شرک نے انسانی عقل کوٹھہرا رکھا تھا کہ آگے انسانی عقل جانے کو اپنی شامت سمجھتی تھی ۔ پھر انسانی تاریخ میں ایک نئے دورکا آغاز ہوا ۔ پھر یہ بڑے پیمانے پر ایک ہزار سال کے اندر سائنس اورٹکنالوجی تک پہنچا ۔ اس کے بعد سے آج تک جتنے بھی علوم منظر عام پر آئے ان کی بنیاد اس ڈیڑھ ہزار سال پہلےکے اسلامی انقلاب پرتھی جس کا اعتراف اغیار بھی کرتے ہیں۔
’’پروفیسر ہولٹ ‘‘کہتا ہے:
’’ قرونِ وسطیٰ کے دوران علم کا بہاؤ تقریباً تمام تر مشرق سے مغرب کی طرف جاری تھا جبکہ اسلام مغرب کا معلم بنا ہواتھا ۔‘‘
افسوس کہ جیوں جیوں یہ سائنس وفلسفے دوسرے کے ہاتھوں میں پہنچتے گئے اس کی ہئیت بگڑتی چلی گئی ۔ عربوں نے سائنس وفلسفے کے متعلق جونظریات پیش کئےتھے وہ آزادانہ تصور کی آمیزش سے پاک تھے، ان کی بنیاد الہٰیانہ تصور پر مبنی تھی ۔ لیکن یورپ ومغرب نے ان کی ہیئت کوبدل کر ان کی بنیاد خدا سے بیزاری پررکھی۔ ، اوراوچھی حرکتوں پر اتر آئے ۔ سائنس نے کہیں کچھ اعتدال (Balance)بھی قائم رکھا، مگر فلسفے نے جہالت کی روش اپنائی ۔
فلسفے کا الحاد
ایک دور میں فلسفے نے ایک قیاس یہ قائم کیا کہ ’’یہ کائنات اپنے آپ مادّے سے وجود میں آئی ہے ، اس کا نہ کوئی خالق ہے ، نہ مالک ہے ، نہ ناظم ہے ، ‘‘ لیکن جہالت نے عقل کو دوسری طرف نہ جانے دیا کہ آخر مادہ کہاںسے آیا۔ تیرتکوں کے سہارے جونظریات قائم کئے گئے ان کی اہمیت خواب پریشاں سے زیادہ نہ تھی، لیکن عقل اور علم کے بل پر وہ یہ ثابت نہ کرسکے کہ آخر کیسے اس کائنات کا کوئی مالک اور مدبر نہیں ہے ، یہ یونہی بن گئی ہے اوریونہی چلتی چلی جارہی ہے ۔ خوش فہمی میں رہنا ایک الگ چیز ہے اور دلیل سے کچھ ثابت کرنا ایک دوسری چیز ہے ۔
آج بڑے بڑے سائنسداں کہہ رہے ہیں کہ اس کائنات کا صرف ایک خدا ہے ، اورعلم کی ترقی یہ بتارہی ہے کہ ایٹم انرجی میں تبدیل ہوسکتا ہےاورانرجی ایٹم میں ۔ یہ چیز ثابت کررہی ہے کہ اس کائنات کواسکا خالق چور چور بھی کرسکتا ہے ، اور پھر جوڑ کر نئے سرے سے بنا بھی سکتا ہے ۔
’’پروفیسر ٹول مین‘‘صاف صاف کہتا ہے:
’’ کائناتی وسعت ایک عارضی نظام ہے ، اور کل کائنات کے مادوں کی تبدیلی قیامت کے سمت میں ہورہی ہے ۔ سورج کا درجۂ حرارت مستقل طور پر گھٹتا جارہا ہے ، اورستارے گل ہونے والے انگاروں کی طرح بنتے جارہے ہیں ….. ایک وقت ایسا بھی آئےگا جب کل کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا ، روشنی ، زندگی اور حرارت کاوجود ختم ہوجائےگا ۔صرف ایک لافانی ابدی اعلیٰ قوت (Eternal supremePower)ہی باقی رہ جائے گا۔‘‘ (’’ لا الہ الا اللہ ایک سائنسی تبصرہ‘‘ ص : ۲۵۳)
’’کارل ہیم‘‘ کہتا ہے :
’’ اس کائنات کا معجزانہ نظام نہ صرف ایک خلاّق کے وجود کی شہادت دیتا ہے ، بلکہ ایمان باللہ کی بھی دعوت دیتاہے ۔ فطرت کے مطالعے سے خدائے تعالیٰ تک رسائی کی راہ جس پر ارباب عقل ودانش و اصحابِ بصیرت ہمیشہ سے گامزن رہےہیں اورجو علت ومعلول کے میکانکی رشتے کی وجہ سے مسدود ہوگئی تھی، اب پھر طالبانِ حقیقت کے لئے کھل گئی ہے ۔‘‘ ( خدا موجود ہے ۔ ص ۱۰۲، مرکزی مکتبہ دہلی )
علم جدید آج جوکائنات کی تصویر پیش کررہا ہے وہ یہ ہے کہ اس کائنات کا ایک منتظم ہے ۔ یہ کوئی مشین سسٹم نہیں ہے جوآپ سے چل رہا ہے ۔ بلکہ اس کاایک ناظم ہے، جوباـضابطہ اس کی پل پل دیکھ ریکھ کررہا ہے ۔ بڑے بڑے سائنسدانوں نے ’’نیوٹن‘‘ ’’ہیوم‘‘ ’’ آٹن اسٹائن‘‘ دور جدید میں ’’ رابرٹ مورس‘‘ ’’میرٹ سیٹلے‘‘ ’’ جان کلیوی ‘‘ ’’ ہنری پورٹر ‘‘ ’’ایڈ ورڈ لوتھر ‘‘ وغیرہ نے آگے بڑھ کر خدا کی بستی کا اقرار کرکے ملحد فلسفیوں کوجوکرثابت کردیا ہے ۔
قرآن کا احسان
قرآن کا دنیائے انسانیت پر احسان ہے کہ اس نے توحید کا نعرہ لگایا ، شرک اور الحاد (Atheism) کوانسانی زندگی کے لئے زہر قرار دیا ۔ اس نے جبراً نہیں بلکہ عملی اور عقلی حیثیت سے انسان کوبتایا کہ تمہارا صرف ایک خدا ہے ۔ اس کے علاوہ تم جن چیزوں کا طواف کررہے ہو وہ بلندی پر لے جانے والے عجائب نہیںبلکہ ہاویہ میں گرانے والے فریب ہیں ۔ اس لئے صرف خدا کو معبود تسلیم کرو، اس سے ہٹ کر یا خدا کی خدائی کے ساتھ ساتھ اگر کوئی کسی طرح کی آمیزش کرتا ہے ، تو اس کا مطلب اس کے اندر شرک یا شرک کا شائبہ موجود ہے ۔ خواہ اولیاء کی شکل میں ہویا اصنام کی شکل میں ، اپنے نفس کی شکل میں ہو یا اسباب کی شکل میں ،تدبیر کی شکل میں ہویا اپنی عقل کی شکل میں ، مادّی اشیاء کی شکل میں ہو یا وہمی وجود کی شکل میں ، جلی شکل میں ہو یا خفی شکل میں، وہ کہتا ہے !’’ فاعبدہ وتوکل علیہ ’’ صرف اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو۔‘‘خدا ہر معاملے میں تنہا ہے ۔ وہ اپنی ذات میں بھی تنہا ہے ، وہ اپنی حکومت میں بھی تنہا ہے ، وہ اپنی خالقیت ، مالکیت اوررازقیت میں بھی تنہاہے ۔ اس لئے قرآن ہر معاملے میں قدم قدم پر خدا کی وحدانیت پر زوردیتا ہے ، قدم قدم پر استہشاد پیش کرتا ہے ، طرح طرح سےانسان کوسمجھاتا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے انسان دین ودنیا دونوں میں کامیابی کے وہ مدارج طے کرے جوقدرت کو مطلوب ہے ۔
جب انسان پر یہ منکشف ہوگیا اور خود وہ اقرار کرتا ہے کہ اوپر والا ہی پیدا کرتا ہے ، وہی موت دیتا ہے ،وہی بارش برساتا ہے ، وہی ہوا چلاتا ہے، اس نے زمین وآسمان بنائے ہیں۔ تو آخر کیوں نہ ہر معاملے میں ہم صرف اس کومالک مان کر اس کے آگے سر تسلیم خم کریں ۔ اور ہران توہمات ، خیالات ، نظریات اورقیاسات کو رد کردیں جوہمیں در بدر بھٹکا رہے ہیں— انسان کومعلوم ہونا چاہئے کہ دنیا میں صرف توحید کا نظر یہ ہی اسے فلاح سے ہمکنار کرسکتا ہے ، بقیہ سارے نظریات گمراہیت کی پوٹلی ہیں۔ قُلِ اللہُ يَہْدِيْ لِلْحَقِّ۰ۭ ’’کہو وہ صرف اللہ ہے جوحق کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ ‘‘(یونس۔ ۳۵) وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللہِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ’’ اوراللہ کے علاوہ کسی ایسے کو نہ پکارو جوتجھے نہ فائدہ دے سکتے ہیں اورنہ نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔ (یونس۔ ۱۰۶) لَا تَجْعَلْ مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا’’تواللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بناورنہ ملامت زدہ اور بے یارو مددگار بیٹھا رہ جائے گا ۔‘‘ (بنی اسرائیل ۔۲۲)
ا س دنیا کا آخری اور خالص الٰہی صحیفہ قرآن حکیم ہے ، اور اس دنیا کے آخری رسول حضرت محمد ؐ ہیں ۔ انسان کے لئے اب یہی صرف دو پیمانے ایسے ہیں جس پر اس کے فلاح وخسران کا دار ومدار ہے ۔ اس پر ایمان لانے کے لئے کہا گیا ہے ، اسی سے قیامت کے روز فیصلے ہوںگے ، اسی سے جنت وجہنم ملے گی، کسی سائنس ، فلسفے سے نہیں ۔ اگر کوئی انسان اس میزان قرآن اورصاحبِ قرآن کونظر انداز کرتا ہے ، تو وہ دنیوی اعتبار سے کتنا ہی بڑا علاقہ دہر ہو وہ اعلیٰ درجے کا جاہل ہے ۔ کیونکہ اسے یہ شعور ہی نہیں ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ دنیا میں بھیجنے کا مطلب کیا ہے ، خدا، رسول، کتاب اور آخرت کیا ہے ۔ اسے صرف قرآن سمجھا ئے گا کہ تمہیں اس زمین کا چار ج کیوں کر دیا گیا ہے؟
وہ مقصد ہے خدا کی معرفت حاصل کرنا، اس کے احکام کی اتباع کرنا ، انسان بننا، مسلمان بننا ، اس دنیاکو جنت نشان بنانا ، تاکہ انسان کو اس معراج پر پہنچایا جائے جس کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے ۔ جس کے لئے اسے اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے ، اور جس کے لئے اسے خود اختیاری دی گئی ہے ۔
جوان چیز وں کی جانکاری حاصل نہ کرے ، اس کی شخصیت مردہ ہے اور وہ قیامت کے روز بھی اندھا ہی بن کر اُٹھے گا ۔ زندہ شخصیت وہ ہے جسے خدا کی معرفت حاصل ہو ، اور وہ اس معرفت کو پھیلانے کے لئے اپنی زندگی تج دے ۔ یہی وہ شخصیتیں ہوتی ہیں جنہیں مرنے کے بعد بھی دنیا زندہ رکھتی ہے ۔ یہ کون سی زندگی ہے کہ صرف اپنے پیٹ کے لئے ساری زندگی گزار دی جائے ۔ زندگی تو اصل وہ ہے کہ آپ ایسے کام کرجائیں کہ و قت ، حالات، زمانہ ، لوگ آپ کو یاد رکھیں ۔ انسان بنے گا تو ہر چیز پر انسانیت کی نظر ڈالےگا ۔ اس کے پیش نظر کسی طرح کی حیوانیت نہیں ہوگی ۔ مسلمان بنے گا تو اس کے اندر جواب دہی کا خوف ہوگا ۔ و ہ ہر چیز پر جائز نگاہ ڈالے گا ، اورکسی طرح کی آزاد روی کے قریب نہ جائے گا ۔ انسان او ر مسلمان بننے کے بعد قدرتی طور پر اس کے اندر وہ ذہن تیار ہوگا جس سے وہ ہر طرح کی افراط اور تفریط کواپنے پاس بھٹکنے نہیں دے گا اورزمین کو ہر حیثیت معاشی ، سیاسی، سائنسی ، اخلاقی اور تمدنی سے بنائے اورسنوارے گا ۔ وہ دنیا کومادّی نگاہ سے نہیں بلکہ امتحان گاہ کی حیثیت سے دیکھے گا ، اور سوچےگا کہ اس سے میرے پاس اورفیل ہونے کا دار ومدار ہے ۔ یہ دنیا خدا کی سلطنت ہے ۔ ایک بادشاہ کی سلطنت میں ایک خادم کیسے رہنا چاہیے یہ ایسے بخوبی سمجھ میں آجائے گا ۔ اور اس کے لئے وہ ہر ممکن ذرائع استعمال کرے گا تاکہ دنیا میں تعمیر کا بول بالا ہو اور تخریب کا خاتمہ ہو۔اوران نظریات کے لئے اسے قرآن دیکھنا پڑے گا اورسمجھنا پڑے گا کہ یہ قرآن جوبار بار توحید کا درس دے رہا ہے اس کے پیچھے راز کیا ہے ۔ تبھی اس کے اندر ہر طرح کے انسانی اوراسلامی جذبات نشو ونما پائیں گے۔
ایک خدا کا وجود
آج سائنس ، جس پر دنیا کو سب سے بڑا ناز ہے وہ ثابت کررہی ہے کہ اس کائنات کا ایک خدا ہے ۔ یہ کائنات بلا خدا کے ایک پَل بھی چَل نہیں سکتی ہے ۔ یا اگر خدا نہیں ہے تو ہمیں لا محالہ ایک خدابنانا پڑے گا۔
“If God did not exist, it would be neccessary to invent him.”
آج جب علمی اور عقلی حیثیت سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایک خدا موجود ہے ، تو ظاہر سی بات ہے کہ تمام مشرکانہ عقائد، و مذاہب باطل ٹھہرتے ہیں ۔ اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس میں صرف ایک خدا کا تصور ہے ۔
لیکن افسوس ہے کہ انسان صرف تعصب کی بناء پر خدا کے عطا کردہ اس دین سے اجنبی بن کر رہ گیا ہے ۔ محض اس لئے کہ یہ مسلمانوں کا دین ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کس نے کہا یہ مسلمانوں کا دین ہے ؟ نظرپر پڑے چشمے اور عقل پر چڑھے پردے کوہٹا کر قرآن اوررسول ؐ کی تاریخ دیکھو تب تمہاری سمجھ میں آئے گا کہ یہ دین مسلمانوں کا نہیں، ساری انسانیت کا بھی نہیں ،بلکہ ساری کائنات کا ہے ۔
چیزیں لوگوں کی ہوتی ہیں جس کواس نے بنایا یا خریدا ہو ۔ جس طرح سے آسمان کسی کا نہیں ہے ، جس طر ح سے ہوا کسی کی نہیں ہے ، جس طرح سے بارش اوربادل کسی کے نہیں ہیں ، جس طرح سے گرمی اور ٹھنڈک ، دھوپ اورچھاؤ ں کسی کے نہیں ہیں ، بلکہ ساری انسانیت کے ساتھ ساتھ پیڑ، چرندے، پرندے ، درندے، پھل ، پھول، اناج الغرض کہ ہر چیز کے لئے ہے اور اس کا مالک صرف خدا ہے ۔ اس طرح سے اسلام بھی کسی کا نہیں ہے ، بلکہ وہ صرف خدا کا بھیجا ہوا ہے ، بالکل اسی طرح سے جس طرح سے آپ پانی ، ہوا، بارش ، گرمی ، ٹھنڈی وغیرہ سے جسمانی فائدہ لیتے ہیں ، ٹھیک اسی طرح سے آپ روحانی فائدہ لیں۔ یہ دین ساری کائنات کا ہے ۔ اس دین کو بھیجنے والا تو خود اعلان کرتا ہے کہ : اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ يَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَاۗبُّ وَكَثِيْرٌ مِّنَ النَّاسِ ’’ کیا نہیں دیکھتے کہ جو کچھ آسمان وزمین میں ہیں وہ اللہ کوسجدہ کرتے ہیں ۔ سورج ، چاند، ستارے، پہاڑ ، درخت، جانور اوربہت سارے انسان ۔ ( الحج : ۱۸)
اس اعلان پر غور کرو ، اس اعلان پر تمہاری قسمت منحصر ہے ۔ایک دور میں (انیسویں صدی ) یہ دعویٰ بلا دلیل بلکہ مفروضہ (Hypothesis) بڑے زور وشور کے ساتھ پیش کیا گیا کہ جوچیز سامنے ہے ، وہی حقیقت ہے، جوماوراء ہے وہ ایک خیالی پلاؤ ہے ۔ اس کی سب سے پہلی اورسب سے بڑی ضرب مذہب پر پڑی ۔ کیونکہ مذہب ہی سب سے زیادہ غیبی امور پر اعتقاد رکھنے کا درس دیتا ہے ۔ لیکن خود ان دعوےٰ داروں کوبعد کی علمی تحقیقات نے ہوناثابت کرکے رکھ دیا ۔ بیسویں صدی ہی میں یہ تحقیقات سامنے آگئیں کہ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ جوچیز ہمارے مشاہدے میں آئےوہی حقیقت ہے ، بلکہ بہت ساری صدائیں ایسی ہیں جوماوراءہیں اورابھی تک ہمارے علم میں نہیں آئی ہیں۔
حالانکہ جومفروضـہ قائم کیا گیا اگر اس پر گہرائی سے غور کیا گیا ہوتا تواتنی بے وزن بات کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔ انسان دور نہ جائے خود اپنے آپ پر غور کرے کہ کیا وہ اپنی روح کودیکھ رہا ہے ؟ اگر نہیں تو کیا مطلب روح کا وجود ہی نہیں ہے ۔ محض اس لئے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے ہیں ۔ اس طرح سے کیا انسان روشنی کی برق رفتاری کودیکھ رہا ہے ؟ اگر نہیں تو کیا اس کا انکار محض اس لئے کردیا جائے کہ وہ ہمارے مشاہدے میں نہیں آرہی ہے ۔ اس طرح سے یہ کشش کا نظام ، یہ ہوائیں، یہ زلزلے، یہ گھن گرج جنہیں ہم براہِ راست نہیں دیکھ رہےہیں ان کا انکار محض اس لئے کردیا جائے کہ وہ ہماری نظر سے باہر ہیں ۔ اگر نہیں اورواقعتہً نہیں تو کیا خدا کا ، فرشتوں کا ، قیامت کا ، جنت اورجہنم کا انکار اس لئے کرنا کہ وہ ہماری قوتِ بصارت سے باہر ہیں آخر کہاں کی عقل مندی ہے ۔ آج ہم حضرت آدم ؑ حضرت ابراہیم کو محض اس لئے اپنے دماغ سے خارج کردیں کہ نہ ہم نے انہیں دیکھا ہے اورنہ ہی وہ ہماری نظر میں آرہے ہیں ۔ ہم امریکہ کا محض اس لئے انکار کردیں کہ نہ ہم نے اسے دیکھا ہے اورنہ ہی وہ ہماری نگاہوں میں آرہا ہے ۔ اگرکوئی انسان یہ کہے کہ دہلی کاوجود ہی نہیں ہے، اس لئے کہ میں نے اسے نہ دیکھا ہے ، نہ دیکھ پارہا ہوں ، توآپ کوکتنی ہنسی آئے گی اورآپ اسے پاگل ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے ۔ لیکن وہی چیزآپ کہہ رہے ہیں تو آپ ایک عظیم فلسفی ہیں ۔ یہ تفاوت کیسا؟ کیا واقعات، تاریخیات اورغیب کوئی چیز نہیں ہے ۔ ہر چیز صرف مشاہدہ ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے ،اوریقیناً نہیں ہے تو آسمانی کتابوں میں ، انبیاء کی تعلیمات میں ہی درج ہے کہ اس کائنات کا صرف ایک خدا ہے ، انبیاء اس کے پیغامبر تھے، قرآن اس کی کتاب ہے ، بعث بعد الموت(lifeafter death) یقینی ہے۔ جس طرح سے موت برحق ہے اسی طرح سے آخرت برحق ہے ۔
یہ دنیا امتحان گاہ ہے ۔ تو آخر اس پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جارہی ہے ۔ صرف اس بنا ء پر کہ ہم دیکھ نہیں رہے ہیں ۔ کیاہماری آنکھوں میں یہ بساط ہے کہ ہم ہر چیز کا مشاہدہ کرسکیں۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کائنات کے جوراز ہیں ہم اسے ایک فیصد بھی نہیں جان پائے ہیں۔یہی وجہ تھی کہ پہلے کے فلسفی ’نیوٹن ‘‘ (۱۷۲۷۔۱۶۴۲) ’’ڈارون ‘‘ ( ۱۸۸۲۔۱۸۰۹) آئن اسٹائن‘‘ (۱۹۵۴۔ ۱۸۷۹) ’’جیمس جنیس ‘‘ (۱۹۴۶۔ ۱۸۷۷) وغیرہ نے اس بات کوتسلیم کیا ہے کہ اس کائنات کوچلانےکے لئے ایک خدائی ہاتھ کا ہونا از حد ضروری ہے ۔ اگر یہ صداقت ہے کہ آنکھ کے بغیر انسان کی دنیا اندھیری ہے ، تو اس طرح سے یہ بھی صداقت ہے کہ خدا کے بغیر انسان ہی ادھورا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2017