زندگی نو کے تازہ شمارہ(مئی 2025)میں وقف ترمیمی قانون کے عنوان سے ممتاز اہل فکر کی آراشائع کی گئی ہیں،یہ ممتاز بلند مرتبہ اہل قلم ہیں عام طور ان کی تحریریں وقیع ہوتی ہیں لیکن مذکورہ بالا موضوع پر ان تمام اہل قلم کی تحریروں سے محھے بنیادی اختلاف ہے، اور اس اختلاف کا اظہار ضروری اس لیے ہے کہ صحیح نقطہ نظر مسلمانوں کے سامنے آجانا چاہیے تاکہ آئندہ کے کاموں کی صحیح منصوبہ بندی ممکن ہوسکے، ورنہ اس کا خطرہ ہے کہ مسلمان آب کوسراب سمجھ کردوڑتے رہیں گے اور منزل سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔
صحیح راستہ سے بیگانگی کی اصل وجہ یہ رہی ہے کہ خیر امت کا جومشن طے ہوگیا تھا اور جسے قرآن نے واضح طور پر بیان کردیا تھا،صدیوں سے وہ مشن بند ہو چکا، پیغمبرانہ مشن کی گاڑی پٹری سے اترجانے (ڈیریلمنٹ) کا شکار ہوچکی ہے، غلبہ اور قوت کا حصول پیغمبرانہ مشن کے احیا کے بغیر ممکن نہیں ہے قرآن میںہےكَتَبَ ٱللَّهُ لَأَغۡلِبَنَّ أَنَا۠ وَرُسُلِیٓۚ إِنَّ ٱللهَ قَوِی عَزِیز [المجادلة: 21] اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ غلبہ اسی کے لیے ہےاور اس کے پیغمبروں کے لیے ہے۔اللہ تعالی پیغمبروں کو غلبہ عطا کرتا ہے اور ان لوگوں کو بھی قوت اور استحکام عطا کرتا ہے جو پیغمبرانہ مشن کو لے کر کھڑے ہوتے ہیں۔اللہ تعالی نے اس آیت میں جوبات فرمائی ہے وہ لام تاکید اور نون تاکید کے ساتھ ہے اس قدر طاقتور تاکید کے باوجودہماری امت اس پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ وہ کام یابی اس راستہ کے بجائے ظاہری دنیوی أسباب کے راستہ میں ڈھونڈتی ہے۔دوسری جگہ قرآن میں ہے إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیاةِ الدُّنْیا [غافر: 51] (بے شک ہم مدد کرتے ہیں پیغمبروں کی اور ان کی جو ایمان لائے دنیا کی زندگی میں۔) یعنی ان کی جو نیک عمل کرتے ہیں اور پیغمبروں کو اپنا اسوہ بناتے ہیں اور بحیثیت خیر امت اپنی منصبی ذمہ داری کو ادا کرتے ہیں،اللہ کی نصرت کب نازل ہوتی ہے اور اہل ایمان کو ظلم کرنے والے کافروں پر فتح کیسے حاصل ہوتی ہے یہ حقیقت قرآن کی بے شمار آیات سے واضح ہوجاتی ہے۔ جیسے: وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ إِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنصُورُونَ وَإِنَّ جُندَنَا لَهُمُ الْغَالِبُونَ [الصافات: 171-173] (یعنی ہمارا فیصلہ پہلے ہوچکاہے کہ ہمارے وہ بندے جو پیغمبر ہیں ان پر ہماری مدد نازل ہوگی اور ہمارا لشکر ہی غالب اور کامران ہو کر رہے گا۔) پیغمبرانہ مشن کو لے کر کھڑا ہونا دنیا سے کفر وشرک کو مٹانے کیے لیے کھڑا ہونا ہے۔ توحید کی دعوت دینے کے لیے کھڑا ہوناصرف مسلمانوں کے درمیان اصلاح وتبلیغ کا کام نہیں ہے، یہ صرف حکومت کے سامنے مطالبات رکھنے کا کام نہیں ہے، یہ صرف عدالت عالیہ سے انصاف کے مطالبہ کا کام نہیں ہے، میری اس بات کو بہت سے لوگ ناگواری کے ساتھ سنتے ہیں اور اسے ہضم نہیں کرپاتے ہیں، اس حقیقت کوسمجھنے کے لیے قرآن کے ان مقامات پر ٹھہر کر غور کیجیے جہاں ایک پیغمبر اپنی قوم سے خطاب کرتا ہے، خوب تدبر کیجیے کہ پیغمبر اپنی قوم کو کیا کہتا ہے اور پھر دیکھیے کہ ہمارے بزرگان دین اور مصلحین امت اپنے زمانے کی قوموں کو یعنی غیر مسلموں کو کیا وہی پیغام دیتے رہے ہیں جو ان پیغمبروں نے اپنی قوموں کو دیا تھا، یا سرے سے انھوں نے اپنی قوم سے یعنی غیر مسلموں سے رابطہ ہی منقطع کردیا اور اپنی تمام تر صلاحیت اور طاقت مسلمانوں کی اصلاح اور ان کے مسائل کے حل پر صرف کی یاصرف علمی خدمات انجام دیتے رہے، بلا شبہہ مسلمانوں کی اصلاح کرنا بھی قابلِ تحسین کام ہے۔علمی کام کرنا، قرآن کی دس جلدوں میں تفسیر اور بخاری کی دس جلدوں میں شرح لکھنا بھی قابل تحسین کام ہے لیکن وہ پیغمبرانہ مشن کے لیے کھڑا ہونانہیں ہے، پیغمبرانہ مشن سے ہماری مراد کیا ہے؟ اس کوقرآن سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر قرآن میں ہے: وَاذْكُرْ فِی الْكِتَابِ إِبْرَاهِیمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّیقًا نَّبِیا إِذْ قَالَ لِأَبِیهِ یا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا یسْمَعُ وَلَا یبْصِرُ وَلَا یغْنِی عَنكَ شَیئًا[مریم: 41-42](کتاب میں ابراہیم کاذکر کردوبے شک وہ سچاتھا اور نبی تھا، جب اس نے اپنے باپ سے کہا اے میرے باپ ایسی چیز کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ دیکھے نہ سنے اور نہ تمھارے کچہ کام اس کے۔)
دوسری جگہ قرآن میں ہے: یا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّیطَانَ إِنَّ الشَّیطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَٰنِ عَصِیا یا أَبَتِ إِنِّی أَخَافُ أَن یمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّیطَانِ وَلِیا [مریم: 44-45](اے میرے باپ شیطان کی عبادت مت کیجیے بیشک شیطان رحمان کا بہت بڑا نا فرمان ہے اے میرے باپ مجھے خوف ہے کہ رحمان کا عذاب کہیں آپ کو اپنی گرفت میں نہ لے لے پھر آپ شیطان کے بھائی نہ بن جائیں۔)
نوح علیہ السلام اپنی قوم کو یہی کہتے ہیں، موسی علیہ السلام نے فرعون کو یہی کہا، یوسف علیہ السلام نے جیل میں یہی تبلیغ کی، شعیب علیہ السلام نے قوم مدین کو یہی دعوت توحید دی، قوم ثمود کو صالح علیہ السلام نے اسی توحید کی دعوت دی، ہر پیغمبر نے اپنے اپنے زمانہ میں اپنی قوم کو شرک سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت اور اطاعت کی دعوت دی، ہر پیغمبر اپنے زمانہ میں ایک ہی مشن لے کر اٹھتا ہے، سب کو ایک خدا کی عبادت کا حکم دیتا ہے اور شرک سے روکتا ہے، قرآن سے صفحات کے صفحات نقل کیے جاسکتے ہیں۔ آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی زندگی میں اور اس کے بعد بھی مدینہ میں بڑے پیمانے پر یہ کام انجام دیااور دنیا کے تمام حکم رانوں کو دعوتی خطوط لکھے۔
یہ ہے وہ پیغمبرانہ مشن جس کے بند ہوجانے کے بعد اس مشن کو چلانے کی ذمہ داری خیر امت پر ڈال دی گئی اور اس امت کو خیر امت کا ٹائیٹل اور گولڈ میڈل اسی لیے دیا گیاکہ یہ امت انسانوں کو شرک میں مبتلا ہونے سے روکے اور ایک خدائے واحد کی اطاعت کی طرف بلائے اور جب نوکر اپنی ڈیوٹی انجام نہیں دیتا ہےتو مالک کی طرف سے سرزنش ہوتی ہے، سزائیں ملتی ہیں۔ لیکن ہم مسلمانوں نے کسی سزا کو سزا نہیں سمجھا، اور سزا کو ٹالنے کی دوسری تدبیریں کرتے رہے۔ جلسے کرتے رہے اور جلوس نکالتے رہے۔ علما آج بھی وہی غلطی کرتے ہیں کسی غیر مسلم تک دین توحید پہنچانے کا انھیں خیال تک نہیں آتا ہے۔وہ کئی جلدوں میں کسی حدیث کی کتاب کی شرح لکھتے ہیں، کئی جلدوں میں سیرت کی کوئی کتاب تصنیف کرتے ہیں، اپنے شہر اپنے محلہ اپنے پڑوس میں جو غیر مسلم ہوتا ہے وہ ان کا مرکز توجہ نہیں بنتا ہے،وہ صرف احتجاجی جلسہ کرسکتے ہیں وہ میمورینڈم پیش کرسکتے ہیں۔ میمورنڈم پیش کرنا جلوس نکالنا پندرہ منٹ کے لیے بجلی گل کرنا وغیرہ مسئلہ کا حل نہیں، اس سے روشنی نہیں ہوگی۔تصور کیجیے ایک ایسی حویلی کا، جس میں اندھیرا ہو، ایک شخص بہت سے سوئچ دبا دبا کر دیکھتا ہے،بہت سے لوگ کوشش کرتے ہیں لیکن کام یاب نہیں ہوتے ہیں، روشنی نہیں ہوتی ہے۔ ایسے میں ایک ماہر الکٹریشین آتا ہے اور ایک جگہ ایک سوئچ پر انگلی رکھتا ہے اور آن کرتاہے،حویلی کے سارے قمقمے روشن ہوجاتے ہیں، یہی معاملہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل کا ہے۔ابھی تک مسلم قیادت کو وہ الکٹریشین نصیب نہیں ہوسکا ہے جس کی تدبیر سے سارے بلب روشن ہوجائیں۔اس ملت کو وہ طبیب میسر نہیں آیا ہے جو مرض کی صحیح تشخیص کرسکے۔ جسم کا خون جب فاسد ہوجاتا ہےاور زخم نکل آتے ہیں تو صرف مرہم لگانے سےکام نہیں چلتا ہے، خون کو صاف کرنے والی دوائیں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔کسی کو معلوم نہیں کہ پیغمبرانہ مشن کی اہمیت کیا ہے۔کسی کومعلوم نہیں کہ پیغمبرانہ مشن کے بند ہوجانے سے آسمان سے کیا کیا آفات اور بلیات نازل ہوتی ہیں۔لاکھوں اور کروڑوں مسلمانوں کے دل و دماغ صحیح نقطۂ نظرسے محروم ہیں، سمجھانے کا کام مشکل ہے، یہ میری کوشش ہے۔شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات۔دراصل اس کام کا تعلق اس کائنات کے سلسلے میں خدائی اسکیم سے ہے جس پر کوئی غور نہیں کرتا ہے، نہ کوئی عالم نہ کوئی عامی، نہ وہ لوگ جو مسند فضیلت پر فائز ہیں نہ وہ جنھیں لوگ بڑا دانش ور سمجھتے ہیں، ہم تمام دانش وروں کی بے دانشی سے اچھی طرح واقف ہیں۔میرے لیے بھی اس بات کا سمجھانا بہت آسان نہیں ہے۔
وہ حرف راز مجھے جو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھےنفس جبرئیل دے تو کہوں
خدائی اسکیم یہ تھی کہ اس روئے زمین پر آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو آباد کیا جائے۔ ایک طرف ابلیس نے دھمکی دی تھی اور تاکیدی الفاظ میں دی تھی کہ وہ آدم کی ذریت کو گم راہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا، وہ اوپر سے نیچے سے دائیں سے بائیں ہر طرف سے آکر جادۂ حق سے ہٹائے گا اور خدائے واحد کی پرستش سے اور اطاعت سے روکے گا، دوسری طرف اللہ نے انسانوں کی ہر نسل کو ابلیس کے فتنہ عالم آشوب سے روکنے کے لیے دنیا میں پیغمبروں کاسلسلہ جاری کیا۔یہ پیغمبر ہر خطۂ زمین اور ہر قوم میں آئے( ولکل قوم ھاد۔ الرعد آیت7)دنیا میں پیغمبروں کے آنے اور انسانوں کو راہ ہدایت دکھانے کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ بند ہو گیا اور کارِ نبوت کو چلانے اور پھیلانے کی ذمہ داری خیر امت کے سرپرڈال دی گئی۔كُنتُمْ خَیرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ [آل عمران:110](یعنی تم خیر امت ہو تمھیں اقوام عالم کے لیے بھیجا گیا ہے تمھاری منصبی ذمہ داری ہےکہ معروف کا حکم دو اور منکر سے روکو اور اللہ پر کامل ایمان رکھو)،معروف کی بہت سی قسمیں ہوسکتی ہیں۔ سرِ فہرست توحید کاعقیدہ ہے اور ایک اللہ کی پرستش اور اطاعت ہے۔ منکر کی بھی بہت سی قسمیں ہیں۔ سب سے بڑا منکر شرک اور بت پرستی ہے جس سے رکنے کی دعوت دینا ہر صاحبِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔
ختم نبوت کے بعد دین توحیدکو پھیلانے کی ذمہ داری اس امت کے سپرد کی گئی اور اس امت کی پہلو تہی اور عدم اطاعت اور غفلت کےنتیجہ میں اس امت پر بلاؤں اور سزاؤں کا نزول ہوتا رہا تاکہ یہ قوم اپنی مجرمانہ غفلت سے باز آجائے وَلَنُذِیقَنَّهُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یرْجِعُونَ[السجدة: 21](اور ہم ضرورآخرت کے عذاب سے پہلے انھیں دنیوی عذاب کا مزہ چکھائیں گے تاکہ وہ رجوع کریں۔) یعنی دنیا میں ان پر مصیبتیں اور آفتیں نازل ہوں گی، وہ ستائے جائیں گے، ان کوظلم کا شکار بنایا جائے گا تاکہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہوں۔اس آیت کی یہی تفسیر ابن کثیر اور طبری نے کی ہے۔
لیکن ہماری قوم غلطی پر متنبہ نہیں ہوتی ہے، اسے اپنی غلطی کا احساس تک نہیں ہے اسے آج تک نہیں معلوم کہ جب تک وہ خیر امت کی مفوضہ ذمہ داری کا ادراک نہیں کرے گی اور ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیےکمر بستہ نہیں ہوگی اس پر رحمتوں کا نزول نہیں ہوگا، آلام ومصائب کی بارش نہیں رکے گی۔ ایک زمانہ گزرگیا مسلمانوں کا قتل عام نہیں رکا ہے، ماب لنچنگ کے واقعات نہیں رکے ہیں، مسلم پرسنل لا میں مداخلت ختم نہیں ہوئی ہے، سیکڑوں سال پرانی مسجدوں کو منہدم کیا جارہا ہے، ان کے مکانوں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں، ان کی جان، مال، زبان، تہذیب اور مذہبی آزادی سب معرض خطر میں ہے، نصاب کی کتابوں سے ان کی تاریخ کو ختم کیا جارہا ہے، ملازمتوں میں ان کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جارہا ہےاور عالمی پیمانہ پر بھی ان کے ساتھ یہی سلوک ہورہا ہے۔کمال یہ ہے کہ آج تک ان کو یہ احساس نہیں کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے اور نہ کوئی انھیں صحیح بات بتا رہا ہے۔سب کی بینائی مسلوب ہوگئی ہے، یہ ادراک کسی کو نہیں کہ خیر امت نے جب سے یہ ڈیوٹی ادا کرنی چھوڑدی ہےاسے سزائیں مل رہی ہیں اور یہ سزائیں ملتی رہیں گی جب تک یہ امت جسے خیر امت کہا گیا ہے اپنی مفوضہ ڈیوٹی پر واپس نہ آجائے۔ احتجاج کیجیے، دھرنے پر بیٹھیے،جلسے کیجیے، جلوس نکالیے،میمورینڈم بھیجیے، لیکن یہ سارے کام خیر امت کی ڈیوٹی کی انجام دہی کی ساتھ کیجیے۔ ہمارے کچھ مسلم ممبران پارلیمنٹ اعلی تعلیم یافتہ ہیں، پارلیامنٹ میں مدلل تقریریں کرتے ہیں لیکن اگر ان کا دعوتی مزاج ہوتا اور پیغمبرانہ مشن کا ان کو احساس ہوتا اور خیر امت کو جو ڈیوٹی سپرد کی گئی ہے اس کا ان کو شعور ہوتا تو وہ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اور پارلیامنٹ کے ممبروں کو اسلام کا لٹریچر بھی دیتے، قرآن کے ترجمے دیتے، سیرت پر کتابیں مطالعہ کے لیے دیتے، لیکن مسلمانوں کو اپنی ڈیوٹی کا احساس نہیں ہے۔ ہندوستان میں حکومت مسلمانوں پر ظلم کررہی ہے، فرعون کی حکومت بھی مسلمانوں پر یعنی بنی اسرائیل پر ظلم کر رہی تھی، اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کو فرعون کے پاس دعوت توحید کے ساتھ بھیجا: اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ[سورہ طہ:24]فرعون کو جب ایک اللہ کی اطاعت کی دعوت دی گئی اور فرعون نے قبولِ حق سے انکار کیا تب فرعون کو اور اس کے لشکر کو پانی میں ڈبو دیا گیا اس کے بعد بنی اسرائیل کو جزیرۂ سینا میں آزادی اور سر فرازی حاصل ہوئی، ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب کسی قوم کو دعوت دی جاتی ہے اور وہ دعوت کو قبول کرتی ہےتو اس پر نعمتوں کی بارش ہوتی ہے اور اگر وہ ٹھکراتی ہے تو عذاب کی سزاوار بنتی ہے،قرآن میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔اس ملک میں آپ لائحہ عمل ایسا کیوں نہیں بناتے ہیں اور یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ وقت کے فرعونوں کو حق کی دعوت نہ دی جائےاور خیر امت کا فریضہ ادا نہ کیا جائے تب بھی آپ آسانی کی ساتھ ساحل مراد تک پہنچ جائیں گے اور نعمتوں کے سزاوار ہوں گے۔مسلم قیادت کو اس کا یقین کرلینا چاہیے کہ وقت کے ہر فرعون کو جب تک حق کی دعوت نہ دی جائے گی مسلم امت ساحل نجات تک نہیں پہنچ سکے گی۔قرآن میں ہے ان تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم یعنی تم اگر اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھارے قدموں کو مضبوطی سے جما دے گأ۔ اللہ کی مدد یہ ہے کہ جس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پیغمبرں کاسلسلہ اس دنیامیں جاری کیا تھا اسی کار پیغمبری کے لیے کھڑا ہونا اور توحید کی دعوت دینا اور رسالت پر ایمان لانے کے لیے بلانا۔ مسلم امت دنیا کے ہر کام انجام دے رہی ہے سوائے اس کام کے۔ تمام آفات کا نزول اسی کام کے نہ کرنے پر ہورہا ہے۔
پورے ملک میں کرنے کا سب سے بڑا کام اور سب سے ضروری کام یہ ہے کہ پیغمبرانہ مشن کے احیا کے لیے کھڑا ہوا جائےپور ے ملک میں شہر بہ شہر، قریہ بہ قریہ کوبہ کو ہر جگہ اس مشن کو شروع کرنے کی ضرورت ہے، ملک میں کوئی علاقہ باقی نہ رہےجہاں حق کی آواز نہ پہنچ جائے، اسی مشن کو عام کرنے اور ہر خاص وعام تک پہنچانے کی تدبیریں کرنی چاہئیں، محلہ کے باشعور لوگوں کے ساتھ مل کر مشاورت کرنی چاہیے کہ حق کا پیغام اہل وطن تک کیسے پہنچے،بے شمار کتابچے دعوتی موضوعات پر ہندی اور دوسری زبانوں میں شائع کیے جائیں، سیرت کے موضوع پر جلسوں کا اہتمام کیا جائے اور برادرانِ وطن کو شرکت کی دعوت دی جائے، جن اداروں نے اس سمت میں کام کیا ہے ان کی کوششیں قابلِ تعریف ہیں، اسی طرح ہندی اور دوسری زبانوں میں اسلامی موضوعات پرگفتگو اور تقریر کی ٹریننگ دینے کی ضرورت ہے اور یہ کام پورے ملک میں شاید کہیں نہیں ہورہا ہے،عمومی دعوت کے لیے غیر مسلموں سے بہتر تعلقات کی کلیدی اہمیت ہے۔ ہر مسلمان کو اخلاق حمیدہ کا پیکر ہونا چاہیے۔ خاکی ونوری نہاد بندہ مولی صفات۔ اگر مسلمانوں کی اپنی زندگی روحانیت اور اخلاق فاضلہ کا نمونہ بن جائے اور وہ آگے بڑھ کر اسلام کی دعوت دیں گے تو اسلام کی اشاعت تیزی کے ساتھ ہوگی اور ان کے ساتھ تمام زیادتیاں جو ہورہی ہیں ختم ہوجائیں گی۔
یاد رکھیے جب تک یہ کام نہیں ہوگا، نہ مسلم پرسنل لا بورڈ امت مسلمہ کو بچاسکے گا، نہ کوئی مدرسہ، نہ کوئی تنظیم۔دنیاکی دوسری قوموں کاکام صرف ظاہری اسباب اور تدابیر سے چل سکتا ہے۔تدابیربھی اہم ہیں لیکن مسلم قوم کے مسائل کا حل صرف ظاہری تدابیر میں پوشیدہ نہیں ہے، اس کے مسائل کا حل وہاں ہےجہاں ظاہر کی آنکھ دیکھ نہیں سکتی ہے،سیکڑوں سال گزر گئے، مسلمانوں نے بہت بڑے بڑے علمی، تعلیمی، سماجی اور اصلاحی کام کیے لیکن پیغمبرانہ مشن کے لیے کھڑ ا ہونا وہ کام ہے جو امت کو آواز دے رہا ہے۔یہ راہ خارزار ضرور ہےاور اس میں آزمائشوں کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے لیکن کام یابی کی منزل تک پہنچنے کا راستہ بھی صرف یہی ہے، بصورت دیگر آفات وبلیات کا نزول۔ یاد رکھیے یہ کام مسلمانوں کے سپرد کیا گیا ہے۔ نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے۔ اگر آپ یہ کام نہیں کررہے ہیں اور کرنے کے لیے نہیں تیار ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس امت کے نہ ہمدر د ہیں نہ مخلص۔
مشمولہ: شمارہ جون 2025