عہد اسلامی سے عہد حاضر تک ہندوستان کا تکثیری معاشرہ کئی نشیب و فراز سے گزرا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ عہد اسلامی میں یہ معاشرہ مکمل امن و سکون ، اخوت و مساوات، الفت و محبت اور امن و انصاف کا آئینہ دار تھا۔لیکن شومئی قسمت کہ ملک کی آزادی کے بعد ، مسلمانوں کو چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا اور انہوں نے آزادی کا جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر ہنوز مخفی ہے۔ انہیں ہمیشہ متعصب اور نفرت آمیز نظروں سے دیکھا گیا انہیں طنز و تشنیع کا ہدف بنایا گیا۔ کبھی انہیں غدّارِ وطن اور دہشت گردبتایا گیا اورکبھی ان پرسب و شتم کی بارش برسائی گئی اور غیر مہذب القاب سے نواز کر ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا رہا ہے اور انصاف کے اصولوں کو پا مال کر کے انہیں ہر طرح سے ذلیل و رسوا کیا جاتا رہا ہے۔ آج جب کہ ہندوتوا کے علم برداروں کا راج ہے، ان کی جانب سے برابر مسلمانوں کو ذہنی اذیت دی جا رہی ہے۔ فسادات میں ان کی جانوں اور مالوں سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے پیش نظر ایک تکثیری معاشرہ میں مسلمانوں پر دو طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں: ایک یہ کہ وہ ان ناخوشگوار حالات اور ذہنی کرب واذیت کے تدارک کی خاطرافاقی اصولوں کا سہارا لے کر اپنے ثقافتی ،معاشرتی اور دینی ورثے کے تحفظ کی تدابیر کریں اور دوسری یہ کہ اسلام کے آفاقی پیغام کو ان تک پہنچا ئیں ، انہیں اسلام سے روشنا س کرائیں اور اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ان کی غلط فہمیاں دور کر یں نیز برادرانِ وطن سے معاشرتی وثقافتی روابط پیدا کرکے اپنے اعلیٰ اخلاقی اقدار اور کردار سے انہیں اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کریں۔اس سلسلے میں قرآن وحدیث نے ہماری جو رہنمائی کی ہے اسے اساس بنانے کی ضرورت ہے۔
(۱)غیر مسلموں سے تعلقات
اسلام نے مسلمانوں کوانسانی تعلقات کے احترام کی تعلیم دی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً…(النساء: ۱)
’’ اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک ذات سے پیدا کیا اس سے اس کا جوڑا بنایا
پھر ان دونوں سے بکثرت مرد اور عورت پھیلا دیے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىٕلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ(الحجرات :۱۳)
’’اے لوگو !ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری برادری اور قبیلے بنائے، تاکہ تم ایک دوسرے کوشناخت کرو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن پہلے ایک انسان کا دوسرے انسان سے بغیر کسی امتیاز کے تعلق استوار کرتا ہے، جو عالمگیر مساواتِ انسانی پر مبنی ہوتا ہے پھر یہ واضح کرتا ہے کہ تمام افراد شرف انسانی کے اعتبار سے مساوی اور ہم پلہ ہیں، لہٰذا ہر انسان، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ایک دوسرے کا بھائی ہے۔ لہٰذا بھائی ہونے کے ناطے اسےاس کے ساتھ حسن عمل کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ چنانچہ رسول اکرم ا کا ارشاد گرامی ہے: اشہد ان العباد کلھم اخوۃ (ابوداؤد) ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘ معلوم ہوا کہ انسان کا دوسرےا نسان سے تعلق تین اصولوں کے تحت طے ہوتا ہے: ایک یہ کہ انسانوں کی ابتدا ایک مرد اور ایک عورت سے ہوئی ہے ۔ دوسرے یہ کہ قومیں اور قبیلے پہچان کا ذریعہ ہیں اور تیسرے یہ کہ اصل قیمت اس کا تقویٰ ہے،جو صحیح علم اور اچھے عمل سے متعین ہوتا ہے۔
(۲)غیر مسلم پڑوسی سے تعلقات
تکثیری معاشرہ میں رہتے ہوئے غیر مسلم پڑوسیوں سے تعلقات ناگزیر ہیں۔اس تعلق میں جس قدر استواری ہو گی اسی قدر الفت و محبت اور قربت ہوگی۔ معاشرہ سکون و اطمینان کی ڈگر پر رواں دواں ہوگا اور ہر کوئی ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت وآبرو کا محافظ ہوگا۔ ایک دوسرے کے دکھ درد اور آسائش وراحت میں باہم شرکت کی وجہ سے معاشرہ امن وسلامتی کا ایک بے نظیر نمونہ ہوگا۔ اسلام نے انسان کو بہترین پڑوسی بننے کی تعلیم دی ہے۔ رسول اللہ ا کاا رشاد ہے: من کان یؤمن باللہ و الیوم الآخر فلا یؤذ جارہ (ابوداؤد) ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں دینی چاہئے۔‘‘ حضرت ابو ذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ میرے محبوب انے مجھ سے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ:’’ جب سالن پکاؤ تو پانی (شوربہ) بڑھا دو اور اپنے پڑوسیوں میں سے جس کے گھر ضرورت ہواس کے یہاں اس میں سے کچھ بھیج دو۔‘‘ (مسلم) ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے یہاں بکری ذبح ہوئی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے ایک سے دو بار دریافت کیا کہ ہمارے فلاں یہودی پڑوسی کو اس میں سے کچھ بھیجا ہے؟ اس لیے کہ رسول اللہ ا نے فرمایا کہ جبرئیلؑ مجھے پڑوسی کے سلسلے میں اس قدر تاکید کرتے تھے کہ مجھے خیال ہوتا تھا کہ وہ اسے وارث نہ بنا دیں۔ (ابوداؤد) ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا سید جلال الدین عمری نے لکھا ہے: ’’ پڑوسیوں کی خدمت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم عام ہے۔‘‘ اس کے مستحق مسلمان پڑوسی کی طرح غیر مسلم پڑوسی بھی ہیں۔ (غیر مسلموں کے تعلقات اوران کے حقوق، ص ۵۲)
(۳) غیر مسلم والدین سے تعلقات
ہندوستانی معاشرہ میں آئے دن غیر مسلموں کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کا مژدہ سنائی دیتا رہتا ہے اور یہ ان سے قربت، روابط، ان سے حسن اخلاق اورانہیں اسلام سے متعارف کرانے ہی کا ثمرہ ہے۔ ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ غیر مسلم خانوادہ کے جو افراد اسلام قبول کر کے اسلامی معاشرت کا حصہ بن جاتے ہیں ان کا اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں سے کیا تعلق ہو؟ قرآن مجید میں والدین، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، پڑوسیوں، مسافروں اور غلاموں وغیرہ کے ساتھ بلا کسی تفریق و امتیاز کے حسن سلوک کا عام حکم دیا گیا ہے اور ان کے ساتھ غیر اخلاقی سلوک کی مذمت کی گئی ہے(اسلام میں خدمت خلق کا تصور، مولانا سید جلال الدین عمری) والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم قرآن مجید نے ایک جگہ ان الفاظ میں دیا ہے:
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْہِ۰ۚ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰي وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِيْ عَامَيْنِ اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَلِوَالِدَيْكَ۰ۭ اِلَيَّ الْمَصِيْرُ۱۴ وَاِنْ جَاہَدٰكَ عَلٰٓي اَنْ تُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِہٖ عِلْمٌ۰ۙ فَلَا تُطِعْہُمَا وَصَاحِبْہُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا (لقمان:۱۴۔۱۵)
’’ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی تاکید کی ہے اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دوسال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے ۔ اس لیے ہم نے وصیت کی کہ تم میرا بھی شکر ادا کرو اور اپنے والدین کا بھی ۔میری ہی طرف پلٹ کر آنا ہے ۔ اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے ،جس کا تجھے علم نہیں ہے تو ان کی بات نہ مان اور ان کے ساتھ معروف کے مطابق اپنا برتاؤ رکھ۔‘‘
ان آیات میں صاف طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ والدین کے ساتھ ،خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں، حسن سلوک کیا جائے گا۔ ان کے شرک و کفر کی وجہ سے ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی روا نہ ہو گی۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر ؓ کہتی ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دوران میری ماں، جو مشرک تھیں (ان کا نام قتیلہ تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جاہلیت کے زمانہ میں انہیں طلاق دیدی تھی) مجھ سے ملنے آئیں۔ میں نے رسول اللہ ا سے دریافت کیا کہ انہیں مجھ سے کچھ توقع ہے، کیا میں ان کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کر سکتی ہوں؟ آپ ا نے فرمایااپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔(بخاری ومسلم)
(۴)غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات
مولاناسید جلال الدین عمری اس ضمن میں ر قم طر از ہیں : ’’اسلام چاہتا ہے کہ غیر مسلم رشتہ دار وں کے ساتھ سماجی تعلقات رکھے جائیں اور ان کے ساتھ محبت، ہمدردی اور تعاون کا رویہ اختیار کیا جائے۔ اس کا ایک ذریعہ انہیں تحفے تحائف دینا ہے۔ اس کا ثبوت ہمیں حضرت عمرؓ کے ایک واقعہ سے ملتا ہے ۔ رسول اللہ ا نے حضرت عمرؓ کو ایک ریشمی جوڑا بطور تحفہ بھیجا ،حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ ریشم کے استعمال سے توآپؐ نے مردوں کو منع فرمایا ہے، پھر یہ مجھے کس لیے عطا ہوا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ہاں،یہ اس لیے نہیں ہے کہ تم اسے پہنو، بلکہ اس لیے ہے کہ کسی اور کام میں لاؤ ،حضرت عمرؓ نے یہ جوڑا اپنے اخیافی بھائی کو، جو مشرک تھے، تحفہ میں بھیج دیا‘‘ (غیر مسلموں سے تعلقات،ص۴۰) اس حدیث کے ذیل میں مولانا نے امام نووی ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’اس میں دلیل ہے اس بات کی کہ کافر قرابت داروں کی صلہ رحمی اور ان کے ساتھ حسن سلوک جائز ہے۔ اس میں کفار کو ہدیہ اور تحفہ بھیجنے کا جواز بھی موجود ہے۔‘‘ (حوالہ سابق)
(۵)غیر مسلموں سے تحائف کا تبادلہ
تکثیری معاشرہ میں سماجی اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کیا جائے اوراسی طرح ان سے روابط بڑھائے جائیں۔ رسول اللہ ا کی سیرت مبارکہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ غیر مسلم سلاطین اور سربراہانِ مملکت نے آپ کو تحفے پیش کیے اور آپؐ نے قبول فرمائی اور بعض اوقات آپؐ نے خود بھی انہیںتحفے عنایت کیے۔(غیر مسلموں سے تعلقات،ص۱۴۸)
(۶)غیر مسلم کی دعوت
تکثیری معاشرہ میںمسلمانوں کا ٖغیر مسلموں کی دعوتیں قبول کرنا اوران کی تقریبات میں شرکت کرنا بھی باہمی تعلقات کی استواری کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ غیر مسلم کے ساتھ کھانا پینا مباح ہے۔ وقت ضرورت ان کی دعوت قبول کی جا سکتی ہے اور انہیں دعوت دی بھی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید نے اہل کتاب کے بارے میں فرمایا :
وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۰۠ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّہُمْ (المائدۃ : ۵) ’’ان لوگوں کا کھانا جن کو کتاب دی گئی ہے، تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان لوگوں کے لیے حلال ہے۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ رقم طراز ہیں: ’’اہل کتاب کے کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے ۔ہمارے لیے ان کا اور ان کے لیے ہمارا کھانا حلال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان کھانے پینے میں کوئی رکاوٹ اور کوئی چھوت چھات نہیں ہے۔ ہم ان کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ۔ لیکن یہ عام اجازت دینے سے پہلے اس فقرے کا اعادہ فرما دیاگیا کہ ’تمہارے لیے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘ اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب اگر پاکی وطہارت کے ان قوانین کی پابندی نہ کریں جو شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں ،یا اگر ان کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مثلاً اگروہ خدا کا نام لیے بغیر کسی جانور کو ذبح کریں یا اس پر خدا کے سوا کسی اور کا نام لیں تو اسے کھانا ہمارے لیے جائز نہیں۔ اسی طرح اگر ان کے دسترخوان پر شراب یا سور یا کوئی اور حرام چیز ہو تو ہم ان کے ساتھ شریک نہیں ہو سکتے۔ اہل کتاب کے سوا دوسرے غیر مسلموں کا بھی یہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ذبیحہ اہل کتاب ہی کا جائز ہے، جب کہ انہوں نے خدا کا نام اس پر لیا ہو۔رہے غیر اہل کتاب تو ان کے ہلا ک کیے ہوئے جانور کو ہم نہیں کھا سکتے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورۂ مائدہ، حاشیہ نمبر۲۱) رسول اللہ ا نے غیر مسلموں کی دعوت قبول فرمائی ہے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہےکہ: ’’ایک یہودی نے نبی ا کو جو کی روٹی اور بدبودار چیز (یا تیل) کی دعوت دی۔ آپ ؐ نے قبول فرمائی۔‘‘ اسی طرح رسول اللہ ا نے غیر مسلموں کے کھانے پینے کا اہتمام بھی فرمایا ہے۔قبیلہ ثقیف کے وفد کو، جو ابھی اسلام نہیں لایا تھا، آپ ؐ نے مسجد نبوی میں ٹھہرایا ۔ حضرت خالد بن سعید ؓ ان کے کھانے پینے کا نظم فرماتے تھے۔
(۷)غیر مسلم مریض کی عیادت
انسانیت اور اخلاق کے ناطے ایک مسلمان کا فرض ہے کہ اگر اس کا کوئی غیر مسلم پڑوسی بیمار ہو جا ئے تو وہ اس کی مزاج پرسی اور عیادت اور حتی الامکان اس ضمن میں اس کی مدد کرے اور اس کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اپنائے۔ رسول اللہ ا نے بہ نفس نفیس ایک غیر مسلم پڑوسی کی عیادت کی ۔آپ ؐ بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس سے کہا: اے ماموں! آپ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کیجئے۔ اس نے کہا کہ یہ کہنا میرے حق میں بہترہے؟ آپ ؐ نے فرمایا ہاں۔ (مسند احمد)حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکاجو آپ ؐ کی خدمت میں مصروف رہاکرتا تھا،بیمار پڑ گیا۔ آپ ؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اس سے کہا: اسلام لے آؤ۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، جو قریب ہی بیٹھا تھا۔ اس نے کہا: ابولقاسم ا کی بات مان لو۔ چنانچہ وہ لڑکا مسلمان ہو گیا۔نبی ا یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکلے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اس بچے کو جہنم سے بچا لیا۔ (بخاری)ان واقعات سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ایک تکثیری سماج میں رہتے ہوئے غیرمسلموں سے روابط، ان کے دکھ درد میں شرکت اور انہیںاچھی باتوں کی نصیحت باہمی خیر سگالی اور الفت و محبت کا ذریعہ ہے، تاکہ ان کا اعتمادہمیں حاصل ہو اوروہ ہمیں اپناانسانی بھائی سمجھیں اور ہم سے حسن سلوک کا رویہ اپنائیں۔
(۸)غیر مسلم کے جنازے میں شرکت
غیر مسلم مریض کی عیادت کے علاوہ ان کے جنازہ میں شرکت کی اجازت علماء اسلام نے دی ہے۔ مشہور فقیہ حضرت عطاء بن رباحؒ کہتے ہیں: اگر مسلمان اور کافرکے درمیان قریبی رشتے داری ہو تو مسلمان کو کافر کے جنازہ میں شریک ہونا چاہیے۔ (مصنف عبدالرزاق) اس طرح فقہ حنفی کی معروف و مستند کتاب ’ہدایہ ‘میں ہے: ’’جب کسی کافر کا انتقال ہو جائے اور اس کا ولی و سرپرست مسلمان ہو تو وہ اسے غسل دے گا اور تجہیز وتکفین کرے گا۔ (غیر مسلموں سے تعلقات، ص ۹۰) اس سلسلے میں معروف عالم دین مولانا عامرعثمانیؒ مرحوم ایڈیٹر ماہ نامہ تجلی دیوبند نے ایک سائل کے سوال کا جواب دیتے ہوئے صاف لفظوں میں اپنا یہ نقطۂ نظر بیان کیا ہے: ’’آپ کے فعل میں قباحت نہیں، پڑوسی کا تو ویسے بھی بہت حق ہے۔ وہ کافر بھی ہو تو بہترہے حقوق اس کے آپ پر عائد ہوتے ہیں۔ اچھا کیا اگر آپ نے ارتھی میں شرکت فرمائی۔ ہم تو ہر مسلمان کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر اس کے پڑوس میں کچھ غیر مسلم رہتے ہیں تو ان سے حسن اخلاق میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ وہ بیمار ہوں ان کی عیادت کرو۔ وہ ضرورت مند ہوں تو ان کی مدد کرو۔ وہ مرجائیں تو ان کے غم میں شریک ہوں اور کسی بھی ایسے سلوک سے دریغ نہ کرو جو شرعاً جائز ہو‘‘۔ (نادر الفقہ، معروف بہ تجلی کی ڈاک جلد دوم، قسط ششم ص ۳۶ )
(۹)غیر مسلموں سے کاروباری تعلقات
جہاں تک غیر مسلموں سے کاروباری تعلقات کا سوال ہے تو یہ عام ہے۔ غیر مسلم بھی مسلمانوں سے عام کارروباری تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ان کی سماجی اور معاشرتی ضرورت ہے اور مسلمان بھی سماجی اور معاشرتی تقاضوں کے تحت ان سے کاروباری روابط استوار کیے ہوئے ہیں۔تکثیری سماج میں باہمی لین دین،کاروبار اور خرید و فروخت ایک اچھی علامت ہے، بلکہ یہ عام مشاہدہ ہے کہ غیر مسلم علاقوں میں مسلمانوں کی دکانیں ہیں جہاں سے غیر مسلم حضرات اپنی ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں اور مسلم علاقوں میں غیر مسلم کی دکانیں ہیں جہاں سے مسلمان استفادہ کرتے ہیں۔ البتہ یہ پابندی مسلمانوں کے لیے ضرور ہے کہ جن حرام اشیاء کا کاروبار ان کے لیے منع ہے ان میں وہ غیر مسلموں کا ساتھ نہیں دے سکتے ۔حضرت عبد الرحمٰن بن ابو بکر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا کی خدمت میں ایک مشرک، جو پراگندہ بال اور دراز قد تھا، کچھ بکریاں لے کر پہنچا۔ آپ ؐ نے اس سے سوال کیا کہ کیا یہ فروخت کے لیےہیں یا تحفہ ہیں ؟اس نے کہا: فروخت کے لیے ہیں۔ آپ ؐ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ (بخاری ) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ا نے ایک یہودی سے ایک مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ بطور رہن رکھی۔ (بخاری)
(۱۰)غیر مسلموں کو سلام ودعا
مسلم معاشرہ میں جہاں سلام کے ذریعے باہمی روابط اور الفت و محبت قائم کرنے کی تعلیم دی گئی ہے وہیں آج کے تکثیری معاشرہ میں اس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے کہ مسلمان بھائیوں کے علاوہ سماجی اور معاشرتی تقاضوں کے تحت غیر مسلم بھائیوں سے بھی ملاقات کے وقت ان سے سلام کے ذریعہ مسرت و ہمدردی اور تعلق کا اظہار کریں۔ اس کے ذریعہ ان سے قرابت بڑھائی جائے اور ان سے سلام اور دعا کے توسط سے باہمی اخوت اور محبت کی فضا ہموار کی جائے۔ روایت ہے کہ حضرت ابوامامہؓ راستہ چلتے وقت مسلمان یا نصرانی اور چھوٹے یا بڑے کو سلام کرتے۔ اسی طرح امام ابن جریر طبریؒ کے بقول حضرات سلف اہل کتاب کو سلام کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، ابو درداءؓ اور فضالہ بن عبیدؓبھی اہل کتاب کو سلام کرنے میں پہل کرتے تھے۔ (تفسیر قرطبی) اس طرح اگر کسی غیر مسلم سے کسی مسلمان کی کوئی ضرورت وابستہ ہے تو اس کے پاس جانے اور ا س سے اپنا مدعا بیان کرنے میںکوئی حرج نہیں۔ اگر وہ ہمارے کام آگیا تو ہمیں اس کا شکرگزار ہونا چاہیے اور اسے دعاؤں سے بھی نوازنا چاہئے۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ایک یہودی سے پینے کی کوئی چیز طلب کی۔ اس نے وہ پیش کی تو آپؐ نے اسے دعا دی کہ اللہ تمہیں حسین و جمیل رکھے۔ چنانچہ مرتے وقت تک اس کے بال سیاہ رہے۔ (مصنف عبدالرزاق)
(۱۱)امر بالمعروف و نہی عن المنکر
اپنے موضوع سے متعلق اب تک جن نکات پر میں نے گفتگو کی ہے اس میں یہ موضوع سب سے زیاد ہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے کہ یہی در اصل امت مسلمہ کا نصب العین اور مقصد حیات ہے اور اسی میں ان کی دنیوی و اخروی فلاح و کامرانی مضمر ہے۔آج امت مسلمہ جن مسائل اور پریشانیوں سے دوچار ہے ان کی سب سے بڑی وجہ دراصل امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائی میں کوتاہی ہے۔ آج اگر ہم کو اپنے منصب اورذمہ داریوںکا احساس ہوتا تو اللہ کا دین برادرانِ وطن میں پہنچانے کی خاطر ان سے روابط رکھتے،اپنے اخلاق وکردار سے انہیں متاثر کرتے اور اسلام و مسلمانوں سے متعلق ان کی غلط فہمیاں دور کرتے۔ قرآن میں مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ …(آل عمران:۱۱۰)
’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودی ؒ رقمطراز ہیں:
’’نبی ا کے متبعین کو بتایا جا رہا ہے کہ دنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی ا سر ا ئیل اپنی نا اہلی کے باعث معزول کیے جا چکے ہیں، اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو۔ اس لیے کہ اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہو گئیں ہیں جو امامت عادلہ کے لیے ضروری ہیں، یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہـ ـلا شریک کو اعتقاداً و عملاً اپنا الٰہ اور رب تسلیم کرنا۔ لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہیں لازم ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کر چکے ہیں۔(تفہیم القرآن، سورۂ آل عمران، حاشیہ ۲۸)
اس آیت میں ہمیں انسانیت کی ا صلاح اور خیر خواہی کی عظیم ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ اگر ہم اپنی ذمہ داریوں کو بروئے کار لائیں تو تکثیری سماج میں عام برادرانِ وطن سے نصح و خیر خواہی کی بنیاد پر ہمارا رابطہ ہوگا ۔ ہم ان سے قریب ہوں گے اوران کو اپنا ہم نوا بنا نے کی کوشش کریں گے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2016