شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ اور ان کی دینی وعلمی خدمات

مجدّدِدین ، شیخ الاسلام شیخ تقی الدین ابوالعباس احمد بن شیخ شہاب الدین ابی المحاسن عبدالحلیم بن شیخ مجد الدین ابی برکات عبدالسلام بن عبداللہ بن ابی القاسم الخضر بن محمد بن خضر بن محمد بن علی بن عبدا للہ بن تیمیہ الحرانی الدمشقی کی ولادت ۶۶۱ھ کوحران میں ہوئی ( ۱ )حران شام میں ایک مشہور تاریخی شہر تھا آپ نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولیں جہاں ہرطرف علم وفضل کی مجالس برپا تھیں۔ آپ کےدادا ابوالبرکات مجد الدین کا شمار مذہب حنبل کے اکابر میں ہوتا تھا ۔ بعض علماء نے ان کومجتہد مطلق بھی کہا ہے ۔ ان کی یادگار منتقی الاخبار ‘‘ ہے جس کی شرح علامہ محمد بن علی الشوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ کے نام سے کی ہے۔ امام ابن تیمیہ کے والد محترم شہاب الدین عبدالحلیم بھی صاحب درس وافتاء تھے اورجامع اموی دمشق میں ان کا باقاعدہ درس رہتا تھا ۔ اس کے ساتھ دار الحدیث اسکریتہ کے شیخ الحدیث بھی تھے اس خاندان ذرشان کے آپ رکن امین تھے ۔ آپ کے والد نے آپ کانام احمد تقی الدین رکھا ۔ بڑے ہوکر آپ نے ابوالعباس کنیت اختیار کی ۔ علی دنیا میں ابن تیمیہ کےنام سے شہرت پائی ۔ ابن تیمیہ نہ تو آپ کی کنیت ہے اورنہ لقب ۔ بلکہ آپ کے خاندان کے ہر فرد کوابن تیمیہ کہا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے علامہ ابن خلکان نے ابوالبرکات المستوفی کی روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ آپ کے پردادا القاسم الخضر کے بڑے صاحبزادے فخر الدین محمد الخطیب ۶۰۶ھ میں حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے تودوران سفر آپ کا قیام راول کے قریہ میں ہوا جہاں ابن المستوفی نے آپ سے اس نام کی وجہ تسمیہ دریافت کی ۔ آپ نے بتایا کہ جب ان کے نانا حج کوجارہے تھے توان کا گزر تبوک کے ایک گاؤں تیماء سے ہوا جہاں انہوں نے ایک چھوٹی خوبصورت بچی دیکھی ۔ جب وہ حج سے واپس گھر پہنچے توانہیں ان کی نومولود بچی کی خبر سنائی گئی ۔ آپ نے اسے دیکھا تواس کی شکل ہوبہو اس بچی سے ملتی تھی جسے آپ نے دورانِ سفر تیماء میں دیکھا تھا ۔آپ بے ساختہ یا تیمیہ یا تیمیہ پکارنے لگے۔ چنانچہ اس کانام بھی تیمیہ رکھ دیا گیا چنانچہ اس مناسبت سے آل تیمیہ کو ابن تیمیہ کہا جانے لگا  ۔ (۱)اکثرمورخین نے اس نام کی ویہی وجہ بیان کی ہے البتہ علامہ ابن کثیر دمشقی نے اس سے اختلاف کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ تیمیہ در اصل ابوالقاسم الخضر کی دادی کا نام تھا ۔ جونہ صرف بلند پایہ عالمہ فاضلہ تھیں بلکہ اچھی واعظہ وزاہدہ بھی تھیں ۔وہ اس قدر مشہور ہوگئیں کہ ان کے خاندان کے افراد بھی اس نام کی مناسبت سے یاد کئے جانے لگے۔ (۲)

کم سن میں جہاں ایک طرف علامہ موصوف نے اپنے گرد وپیش میں علم وفضل کے سوتے پھوٹتے دیکھیے وہاں ان کی معصوم نگاہوں نے مصائب کے طوفان بھی امڈ تے ہوئے دیکھیے ۔ عمر کی سات بہاریں ہی گزریں تھیں کہ آپ کو وطن مالوف سے مہاجرت اختیار کرنی پڑی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تاتاریوں کی آئے دن عالم اسلام کے کسی نہ کسی علاقے پر غارتِ گری ہوتی رہتی تھی ۔ چنانچہ آپ کا وطن مالوف صراف بھی ان کی زد سے محفوظ نہ رہ سکا ۔ اہل شہر اپنی جانوں کوبچانے کی فکر میںادھر اُوھد بھاگنے لگے۔ اسی بھگڈر میں آپ کے خاندان کے افراد منتشر ہوگئے اورآپ اپنے والد کی معیت میں ۶۶۷ھ میں دمشق آگئے ۔  (۳) دمشق ان دنوں صرف شام کا مرکزی شہر ہی نہ تھا بلکہ علمی لحاظ سے بھی اس کی مرکز یت مسلم تھی ۔ آپ کے والدجب یہاں کے علمی حلقوں سے متعارف ہوئے تو جلد ہی انہیں ایک امتیازی رتبہ حاصل ہوگیا ۔ دمشق کی جامع مسجد سے ان کا درس ہونے لگا ۔جس کی وجہ سے اہل علم کی بڑی تعداد ان کے مداح ہوگئی اورانہیں’’ دارالحدیث سکریہ ‘‘ کا شیخ مقرر کردیا گیا ۔

امام ابن تیمیہ کی تعلیم کا بیشتر زمانہ دارالحدیث سکریہ اورمدرسہ الحنبلیہ میں گزرا آپ کا حافظہ غضب کا تھا۔ حدیث اوراسماء الرجال میں آپ نے چند ہی دنوں میں شہرت حاصل کرلی ۔شیوخ زمانہ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سماعت حدیث وتکرار اسماء الرجال فرماتے ، ان شیوخ میں چند کا ذکر آپ نے اپنے رسالہ ’’ اربعون حدیث‘‘ میں بھی کیا ہے ۔ طالب علمی ہی کے دور میں تبحر علمی کی وجہ سے آپ کو فتویٰ کی اجازت مل گئی تھی ، بعد میں باقاعدہ فتویٰ کی اجازت آپ کو قاضی شیخ شرف الدین ابوالعباس احمد المقدس شافعی (متوفی ۶۹۴) نے دی جس پر وہ خود فخر کرتےتھے ۔  (۴)    ۶۸۲ ھ کوآپ کے والد شیخ شہاب الدین عبدالحلیم کی وفات ہوگئی اوران کی جگہ آپ شیخ الحدیث مقرر ہوئے ۔ ۲؍محرم الحرام ۶۸۳ھ کوشیخ الحدیث کی حیثیت سے آپ نے پہلا درس دیا جس میں امراء وزراء، قاضی، علما اور عائدین شہر موجود تھے دوران درس خود قاضی القضاۃ شہاب الدین آپ کے دلائل اورفصاحت وبلاغت سے انگشت بدنداں تھے آپ سے درخواست کی گئی کہ جمعہ کی نماز کے بعد آپ جامع دمشق میں تفسیر قرآ ن بھی بیان کرلیا کریں، چنانچہ ۱۰ ؍صفر المظفر ۶۸۳ھ کوآپ نے دمشق کی عظیم الشان جامع میں درس قرآ ن کا آغاز فرمایا ۔ تھوڑے عرصہ کے بعد شیخ الحنابلہ شیخ زین الدین ابن المنجبی کی وفات ہوگئی تو بالا تفاق اس کے بعد یہ بڑا علمی اندا ز بھی آپ ہی کے سپرد ہوا ۔ اس کے بعد آپ کو افکار کی اشاعت کا مزید موقع ملا اور شب وروز مختلف الخیال علماء وفقہاء سے مختلف موضـوعات پر بحث ومناظرہ کی مجلسیں منعقد ہونے لگیں۔ اس دوران توبسا اوقات آپ کو اپنے خلاف فتوے بھی سننا پڑے لیکن آپ نے کبھی ان کی پروا نہ کی ۔ نتیجتاً تھوڑے عرصہ میں مخالف علماء نے خاموشی اختیار کرلی یا پھر ان کے قوی دلائل کوتسلیم کرتے ہوئے آپ سے مباحثوں سے گریز کرنے لگے۔

۶۹۹ھ میں تاتاری مصر کے حاکم ناصر بن قلاوون کوشکست دے کر دمشق تک پہنچ گئے ۔ عوام الناس میں بھگڈر مچ گئی۔ خود عائدین شہر علما  فضلاء اورامراء تک اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، شہر خالی ہوگیا ۔ صرف قاضی القضاۃ اورچند اورذمہ دار لوگ باقی رہ گئے ۔ علامہ موصوف کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ عام مسلمانوں کو چھوڑکر وہاں سے ہجرت کرجائیں۔ انہوںنے مسلمانوں کی ہمت بندھائی اورایک وفد لے کر تاتاریوں کے سپہ سالار قازان سے ملاقات کرنے گئے ۔ تاتاری فوجیوں کے مظالم اورمسلمانوں کی خستہ حالی سے اسے آگاہ کیا ۔ قازان نے علامہ کی درخواست پر مسلم قیدیوں کوآزاد کردیا اور شہر میں امن کی منادی کرادی ۔       (۱) دوسرے سال تاتاری پھر حملہ آور ہوئے سلطان ناصر مقابلہ کے لئے روانہ ہوا ۔ لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ تاتاری لشکر حلب تک پہنچ گیا ہے تووہ واپس مصر چلاگیا ۔ یہ صورتِ حال اہل دمشق کے لئے نہایت پر یشان کن تھی آخر فیصلہ ہوا کہ سلطان ناصر کے پاس وفد بھیجا جائے ۔ امام ابن تیمیہ وفد کے قائدین بن کر سلطان ناصر کے پاس پہنچے اوران کے سمجھانے سے سلطان لشکر لے کر مقابلہ کے لئے شام کوروانہ ہوگیا ۔لیکن مقابلہ کی نوبت نہ آئی اورتاتاری سلطان لشکر کی آمد کی خبر سنتے ہی واپس چلے گئے ۔ ۷۰۲ ھ میں ایک بار پھر تاتاریوںنے یلغار کی اوردمشق والوں کومیدان کا ر زار میں کود نا پڑا ۔ امام ابن تیمیہ اس جنگ میں پیش پیش تھے۔ مسند تدریس اورمنبر خطائب پر بیٹھنے والا یہ عالم میدان جنگ میں بھی پرسکون اورہشاش بشاش نظر آتا تھا ۔ تاتاریوں نے جب دیکھا کہ اہل دمشق واقعی آخری فیصلہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں توواپس چلے گئے ۔

دور آزمائش

اس کے بعد امام موصوف کی زندگی میں جوموڑآئے انہیں ان کے دورآزمائش سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ اپنے افکار وآراء کی تاریخ واشاعت کی بناء پر انہیں دمشق سے مصر بلوایا گیا ۔ وہاں لوگوںنے جوآپ کی نئی باتیں اورنئے افکار سنے توایک شورش برپا ہوگئی ۔ علماء وصوفیہ کا طبقہ الگ خلاف ہوگیا ، قاضی الگ بگڑگئے ۔ بالآخر قاضی القضاۃ زین الدین بن مخلوف کے حکم سے آپ قید کی تنگ وتاریک کوٹھری میں پہنچا دیے گئے  منہا بن عیسیٰ ایک عرب امیر نے جوامام موصوف سے عقیدت رکھتا تھا اوراثر ورسوخ والا شخص تھا ۔ مصر جاکر نائب السلطنت سے ملاقات کی اورامام موصوف کواٹھارہ ماہ کی قید سے رہا کرایا ۔ اس عرب امیر کا مقصد تھا کہ علامہ کودمشق واپس لے جائیں لیکن آپ نے مصر ہی میں قیام کوترجیح دی اور قاہرہ ہی کواپنی دعوت وتبلیغ کا مرکز بنایا۔ وہاں مسلمان مختلف فقہی مسلکی اورکلامی مباحث میں الجھے ہوئے تھے ۔ علامہ موصوف نے جب ان پر تنقید کرنی شروع کی تویہ سارے طبقے آپ سے شدید طور پر ناراض ہوگئے اورآپ کے خلاف مخالفت کا ایسا طوفان اُٹھ کھڑا ہوا کہ اس کی وجہ سے حکومت آپ کے سامنے تین باتیں پیش کی ۔ ( ۱)

۱۔ یا تو آپ دمشق واپس چلے جائیں۔

۲۔ یا اسکندریہ میں رہیں ۔ جہاں تقریر وتحریر پر پابندی ہوگی ۔

۳۔ یا پھر جیل جانا منظور کریں۔

آپ چونکہ دمشق نہیں جانا چاہتے تھے اورمصر میں مشروط قیام بھی منظور نہیں تھا لہٰذا آپ نے حکومت کی تیسری تجویز منظور کی ۔ لیکن تلامذہ اورمداحین کا اصرار تھا کہ آپ دمشق ضرور جائیں ۔ چنانچہ آپ ۷۰۷ھ میں وہاں کے لیے روانہ ہوئے ۔ ابھی راستہ ہی میں تھے کہ سرکاری کارندے پہنچے اور آپ کومصر واپس لے آئے اورنظر بندکردیا۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ’’مدرسہ صالحیہ ‘‘ میں امام موصوف کے ہم خیال علماء اور ان کے تلامذہ اور مداحین نے جمع ہوکر ایک قرار داد منظور کی جس کی وجہ سے آپ کی نظر بندی ختم کردی گئی کچھ عرصہ اسکندریہ میں رہ کر اپنے افکار کی تبلیغ کی ۔ سلطان ناصر نے جب معزولی کے بعد دوبارہ عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لیا توآپ کو قاہرہ بلالیا ۔ یہاں آتے ہی آپ نے ابن عربی، ابن عطاء اللہ اسکندری اورابن فارض کے فلسفہ وحدۃ الوجود پر سخت نکتہ چینی شروع کردی ۔ کلامی مباحث میں علماء سے پہلے ہی ٹھنی ہوئی تھی ۔ اب کی بار سب علماء نے متفق ہوکر حکومت کی توجہ آپ کے ان خیالات کی طرف مبذول کرائی اورمختلف مسالک کے علماء سمیت نائب السلطنت پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے آپ کو ایک قلعہ میں نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا جہاں ۲۲؍رجب ۷۲۰ھ سے ۱۰؍محرم الحرام ۷۲۱ھ تک تقریباً اٹھارہ ماہ نظر بند رہے ۔ ۷۲۱ھ میں رہائی کے بعد دمشق واپس آکر پورے جوش وخروش کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہوگئے ۔ جس کے نتیجہ میں ۷؍شعبان المعظم ۷۲۶ھ کوانہیں پھر جیل بھیج دیا گیا ، جیل میں بھی آپ کی تصنیف وتحریر کا سلسلہ جاری رہا۔ ۷۲۸ھ کوتحریر و مطالعہ کا سب سامان آپ سے لے لیا گیا ۔  (۱)  اس مدت میں تحریر کردہ ساٹھ مجلات اورچودہ نامکمل فائل کتب خانہ مادلیہ میں جمع کردیے گئے ۔ اس عرصہ میں آپ مختلف ردی کاغذوں اورکوئلے کے ذریعہ اپنی یاد داشتیں لکھنی شروع کی ۔ یہ عرصہ مختصر ہی رہا پھر آپ بیمار پڑگئے بیس روز بیمار رہنے کے بعد پانچ ماہ کی مسلسل قید برداشت کرتے ہوئے ۲۰ ذی القعدہ ۱۳۲۷ء بمطابق ۷۲۸ھ کوداعی اجل کولبیک کہا ۔ جیل کے مینارہ سے آپ کے انتقال کا اعلان کیا گیا ۔ شہر میں کہرام مچ گیا اپنے پرائے سبھی اشک بار تھے ۔ نماز جنازہ میں پورا شہر امڈ پڑا ۔ لوگوں کے جم غفیر کی وجہ سے تین مقامات میں نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ پہلی نماز جنازہ قلعہ ہی میں ادا کی گئی جس کی امامت شیخ محمد بن ثمام نے فرمائی ۔ دوسری نماز جنازہ جامع دمشق میں ادا کی گئی جس کی امامت شیخ علاء الدین بن الخراط نے کی ۔ پھر بھی بہت سے لوگ نماز جنازہ پڑھنے سے رہ گئے توتیسری نماز جنازہ کھلے میدان میں علامہ زین الدین عبدالرحمان کی  امامت میں ادا کی گئی ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دو لاکھ مرد اورپندرہ ہزار خواتین آپ کےجنازے میں شریک ہوئیں۔ آخری آرام گاہ کے لیےآپ کے آبائی قبرستان مقابر صوفیہ کومنتخب کیا گیا ، جہاں آپ کے بھائی شرف الدین عبداللہ محو استراحت تھے۔

افکار وآراء

علامہ امام ابن تیمیہ کے تجدیدی اورانقلابی افکار کے مطالعہ کے لئے ضروری ہے کہ ان اسباب وعلل کا جائزہ لیا جائے جن میں آپ کے خیالات کی نشو ونما ہوئی تاتاریوں کے ذریعے عالم اسلام کی تباہی کا منظر نامہ امام موصوف کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ بغداد کی تباہی کے چند سال ہی گزرے تھے کہ آپ کی پیدائش ہوئی ۔ اس دوران میںتاتاریوں نے شام کا رخ کیا چنانچہ آپ کے خانوادے کواپنے مادر وطن سے ہجرت اختیار کرنی پڑی اورجب آپ نے شعور کی آنکھیں کھولیں توشام اورمصر گویا تاتار یو ں کے زیر نگیں آنے والے تھے ۔ آپ نے اپنے مجاہدانہ کوششوں سے اس فتنہ کوروکا ۔ اجتماعی طورپر مسلمانو ں کا معاشرہ  افراتفری کا شکار تھا ۔ اجتماعیت ختم ہوچکی تھی ۔ دشمن سے مقابلہ کے حوصلے پست ہوچکے تھے ۔ تاتاریوں نے مسلمانوں کے تمام اجتماعی خوبیوں کو نگل لیا تھا ۔ دینی  پہلوسے طرح طرح کے ا فکار دین میں شامل ہوکر دین کامسلمہ حقیقت بن چکے تھے شیعیت اپنے عروج پر تھی ، تصوف نے اپنے جال پھیلا رکھے تھے ۔ فلاسفہ عقلی بنیادوں پر دین کوباطل قرار دینے پر آمادہ تھے ایسے پر آشوب دورمیں امام موصوف کی پیدائش ہوئی اورآپ نے نشو ونما پائی ۔ چنانچہ امام موصوف نے ان تمام مسائل کی طرف خاطرخواہ توجہ فرمائی اوراسلام کی مٹتی ہوئی تعلیمات کی آپ نے تجدید فرمائی ۔

علمی دنیا میں آ پ نے دیکھا کہ مسلمانوں میں ایک گروہ تووہ ہے جوکسی خاص فقہی مسلک سے وابستہ ہے اور اس سے باہر وہ کسی فکر کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے  جوفیصلے قدیم فقہاء نے کردیے وہ حرف آخر بن گئے ۔ اس کورانہ تقلید ی رجحان کی وجہ سے بسا اوقات مختلف فقہی مسائل کے درمیان آپس میں ٹھن جاتی تھی اور نتیجہ ایک دوسرے کے خلاف فتوؤں اورمناظروں کی شکل میں نکلتا تھا ۔ اس کے برعکس کچھ لوگ محض یونانی فلسفہ پر اکتفا کر بیٹھے تھے ان کی طرف سے یونانی افکار اوراسلامی عقائد میں تطابق وتوافق پیدا کرنے کا سوال بہت زوروشور کے ساتھ اُٹھایا جاتا اس سے اسلامی عقائد اوریونانی فکر میں ادغام کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا ایک گروہ اور تھا جوعلم کلام کے مختلف الخیال طبقے سے تعلق رکھتا تھا ۔ امام ابو الحسن اشعری اورامام ابوالمنصور ماتریدی کے پیروان کے درمیان جبریہ یا جہمیہ اور معتزلہ کے خیالات خواص وعوام میں بحث ومباحث جاری رہتا تھا ۔ خوارج وشیعہ فرقوں کا شور الگ سے برپا تھا ۔ بلاد ا سلا میہ کے وہ عیسائی جوبظاہر کچھ نہ کہتے تھے لیکن اندرونی طور پر اسلام اور پیغمبر اسلام پر  حملے کرتے رہتے تھے ۔ یونانی فلسفہ سے متاثر ہوکر یہ رجحان عام ہوگیاتھا کہ اگر کوئی شخص نفس کا تزکیہ کرکے روحانی قوت کی ایک منزل پر پہنچ جائے توخدا اس میں حلول کرلیتا ہے ۔ یہ نظر یہ بھی عام تھا کہ خالق اور مخلوق شوق اورمحبت کی وجہ سے ایک ہیں ۔ محبت ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان کی فانی ذات خدا کی باقی ذات میں فنا ہوجاتی ہے ۔ اتحاد ‘ حلول اورشہود کے ان نظریات سے امرو نہی اورجزا وسزا کی اسلامی تعلیمات متاثر ہو ر ہی تھیں ۔ ایسے افطار وعقائد کی فضا میں آپ نے اپنے علمی وفکری سفر پورا کیا ۔ چنانچہ آپ کی تحریر و تقریر میں ان افکار ونظریات کی تردید کی گئی ہے اورآپ کی تصانیف انہی موضوعات  کا احاطہ کرتی ہے جوان کے عہد میں زیر بحث تھے۔ چنانچہ آپ کے تصانیف پر ایک نظر ڈالنے سے اس کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے ۔ ذیل میں آپ کے تصانیف کی مختصر فہرست درج کی جاتی ہے ۔

۱۔ درء تعارض العقل والنقل عقل اورشریعت کے درمیان تعارض وتناقض کودور کیا گیا ہے

۲۔ الرد علی المنطقیین

۳۔ منہاج السنتہ النبویہ فی نقض کلام القدریۃ والشیعۃ

۴۔ الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح

۵۔ اقتصاء الصراط المستقیم

۶۔ الصارم المسلول علی شاتم الرسول

۷۔ اقامۃ الدلیل علی بطلان التحلیل

۸۔ مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ

۹۔ مجموعہ الرسایل الکبری

۱۰۔ الفرقان بین اولیاء الرحمان واولیاء الشیطان

۱۱۔ مجموعہ الرسایل المنبریہ

۱۲۔التحفۃ العراقیۃ فی اعمال القلبیۃ

۱۳۔ الرسالۃ المدنیۃ فی تحقیق المجاز والحقیقۃ

۱۴۔  مجموعہ تفسیر ابن  تیمیہ

۱۵۔  العلم الطیب من اذکار النبی صلی اللہ علیہ وسلم

۱۶۔ قاعدہ جلیلہ فی التوسل والوسیلۃ

۱۷۔ الرسالہ القبرصیۃ

۱۸۔ اربعون حدیثا

۱۹۔ کتاب الرد علی الاخنائی

۲۰ ۔ الصوفیۃ والفقراء

۲۱۔ کتاب الاختیارات العلمیۃ

۲۲۔ مجموع الرسایل ۲ جلد

۲۳۔ مجموعہ الرسایل والمسایل ۵ جلد

۲۴۔ العقیدہ الواسطیۃ

۲۵۔ الرسالۃ التسفییہ

۲۶۔ شرح العقیدہ الاصبہانیہ

۲۷۔ کتاب الایمان

۲۸۔ جواب اہل العلم والایمان فی ان سورۂ الاخلاص تعدل ثلث القرآن

۲۹۔ کتاب النبوات

۳۰۔ السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی والرعیۃ

۳۱۔ رسالۃ الاجتماع والافتراق فی الملف بالطلاق

۳۲۔ الرسالۃ التدمریہ

۳۳۔ الرسالۃ البعلبکیہ

۳۴۔ تلخیص کتاب الاستغاثۃ المعروف بالرد علی الکبری

۳۵۔ تفسیر سورۃ الاخلاص

۳۶۔ تفسیر سورۃ النور

۳۷ ۔ رفع اعلام عن الائمۃ الاعلام

یہ ان کتابوں کی مختصر فہرست ہے جوطبع ہوچکی ہیں ۔ آپ کی کتابیں ابھی قلمی اورمخطوطہ کی شکل میں بھی موجود ہیں ۔ آپ کی تصانیف کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ نے تقریباً چالیس ہزار صفحات لکھے ہیں اوراگر آپ کی زندگی پر انہیں تقسیم کیا جائے توان کی تصانیف کا اوسط یومیہ چالیس صفحات بنتے ہیں ۔ اس سے امام موصوف کے قلمی جہاد کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔

امام ابن تیمیہ کے تلامذہ

فیض رسانی کا ایک طریقہ تحریر وتصنیف ہے تو دوسرا ذریعہ درس وتدریس ہے امام موصوف نے اپنے والد محترم کے انتقال ۶۸۲ھ کے بعد باقاعدہ درس دینا شروع کردیا تھا اوریہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا ۔ انہوںنے دمشق، قاہرہ ، اسکندریہ کے اندر قید کی حالت میںبھی بہت سے لوگوں کوشرف تلمذ سے نوازا ۔ آپ کے تلامذہ کی تین قسمیں تھیں ۔ بعض آپ کے ساتھیوں میں تھے مگر تبرکاً آپ سے شاگردی اختیار کی جیسے شیخ بزاری، شیخ ابوالحجاج فری ، شیخ شمس الدین ذہبی اورشیخ ابوالعباس واسطی، بعض وہ لوگ تھے جو شاگردی کا سلسلہ قائم رکھنے کے لیے ان کی تصنیفات کو روایت کرنے کی ان سے اجازت حاصل کی تھی ۔ جیسے سبت کے حاکم اوراصفہان غرناطہ اورتبریر کے کچھ لوگ اسی قسم سے تعلق رکھتے تھے ۔ بعض ایسے تھے جوآپ کے باقاعدہ شاگرد تھے اوردرس میں پابندی سے حاضر ہوتے تھے جنہوں نے آپ سے مختلف علوم وفنون کا درس لیا ۔ ان میں علامہ ابن القیم الجوزیۃ ، حافظ ابن کثیر دمشقی ، حافظ ابن عبدالہادی ، ابن الوردی ، شیخ دباہی ، شیخ بدر الدین ابن الصائغ ، شیخ نور الدین ابن الصائغ، شیخ احمد بن فضل اللہ العمری ، شیخ ابن مہری حنبلی ، احمد بن قدامہ مقدسی ، امین الدین ابن الوافی اورابو حفص سراج الدین عمر بن علی الازجی البزار، خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔جنہوںنے مختلف پہلوؤں سےامام موصوف کے نام کود نیا میں روشن کیا ہے اورتجدید دین کے آپ کے مشن کوآگے بڑھایا ہے ۔ ؎ ۱

مشمولہ: شمارہ مئی 2016

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223