اس سے قبل (دسمبر 2022 کے شمارے میں)، ہندوستان میں امت مسلمہ کی ترقی یا تمکین (empowerment) کی بحث شروع کرتے ہوئے ہم نے درج ذیل نکات پر مختصراً روشنی ڈالی تھی۔
امت مسلمہ کی ترقی کے لیے محرکات کو مضبوط بنانا ضروری ہے اور انفرادی مادی مفادات، افراد کے لیے تو ترقی کا محرک بن سکتے ہیں لیکن پوری امت کے لیے محرک نہیں بن سکتے۔
قوموں کی تیز رفتار ترقی اسی وقت شروع ہوتی ہے جب ان کے سامنے کوئی بڑا چیلنج یا مشکل درپیش ہوتی ہے اور اس چیلنج کو وہ مناسب اور درست رسپانس دیتے ہیں۔ اس لیے موجودہ حالات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ترقی کے ایک تیزرفتار دور کے آغاز کا نادر موقع فراہم کرتے ہیں۔
اجتماعی قوتیں اور اجتماعی کم زوریاں جماعتوں یا گروہوں کے احوال پر لازماً اثر انداز ہوتی ہیں۔ جب تک سماجی گروہوں کے اجتماعی احوال کو درست نہ کیا جائے، اس وقت تک پوری قوم یا پورے گروہ کی ترقی ممکن نہیں ہوتی۔ اس لیے ترقی کے لیے صرف افراد پر توجہ کافی نہیں ہے بلکہ امت کے اجتماعی احوال کو درست کرنا بھی ضروری ہے۔
مسلمانانِ ہند کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے پاس اپنی ذمے داریوں، اپنے فرض منصبی اور اپنے وژن و مقصد کے سلسلے میں ایک مشترک تصور موجود ہو۔ یہ مشترک تصور پوری ملت کو باندھ کر رکھے۔ اس تصور کی اساس اسلام کے اصول ہوں۔ اس لیے کہ انھی کی بنیادپر ملت کی تشکیل ہوئی ہے۔
اس ماہ چوتھے نکتے، یعنی ترقی یا امپاورمنٹ میں مشترک مقصد، مشترک تصور یا مشترک نصب العین (shared vision) کے کردار کو ہم زیر بحث لائیں گے اورواضح کریں گے کہ مشترک نصب العین کی طاقت ہی امت کو جوڑ سکتی ہے اور وہ قوت فراہم کرسکتی ہے جو ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ ان مباحث کی روشنی میں اگلی قسطوں میں ان شاء اللہ، تعلیم، معیشت، تجارت، سیاست، سماج وغیرہ میں امپاورمنٹ کی شرطوں اور ان کی تفصیلات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔
سماجی سرمایہ (social capital)
گذشتہ صدی میں کمیونسٹ نظاموں نےمطلق العنان استبدادی (authoritative) حکومتوں کو فروغ دیا۔ ایسی حکومتوں کی بقا کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ سماج میں افراد کے سماجی تعلقات کم سے کم ہوں۔ وہ مل کر اپنے حقوق کے حصول کے لیے کچھ نہ کرسکیں۔ ایسی حکومتیں افراد کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں اور آزادیاں تو دے سکتی ہیں لیکن یہ برداشت نہیں کرتیں کہ افراد گروہوں کی شکل میں منظّم ہوں اور ترقی و تمکین کے لیے گروہی جدوجہد کریں۔ چناں چہ یہ حکومتیں ایسا نظام تشکیل دیتی ہیں جس میں اجتماعی ادارہ صرف ریاست ہوتا ہے اور اس کے بعد، اس اجتماعیت کی اکائی صرف فرد ہوتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان افراد کے اشتراک و تعاون کی دوسری شکلوں کو دبا دیا جاتا ہے۔ مشہور امریکی دانش ور و ماہر سیاسیات فرانسس فوکویاما(Francis Yoshihiro Fukuyama: born 1952) نے اس صورت حال کے لیے ایٹمائزیشن (atomisation) (کسی شے میں جوہروں [atoms] کے باہمی تعلق کو ختم کرکے ان کو الگ الگ جوہروں میں بدل دینے) کا نام دیا ہے۔[1] دوسری طرف لبرل مغربی معاشروں میں انفرادیت پسندی (individualism) پر اتنا زور دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں یہاں بھی افراد کے باہمی رابطے کم زور ہوتے گئے۔[2] اس پس منظر میں گذشتہ صدی کے اواخر میں سماجیات میں ایک اہم نظریہ ابھرا جسے سماجی سرمائے (social capital) کا نظریہ کہتے ہیں۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی سماج کی ترقی کے لیے صرف انسانی وسائل، یعنی انسانوں کا وقت اور صلاحیت اور مادی و مالی وسائل کافی نہیں ہیں بلکہ وہ بہتر سماجی روایات، معمولات اور قدریں بھی ضروری ہیں جن کی بنا پر معاشرے کے لوگ مل جل کر کام کرتے ہیں اور مشترک جدوجہد سے نتائج حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح کسی سماج کے افراد کے مل جل کر، بہتر باہمی رابطہ و نیٹ ورک کے ساتھ، ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے کام کرنے کی صلاحیت کو سماجی سرمایہ (social capital) کہتے ہیں۔[3]
سماجی سرمایہ اور ترقی کا باہمی تعلق
ماہرین سماجیات کی ایک بڑی جماعت کا یہ ایقان ہے کہ پس ماندہ ممالک کی پس ماندگی کا بڑا سبب سماجی سرمائے کی کمی ہے۔[4] یہ عام مشاہدہ ہے کہ افراد کی کارکردگی بھی اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب سماجی ماحول سازگار ہو۔ بہت سے پس ماندہ ملکوں میں انتہائی باصلاحیت افراد پائے جاتے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اپنے معاشروںمیں ظاہر نہیں ہوتیں لیکن جب وہ ترقی یافتہ معاشروں میں رہنے لگتے ہیں تو غیر معمولی کارکردگی كا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس طرح ایک بیج اپنی نمو کے لیے بہتر ماحول، زمین اور آب و ہوا چاہتا ہے اور اگر یہ میسر نہ ہو تو وہ مرجھا جاتا ہے اسی طرح انسانوں کے لیے بھی ترقی، امپاورمنٹ اور آگے بڑھنے کے لیے ایک اچھی کمیونٹی ضروری ہے۔ کمیونٹی کی سطح پر سازگار اجتماعی ماحول میسر نہ ہو تو بہت سی صلاحیتیں مرجھا جاتی ہیں۔ اس سازگار اجتماعی ماحول کا ایک اہم جزو، کمیونٹی کی وہ خصوصیت ہے جسے سماجی سرمایہ کہا جاتا ہے۔ یہ صرف کمیونٹی کی ترقی کے لیے نہیں بلکہ تعلیم، معیشت اور دیگر میدانوں میں افراد کی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔
اب ساری دنیا میں سماجی سرمائے کو ترقی اور امپاورمنٹ کی ایک لازمی ضرورت سمجھا جارہا ہے۔ پس ماندہ گروہوں کی ترقی اور امپاورمنٹ کے لیے کام کررہے عالمی ادارے، سماجی سرمائے کو اپنی کوششوں کا ایک اہم ہدف بنارہے ہیں اور پالیسی کی سطح پر بھی سماجی سرمائے کو ڈیولپمنٹ کے ایک اہم عامل کے طور پر تسلیم کیا جارہا ہے۔ [5](یہ بات واضح رہے کہ یہاں عالمی اداروں کے حوالے کا مطلب، ورلڈ بنک اور دیگر عالمی اداروں کے سوشل کیپٹل سے متعلق تصورات اور ان کی تفصیلات سے اتفاق نہیں ہے۔ متعدد تجزیہ نگاروں کی اس بات سے ہمیں اتفاق ہے کہ اس معاملے میں بھی ان عالمی اداروں کے تصورات، مغربی سرمایہ دارانہ فکر سے حد درجہ متاثر ہیں۔[6] سماجی سرمائے کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہوئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی تفصیلات کا تعین قرآن و سنت کی روشنی میں ہونا چاہیے۔)
سماجی سرمایہ وہ گوند (glue) ہوتا ہے جو افراد کو ایک دوسرے سے باندھتا ہے۔ ایک کمیونٹی کے اندر (ہماری موجودہ بحث میں ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان) لوگوں کو جوڑنے والا جو تعلق ہوتا ہے، اسے ارتباطی سماجی سرمایہ (bonding social capital) کہا جاتا ہے۔[7] یہ ‘سرمایہ’ افراد کے درمیان باہمی اعتماد پیدا کرتا ہے۔ افراد اسی سے مل کر ایک ٹیم بن جاتے ہیں۔ یہ مل کر جدوجہد کرتے ہیں تو ہر ایک کی پرفارمنس کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ (یعنی ایک اور ایک گیارہ ہوجاتے ہیں)۔ اسی سے افراد کی بھی ترقی ہوتی ہے اور معاشرہ بھی ترقی کرتا ہے۔ سماجی سرمائے ہی سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ترقی کے لیے درکار دیگر وسائل یعنی مالی سرمایہ، انسانی وسائل، ادارے اور طبعی وسائل وہ حاصل کرسکیں۔ سماجی سرمایہ نہ ہو تو یہ وسائل موجود رہ کر بھی بے فیض ہوجاتے ہیں اور اگر سماجی سرمایہ ہو تو ان وسائل کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ [8]
کسی سماج کی ترقی کے لیے اور آگے بڑھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ دوسرے معاصر سماجوں (ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہاں کےاکثریتی سماج) سے بھی ایسے تعلقات ہوں جواس کی ترقی میں معاون ہوں۔ ان سماجوں کے پاس موجود وسائل سے استفادہ ہو اور ان کے ساتھ مثبت اور تعمیری اشتراک ہو۔ سماجیات کی اصطلاح میں اسے تجسیری سماجی سرمایہ (bridging social capital) کہا جاتا ہے۔ اس کو آئندہ ہم تفصیل سے زیر بحث لائیں گے لیکن تجسیری سماجی سرمائے (bridging social capital) کا حصول اُسی وقت ممکن ہے جب خود مسلم امت کے اندر گہرا باہمی تعلق یعنی ارتباطی سماجی سرمایہ مناسب سطح پر موجود ہو۔
حالیہ برسوں میں متعدد محققین نے کسی کمیونٹی کی ترقی اور اس کے سماجی سرمائے کے درمیان تعلق کو واضح کیا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے گذشتہ صدی میں دنیا کے مختلف ملکوں میں ترقی کے لیے ہوئی کوششوں کا جائزہ لے کر واضح کیا ہے کہ ان کوششوں میں ناکامی کا اصل سبب یہ تھا کہ سماجی سرمائے پر توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے بجائے درست پالیسیوں، سرمائے کی فراہمی اور اداروں کی تشکیل پر سارا زور رہا۔ سماجی سرمایہ اگر نہ ہو تو نہ پالیسیاں کام کرتی ہیں، نہ ادارے کارگر ہوتے ہیں اور نہ وسائل کا درست استعمال ہوپاتا ہے۔[9] اس موضوع پر ہمارے لیے خصوصی دل چسپی کی حامل ایک اہم اسٹڈی وہ ہے جو کیمبریج یونیورسٹی پریس سے The Role of Social Capital in Development: An Empirical Assessmentکے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں دنیا کے مختلف سماجوں کے گہرے مطالعات کے ذریعے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ سماجی سرمایہ ترقی کے لیے ضروری ہے اور ازالہ غربت، ازالہ ناخواندگی، تعلیمی ترقی اور معاشی ترقی جیسے مقاصد کا حصول سماجی سرمائے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس کتاب (باب 9 اور باب 10) میں ان سماجوں کے مطالعات بھی پیش کیے گئے ہیں جو نسلی و فرقہ وارانہ کشمکش سے دوچار ہیں اور اس حوالے سے تعصب اور ظلم کا شکار ہیں۔ ان مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے بھی سماجی سرمائے کا نہایت اہم اور کلیدی کردار ہے۔[10]
سماجی سرمایہ کئی چیزوں سے مل کر بنتا ہے: (۱) معمولات (norms) یعنی وہ رویے جو کمیونٹی میں وسیع تر اتفاق رائے کے ساتھ رائج ہوجاتے ہیں اور تمام افراد ان کی پابندی کے لیے مجبور ہوتے ہیں، (۲) تعامل بالمثل (reciprocity) یعنی افراد کی ایک دوسرے کے حقوق و مفادات کے سلسلے میں حساسیت اور ذمہ دارانہ رویہ، (۳) اعتماد یعنی افراد کا ایک دوسرے پر یہ بھروسا کہ کوئی ان کو نقصان پہنچانے والا کام نہیں کرے گا، (۴) نیٹ ورک یعنی افرادکو ایک دوسرے سے جوڑنے والی ہئیتیں اور ان کا استحکام (خاندان و قبیلے، محلوں و کالونیوں کی سوسائٹیاں، مذہبی مقامات وغیرہ)، ان سب کو سماجی سرمائے کے اہم عناصر کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔[11] ان پر بھی آئندہ ان شاء اللہ گفتگو کریں گے۔ لیکن ہمارے خیال میں سب سے اہم اور اساسی عنصر مقصد و منزل اور قدروں کی وحدت (shared vision, shared goals and shared values) ہے۔ باقی عناصر کا حصول بھی بہت کچھ اس عنصر کے حصول پر منحصر ہے۔
مقصد و منزل کی وحدت
سماجی سرمائے میں اس چیز کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جسے ادراکی سماجی سرمایہ (cognitive social capital) کہا جاتا ہے۔[12] یعنی سماج میں لوگ اسی وقت مل جل کر کام کرسکتے ہیں اور ان کے درمیان بہتر باہمی تعلق اور اشتراک ہوسکتا ہے جب شعور و ادراک کی سطح پر وہ متحد و متفق ہوں۔ اس کے لیے تہذیبی اشتراک (shared culture)، بیانیوں کےاشتراک (shared narratives) وغیرہ کے ساتھ، سب سے زیادہ جس چیز کو اہمیت دی جاتی ہے وہ مقصد و منزل کا اشتراک (shared goal/shared vision) ہے۔[13]
مقصد و منزل کی وحدت کا مطلب صرف ایک مشترک مقصد کا کہیں لکھ لینا نہیں ہے۔ اس کا صرف تقریروں اور جلسوں میں تذکرہ بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شعور اور جذبے کی سطح پر سب کا نصب العین ایک ہو۔ تمنائیں اور آرزوئیں مشترک ہوں۔ ایک ہی خواب سب کی آنکھوں میں سجا ہو۔ ایک ہی منزل کی جستجو سب کو بے تاب رکھتی ہو۔ یعنی پوری ملت ایک ایسا قافلہ بن جائے جو ایک ہی خاص منزل کی طرف رواں دواں ہو۔ ایک ایسی ٹیم بن جائے جو ایک خاص سمت میں گول بنانے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہو۔ ایک ایسی تحریک بن جائے جو ایک خاص تبدیلی کے لیے کوشاں ہو۔ یہی مقصد کی وحدت ہے جو سماجی سرمائے کا سب سے اہم جزو بلکہ اصل اساس ہے۔
قرآن مجید میں ایک اصطلاح ‘بنیان مرصوص’ کی استعمال ہوئی ہے۔ امام راغب اصفہانیؒ فرماتے ہیں کہ رص کے معنی دو چیزوں کو باہم ملا کر جوڑ دینے کے ہیں اور رصاص سیسہ کو کہتے ہیں۔[14] مسلمانوں کو جوڑنے والی چیز، سیسے کی طرح طاقتور ہے۔ مولانا مودودیؒ اس کی تشریح کرتے ہوئے ‘بنیان مرصوص’ کی متعدد شرائط میں پہلی شرط یہ قرا ر دیتے ہیں کہ “عقیدہ اور مقصد میں کامل اتفاق، جو اس کے سپاہیوں اور افسروں کو آپس میں پوری طرح متحد کر دے۔”اور یہ کہ “اپنے مقصد کا ایک ایسا عشق اور اسے حاصل کرنے کا ایسا پختہ عزم جو پوری فوج میں سرفروشی و جاں بازی کا ناقابل تسخیر جذبہ پیدا کر دے اور وہ میدان جنگ میں واقعی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جائے۔ “[15] گویا سماجی سرمایہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقصد کی وحدت اور مقصد کا واضح تصور امت کے شعور میں اچھی طرح راسخ ہوجائے اور اس کے جذبات اس مقصد کے ساتھ گہرائی سے وابستہ ہوجائیں۔
مقصد کا یہ اشتراک، افراد کے انفرادی مفادات اور امت کے اجتماعی مفاد کو ایک کردیتا ہے۔ ذاتی ترقی کی آرزو اور پورے سماج کی تمکین (empowerment)کے مقصد کی دوئی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ احساس ہر فرد کے شعور میں زندہ حقیقت بن جاتا ہے کہ پوری ملت ترقی کرے گی تو میں بھی ترقی کروں گا اور یہ کہ ہر فرد کی ترقی میری ترقی ہے۔ ہر فرد اجتماعی مفاد کو اہمیت دینے لگتا ہے اور پورا گروہ ہر فرد کے مفاد کو اہمیت دینے لگتا ہے۔ مشترک منزل کی سمت رواں کارواں میں ہر مسافر اہم ہوجاتا ہے۔ ایک فرد کی رفتار سست ہوجائے تو پورا کارواں سست رو ہوجاتا ہے اس لیے ہر فرد کو تیز کرنا یہ پورے کارواں کی دل چسپی بن جاتا ہے۔
مقصد کا اشتراک ملی زندگی کے مختلف شعبوں کو ایک دوسرے سے گہرائی سے جوڑدیتا ہے۔ تاجر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی تجارت کا اصل مقصد وہی ہے جو پوری ملت کا اجتماعی مقصد ہے اس لیے ان کی کام یابی بھی اس بات پر منحصر ہے کہ آنے والی نسل تعلیم یافتہ اور باشعور ہو۔ اس لیے تعلیم کے فروغ میں انھیں دل چسپی لینی چاہیے۔ سیاست دانوں کو تجارت کی اہمیت کا احسا س ہوجاتا ہے۔ وہ تاجروں کے حامی اور مددگار بن جاتے ہیں۔ علما سیاست دانوں کے معاون و انصار بن جاتے ہیں۔ داعی و مبلغ، سماجی جہد کار، سرکاری ملازمین، گھریلو خواتین، وحدتِ مقصد، ان سب کو جوڑ کر ایک بنادیتی ہے۔ سب کے کاموں میں ویسا ہی ربط و تعلق اور کو آرڈنیشن پیدا ہوجاتا ہے جیسے ایک فٹ بال ٹیم میں مختلف پوزیشن کے کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ سب، ذاتی ترقی میں بھی ایک دوسرے کا تعاون کرنے لگتے ہیں اور اپنی پیشہ وارانہ اور سماجی ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی باہم معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔ مقصد کی وحدت ہی وہ سماجی توانائی (social energy) پیدا کرتی ہے[16] جو ہر فرد کو بھی اور پوری ملت کو بھی ترقی کے راستے پر تیزی سے آگے بڑھاتی ہے۔ اس سماجی توانائی کے بغیر ادارے اور سہولتیں اُس عالی شان گاڑی کے مانند، اپنی جگہ بے فیض ساکت و جامد کھڑے رہتے ہیں جو پٹرول سے خالی ہو۔
فرانسس فوکویاما نے ایک دل چسپ بات یہ بھی لکھی ہے کہ موروثیت کے رجحانات کے فروغ کا اہم سبب مقصد کے اشتراک کا نہ ہونا یا سماجی سرمائے کی کمی ہے۔ جب سماجی سرمائے کی کمی ہوتی ہے تو سماجی تعلق کا بندھن کم زور ہوجاتا ہے اورسماج کے افراد کا ایک دوسرے پر اعتماد کم ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں انسانوں کے درمیان بااعتماد تعلقات صرف خاندانی و خونی رشتوں تک محدود ہوجاتے ہیں۔ اجتماعی مفاد کا جو تصور انسان کی فطرت میں ودیعت کردیا گیا ہے وہ صرف خاندان کی اجتماعیت ہی کا احاطہ کرپاتا ہے۔ فوکویاما نے تجارت کی مثال دی ہے کہ ایسے معاشرے میں صرف فیملی بزنس پروان چڑھتے ہیں۔ خاندانوں اور خاندانی مفاد سے اوپر اٹھ کر، سماج کے بہترین افراد پر اعتماد کرنا اور انھیں ساتھ لے کر بڑی تجارتی کمپنیاں قائم کرنا اور چلانا (جسے یہ حضرات جدید مغربی معاشروں کی دولت و ثروت کا ایک اہم سبب مانتے ہیں) ایسے معاشروں میں ممکن نہیں رہتا۔ [17]اس صلاحیت سے محرومی تجارتوں کو باصلاحیت افراد کے فیض سے محروم کرتی ہے اور بالآخر افراد، خاندان اور سماج سب نقصان اٹھاتے ہیں۔
مسلم معاشرے میں تو صورت حال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ صرف تجارت ہی نہیں بلکہ ملت کے اجتماعی ادارے بھی خاندانی اور موروثی جاگیروں میں بدلتے جارہے ہیں۔ ملی اجتماعیتیں اور مراکز، دینی و دنیوی تعلیم کے ادارے، خانقاہیں اور مذہبی و روحانی پیشوائی، سماجی خدمت کے ادارے، سیاسی جماعتیں اور قیادتیں سب کچھ موروثی ہوتی جارہی ہیں۔ یقیناً اس صورت حال کا ایک اہم سبب، ملت کی سطح پر، مشترک مقصد کے احساس کا فقدان اور سماجی سرمائے کی کمی ہے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صلاحیتیں غیر اہم ہوجاتی ہیں۔ ملت کی تعمیر و ترقی کی مہم میں پوری ملّت کے اندر پھیلی ہوئی توانائیوں کا استعمال نہیں ہوپاتا اور توانائی کا سرچشمہ چند خاندانوں تک محدود ہوکر بہت مختصر رہ جاتا ہے۔ جو ادارے امت کی تعمیر و ترقی میں اہم رول ادا کرسکتے ہیں وہ اعلیٰ درجے کی صلاحیتوں کے فیض سے محروم ہو نے لگتے ہیں اور ان کی کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے۔ ملت کے عام افراد کے اندر اجتماعی کام کے لیے وقت و صلاحیت کے استعمال کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے اوروہ صرف اپنے انفرادی اور ذاتی مقاصد کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس وقت ہندوستان کی ملّت اسلامیہ اس صورت حال سے دو چار ہے۔
مقصد کی وحدت اور اسلامی نصوص
یہ صورت حال اس حقیقت کے باوجود ہے کہ دنیا میں اگرکسی گروہ کا ایک مقصد و نصب العین پر متحد ہوجانا سب سے زیادہ آسان ہے تو وہ امت مسلمہ ہی ہے۔ یہ امت اللہ کی کتاب اور نبی کریم ﷺ کی سنت پر گہرا ایمان اور اعتقاد رکھتی ہے۔ قرآن و سنت میں وضاحت کے ساتھ امت کوروشن قدریں بھی دی گئی ہیں، صاف و شفاف نظریہ زندگی بھی عطا کیا گیا ہے اورواضح نصب العین او ر مقصد و مطمح نظر بھی فراہم کردیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے جاہلیت کی آمیزش نے اس شفاف تصور کو دھندلا کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے وضاحت کے ساتھ سامنے لایا جائے اوراس کو بنیاد بناکر امت کی فکری و جذباتی تربیت کی جائے۔
سب سے پہلا مشترک تصور تو اپنی اجتماعی حیثیت کا تصور ہے۔ ہم نے گذشتہ قسط میں بھی یہ بات واضح کی تھی کہ امت مسلمہ خود اپنے ایمان و عقیدے کے مطابق ایک خاص حیثیت و کردار کی مالک ہے یعنی وہ خیر امت (بہترین امت) ہے اوراخرجت للناس (دیگر انسانوں کے لیے نکالی گئی) ہے (آل عمران 110)۔ وہ خیر الناس للناس ہے[18] یعنی دوسرے انسانوں کے حق میں سب سے بہتر۔ أنفع الناس للناس[19] (یعنی انسانوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والی، یعنی نافع امت ہے) ہے۔ وہ امت وسط ہے(البقرہ 143)۔ یعنی أَی أَعْدَلُهُمْ وَخَیرُهُمْ (وہ، یعنی مسلمان، انسانوں میں سب سے زیادہ بھلے اور سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہوتے ہیں۔ )[20]
یہ اجتماعی حیثیت خود بخود امت کا اجتماعی مقصد متعین کرتی ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی بھی وضاحت موجود ہے۔ قرآن نے مسلمانوں کے مقصد کوپانچ جامع اصطلاحات کے ذریعے واضح کیا ہے۔ شہادت حق، اقامت دین و اظہار دین، دعوت الی الخیر، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور قیامِ قسط۔ گویا قرآن کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اصلاً اقامت دین کے علم بردار بنیں۔ اللہ کے دین کی طرف دعوت دیتے رہیں، معروفات کا قیام اور منکرات کا ازالہ ان کا اصل مطمح نظر ہو، اسلام کی قولی و عملی شہادت ان کی سب سے بڑی دل چسپی ہو اور جہاں تک موجودہ ہندوستان اور اس میں سیاست کا تعلق ہے وہ عدل کے علم بردار بن کر ابھریں۔ عدل و انصاف صرف مسلمانوں کے لیے نہیں، بلکہ اس ملک کے تمام انسانوں کے لیے۔ ہر ایک کو عدل ملے، یہی ہماری اجتماعی کاوشوں کا سب سے اہم اور نمایاں عنوان بن جائے۔ اللہ تعالیٰ نے عدل و قسط کو رسولوں کی بعثت کا مقصد قرار دیا ہے۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَینَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ )بےشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں۔ الحدید 25) خود قرآن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ عدل و قسط کا بیان ہے۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقاً وَعَدْلاً )اور تمھارے رب کا کلام سچائی اور انصاف میں کامل ہے۔ الانعام۔ 115) قرآن کہتا ہے کہ مسلمانوں کا عمل اور ان کی پالیسی ہی نہیں بلکہ ان کے بیانیے اور ڈسکورس کا عنوان بھی عدل ہونا چاہیے۔ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ( اور جب تم بولو تو عدل کی بات بولو، خواہ کوئی تمھارا قرابت دار ہی ہو۔ الانعام 152) حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد اور اس کے بعد ان کی قیادت میں دنیا میں جو تبدیلی آئے گی اسے اسلامی لٹریچر میں آئیڈیل تبدیلی کے وژن کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کے بارے میں صحیح حدیث میں آیا ہے۔ وَالَّذِی نَفْسِی بِیدِهِ لَیوشِكَنَّ أَنْ ینْزِلَ فِیكُمْ ابْنُ مَرْیمَ حَكَماً مُقْسِطاً ( اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریمؑ تمھارے درمیان ایک عادل حکم ران کی حیثیت سے اتریں گے) یہ بھی کہا گیا کہ وَیفِیضُ الْمَالُ حَتَّى لَا یقْبَلَهُ أَحَدٌ(مال کی ایسی فراوانی ہوجائے گی کہ کوئی (مدد ) قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔ [21]
یہی وجہ ہے کہ ہمارے علما نے عدل کو اسلامی شریعت کا مقصد اور دنیا میں اسلام کے وژن کا اہم ترین عنوان قراردیا ہے۔ ابن قیم اسلامی شریعت کے بارے میں فرماتے ہیں۔۔ مَقصُودُہُ اِقامة العدلِ بینَ عِبادہِ وقیامُ النَّاسِ بِالقِسط ( یعنی اسلامی شریعت کا مقصود سچائی و عدل کی اقامت اور لوگوں کے درمیان عدل و قسط کا قیام ہے۔ )[22]
اس کا مطلب یہی ہے کہ مسلمانانِ ہند کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے پاس اپنی ذمے داریوں، اپنے فرض منصبی اور اپنے وژن و مقصد کے سلسلے میں ایک مشترک تصور موجود ہو۔ یہ مشترک تصور پوری ملت کو باندھ کر رکھے۔ اس تصور کی اساس اسلام کے اصول ہوں۔ اس لیے کہ انھی کی بنیادپر ملت کی تشکیل ہوئی ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، وہ یعنی مسلمان، عدل و قسط کے داعی اور اس کے علم بردار بن کر اٹھ کھڑے ہوں۔ ملک کی تعمیر و ترقی (عمارۃ) كا ان کا اپنا تصور ہو جس کے مطابق اس کام میں وہ اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
مسلمانوں کا اتحاد، برسوں سے ملی مجلسوں کا محبوب موضوع ہے۔ اتحاد کے لیے قرآن وسنت کے نصوص بھی ہمیشہ زیر تذکرہ رہتے ہیں لیکن یہ بات بہت کم واضح کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی اتحاد کا ذکر فرمایا ہے یا افتراق و انتشار سے رکنے کا حکم دیا ہے وہاں دینِ اسلام، اس کی دعوت اورملت کے مقصد و نصب العین کی طرف ضرور اشارہ کیا ہے۔ اس لیے کہ اہل اسلام کے اتحاد کی اصل اساس یہی ہے۔ سورہ آل عمران کی آیت وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِیعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ ) سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ آل عمران 103)ہمیشہ اتحاد کے تذکروں میں پڑھی جاتی ہے۔ اس آیت اور اس سے متصل آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو اتحاد کی بنیاد قرار دیا ہے۔ صاحب معارف القرآن اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“قرآن حکیم نے صرف اتحاد و اتفاق اور تنظیم و اجتماع کا وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ اصول بھی بتلادیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کسی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خلاف اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے۔۔۔ پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کر رہے ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط رسی کو پکڑ لیں اور ہلاکت سے محفوظ رہیں، لہذا اشارہ فرمایا کہ اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شرانگیزی میں کام یاب نہ ہوسکے گا، اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی، قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے، اور اس سے ہٹ کر ان کی قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں۔ “[23]
ان آیات میں یہ یاد دلایا گیاہے کہ اسلام کے آنے سے پہلے تم یعنی قرآن کے اولین مخاطب مسلمان، ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے سابقہ امتوں کی مثال دی ہے کہ واضح نشانیاں آجانے کے باوجود انھوں نے جزوی معاملات میں اختلاف کیا اور فرقوں میں بٹ گئے۔ ان آیات میں بھی مسلمانوں کے مقصد حیات، دعوت خیر، امر بالعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر ہے۔ (آل عمران۔ 104)سورہ شوریٰ کی آیت 13 (أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ دین قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ) میں بھی تفرقے سے بچنے کا حکم ہے اور یہاں اقامت دین کے مقصد کو اتحاد کی اصل اساس قرار دیا گیا ہے۔ سورہ توبہ میں مسلمانوں کے باہم موالات کے تعلق کو واضح کیا گیا تو ساتھ ہی ان کے مشن و مقصد کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ (وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیاء بَعْضٍ یأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَیقِیمُونَ الصَّلاَةَ وَیؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَیطِیعُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَیرْحَمُهُمُ اللّهُ إِنَّ اللّهَ عَزِیزٌ حَكِیمٌ] قرآن نے امت اور ملت کا جب ذکر کیا ہے تو اکثر جگہ مقصد و مشن کے حوالے ہی سے کیا ہے کہ یہی ملت سازی یا امت سازی کی اساس ہے۔ وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ۔ ( اور اِسی طرح تو ہم نے تمھیں ایک “امت وسط” بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ البقرہ 143)۔ كُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ آل عمران 110)۔ مِّلَّةَ أَبِیكُمْ إِبْرَٰهِیمَ ۚ هُوَ سَمَّىٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِینَ مِن قَبْلُ وَفِى هَٰذَا لِیكُونَ ٱلرَّسُولُ شَهِیداً عَلَیكُمْ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِ۔ ( قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام “مسلم” رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمھارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ پس۔ الحج 78) وغیرہ
عملی صورت حال
اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو شعور و ادراک کی سطح پر سماجی سرمائے کے لیے درکار سارے وسائل وافر مقدار میں عطا کیے ہیں۔ اتنی وافر مقدار میں کہ اگر صحیح معنوں میں وہ بروئے کار لائے جائیں تو دنیا کی کوئی قوم اس معاملے میں امت مسلمہ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ لیکن بدقسمتی سے مختلف وجوہ سے یہ وسائل نظر انداز ہوگئے ہیں اور ان وسائل کو رکھتے ہوئے بھی امت سماجی سرمائے کے معاملے میں تہی دست ہے۔ سب سے اہم مسئلہ مقصد و نصب العین کا مسئلہ ہے۔ جس امت کو وحی کے ذریعے اس کا مشن اور وژن عطا کردیا گیا اور اس وحی کے ساتھ جس کا گہرا ایمانی اور جذباتی رشتہ استوار کردیا گیا، یہ عجیب المیہ ہے کہ وہی امت آج سب سے زیادہ بے مقصدیت یا مقصد کے تئیں ابہام کی شکار ہے۔
ہندوستان کی ملت اسلامیہ کا مختصر جائزہ اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ درج ذیل مختلف مقاصد ہیں جو امت کے مختلف طبقات کے مطمح نظر بنے ہوئے ہیں۔
فرقہ پرستانہ مقاصد: ایک بڑی تعداد امت کو ایک قوم یا ایک فرقہ سمجھتی ہے۔ محض قوم کی بالاتری، اس کی فتح، اس کا غلبہ اور اس کی طاقت ان کے نزدیک اصل مقصد اور منزل ہے۔ چناں چہ ‘مسلم قوم’ کی سیاسی قوت، ‘مسلم قوم’ کی تعلیمی ترقی، اس کی عزت نفس اور اجتماعی انا کی تسکین و حفاظت، اس طبقے کے یہاں اصل خواب اور اصل منزل ہے۔ اس گم راہ کن تصور نے امت کو ایک ذات، ایک قبیلہ یا ایک فرقہ بنادیا ہے اور امت یہاں باہم دست و گریباں مختلف فرقوں کے درمیان محض ایک فرقہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس گروہ کی سیاسی جدوجہد، تعلیمی و معاشی ترقی کی کاوش، اور دیگر تمام اجتماعی کاوشوں کا ہدف محض ‘فرقہ’ اور ‘فرقے کی بالادستی’ ہوتا ہے۔
مدافعانہ مقاصد: اپنے جان و مال اور تشخص کی حفاظت، شعائر دینی کی حفاظت، ملی غیرت اور اس کے تقاضوں کی حفاظت، یہ یقیناً ایک اہم کام ہے اور کوئی بھی بیدار اور غیور گروہ اس ضرورت سے غافل نہیں ہوسکتا لیکن اگر یہی واحد مقصد اور دل چسپی بن جائے اور امت کے اصل ایجابی اقدامی مقاصد نظر انداز ہوجائیں تو یہ بھی مقصد و منزل کا بحران پیدا کرتا ہے۔ مسافر خود کی حفاظت اور راستے کی چھوٹی بڑی مشکلات کو دور کرنے ہی کو اپنا مقصد بنالے اور منزل کو فراموش کردے تو پھر وہ مسافر نہیں رہتا، آوارہ گرد، گم کردہ راہ اور خانہ بدوش کہلاتا ہے۔
مسلک پرستانہ مقاصد: امت کا جو طبقہ کسی درجے میں دین کا شعور رکھتا ہے وہ بدقسمتی سے اس تیسرے قسم کے مقصدی انحراف کا شکار ہے۔ ایک بڑی تعداد ہے جو اپنے اپنے مسالک، فقہی و کلامی جزئیات میں اپنی اختیار کردہ آرا، اپنی مقتدیٰ شخصیات اور ان کے افکار، یا فروعی معاملات میں اپنے موقف کی برتری کو اپنا مقصد وجود بنائے ہوئے ہے۔ یہی ان کی زندگیوں کی دل چسپی اور ان کا مقصد و منزل ہے اور اسی پر ان کی قوتوں، توانائیوں اور کاوشوں کا ارتکاز ہے۔
ذات برادری پر مبنی مقاصد: ملک کے بہت سے حصوں میں مسلم برادریوں اور ذاتوں کا تصور اور اس سے وابستہ جذبات امت ہونے کے احساس اور جذبات پر غالب ہیں اور محض اپنی ذات یا برادری کے مفاد کی تکمیل مقصد بن چکا ہے۔
ذاتی مقاصد: مذکورہ بالا امور میں سے کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو مسلمانوں کے معتقدات اور ان کے اساسی دینی تصورات سے میل کھاتی ہو۔ اس لیے یہ مقاصد کبھی امت کے تمام طبقات کو جوڑ نہیں سکتے۔ ان کو اصل مقاصد بنانے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اجتماعی مقصد کا تصور ہی دھندلا پڑنے لگتا ہے اور صرف ذاتی و انفرادی مقاصد حاوی ہونے لگتے ہیں۔ چناں چہ اس وقت صورت حال یہی ہے کہ امت کے سواد اعظم کے لیے دین سے وابستگی کے باوجود، دین ان کی زندگی کا مقصد و نصب العین نہیں ہے۔ ان کے خواب اور ان کی منزلیں صرف اپنی ذاتی ترقی اور ذاتی تعلیمی، معاشی، تجارتی و سماجی مفادات تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں۔
یقیناً دنیا میں بہت سی دنیوی لحاظ سے کام یاب قومیں ہیں جنھوں نے اول الذکر چار مقاصد میں سے کسی کو اپنا مقصد بنایا ہے۔ اور اس مقصد نے ان کے اندراتحاد بھی پیدا کیا ہے اور وہ سماجی سرمائے کا بھی ذریعہ بنا ہے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ ان قوموں کا نظام اعتقاد اور نظام فکر ان کی یا ان جیسے مقاصد کی تائید کرتا ہے اس لیے وہ ان مقاصد کو اختیار کرکے کام یاب ہوجاتی ہیں۔ مغربی اقوام کی اساس جدیدیت پر مبنی سیاسی و سماجی نظریات ہیں جنھیں وہ ساری دنیا میں عام کرنا چاہتے ہیں، دنیا کو جدیدیت کے تصورات کے مطابق ڈیولپ کرنا ان کا اجتماعی مقصد ہے۔ یہ مقصد ان کو سوشل کیپٹل فراہم کرسکتا ہے۔ مختلف فرقوں، ذاتوں اور نسلی گروہوں کے لیے اپنی قوم کی ترقی اور اس کا مفاد، ان کا مقصد ہے۔ یہ مقصد ان کے زندگی کے فلسفوں سے ہم آہنگ ہے اس لیے وہ ان کے لیے قوت بن سکتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کے لیے ان میں سے کوئی چیز سماجی سرمائے کا سرچشمہ نہیں بن سکتی۔ کیوں کہ ان کا نظام عقائد، ان کی کتاب اور ان کے اساسی دینی تصورات ان سے متصادم ہیں۔ جب تک مسلمان ان متنوع مقاصد کے پیچھے دوڑتے رہیں گے وہ تناقص و تضاد کی زندگی جیتے رہیں گے۔ یہ مقاصد امت کو جوڑکر ایک وحدت نہیں بناسکیں گے۔ اس لیے وہ سماجی سرمائے سے محروم رہیں گے۔ اسلامی تحریکوں کے مفکرین نے اس بات سے خبردار کیا تھاکہ اسلامی معاشرے یورپی افکار و نظریات قبول کرکے ترقی نہیں کرسکتے۔ یورپ اور امریکہ میں تومادہ پرست سیکولر فکر وہاں کی قوموں کا ‘دین’ ہے۔ اس پر انھیں ایمان کامل ہے۔ اور یہ ایمان اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا نصب العین ان کے لیے سماجی سرمایہ ہے۔ لیکن ان اجنبی تصورات اور غیر متعلق مقاصد کو آپ اسلامی معاشروں میں در آمد کریں، جہاں وہ مسلمانوں کے ایمان و یقین سے متصادم ہیں، تو وہ انھیں وہ دنیوی ترقی بھی نہیں دے سکیں گےجو یورپی معاشروں کو دے سکے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی شمالی یورپ کی برفیلی آب و ہوا میں آم کے درخت کی کاشت کرنا چاہے۔ تجربات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ترکی جیسی مجاہد قوم، سیکولر نظام زندگی کے تحت بالکل بے اثر ہوکر ر ہ گئی تھی اور جب اس کی اجتماعی منزل دوبارہ اسلام کے ساتھ وابستہ ہوئی تو اس کے تعلیمی، سماجی، معاشی، تجارتی، تہذیبی، سیاسی، فوجی ہر طرح کے عروج کا آغاز ہوا۔
اس لیے ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی کی لازمی ضرورت یہ ہے کہ قرآن کے دیے ہوئے نصب العین سے ان کے تعلق کو مستحکم کیا جائے اور ان کی تمام اجتماعی کاوشیں اسی نصب العین کے تابع ہوں۔ وہ سیاسی قوت اس وقت حاصل کریں گے جب ان کی سیاست ان کی دعوت کے تابع ہوگی۔ وہ تعلیم میں اس وقت آگے بڑھیں گے جب خیر امت کا فریضہ ادا کرنے کی تیاری ان کا اصل تعلیمی مقصد بن جائے گا۔ ان کی سماجی ترقی اسی وقت ممکن ہوگی جب معروفات کا فروغ اور منکرات کا ازالہ ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی دل چسپی ہوجائے گا اور وہ معیشت و تجارت میں کام یابی کے جھنڈے اسی وقت گاڑیں گے جب اپنے معاملات کو دین حق کی شہادت کا ذریعہ بنانے کا مبارک جذبہ ان کے اندر پروان چڑھےگا۔
تعلیمی، معاشی، سیاسی تمکین (empowerment)، سماجی ترقی، خواتین کی تمکین، ان سب کو امت کے اصل مقصد و نصب العین اور اصل دعوت کے تابع بنانے کا کام امت کے امپاورمنٹ کے ایک بالکل مختلف ماڈل اور مختلف پیراڈائم کا تقاضا کرتا ہے۔ ان شاء اللہ ا ن سب محاذوں پر اس پیراڈائم کی وضاحت ہم اگلی قسطوں میں کرنے کی کوشش کریں گے۔
حواشی و حوالہ جات
1. Francis Fukuyama (2002) The Social Capital and Development: Coming Agenda; SAIS Review, Volume 22, Number 1, Winter-Spring 2002; pages 32 and 36
2. Robert Putnam (2001) Bowling Alone: The Collapse and Revival of American Community; Simon & Schuster; New York; pages 258-264
3. Francis Fukuyama (2001) Social capital, civil society and development, Third World Quarterly, 22: 1, 7-20
4. Francis Fukuyama (2001) Social capital, civil society and development, Third World Quarterly, 22: 1, 7-20
5. مثلاً ملاحظہ ہو ورلڈ بنک کی سوشل کیپیٹل پر توجہ
https://web.worldbank.org/archive/website01360/WEB/0__CO-29.HTM; retrieved on 17-01-2023
6. سماجی سرمائے سے متعلق ورلڈ بنک وغیرہ کے تصورات کا نقص سمجھنے کےلیے ملاحظہ ہو۔
John Harriss (2002) Depoliticising Development: The World Bank and Social Capital; Anthem Press; London UK
7. R. D. Putnam,Feldstein,Cohen (2004). Better Together: Restoring the American Community. United Kingdom: Simon & Schuster.Pages 1-5
8. Putnam, R. (1993) “The Prosperous Community–Social Capital and Public Life”; The American Prospect 13
9. Francis Fukuyama (2002) op. cit. page 23-26
10. Christiaan Grootaert and Thierry van Bastelaer Ed. (2002) The Role of Social Capital in Development: An Empirical Assessment; Cambridge University Press; Cambridge; UK.
11. James Coleman (1988) ‘Social capital in the creation of human capital’ American Journal of Sociology, 94, 95-121. AND Robert Putnam (1995) ‘Bowling alone: American’s declining social capital’, Journal of Democracy, 6(1), 65-78.
12. Inkpen, A. C. and E. W. K. Tsang. 2005. “Social Capital, Networks, and Knowledge Transfer.” Academy of Management Review 30(1): 146–65
13. Chow, W. S., & Chan, L. S. (2008). Social network, social trust and shared goals in organizational knowledge sharing. Information & Management, 45(7), 458–465
14. الراغب الاصفهانی (1984) المفردات فی غریب القران؛دفترنشرالکتاب؛ایران، ج 1 ص 196
15. مولانا سید ابوالاعلی مودودی،تفہیم القرآن؛ مرکزی مکتبہ اسلامی؛ دہلی، جلد پنجم؛ ص 456-457
16. سوشل انرجی اور مشترک مقصد و اقدار کے تعلق کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو
Hirschman, A. (1983). The principle of conservation and mutation of social energy; Grassroots Development Journal, 7(2 ), 3-9.
17. Francis Fukuyama (2002) op. cit. page 27-29
18. صحیح البخاری؛ كتاب تفسیر القران؛ باب كنتم خیر امة اخرجت للناس؛ حدیث 4281؛ رواہ ابو ھریرةؓ
19. ابن کثیر؛ تفسیر ابن کثیر؛ المکتبة الشاملة ؛ سورة آل عمران؛ الآیات ۱۱۰ الی ۱۱۲
20. القرطبی، تفسیر الجامع لاحکام القرآن؛ المکتبة الشاملة ؛ سورة البقرة؛ الآیات ۱۴۷
21. صحیح البخاری؛ کتاب البیوع، باب قتل الخنزیر؛ رواه ابو هریرہؓ؛ حدیث 2222
22. ابن قیم الجوزیة؛ إعلام الموقعین–دار الجیل–المجلد 4–الصفحة 372–جامع الكتب الإسلامیة ص 373
23. مفتی محمد شفیع (2998) معارف القرآن جلد دوم؛ ادارة المعارف؛ کراچی، ص 131-133
مشمولہ: شمارہ فروری 2023