودکفیل اور خوشحال دیکھنا چاہتا ہے۔ بشرطیکہ اس کی حصول معاش کی تگ و دو، اسلام کے متعین کردہ معاشی نظام کے دائرہ میں ہو، لیکن جس چیز سے صَرفِ نظر کیاجاتاہے وہ دینی تعلیم وتربیت ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اس سمت سے غفلت اختیار کیے ہوئے ہے، کچھ دیندار قسم کے لوگ فکر کرتے ہیں تو صرف اتنی کہ بچہ کو ناظرہ قرآن پڑھادیاجائے، دو چند دعائیں اور سورتیں یاد کرادی جائیں تو گویا دینی تعلیم کا حق ادا کرکے بریٔ الذمہ ہوگئے۔
اسلام والدین اور سربراہ اہل خانہ پر یہ ذمہ داری عائد کرتاہے کہ وہ اپنے اور اہل و عیال کے لیے صرف جسمانی صحت و بقا و آرام وآسائش کاخیال رکھتے ہوئے خوردو نوش اور دیگر لوازمات کی ہی فکر نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطاکردہ اجسام و ارواح کو آخرت کے عذاب سے محفوظ رکھنے اور نارجہنم میں جلنے سے بچانے کی فکر بھی انھیں دامن گیر ہو۔ آیت جہاں اپنی ذات کو جہنم کی آگ سے بچانے کی اولین ذمہ داری عائد کررہی ہے، وہیں سربراہ یا والدین پر یہ فریضہ بھی عائد کررہی ہے کہ جس خاندان کی ان کو سربراہی حاصل ہے اس کو تاحد استطاعت دینی تعلیم دیں اور اسلامی نہج پر ان کی ایسی تربیت کرنے کی کوشش کریں کہ اہل و عیال اللہ کے نیک و صالح پسندیدہ انسان بنیں اور انھیں شیطان کی پارٹی میں شامل ہونے اور جہنم کی راہ پر جانے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کریں۔
رسل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ حکمراں راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے، مرد اپنے گھر والوں پر راعی ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘ (بخاری۔ عبداللہ بن عمر)
حدیث نے خواتین کو بھی جوابدہی کا احساس دلاکر بیدار کیاہے، بچے ماؤں کی گودوں میں پروان چڑھتے ہیں اس طرح نسلوں کو بنانے یا بگاڑنے میں مائیں اہم کردار ادا کرتی ہیں لہٰذا ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے متعین کردہ ضابطۂ حیات اور قوانین اسلام کو زندگی کے ہر شعبہ میں اس طرح نافذ کریںکہ وہ بچپن ہی سے ذہن و دماغ میں رَچ بس جائیں اور ان سے مفر اختیار کرنے میں اللہ کی ناراضگی اور گناہ کا خوف و احساس ہو۔ اس کے باوجود اللہ کے احکام سے غفلت و لاپروائی نظرآئے تو والدین اس کے سدّباب کی فکرکریں، اس سلسلے میں ان کی ناگواری اور ناراضگی کی مطلق پروا نہ کریں اس لیے کہ ان کو جہنم میں جانے کے لیے چھوڑدینا ان کی حقیقی الفت و محبت کے بھی منافی ہے اور کلکم راع کی مسؤلیت سے لازم آنے والی ذمہ داری کے بھی خلاف ہے۔
مزید تربیت صحیحہ کے ضمن میں چند باتوں کادھیان رکھنا مناسب ہوگا۔
۱) معصوم بچوں کے ذہنوں میں گھر اور گردو پیش کا ماحول بہت تیزی سے سرایت کرتا ہے وہ جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں اس کے اثرات کو قبول کرتے ہیں اس لیے گھر میں اللہ کی ذات و صفات اور قرآن و سنت کا چرچا ہو، اللہ کے اوامر کی انجام دہی اور نواہی کے اجتناب کا ماحول ہو، خود بچوں کو بھی تلاوت قرآن ، ترجمہ قرآن، حفظ و تجوید اور مطالعۂ کتب ، احادیث و سیرت، نماز، روزے اور صدقات کے ذریعہ عمرو صلاحیت کے مطابق دین سے مربوط کیاجائے۔
۲) لہو ولعب اور فتنے میں ڈالنے والی تمام چیزوں سے انھیں دور رکھاجائے، مثلاً ٹی وی، موبائل، وی سی آر وغیرہ جیسی دوسری اشیاء۔
۳) بچپن سے ہی ان کے ساتھیوں پر نظر رکھی جائے۔ بدترین اور بگڑے ہوئے بچوں کی صحبت سے بچانے کی کوشش کی جائے۔ بدترین ساتھی راہ راست سے بھٹکانے میں دشمن سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’انسان اپنےساتھی کے طریقہ پر رہتاہے پس تم میں سے ہر کسی کو غور کرلینا چاہیے کہ وہ کس کو ساتھی بنارہاہے۔‘‘ (ترمذی)
۴) بچپن سے ہی مومانہ اوصاف اور بلند اخلاق کی تعلیم دی جائے، گھٹیا اور ارزل ترین امور سے نفرت پیدا کی جائے تاکہ ان سے اجتناب بچوں کی فطرت بن جائے۔ آپؐ نے فرمایا:
’’بیشک اللہ بلند اخلاق کو پسند کرتاہے اور لغویات و بداخلاقی کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘(رواہ الطبرانی)
۵) بچپن سے ہی لباس ووضع قطع میں اسلامی اصولوں کاپاس و لحاظ رکھاجائے، مردوں کے لیے سونا اور ریشم حرام کردیاگیا ہے لہٰذا بچوں کو ان کا استعمال کرانے سے گریز کیاجائے، کچھ مائیں لڑکیوں کو لڑکوں کے لباس و وضع قطع میں رکھنا پسند کرتی ہیں، اسی طرح کچھ مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر بالکل یورپین انداز میں اپنے بچوں کو دیکھنا چاہتے ہیں یہ چیزیں فطرت کو مسخ کرڈالتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:
’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ ان ہی میں سے ہوگیا۔‘‘(ابوداؤد)
۶) بچوں کے دل میں اللہ تعالیٰ کی حقیقی محبت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے نیز امور دینیہ کی تعظیم و تکریم، احکام اسلام پر عمل آوری کا احساس، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واقعی حجت اور آپؐ کی رہنمائی میں زندگی کا سفر طے کرنے کا جذبہ دل میں بٹھانے کی فکر کی جائے۔
’’جس نے اللہ کے لیے دوستی کی اور اللہ کے لیے دشمنی کی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روک رکھا اس نے اپنے ایمان کو مکمل کیا۔‘‘ (بخاری۔ ابوامامہ)
’’رسول اللہؐ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص (مطلوبہ درجہ کا) مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کی نگاہ میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘ (بخاری و مسلم۔ انسؓ)
۷) دنیاوی امور کی تحصیل کے ساتھ علم دین کی خصوصی طلب پیدا کی جائے اور اس کا نظم وانصرام کیاجائے اس طورپر کہ علم دین ہی حقیقی کامیابی کا زینہ ہےاس سے غفلت وصرف نظر کے سنگین اخروی نتائج سے آگاہ کیاجائے۔
۸) ان تمام ترامور کی تعلیم و تربیت میں شفقت و نرمی، محبت و خیرخواہی مہربانی و خوش خلقی کا طرزعمل اختیار کیاجائے۔ سختی اور مارپیٹ سے گریز کیاجائے، ہمہ وقت بُرا بھلا اور سخت سست کہہ کر ان کے جذبات کو مجروح نہ کیاجائے۔
۹) والدین اور سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اہل وعیال اور زیرتربیت و کفالت افراد کے سامنے خود کو اسلام کا عملی نمونہ بناکر پیش کریں۔ بچے اپنے والدین کے اعمال و حرکات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور انجانے طریقے سے اس کے اثرات کو قبول کرتے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنی شخصیت کو نکھارنے اور اسورۂ رسولؐ کے مطابق ڈھالنے کی فکر کریں کہ یہی واحد راستہ ہے جو نارجہنم کی تباہی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ قرآن میں ہدایت کی گئی ہے:
’’درحقیقت تمہارے لیے اللہ کے رسولؐ میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو۔‘‘(الاحزاب:۲۱)
۱۰) آخری بات یہ کہ اپنے اور اپنے بچوں کی اصلاح وہدایت و رہنمائی کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ سے قبولیت دعا کے اوقات میں، فرض نمازوں کے بعد مسجد کی تاریکی وغیرہ میں بکثرت دعائیں کی جائیں جو قرآن مجید میں بھی سورہ فرقان آیت نمبر ۷۳ اور سورہ الاحقاف آیت نمبر ۱۵ میں درج ہیں۔
نیزضروری ہے کہ اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کے ذریعہ مغفرت طلب کی جائے، ہدایت کی راہ پر چلنے کی کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توفیق بھی طلب کی جائے کہ نارجہنم سے آزادی اور جنت کا حصول ممکن ہوسکے۔ ایک حدیث میں محمدؐ(ﷺ) فرماتے ہیں:
’’حضورؐ نے فرمایا: جنت میں ایک کوڑا رکھنے کی جگہ دنیا اور دنیا کے سروسامان سے بہتر ہے۔‘‘ (بخاری ، مسلم)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2014