ملت اسلامیہ کا ہر فرد اگر اپنے پڑوسی کے حقوق کو جان لے اور ان کی ادائیگی کی جانب متوجہ ہو جائے تو خدمت خلق کا ایک اہم ترین مسٔلہ نہایت آسانی کے ساتھ حل ہوجائے گا مجھے کچھ تجربات ، مشاہدات اور کچھ سنے ہوئے واقعات کی روشنی میں چند اہم باتوں کو آپ تک پہنچانا ہے تاکہ ان قابل عمل تجربات کو ہر کوئی اپنا سکے ۔
ایک محترمہ کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ ہوا۔ جب وہ پہلی بار اپنے شوہر کے ذریعہ اپنے افراد خاندان کے ساتھ ایک محفل عام میں متعارف ہو ئیں تو انھوں نے ایک منصوبہ بنا کر اپنے شوہر کی تائید حاصل کر لی ۔ ما شاء اللہ میاں بیوی ہم خیال تھے ۔منصوبہ یہ تھا کہ پہلے اپنے خاندان کی چند بچیوں کو دین کی بنیادی تعلیم ساتھ میں سلائی اور کشیده کاری کا ہنر بھی سکھایا جائے۔ اس مرحلہ میں کامیابی کے بعد محلے کی ہم سایہ بچیوں کو بھی شامل کر لیاگیا ۔ چند ہی مہینوں میں پورے محلے میں ایک بڑی تبدیلی محسوس کی گئی بستی کے لوگوں کی اس طرف توجہ ہونے لگی پھر باقاعدہ ایک سلائی سینٹر کا قیام عمل میں آیا۔ انگریزی میڈیم کی بچیوں کے لئے عربی اردو سکھانے کا سلسلہ چلا۔ سلائی سینٹر میں تیار ہونے والی بچیوں کا تعاون حاصل ہوا ۔ کام بڑھتا گیا اور معاون بھی تیار ہوتے گئے۔ پوری بستی کے لیے ایک بڑے ہال میں ماہانہ اجتماع کا اہتمام ہوا اور خواتین میں اپنے اپنے محلے میں اپنے ہم سایہ ضرورت مندوں کی مدد کا احساس دلایا گیا ۔
متمول گھرانوں کی پیش کش سے ایک مرکز کا قیام عمل میں آگیا ۔ خواتین میں دینی بیداری کچھ اس طرح پیدا ہوگئی کہ بیواؤں مطلقہ خواتین غریب اور مسکین و محتاج خواتین کی ایسی مدد کی جانے لگی کہ پھر کسی کو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ رہی۔
علم دین کے ساتھ سلائی کڑھائی ، عمده پکوان اور کشیده کاری وغیرہ سیکھنے والی بچیوں کے لیے اچھے خاصے روزگار کا انتظام ہوگیا۔ یہ ایک صلاحیت مند خاتون کے ذریعہ خواتین میں بیداری کی مثال ہے۔
عام طور پر ہمارے مسلم گھرانوں میں بھی لوگ اس قابل نہیں ہو تے کہ اسکول کے اخراجات کے علاوہ ٹیوشن کا بھی بار برداشت کر سکیں۔ لہٰذا اگر تعلیم یافتہ خواتین اپنے گھر میں اپنے بچوں کو پڑھاتی ہیں، ان کا ہوم ورک دیکھتی ہیں تو کتنا اچھا ہواگر وہ پڑوس کے اور خاص طور سے غریب پڑوسیوں کے دوچار بچوں کو بھی شریک کرلیں تاکہ ان کا بھی معیار تعلیم بلند ہو۔
ہم سا یوں کے ساتھ عام طور پر یہ تو ہوتا ہے کہ کچھ اچھا پکا ہے تو بھیج دیا ، کسی کا کچھ مالی پریشان کا معاملہ حل کردیا وغیره۔ اس طرح کا تعاون تو بہت سے لوگ کرتے ہی ہیں، تاہم اس وقتی امداد کے ساتھ کچھ ایسی مدد جس سے ان کے کسی بڑے مسئلے کا مستقل حل ہوجائے، جیسے کسی کو روزگار سے لگانا، کوئی ہنر سکھا دینا، کسی کا تعلیمی معیار بلند کرنا وغیره بھی بہت ضروری ہے۔
ہرفرد اپنے اپنے ہم سایوں کا اس طرح خیال رکھنے لگ جائے تو معاشر ے میں مثبت تبدیلی کے آثار نمایاں ہوں گے۔
یاد رکھیے ! پڑوس کا ایک بچہ بگڑے گاتو وہ دوسرے بچوں کو بھی بگاڑ ے گا اور آگے چل کر بگڑے ہوئے بچے محلے اور سماج کا درد سر بنیں گے۔
جس طرح ہم سائے کے مکان میں آگ لگنے پر سب بے فکر نہیں رہتے بلکہ آگ بجھانے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔ بس اسی طرح ہم اپنے ہم سائے کے ایک بچہ کے بگاڑ پر فکرمند ہو جائیں۔ یہ سب کے لئے راحت کاسامان ہوگا گویا ہم سائے کی اس طرح مدد صالح معاشرے کی بنیاد ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے
جس کا ہم سائے کے آنگن میں بھی سایا جائے
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






