ایک بے ساختہ نسل
“ گذشتہ ایک ہفتے سے میں ہر رنگ کے لوگوں کے اس خلوص کو دیکھ کر مبہوت ہوں۔ شاید آپ میرے ان الفاظ پر حیران ہوں گے۔ لیکن اس سفر کے دوران میرے مشاہدے اور تجربے میں جو کچھ آیا ہے، اس سے میں اپنے بیشتر گذشتہ خیالات و نتائج کو از سرنو ترتیب دینے پر مجبور ہوں… شاید اگر سفید فام امریکی خدا کی وحدانیت کو قبول کر لیتے، تو وہ وحدت انسانی کو بھی قبول کرلیتے اور رنگوں میں اپنے ’امتیازات‘ کے لحاظ سے دوسروں کو ناپنے، روکنے اور نقصان پہنچانے سے باز آجاتے… اس مقدس سرزمین [عرب] میں ہر لمحہ مجھے امریکہ میں سیاہ فام اور سفید فام نسلوں کے بیچ ہونے والے تعامل پر روحانی بصیرتیں مل رہی ہیں۔”
– میلکم ایکس
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا ۔ (الحجرات: 10)
لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ۔ (الحجرات: 13)
میں نے اپنی کتاب ’ایون اینجلز آسک‘ (Even Angles Ask) میں پہلی بار اسلام قبول کرنے کے بارے میں اپنے ایک عوامی خطاب کے بارے میں لکھا تھا۔ یہ خطاب یونیورسٹی کیلی فورنیا ڈیوس کی مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے جمعے کی شب ہونے والے اجلاس میں دیا گیا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس شام گفتگو کے لیے بلایا جائے گا، لہذا میں ذہنی طور پر تیار نہیں تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کیا کہا تھا، لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے مختصراً ان واقعات کی کڑیاں ملانے کی کوشش کی جو میرے اسلام لانے کامحرک بنے۔ میں نے اپنی گفتگو کا اختتام سان فرانسسکو یونیورسٹی کی مسجد کے امام کے ساتھ اس گفتگو کو یاد کرتے ہوئے کیا جو کلمہ شہادت پڑھنے سے پہلے ہوئی تھی۔ میری تقریر ختم ہونے کے بعد پروگرام اختتام پذیر ہوگیا اور جیسے ہی میں وہاں سے نکلنے کے لیے اٹھا، تو تین سو یا اس سے بھی زیادہ نوجوان میرے ارد گرد جمع ہو گئے۔ انھوں نے گلے لگا کر، ہاتھ ملا کر اور میرے گالوں اور سر پر بوسہ دے کر میرا استقبال کیا۔ ان میں سے کئی کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے۔ جدھر بھی میری نظر جاتی ہاتھ میری طرف پھیلے ہوئے نظر آتے۔ بہت سے لوگ صرف ایک بار مجھے چھونا چاہتے تھے یا میری پیٹھ تھپتھپانا چاہتے تھے۔ مجھے بار بار بتایا گیا کہ میں کتنا عظیم ہوں، اب میں کتنا معصوم اور گناہوں سے پاک ہوچکا ہوں، خدا کے نزدیک میں کتنا محبوب ہوں گا اور پیدائشی مسلمانوں سے کتنا بہتر مومن ہوں۔ اگرچہ مجھے گھر جانے کی جلدی تھی، لیکن مجھے مسجد کے دروازے تک پہنچنے ہی میں ایک گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا، جو مائیکروفون سے محض چالیس فٹ کی دوری پر تھا۔ آخر کار جب میں پارکنگ میں پہنچا تو میری جیبیں کاغذ کے ٹکڑوں سے اس طرح بھری ہوئی تھیں (جن پر لوگوں نے اپنے نام اور فون نمبر لکھ کر دیے تھے )کہ میں اوز کے جادوگر والے افسانے کا اچھا خاصا بجوکا لگ رہا تھا۔
بہت سےطلبہ نے، جن سے میری ملاقات پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، مجھے سان فرانسسکو اپنے گھر لے جانے کی پیش کش کی۔ راستے بھر انھوں نے میری تبدیلی مذہب کے بارے میں پرجوش باتیں کیں۔ انھوں نے خلوص سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پورا امریکہ اسلام قبول کرلے۔ ایک موقع پر ان میں سے ایک نے کہا: “ میں آپ کو اپنے ساتھ کویت لے جانا اور آپ کو ٹیلی وژن پر دکھانا پسند کروں گا۔ کاش وہاں کے لوگ اس نوجوان، سفید، گورے بالوں والے، نیلی آنکھوں والے امریکی کو دیکھ پاتے جو مسلمان ہو گیا ہے! وہاں کے لوگوں کے لیے آپ کو دیکھنا ایسا ہوگا گویا فرشتوں کو بادلوں سے اترتے ہوئے دیکھنا۔”
ان میں سے کچھ باتیں ’ایون اینجلز آسک‘ میں بیان کی جاچکی ہیں، لیکن یہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس رات میری گفتگو کے بعد یو سی برکلے سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان افریقی نژاد امریکی انڈر گریجویٹ طالب علم نے بھی اسلام قبول کرنے کے بارے میں گفتگو کی تھی۔ اور جب پروگرام ختم ہوا تو سامعین نے اس کا بھی والہانہ استقبال کیا تھا، لیکن اتنا نہیں جتنا میرا کیا گیا تھا اور اس نوجوان کو ہجوم میں سے گزرنے اور دروازے سے باہر نکلنے میں بھی کوئی دقت پیش نہیں آئی تھی۔
اس وقت، میں اپنی اس سیلبرٹی حیثیت پر خوش بھی ہوا۔ لیکن اس افریقی نژاد امریکی پر کم پرجوش رد عمل اور پھر میرے رنگ، آنکھوں اور بالوں کے رنگ کے ذکر نے مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ جس برادری میں میں شامل ہوا ہوں، وہ اپنے تمام تر تنوع کے باوجود کیا نسلی تعصب سے تو متاثر نہیں۔ بائیس سال بعد بھی میں اس پر حیران ہوتا ہوں، کیوں کہ اگرچہ میں نے ایسے طرز عمل کا مشاہدہ کیا ہے جسے نسل پرستانہ سمجھا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کی دیگر معقول توجیہات ممکن ہیں جو اس مفروضے کی نفی کرتی ہیں۔ اختصار کی خاطر میں اس مسئلے پر صرف اسی لیے غور کروں گا کہ اس کا تعلق افریقی امریکی (سیاہ فام) مسلمانوں سے ہے۔
مسلمان یقینی طور پر سیاہ فام امریکی کے بجائے ایک سفید فام امریکی کے اسلام لانے پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے اکثر بتایا گیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی نژاد نو مسلم اب بھی معاشرے میں کم یاب ہیں اور وہ نسلی طور پر اسلام کے دائمی دشمنوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کچھ مہاجر مسلمانوں اور غیر ملکی مسلمانوں نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ وہ افریقی امریکی مسلمانوں سے کسی حد تک محتاط ہیں، لیکن ان کی نسل کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس بنا پر کہ ان کا خیال ہے کہ وہ آزاد فکر تنظیم نیشن آف اسلام کے رکن ہوسکتے ہیں، جو اب سیاہ فام امریکی مسلمان کمیونٹی کے صرف ایک معمولی حصے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس سوال پر کہ ’اگر آپ کا بیٹا یا بیٹی افریقی نژاد امریکی مسلمان سے شادی کرلے تو کیا آپ کو کوئی اعتراض ہو گا؟ اس کے جوابات یکساں طور پر منقسم ہیں۔ جب میں ’افریقی امریکی‘کے بجائے ’قفقازی امریکی‘ کی جگہ لیتا ہوں تو تقریباً ایک تہائی جوابات ہاں میں ہوتے ہیں۔ کچھ خاندانوں کا کہنا ہے کہ اگر ان کے بچے شریک حیات کے رنگ سے قطع نظر نسلی پس منظر سے باہر شادی کریں گے تو ان کو مایوسی ہوگی۔ لارنس (کنساس میں میری کمیونٹی) میں میں نے پایا ہے کہ وہ تین ایسے قفقازی امریکیوں کو نام سے جانتے ہیں جو باقاعدگی سے نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں، لیکن ان تین افریقی امریکیوں میں سے کسی کا نام نہیں جانتے جو پابندی سے نماز پڑھنے آتے ہیں۔
مثبت پہلو یہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد سے میں نے کبھی بھی سیاہ فام افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم کے خلاف ایک بھی نسلی گالی یا مذاق نہیں سنا۔ میں نے کبھی بھی کسی کو نسل یا قومیت کی بنیاد پر کمیونٹی سرگرمی میں حصہ لینے پرحوصلہ شکنی کرتے نہیں دیکھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ افریقی امریکیوں کی ایک بڑی تعداد مہاجر مسلمانوں کی اکثریت والے اسلامی اداروں میں قیادت کے عہدوں پر پہنچ چکی ہے اور کچھ قومی رہ نما بن گئے ہیں۔
ان پہلوؤں اور دیگر پہلوؤں کی بنا پر میری رائے یہ ہے کہ ایک طرف تو کسی بھی وجہ سے سفید فام امریکیوں کو عام طور پر امریکی اسلامی کمیونٹی میں سیاہ فام امریکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے، حالاں کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ سیاہ فام امریکی رنگت میں مسلم کمیونٹی کے معیار کے بہت قریب ہیں۔ دوسری طرف، میں نے افریقی امریکیوں کے خلاف نفرت، خوف یا عدم اعتماد کی کوئی واضح علامت نہیں دیکھی ہے۔ لہٰذا، اگر اسلامی کمیونٹی میں سیاہ فام امریکیوں کے بارے میں تعصب پایا جاتا ہے، تو یہ امریکہ میں موجود گہرے، نسلی تعصب میں ظاہر ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کے باوجود سفید فام امریکی مسلمانوں کو دی جانے والی عزت معصومانہ نہیں ہے، کیوں کہ یہ مساوات اور انصاف کے لیے افریقی امریکیوں کی جدوجہد کے بارے میں بڑی بے حسی پر مبنی رویہ ہے اور امریکہ میں اسلام کے قیام اور ترقی میں سیاہ فام امریکی مسلمانوں کی عظیم اور جرأت مندانہ خدمات کی ایک طرح سے توہین ہے۔
سول رائٹس کے دور میں لاکھوں افریقی امریکیوں نے، جو پہلے ہی اپنے رنگ کی وجہ سے معتوب تھے، مسلمان بننے کا انتخاب کیا اور ایسا کرتے ہوئے اب وہ ایک ناپسندیدہ غیر ملکی لوگ قرار پائے اور اپنی مذہبی شناخت کی وجہ سے دوہری نفرت کا شکار ہو گئے۔ اگرچہ ان میں سے زیادہ تر بھائیوں اور بہنوں نے بنیادی طور پر علیجاہ محمد کی غیر روایتی تعلیمات کو قبول کیا تھا، لیکن ان میں سے اکثریت نے اسے دریافت کرنے کے بعد دل سے مرکزی دھارے کے اسلام کا رخ کیا۔ امریکہ میں ایک مستند اسلام کی یہ تحریک یہ بے ساختہ نسل بیرون ملک مسلمانوں کی کسی بھی عملی مدد کے بغیر شروع ہوئی تھی اور اس سے بہت پہلے ہوئی تھی جب قفقازیوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا۔
مجھ سے اکثر یہ کہا جاتا رہا ہے کہ میں قفقازی اور افریقی امریکی برادری میں بہت زیادہ غیر مساوی سلوک کر رہا ہوں اور اس مسئلے کو اٹھا کر میں نسلی تقسیم کو فروغ دے رہا ہوں جسے روکنے کی میری کوشش ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ تفریق گہری نسلی نفرت پر مبنی نہیں ہے، لیکن جو نقصان ہوتا ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کے تصورات سے نہیں لگایا جا سکتا جو تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلکہ ان لوگوں کے جذبات سے لگایا جاتا ہے جو نفرت محسوس کرتے ہیں اور اسے جاری رکھنے دینا ناراضی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اکثر میں سیاہ فام امریکی بھائیوں اور بہنوں سے سن رہا ہوں کہ مسلمان مہاجر متعصب ہیں۔ نہ صرف سفید فاموں کی طرفداری کی وجہ سے، بلکہ افریقی امریکی مسلم گروپوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ان کی عدم دل چسپی کی وجہ سے بھی۔
مجھے لگتا ہے کہ مہاجر مسلمانوں کی اس عدم توجہی کا نسلی تعصب سے زیادہ ثقافت سے تعلق ہے۔ افریقی امریکی اسلامی اداروں نے بہت کم غیر ملکی اثر کے ساتھ ترقی کی ہے اور اسی وجہ سے روایتی مسلم ثقافت میں پائی جانے والی کچھ خصوصیات حاصل نہیں کی ہیں، ایسی خصوصیات جنھیں افریقی امریکی مسلمان مذہبی طور پر غیر ضروری سمجھتے تھے۔ جیسا کہ توقع تھی، ان ہی اداروں میں ایک خاص افریقی امریکی ساخت پائی جاتی ہے۔بہت سے مہاجر مسلمان بعض ثقافتی روایات پر عمل نہ کرنے اور سیاہ فام امریکی مسلمانوں کے اجتماعات میں سماجی ماحول کے غیر معروف احساس کوسیاہ فاموں کی اسلام کی پیروی میں خامیوں کے طور پر دیکھتے ہیں۔ افریقی امریکی اسلام کی قانونی حیثیت کے بارے میں یہ ہچکچاہٹ بہت سے مہاجر مسلمانوں کو افریقی امریکی مسلم کمیونٹی سے دور رکھنے کا سبب بنتی ہے۔
دو دنیاؤں کے درمیان
مسلم کارکنوں کے لیے امریکہ میں مسلمانوں کی ترقی اور مسائل کے بارے میں ٹنل وژن پیدا کرنا آسان ہے۔ حال ہی میں، میں گریٹر کنساس سٹی کی اسلامک سوسائٹی کے ایک رہ نما سے بات کر رہا تھا، جو میرے قریبی دوست بھی ہیں–ISGKC کی دوسری نسل کے مسلم نوجوانوں کو مسجد کی طرف راغب کرنے میں کام یابی کے بارے میں۔ میں پہلے تو نتائج سے متاثر ہوا: اس وقت تقریباً بیس نوجوان خواتین اور دس نوجوان مرد ہیں جو باقاعدگی سے نماز جمعہ میں شرکت کرتے ہیں اور کمیونٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ جمعہ کی نماز میں اوسط حاضری کیا ہے؟ انھوں نے تقریباً 350 مردوں اور 250 خواتین کا تخمینہ لگایا، جس پر ہم دونوں نے اتفاق کیا کہ وہ تقریباً 400 خاندانوں کی نمائندگی کریں گے۔ چوں کہ ایک اوسط امریکی مسلمان خاندان کے تین سے زیادہ بچے ہوتے ہیں، لہذا ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ تقریباً دوسری نسل کے 1200مسلم نوجوان ایسے ہوں گے جن کے والدین میں سے کم از کم ایک باقاعدگی سے آئی ایس جی کے سی کی مسجد میں حاضر ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، مسجد سے جڑے خاندانوں میں سے صرف 2.5 فیصد بچے مسجد میں آتے ہیں۔ لہٰذا جو چیز پہلے آئی ایس جی کے سی میں دوسری نسل کی شمولیت کا ایک امید افزا اشارہ معلوم ہوتی تھی، قریب سے جائزہ لینے پر یہ نوجوانوں کی بے حسی کی واضح علامت ثابت ہوئی۔ جب ہم اس علاقے کے ان مسلم خاندانوں کو شامل کرلیتے ہیں جو مسجد سے جڑے نہیں ہیں تو صورت حال مزید خراب دکھائی دیتی ہے۔ کینساس سٹی کے علاقے میں مسلمان آبادی اور عید کی تقریبات میں شرکت کے تخمینے کی بنیاد پر، میرے دوست اور میں نے اندازہ لگایا کہ آئی ایس جی کے سی علاقے میں رہنے والے تقریباً بیس فیصد مسلم خاندانوں میں ایک ایک رکن باقاعدگی سے جمعہ کی نماز میں شرکت کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسجد کے آس پاس رہنے والی دوسری نسل کے صرف نصف فیصد (200 میں سے ایک) لوگ اس مسجد میں آتے ہیں۔
جو نوجوان مسلمان مجھ سے رابطہ کرتے ہیں وہ اسلام کے بارے میں لاپروا نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مذہبی، مسجد وں سے وابستہ خاندانوں سے ہے جن کے لیے اسلام ان کی زندگی کا محور ہے، لیکن جب تک وہ میرے پاس پہنچتے ہیں، وہ یقین جو ان کے اندر بچپن میں تھا اور وہ تحفظ اور سکون جو کبھی انھیں فراہم تھا، ختم ہونا شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپنا ایمان کھونے سے ڈرتے ہیں۔ زیادہ تر ان سوالات اور شکوک و شبہات سے راحت چاہتے ہیں جو ان کو کھائے جاتے ہیں۔ میں اکثر اس کام کے لیے خود کو لائق نہیں سمجھتا اور دوسروں سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیتا ہوں جو مجھے لگتا ہے کہ بہتر اہل ہیں۔ کبھی کبھی میں ان کے پیغامات کو کئی ہفتوں تک اپنے ان باکس میں چھوڑ دیتا ہوں، جب کہ میں اس بات پر غور کرتا ہوں کہ کس طرح انھیں اچھا جواب دینا ہے۔ کئی بار مجھے لگتا ہے کہ ان نوجوان بالغوں کو اتنے جوابات کی ضرورت نہیں ہے جتنی وہ کسی کو سننے کے لیے کرتے ہیں اور انھیں یقین دلاتے ہیں کہ شک کرنا ٹھیک ہے۔ بعض اوقات مجھے لگتا ہے کہ ایمان میں محفوظ سمجھے جانے والے شخص کا ایک سادہ سا لفظ “ مجھے نہیں معلوم” ایک لگے بندھے’جواب ‘سے زیادہ تسلی بخش ہے جو واقعی سوال کے پیچھے موجود تمام خدشات پر بات نہیں کرتا ہے۔
بنیادی طور پر ثقافتی تصور کیے جانے والے بعض افعال سے دور رہنے کے علاوہ، نوجوان اکثر مسجد اور مرکزی دھارے کی ثقافتوں کے درمیان فکری تقسیم میں پھنس جانے کا ذکر کرتے ہیں۔ اگرچہ مسجد کلچر روایت پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتاہے، تاہم آس پاس کا معاشرہ جدت طرازی کی تعریف کرتا ہے۔ مسجد کلچر کمیونٹی کے اصولوں کی سختی سے تعمیل پر زور دیتا ہے؛ جب کہ آس پاس کی سوسائٹی انفرادیت پر زور دیتی ہے۔ مسجد کلچر ابدی اور ناقابل تبدیل ہونے کی قدر کرتا ہے۔ بیرونی کلچر اضافیت اور توافق کا درس دیتا ہے۔ مسجد کلچر اسلاف کے فیصلوں پر عمل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ مرکزی دھارے کا کلچر ماضی اور حال میں علمی تحقیقات اور معروضی تنقید کی توقع کرتا ہے۔ مسجد کلچر آزادی اظہار اور سوچ کو کافی حد تک محدود کرتا ہے جب کہ آس پاس کا کلچر ان کی حفاظت کے لیے پوری تگ و دو کرتا ہے۔
امریکی یہ توقع نہیں رکھتے کہ مذہب میں معاشرے کی طرح گفتگو اور فکر کے معیارات ہوں، جو جزوی طور پر چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا جواز ہے، لیکن بہت سے مسلمان امریکی نوجوانوں کے لیے یہ مسئلہ ہے۔ یہ مسجد اور مرکزی دھارے کی ثنویت کی سوچ کے درمیان بظاہر تضاد ہے جس کی وجہ سے بہت سے امریکی مسلم نوجوان اسلامی کمیونٹی کی گفتگو میں دل چسپی نہیں رکھتے اور غیر فعال ہیں۔ اربابِ مسجد کے لیے مسلم نوجوانوں کے اپروچ اور نقطہ نظر کو برداشت کرنا بھی مشکل ہے جو مسلمہ عقائد اور طریقوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ جب دوسری نسل اس روایت کو چیلنج کرتی ہے تو وہ ایسا امریکی انداز میں کرتی ہے، جسے اربابِ مسجد “ غیر اسلامی” اور قابل قبول مسلم فکر کی حدود سے باہر سمجھتی ہے۔ اس کے بعد ہم جس چیز کا سامنا کرتے ہیں وہ نسل اور ثقافت کے مابین بظاہر ایک ناقابل مصالحت فرق ہے، جہاں ہر فریق دوسرے کی سوچ اور نقطہ نظر کو اپنی جگہ سے باہر قرار دے کر مسترد کر دیتا ہے۔ اس صورت حال کو ایک پرانی فلم ’کول ہینڈ لیوک ‘ میں وارڈن نامی کردار کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے: “ ہمارے پاس یہاں رابطے کی [ بے حد سنگین] ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔”
رابطےیا ابلاغ کی یہ خلیج دوسری نسل کے مسلم نوجوانوں کے لیے اسلامی برادری کے اندر اس مشکل روایت کے بارے میں غیر یقینی صورت حال اور شکوک و شبہات کا سامنا کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتی جس کا وارث بننے اور دوسروں تک پہنچانے کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ اس پر مستزاد، کلاسیکی مسلم الہیات یا حدیث کی معتبریت یا روایتی اسلامی قانون اور عمل کی آزادی کے بارے میں ان کے اپنے تحفظات ہیں جن سے انھیں خود ہی نمٹنا ہے ہا پھر ان کے جواب کے لیے وہ کمیونٹی سے باہر دیکھیں۔ بے شمار اسلام مخالف ویب سائٹیں موجود ہیں جن تک انٹرنیٹ پر بہ آسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایسی ویب سائٹوں کو عام طور پر پروپیگنڈا مشین ماناجاتا ہے، جو پہلے سے موجود شکوک و شبہات کو مزید گہرا کرنے میں مدد کرسکتی ہیں۔ اور پھر یونیورسٹی تو ہمیشہ موجود ہے، جو ایسی نسل کی آب یاری کی جگہ ہے جس کے والدین نے کالج کی تعلیم کی ناگزیریت پر بہت زور دیا تھا۔ وہاں وہ مذہبی روایات کا مطالعہ کرنے کے جدید ترین طریقوں کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں۔ تاریخی اور متنی تنقید کے بارے میں سیکھ سکتے ہیں اور اسلامی اور مشرق وسطی کے مطالعہ کے شعبوں میں ان کے اطلاق کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ جدید تحقیقی طریقوں کے بارے میں فطری طور پر کچھ بھی مذموم نہیں ہے اور وہ اسلامی فکر کے ارتقا پر خاطر خواہ روشنی ڈال سکتے ہیں، تاہم اس وقت اسلام پر زیادہ تر کورس غیر مسلم لیکچرر پڑھاتے ہیں، اور ہرچند کہ وہ انصاف اور معروضیت پر قائم رہنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم پھر بھی، تعریف کے مطابق، وہ کم از کم کسی حد تک شکوک و شبہات کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سچائی اور معروضیت کی تلاش میں کسی بیرونی نقطہ نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے، لیکن حاملِ عقیدہ کے نقطہ نظر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خوش قسمتی سے، مزید یونیورسٹیاں اسلام پر کورس پڑھانے کے لیے مسلم فیکلٹی کو بھرتی کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود اگر ان کی یونیورسٹی کی تعلیم کچھ مسلم طلبہ کو زیادہ پراعتماد ایمان کو پروان چڑھانے میں مدد دے سکے، پھر بھی امکان ہے کہ وہ مسجد کے اندر وہی اضطراب محسوس کریں گے، شاید اس سے بھی زیادہ، کیوں کہ انھوں نے جدید تعلیمی نقطہ نظر اپنا کر اپنے مسائل کو حل کیا ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ گم گشتہ مسلمان نوجوانوں کا صرف ایک معمولی حصہ ہی اسلام پر سنجیدگی سے تحقیق کرنے میں وقت اور کوشش صرف کرے گا۔ زیادہ تر تو یہ دیکھ کر منھ موڑ لیں گے کہ مسجد کلچر ان کی طبیعت سے لگاّ نہیں کھاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اسلام ہی کو ترک کردیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خدا پر یقین رکھتے رہیں اور خود کو مسلمان ظاہر کریں، لیکن ان کا دین سے اس کے علاوہ کوئی اور رشتہ باقی نہ رہے گا اور نہ ہی ان کے طرز عمل یا سوچ میں ایسی کوئی تبدیلی واقع ہوگی جو انھیں ایک مسلم کے طور پر ممتاز کرے۔
کوئی یہ خیال کرسکتا ہے کہ اسلامی کمیونٹی سے دوسری نسل کا انخلا اس وقت امریکی مسلم اسٹیبلشمنٹ کی بنیادی تشویش ہوگی، لیکن بظاہر ایسا نہیں ہے۔ امریکی مسلمان رہ نما اور علما عام طور سے عوامی سطح پر اس مسئلے پر بات نہیں کرتے۔ دین دار مسلمان والدین جنھوں نے اپنے ہی بچوں کو دین سے دور ہوتے دیکھا ہے، شرمندگی کی وجہ سے اس حوالے سے بات نہیں کرتے۔ زیادہ تر برادریوں نے ان الگ تھلگ نوجوان مردوں اور عورتوں تک پہنچنے کے لیے کوئی حکمت عملی یا پروگرام تیار نہیں کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلم برادری ایک عظیم ارتداد کے کنارے پر کھڑی ہے۔
مسئلہ پیچیدہ ہے اور میں اس کے حل کا کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ بلکہ مجھے شبہ ہے کہ اس کا کوئی واضح حل موجود ہوگا، ایسا حل کہ اگر کمیونٹی ان پر عمل درآمد کرے تو دوسری نسل کے نوجوان مسلم فوری طور پر مسجد کا رخ کرنا شروع کردیں۔ ایک اہم مشکل دوسری نسل کے ان افراد تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ مسجد کے ارد گرد گھوم رہے ہوں اورکمیونٹی میں اپنے لیے جگہ بنانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہوں۔ ان میں سے تقریباً سبھی نے طویل عرصے سے مسجد کو چھوڑ رکھا ہے اور اسے اپنے والدین کے کلچرل بوجھ کا غیر متعلقہ حصہ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ مہاجر مسلمانوں کی یہ نسل عمر میں جیسے جیسے بڑی ہوتی ہے ان تک پہنچنے کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں۔ ایک بار جب وہ اسکول کی تعلیم مکمل کرلیں اور اکثر غیر مسلم شریک حیات کے ساتھ خاندان قائم کرنے لگیں اور اپنے کیریئر اور بچوں کی پرورش میں مصروف ہو جائیں، تو وہ عام طور پر امریکی زندگی میں مکمل طور پر جذب ہو جاتے ہیں، جو مسجد کلچر سے بہت دور ہے۔
کالج میں موجود امریکی مسلم نوجوانوں کے ساتھ رابطہ قائم کرنا کافی آسان ہے، خاص طور پر چوں کہ ملک بھر میں تقریباً ہر یونیورسٹی میں مسلم اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کی شاخیں موجود ہیں، جن کے ارکان ممکنہ طور پر کلاسوں اور کیمپس کے آس پاس مسلم نژاد امریکی طلبہ سے ملاقاتیں کرسکتے ہیں۔ تاہم یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایم ایس اے کی رکنیت زیادہ تر غیر ملکی طلبہ کی ہوتی ہے اور آس پاس کے معاشرے اور مہاجرین مسلمانوں کی مساجد کے درمیان موجود ثقافتی فرق ایم ایس اے کے زیر انتظام مساجد کے حوالے سے اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ جب میں دوسری نسل کے طلبہ سے پوچھتا ہوں کہ وہ ایم ایس اے میں شامل کیوں نہیں ہوتے یا کیمپس کی مسجد میں کیوں نہیں جاتے، تو وہ مجھے بتاتے ہیں کہ وہاں کے طالب علم “ بہت متشدد” ہیں۔ یہاں تک کہ دوسری نسل کے طالب علم جو دین دار ہیں اور دنیا بھر میں مسلم مقاصد کو فروغ دینے والی دیگر تنظیموں میں شامل ہیں، مسجد کو بہت “ قدامت پسند” یا “ روایتی” قرار دے کر چھوڑ دیتے ہیں۔ متعدد یونیورسٹیوں میں جدت طراز مسلم طلبہ نے خاص طور پر مہاجرین اور نومسلموں کی ان نسلوں کے لیے جو ایم ایس اے یا مقامی مسجد سے وابستہ نہیں ہیں، تنظیمیں اور ڈسکشن گروپ تشکیل دے کر اس صورت حال سے نمٹنے کی کوشش کی ہے۔ ان امریکی مسلم مباحثہ گروپوں کے پیچھے خیال یہ ہے کہ ان طلبہ کو ایک حوصلہ افزا ماحول فراہم کیا جائے جہاں وہ اسلام کے بارے میں مزید جان سکیں اور آزادانہ طور پر اپنے کسی بھی سوال پر گفتگو کرسکیں۔ بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اگر یہ نوجوان مسجد میں نہیں آئیں گے تو کم از کم ایک ایسی جگہ فراہم کریں جہاں وہ اپنے مذہب اور کچھ ساتھی دین دار نوجوانوں کے ساتھ رابطے میں رہ سکیں، امید ہے کہ وہ امریکی مسلم کمیونٹی کی ترقی میں اپنی کوششوں اور نقطہ نظر میں حصہ ڈالیں گے۔
پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ اگر مسلم برادری دوسری نسل کو مسجد میں شامل کرنے کی کوشش کرنے سے پہلے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے تک کا انتظار کرتی ہے تو یقینی طور پر انھیں بہت کم کام یابی ملے گی۔ اگر امریکہ میں مسلمانوں کی نسلوں میں مسجد سے وابستگی اور تعلق کا احساس پیدا کرنا ہے تو انھیں ان کے بچپن اور جوانی کے برسوں میں اجتماعی سرگرمیوں میں باقاعدگی سے حصہ دلائے جانے کی کی ضرورت ہے، کیوں کہ بیرون ملک سے آنے والے مسلمان بچوں کے برعکس، ان کے آس پاس کی ثقافت سے اسلام کو جذب کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر مسجد میں ان کا وقت زیادہ تر ان کے دل پر ناگوار ہو تو یہ نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، جس سے ان نوجوانوں کو پہلے ہی موقع پر کمیونٹی کو چھوڑنے کی اور بھی بڑی وجہ مل سکتی ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ مسجد کی فضا ایک خاندان کی طرح دوستانہ ہو، جہاں مسلم والدین اور بچے خاندانوں کی حیثیت سے مل کر اجتماعی تقریبات میں حصہ لے سکیں۔ اس وقت امریکہ کی زیادہ تر مساجد میں ایسی فضا نہیں ہے۔
میں کچھ سال پہلے اپنی بیٹیوں اور اپنے پڑوسی کی چھوٹی بچی کو اسکول لے جا رہا تھا، جب ان کی دوست نے سابق اتوار کو چرچ میں اپنے تجربے کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔ اس نے بڑی خوشی سے بتایا کہ کس طرح وہ، اس کی ماں اور والد گرجا گھر میں ایک ساتھ بیٹھتے تھے، خطبہ سنتے تھے، نغمے گاتے تھے اور ایک ساتھ دعا کرتے تھے۔ اس نے کہا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہر ہفتے گرجا گھر جانے کے لیے بہت پرجوش رہتی تھی۔ ایک موقع پر اس نے معصومیت سے میری بیٹیوں سے پوچھا کہ وہ کس گرجا گھر جاتی ہیں۔ میری سب سے بڑی بیٹی جمیلہ، جو اس وقت سات یا آٹھ سال کی تھی، نے جواب دیا، “ میرے والد مسجد جاتے ہیں۔” اس جواب کے بعد خاموشی چھا گئی۔ اس کے بعد ان کی دوست نے پوچھا، “ کیا آپ کے والد اور والدہ مختلف مذاہب رکھتے ہیں؟”
میں اس وقت تک تقریباً ہر رات اپنی بیٹیوں کو مسجد لے جاتا تھا اور اگرچہ وہ وہاں موجود واحد خواتین ہوتی تھیں، لیکن میں نے فرض کرلیا تھا کہ انھیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ مسجد ان کی بھی اتنی ہی عبادت گاہ ہے جتنی کہ میری ہے۔ لیکن کسی نہ کسی طرح، وہ خود ہی مسجد کو بنیادی طور پر مردوں کی جگہ ماننے لگیں۔ جب میں نے بعد میں ان سے پوچھا کہ انھیں یہ خیال کیسے آیا، تو انھوں نے کہا کہ وہ صرف یہ بتا سکتی ہیں کہ حقیقت یہی ہے۔ جب میں نے ان سے وضاحت طلب کی تو انھوں نے بتایا کہ مسلمان خواتین تقریباً کبھی مسجد نہیں جاتی ہیں اور جب وہ جاتی ہیں تو انھیں نماز کے مرکزی حصے سے دور رہ کر نماز پڑھنی پڑتی ہے۔
میری بیٹیاں جیسے جیسے بڑی ہوتی جاتیں، وہ میرے ساتھ مسجد میں کم جانا چاہتی تھیں۔ وہ محسوس کرنے لگیں کہ بہت سے مردوں کو ان کی وہاں موجودگی پسند نہیں تھی اور وہ اوپر کی منزل پر “ خواتین کے حصے” میں اکیلے نماز پڑھنے میں بے چینی محسوس کر تی تھیں۔ جب وہ جونیئر ہائی اسکول میں داخل ہوئیں، تو انھوں نے نماز کے لیے میرے ساتھ جانا بند کر دیا۔ آج وہ مقامی مسجد کلچر کو “ مضحکہ خیز” ، “ فرسودہ” اور “ عجیب” قرار دے کر مسترد کرتی ہیں۔ میں نے حال ہی میں اپنی دو بڑی بیٹیوں سے پوچھا کہ کیا وہ بڑی ہونے پر یا کسی دن بچے پیدا ہونے پر مسجد میں زیادہ شامل ہونے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ اس وقت تک نہیں جب تک کہ اس کے رسم و رواج اور ماحول میں ڈرامائی طور پر کوئی تبدیلی نہ آجائے اور اس کا ماحول دوستانہ نہ بن جائے۔ بہت سے امریکی مسلمان والدین مجھے بتاتے ہیں کہ ان کے بچے، لڑکے اور لڑکیاں، ایک جیسے رویے رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں اور بیٹے کہتے ہیں کہ وہ “ مسجد سے نفرت کرتے ہیں” اور انھیں وہاں جانے میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔
جہاں تک امریکہ میں اسلام کے مستقبل کا تعلق ہے تو یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ اگر مسجد دوستانہ ادارے کے بجائے بنیادی طور پر مردوں کی جگہ کی حیثیت رکھتی ہے، تو مسلم برادری کو توقع کرنی چاہیے کہ دوسری اور آئندہ نسل کے مسلم نوجوان مسجد سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ صورت حال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مسجد¬سے منسلک مسلمانوں کو احتیاط سے اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آیا اسلام اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اسی طرح قائم رہے۔اگر واقعی ایسا ہے تو پھر مسجد کی حیثیت کو برقرار رکھنا ہوگا، اس سے قطع نظر کہ امریکی مسلمانوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم اگر دین کے اندر مسجد کو خاندان دوست بنانے کی گنجائش موجود ہو اور اس سے اجتناب کیا جائے تو اربابِ مسجد کو لاکھوں ممکنہ مسلمانوں کو دین سے بے زار کرنے کی ذمہ داری قبول کرنی ہوگی۔
یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1980 اور 1990 کے دوران میں مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام اور مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں متعدد مرتبہ حاضر ہوا۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ نماز کے وقت تک وہاں پر فیملیاں مخلوط صحبت میں بیٹھی رہتی تھیں۔ اسلام میں ان دو مقدس ترین عبادت گاہوں میں یہ روایت قدیم دور سے باقی ہے۔
امریکہ کے مسلمانوں کو بھی بہت فائدہ ہوگا اگر مسجد اس کمیونٹی کا فکری مرکز بن جائے جیسا کہ ابتدائی اسلامی تاریخ میں تھا–جہاں مسلمانوں، خاص طور پر نوجوانوں کو بلا خوفِ تردید و ملامت دین کے بارے میں سوالات اٹھانے، تبادلہ خیال کرنے اور بحث و مباحثہ کی ترغیب دی جائے۔ مسجد کو نوجوانوں کے مباحثے کے گروپوں کی تشکیل کی حمایت کرنی چاہیے اور نوجوانوں کو کمیونٹی فورموں پر اپنے خدشات کا اظہار کرنے کا وافر موقع فراہم کرنا چاہیے۔ مسجد انتظامیہ میں دوسری نسل کے نوجوان مسلمانوں کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔ ان اقدامات سے مہاجرین اور دوسری نسلوں کے درمیان تفہیم اور ابلاغ کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اسے دوسری نسل کے نوجوانوں کو کمیونٹی سے طریقوں اور روایات سے واقف بھی کرانا چاہیے۔ یقیناً، اس سب کے لیے اظہار رائے کی آزادی اور اس سے کہیں زیادہ اختلاف رائے کے لیے احترام کی ضرورت ہوگی جتنا کہ اس وقت بیشتر دیگر برادریوں میں موجود ہے۔
امریکی مسلم کمیونٹی میں اسلام کے مقامی، مساجد سے منسلک، تعلیمی طور پر تربیت یافتہ علما کی بھی ضرورت ہے۔ موجودہ وقت میں، کمیونٹی کے زیادہ تر دانش ور اگرچہ خوب تعلیم یافتہ ہیں، تاہم ان میں اسلامی یا مشرق وسطی کے مطالعات یا متعلقہ شعبوں میں اعلی تعلیم کا فقدان پایا جاتا ہے۔ طویل عرصے سے غیر مسلموں کے زیر تسلط تحقیق کے شعبوں میں مسلم نقطہ نظر پیش کرنے کے علاوہ، یہ ماہرین تعلیم دوسری نسل کو ان کے شکوک و شبہات اور مسائل سے نمٹنے میں مدد کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ دوسری نسل کے زیادہ تر نوجوان یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ ہیں اور انھیں سماجی اور مذہبی علوم میں تحقیق سے روشناس کرایا گیا ہے۔ وہ اپنے طرز فکر اور طریقوں اور روایات کے عادی ہو چکے ہیں۔ جب تک مسلم علما دوسری نسل سے اس انداز میں بات چیت نہیں کریں گے جو ان کے تعلیمی پس منظر سے مطابقت رکھتا ہو، تب تک ان کے لیے گم گشتہ نوجوانوں تک پہنچنے میں مشکل پیش آتی رہے گی۔ مسلمان امریکی نوجوانوں کی طرف سے مجھے موصول ہونے والے بہت سے سوالات کا تعلق مذہب اور ثقافت کی علیحدگی سے ہوتا ہے، جس میں وہ ان مسلم رواجوں اور خیالات کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اسلام کے لیے ضروری ہیں اور جو زمان و مکان کے لحاظ سے قابل تغیر اور تشریح نو کے لیے کھلے ہیں۔ تاریخ، بشریات اور مذہبی علوم میں تربیت یافتہ امریکی مسلمان اسکالر، جو کلاسیکی اسلامی علوم کے مطالعے میں مہارت رکھتے ہیں، یہاں خاص طور پر مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح قانون، معاشیات، سیاسیات اور نفسیات کے اسکالر مسلم نوجوانوں کو معاصر مسائل کے بارے میں موثر مذہبی رسپانس اور مستقبل کی سمتوں کی اپروچ تیار کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
آج امریکہ میں اسلامی علوم کے زیادہ تر مسلمان ماہرین اپنی مقامی مساجد سے دور ہیں اور مساجد بھی ایسے ماہر اسکالروں سے فاصلہ رکھتی ہیں۔ ان کی باہمی غیر ہم آہنگی افسوس ناک ہے اور اس بیماری کی ایک اور علامت ہے جو اس کمیونٹی کو لاحق ہے۔ ایک بار پھر، اگلی نسل سے امیدیں ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ کھلے پن اور رواداری کی حامل ایک ایسی کمیونٹی تشکیل دے جو دین دار مسلمانوں کی متنوع صلاحیتوں اور نقطہ نظر کو یکجا کرے۔ البتہ، اس وقت کمیونٹی ایک عجیب صورت حال میں گرفتار ہے۔ دوسری نسل کے نوجوانوں کو کمیونٹی میں لانے کے لیے مخصوص تبدیلیوں کی ضرورت ہے، لیکن فی الحال ایسا لگتا ہے کہ ان تبدیلیوں کے آنے کا تب تک کوئی امکان نہیں جب تک کہ دوسری نسل کے دین دار نوجوان کمیونٹی کے اندر فیصلہ سازی کے کردار تک نہیں پہنچ جاتے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2024