تحریک اسلامی ہند کے صف اوّل و دوم کے جو قائدین گزرے ہیں، ان کے حلم و بردباری ، فہم وفراست، اخلاص ودردمندی، ایثارو قربانی اورعالی ظرفی کے واقعات سے حوصلوں میں نئی طاقت کا اضافہ ہوتا ہے اور ناسازگار وغیر معتدل حالات کی وجہ سے طبیعت میں جو افسردگی آنے لگتی ہے، وہ دور ہوتی جاتی ہے۔ ان قائدین نے پر آشوب اور ناہموار حالات میں چٹان بن کر تحریک اسلامی کو آگے بڑھایا ہے۔ صابر و شاکر رہے۔ کبھی کسی قسم کا گلہ شکوہ نہیں کیا ۔
﴿۱﴾سن ۱۹۶۴ء میں محترم عبدالرزاق لطیفی امیر حلقہ آندھرا پردیش نے مرکزی شوریٰ میں یہ تجویز پیش کی کہ پونا کے دو افراد کے درمیان خاندانی رنجش ہے ۔ان میں ایک مقامی امیر اور دوسرے جماعت کے ہمدرد تھے۔اِس رنجش کو ختم کرنے اور صلح و صفائی کے لیے جماعت ایک وفد تشکیل دے، تاکہ ارکانِ وفد صلح و صفائی کا فریضہ انجام دے سکیں۔
مرکزی شوریٰ نے یہ تجویز منظور کرکے ایک وفد دو افراد پر مشتمل تشکیل دیا۔ جس میں ایک محترم محمدیوسف صاحب قیم جماعت اور دوسرے محترم محمد شفیع مونس صاحب معاون قیم جماعت شامل تھے۔ یہ وفد پونا کے لیے روانہ ہوا تو راستے میں بمبئی میں مولانا شمس پیر زادہ صاحب امیرحلقہ مہاراشٹر نے پونا سے واپسی پر بمبئی میں ایک دن کا پروگرام طے کرلیا۔ جب یہ حضرات پونا پہنچے تو اندازہ ہوا کہ مقررہ وقت پر بمبئی پہنچ نہ سکیں گے۔اس لیے شمس پیرزادہ صاحب کو خط تحریر کیا کہ بمبئی کا پروگرام ملتوی کردیا جائے۔ کیوں کہ وقت مقررہ پر پہنچنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس بات پر میں نے موصوف سے اختلاف کرتے ہوئے عرض کیا کہ آپ کو طے شدہ پروگرام کے مطابق بمبئی جاکر پونا آجانا چاہیے۔ خط کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ یہ کبھی بھی وقت پر نہیں پہنچتے۔ ان دنوں میرا قیام پونا ہی میں تھا۔ میں ہفت روزہ مارگ دیپ﴿چراغ راہ ﴾ کے منیجرکی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس طرح یہ سلسلۂ گفتگو جاری رہا۔ یہاں تک کہ ایک دن قبل اخبارات میں بمبئی کے پروگرام کے اعلانات آگئے۔ اس اعلان کے بعد میں نے کہا کہ آپ کو ہر حال میں اب بمبئی جاکر پروگرام انجام دینا ہوگا۔ محترم محمد یوسف صاحب کہنے لگے کہ چوں کہ ہم خط لکھ چکے ہیں، اس لیے بمبئی جانا ضروری نہیں ہے۔ اس بات پر میں ضرورت سے زیادہ جذباتی ہوگیا۔ میں نے اپنے انداز میں کہا کہ آپ لوگ جماعت کی لٹیا ڈبو دیں گے۔ ایسی امامت جماعت کی ضرورت نہیں ہے۔ بوریا بستر لپیٹ دو اس کا۔ میں طیش میں بے قابو ہوکر بولے ہی جارہاتھا کہ شمس صاحب کا فون محترم قیم جماعت کو آیا کہ آپ کا خط ابھی ابھی موصول ہوا ہے اور یہاں پروگرام کی تیاری مکمل ہوچکی ہے ۔ ہال کا ریزرویشن ہوچکا ہے۔ ہینڈبل کی تقسیم، پوسٹر لگوائے گئے اور اعلانات وغیرہ سب کا م انجام دیے جاچکے ہیں۔ اس لیے پروگرام ملتوی کرنا ممکن نہیں ہے۔ جواب میں محترم قیم جماعت نے فرمایا کہ ہم آرہے ہیں۔ اس کے بعد ہم لوگ بمبئی کے لیے روانہ ہوگئے۔ رات کا وقت تھا اور سب پر نیند کا غلبہ تھا، اس لیے سب غنودگی میں رہے اور میں اپنے سوئے ادب الفاظ پر نادم اور پریشان تھا۔
پروگرام کے دوسرے دن بمبئی سے واپسی پر دوران سفرمیں محترم محمد شفیع مونس صاحب نے فرمایا: ارے بھائی دیشمکھ ! میں نے عرض کیا فرمائیے مونس صاحب! اس پر محتر م معاون قیم نے کہا کہ ارے بھائی جماعت کی لٹیا تو نہیں ڈوبی ہے نا؟اس بات پر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔کچھ وقفے کے بعد محترم محمد شفیع مونس صاحب نے فرمایا! ارے بھائی دیشمکھ ! میں نے عرض کیا فرمائیے مونس صاحب! تو مونس صاحب نے کہا کہ ارے بھائی امامت جماعت کی ضرورت ہے نا؟ اس پر بھی ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ پھر کچھ وقفے کے بعد مونس نے فرمایا: ارے بھائی دیشمکھ ! میں نے عرض کیا فرمائیے مونس صاحب!کہنے لگے ارے بھائی کیا جماعت کے بوریا بستر لپیٹنے کی اب بھی ضرورت ہے؟ اس بات پر بھی احباب ہنستے رہے۔ اس طرح بڑی حکمت کے ساتھ اپنے بذلہ سنج مزاج سے ماحول کو مونس صاحب نے خوش گوار بنادیا۔ میرے جذباتی ہوجانے سے ماحول میں جو کثافت آگئی تھی، اس کو خوش گوار ماحول میں تبدیل کردیا۔ مرحوم مغفور سے میری آخری ملاقات اجتماع ارکان کے موقع پر ہوئی تھی اور تین گھنٹے کسی اختلافی عنوان پر تبادلہ خیال ہوتا رہا تھا۔
﴿۲﴾ مولانا محترم محمد یوسف صاحب قیم جماعت نیچر و پیتھی﴿قدرتی طریقہ علاج﴾ پر سختی سے عمل پیرا رہے ہیں۔ اس لیے وہ چائے وغیرہ کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ ہم ایک ہوٹل میں ناشتہ کر رہے تھے، اس وقت میں نے محترم قیم جماعت سے کہا کہ احباب بڑے خلوص سے آپ کی خدمت میں چائے پیش کرتے ہیں۔ چوںکہ تواضع کا یہ آسان اور سستا طریقہ ہے۔ لیکن آپ چائے کو چھوتے تک نہیں۔ ایک جائز چیز کو آپ نے اپنے اوپر حرام کرلیا ہے، جس سے نہ تو کھانسی زکام ہوتا ہے اور نہ گلاخراب ہوتا ہے۔ اس لیے میزبا ن کے جذبات اور خلوص کی قدر کرتے ہوئے کبھی کبھی چائے پی لینی چاہیے۔ اس کے جواب میں موصوف محتر م نے کہا کہ چائے کی پتی کو ابال کر ایک مگ میں لے آؤ۔ اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘ بعد میں اس ابلے ہوئے پانی سے آپ نے غرارے کئے ۔ مطالعے کے دوران یہ بات علم میں آئی کہ یہ عمل دانتوں کی مضبوطی کے لیے مفید ہے۔ مطلب یہ کہ اس وقت موصوف نے اپنے ہی مسلک پر عمل کیا تھا، جس پر میں خوشی کا اظہار کرچکا تھا۔
﴿۳﴾محترمی مولانا ابواللیث ندویؒ سابق امیر جماعت کو میں نے خط تحریر کیا کہ زندگی اور موت کا کوئی یقین نہیں ہے۔ اس لیے ۱۹۴۸ءمیں جماعت کی تشکیل جدید کے وقت کے حالات، واقعات اور مسائل ضبط تحریر میں آجانے چاہییں، ورنہ آپ کے ساتھ ان باتوں کی بھی تدفین ہوجائے گی۔مولانا محترم ابواللیث ندوی مرحوم نے فوراً جواب تحریر کرکے مجھے روانہ کیا کہ آپ کا خط ملا۔ میں نے اس کام کا آغاز کردیا ہے۔ وہ حالات واقعات کتابی شکل میں جلد شائع ہوجائیں گے ﴿یہ خط سہ روزہ دعوت میں شائع ہوچکا ہے۔﴾ مولانا کی تحریر کے مطابق یہ کتاب بہت جلد ’تشکیل جماعت اسلامی ہند کیوں اور کیسے‘ کے نام سے شائع ہوکر منظر عام پر آگئی تھی۔
آپ مندرجہ بالاواقعات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے قائدین کس طرح عام رفقاء جماعت کے ساتھ خلوص، اپنائیت اور اعلیٰ ظرفی سے پیش آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی ہند کوپروان چڑھائے۔ فعال اور ڈائنامک رفقاء اور قائدین کی کمی محسوس ہونے نہ دے۔ ﴿آمین﴾
مشمولہ: شمارہ فروری 2012