جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! جب وہ مظلوم ہو گا، تب تو میں اس کی مدد کروں گا، لیکن یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو گا، تب میں اس کی مدد کیسے کروں؟ آپ نے فرمایا: تم اسے ظلم کرنے سے منع کرو گے، یہی اس کی مدد کرنا ہے۔ (متفق علیہ)
میں بہت سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو مسجد کلچر سے پوری طرح مطمئن ہیں، جو اس کے رویوں، رسومیات اور معاشرتی رویوں کو مکمل طور پر قبول کرتے ہیں، اور شد و مد سے دفاع کرتے ہیں کہ یہی “حقیقی اسلام”ہے، تاہم ایسے لوگ زیادہ نہیں۔ میں جن امریکیوں کو جانتا ہوں ان میں سے کم از کم آدھے لوگ بالآخر مرتد ہو کر اسلام سے دست کش ہوگئے۔ ایک بڑا حصہ آج ملت سے خود کو دور محسوس کرتا ہے۔ اس باب میں بحث میں لائے گئے مقامی مسلمانوں کی چار اقسام میں سے میں نے عموماً نومسلموں کو چھوڑ دیا ہے کیوں کہ جو لوگ خود کو مسجد سے دور محسوس کرتے ہیں انھوں نے مندرجہ بالا زیادہ تر خدشات کا اظہار کیا ہے اور اس لیے یہاں ان کے تذکرے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ مسلم کلچر کی ظاہری پدرسری، قفقازی اور سیاہ فام امریکیوں کی برادری میں غیر مساوی حیثیت، مسجد اور آس پاس کے کلچر کے درمیان فکری اور سماجی تفاوت بہت سے نو مسلم امریکیوں کے لیے اضطراب کا باعث ہے۔ لہذا ہم اس باب کی تکمیل کچھ دیگر اکثر بیان کیے جانے والے تاہم غالباً کم سنگین مسائل کے تذکرے سے کریں گے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نومسلموں کی ایک بڑی تعداد عام طور پر احترام کے جذبے سے معمور ہے، لیکن آئندہ سطروں میں میری توجہ مسجد کلچر کی ان خصوصیات پر مرکوز رہے گی جن کے باعث نومسلموں کی کمیونٹی میں شرکت سے حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے۔
بہت سے نومسلموں نے نسلی اور قومی تفرقہ بازی پر شدید بے زاری کا اظہار کیا ہے جو ان کے خیال میں اسلامی کمیونٹی کو متاثر کر رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے ہی نشان دہی کی جا چکی ہے کہ سفید فام امریکیوں کو اسلام قبول کرنے والے سیاہ فام امریکیوں پر ترجیح دیا جانا، اگرچہ ناقابل قبول اور تفرقہ انگیز ہے، تاہم ایسا نسل پر مبنی نفرت کے بجائے یورپی استعمار کے مظاہر، مغربی تہذیب کے موجودہ غلبے اور ملت اسلامیہ کے بارے میں غلط تصورات کی وجہ سے ہے، لیکن نسلی اور قومی تعصب کی بہت سی دوسری لہریں بھی ہیں جو امریکہ میں مسلمانوں کو تقسیم کرتی ہیں۔ نومسلم بین نسلی اور بین قومی اختلافات کا ذکر کرتے ہیں جو بعض اوقات ان کی برادریوں میں سامنے آتے ہیں، نسلی گالیاں جو وہ سنتے ہیں، اور بڑے شہروں میں موجود نسلی مساجد اور ان کے درمیان تعاون کا فقدان اور اکثر تنازعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمانوں کا “بھائی چارہ”جس کا بہت ذکر کیا جاتا ہے سطحی نوعیت کا ہے۔ اس کے باوجود ثقافتی طور پر اتنی متنوع آبادی میں اگر اس طرح کا کوئی تناؤ نہ ہو تو یہ تعجب کی بات ہوگی، لیکن چوں کہ مذہب کی بنیاد اخوت پر رکھی گئی ہے، لہذا تفرقے والی کوئی معمولی سی بات بھی بے حد نمایاں محسوس ہوسکتی ہے۔ یہ بعض نومسلموں کے لیے مایوس کن ہوسکتا ہے جو مثالی طور پر توقع رکھتے ہیں کہ بیشتر مسلمان اسلام کی اخوت کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں گے، البتہ یہ ضرور ہے کہ مستقبل کے لیے امید افزا اشارے موجود ہیں۔ تارکین وطن یہاں جتنے لمبے عرصے تک رہتے ہیں، اتنا ہی وہ دوسرے پس منظر کے مسلمانوں کا احترام کرتے اور ان کے ساتھ تعلقات استوار رکھتے ہیں اور دوسری جنریشن کے درمیان نسلی تعصب، جو رواداری اور تنوع کو قبول کرنے کا درس دینے والے معاشرے میں پروان چڑھتا ہے، وہ کم ہوتا جاتا ہے۔
ایک اور مسئلہ جو خود بخود حل ہوسکتا ہے—خاص طور پر کمیونٹی میں امریکی نژاد مسلمانوں کی شرکت بڑھنے پر—وہ شناخت کے بحران کا ہے جس سے بہت سے نومسلم گزر رہے ہیں۔ نومسلم فطری طور پر تجربہ کار مسلمانوں پر بھروسا کرتے ہیں کہ وہ انھیں دین سکھائیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال وہ تقریباً ہمیشہ غیر امریکی نژاد اور تارکین وطن مسلمانوں سے دین سیکھ رہے ہیں۔ تارکین وطن کا اپنے وطن میں مذہب کو اس کی ثقافتی شکلوں پر محمول کرنے کا مضبوط رجحان نومسلموں کے ذریعے ایسے رویے، اعمال و خیالات اپنانے کا باعث بن سکتا ہے جو دینی طور پر ضروری نہیں ہیں اور جو خود ان کے عام مزاج کےلیے اجنبی ہیں۔ مسجد کلچر میں قبولیت حاصل کرنے کی خواہش میں، بہت سے نومسلم کمیونٹی کے اصولوں کے مطابق خود کو بازتخلیق کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر اور عقل کو دبا دیتے ہیں۔ بہت سے نومسلم ایک طرح کے ثقافتی اور ذہنی شیزوفرینیا (mental schizophrenia) سے گزرنے کا ذکر کرتے ہیں، جس کے تحت وہ مسلمانوں کے درمیان مشرق وسطی کے لوگوں کے طرز عمل اور رویوں (سیاسی، سماجی، وغیرہ) کو قبول کرتے ہیں اور دیگر حالات میں اپنی امریکی شخصیت کی طرف لوٹتے ہیں۔[1] خوش قسمتی سے، تقریباً تمام نومسلم اس مرحلے سے بغیر کسی دیرپا نقصان کے بچ نکلتے ہیں اور بہت سے مسلم کسی نہ کسی طرح کے نفسیاتی بحران سے گزرتے ہیں۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ “ نومسلموں جیسا کسی کا ایمان نہیں ہوتا۔ “ان دنوں اسلام میں نئے آنے والوں کی تعداد جو اس بحران کا سامنا کر رہے ہیں، کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے، شاید ایسا دوسرے نومسلموں کی کونسلنگ کی وجہ سے ہے جو پہلے ہی اس دور سے گزر چکے ہیں۔
اپنے دوہرے معیار کے بارے میں خود احتسابی اور آگہی کا فقدان ایک اور بڑی شکایت ہے جو نومسلم اکثر مسلم کمیونٹی سے کرتے ہیں۔ سابق غیرمسلم کی حیثیت سے وہ ممکنہ طور پر اس کے بارے میں زیادہ حساس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمان ان تمام حقوق اور مراعات کی توقع رکھتے ہیں جو امریکہ میں مکمل شہریت کے ساتھ ملتی ہیں، لیکن کمیونٹی کے بہت سے رہ نما اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مسلمان سیاسی طور پر غالب ہوں تو کیا وہ غیرمسلموں کی مکمل شہریت کا دفاع کریں گے؟ یہ بات بھی بار بار ہدف تنقید بنتی ہے کہ یہ کمیونٹی غیر مسلموں کے ظلم و ناانصافی کی مذمت کرنے میں تو جلدی کرتی ہے لیکن خود اپنے ہم مذہبوں کی جانب سے کیے جانے والے مظالم اور صریح غلطیوں کا اعتراف کرنے یا ان کی مذمت کرنے سے ہچکچاتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کے مفتی اعظم نے بیان دیا تھا کہ “یہودی زمین کا کیچڑ، انسانیت کا ناسور اور بندروں اور سوروں کی اولاد ہیں۔”ایک ہائی پروفائل مسلم مذہبی اتھارٹی کی جانب سے اس نسل پرستانہ بیان کو امریکہ میں بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا تھا، لیکن ملک کی مسلم برادری کی طرف سے اس کی کوئی مذمت نہیں سنی گئی۔ ایک نومسلم شخص نے مجھے لکھا: “ہماری کمیونٹی میں ایڈم شاپیرو، اسٹینلے کوہن، اور ریچل کوریز [2]جیسے لوگ کہاں ہیں؟ وہ مسلمان کہاں ہیں جو غیر مسلموں کے حقوق کا دفاع کریں اور ہمارے اپنے لوگوں کی غلطیوں کی مذمت کریں؟”قرآن کے مطابق ایسے مسلمان ملنامشکل نہیں ہونا چاہیے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیر خواہ ہے لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے.(النساء: 135)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ (المائدہ: 8)
کچھ نومسلم بتاتے ہیں کہ تبدیلی مذہب کے بعد تنہائی کے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ لیکچر کے بعد سوال و جواب کے دوران سامعین میں سے ایک خاتون نے بتایا : اسلام قبول کرنے کے بعد سے میں ایک ایسے فردکی طرح محسوس کر رہی ہوں جس کی اپنی کوئی کمیونٹی نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایک طرف وہ اپنے آپ کو اس معاشرے سے الگ تھلگ محسوس کرتی ہیں جس میں وہ پلی بڑھیں اور دوسری طرف وہ مسلم کمیونٹی کے اندر بھی خود کو اجنبی پاتی ہیں۔ جب وہ اپنی مسجد میں مختلف رویوں پر سوال اٹھاتی ہیں تو وہاں بھی خود کو گویا ان سنا محسوس کرتی ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ عام طور پر نومسلم کو کمیونٹی میں اپنائیت اور انس محسوس کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے اور کیا اس کے لیے یہی بہتر ہوگا کہ وہ ان چیزوں پر سوال اٹھانا بند کردے جو اسے صحیح نہیں لگتی ہیں۔
مجھے خط لکھنے والے بہت سے لوگوں نے سماجی کلچر اور مسجد کلچر دونوں سے خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ خاندان، دوستوں اور ساتھیوں کے ساتھ تعلقات یکسر پہلے جیسے نہیں رہے اور اسلام سے ان کے طرز زندگی اور رویے میں ایسی تبدیلیاں آئی ہیں جن سےوہ مرکزی دھارے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر نومسلم یہ سمجھتے ہیں اور قبول کرتے ہیں کہ یہ ایک ایسی قیمت ہے جسے ہر حال میں ادا کرنا ہے، لیکن وہ عام طور پر ان اصولوں اور رسومیات کے سامنے سپرانداز ہونے سے ہچکچاتے ہیں جو محض مبہم طور پر اسلام سے جڑی ہوئی ہیں۔ کسی بھی نئے کلچر سے ہم آہنگ ہونے میں مشکلات پیش آتی ہیں، لیکن مسجد کے حوالے سے یہ مسئلہ اس صورت میں کم ہو سکتا ہے، جیسا کہ بار بار زور دیا گیاہے، کہ کمیونٹی اپنے آپ کو ان رسومیات سے دور کرنے کی کوشش کرے جو مذہب کے لیے غیر ضروری ہیں۔ جب تک مسجد کلچر اپنی زیادہ قابل اعتراض روایات سے وابستہ رہے گا اور جب تک نومسلموں کو ان کے ضروری ہونے پر شک رہے گا، وہ شاید مسجد کلچر میں خود کو الگ تھلگ محسوس کرتا رہے گا۔
اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ مل کر محسوس کرنا یقینًا اچھا لگتا ہے، اور ان لوگوں کے لیے جنھوں نے اپنا قدیم دین اور کلچر ترک کردیا ہے اپنے نئے مذہب کی کمیونٹی میں حمایت کی پناہ گاہ پانا کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں۔ لیکن ایمان کی آزمائش ہوتی ہے۔ بہت سے نومسلموں کو تنہائی کا احساس ہونا ان کے لیے ایک تنہا رب پر توکل پیدا کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ یہ حقیقی بھائی چارے کے ایک اہم پہلو پر عمل کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے: یعنی، اپنے بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ رہنا چاہے رشتہ آسان نہ ہو۔ اس کے باوجود، نومسلموں کو ان چیزوں کو چیلنج کرنا بند نہیں کرنا چاہیے جن کے بارے میں انھیں شبہ ہے کہ وہ متضاد رویے اور نظریات ہیں۔ وہ ناقدانہ نظر جس کی وجہ سے وہ اپنے سابقہ مذہب پر سوال اٹھاتے تھے اور جو ان کے دائرہ اسلام میں آنے کا باعث ہوئی، اسلام قبول کرلینے کے بعد اسے ترک نہیں کرناچاہیے۔ بصورت دیگر، وہ ایک غلط کام کو ترک کرنے کے بعد دوسرے میں بہ آسانی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ مزید برآں، نومسلموں کو مثالی طور پر مذہب کو صدیوں کے بوجھ سے نجات دلانے میں مدد کرنے کے لیے تیار کیا جاناہے–ایک ایسا منصوبہ جسے بیشتر مسلم مفکرین انتہائی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں–کیوں کہ وہ خارجی نقطہ نظر کو داخلی ایمانی بصیرت سے جوڑتے ہیں؛ تاہم اگر وہ علمی محاسبے سے کام نہیں لیں گے تو ایسا کرنے سے قاصر رہیں گے۔ ہر مسجد میں ہمیشہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ہر رسم اور روایت کو من و عن قبول کرنے کا رجحان رکھتے ہیں اور ایسا کرنے کا دباؤ بہت زیادہ ہوسکتا ہے، لیکن نومسلموں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی خود سپردگی خدائے واحد کے لیے ہے، کسی کمیونٹی کے لیے نہیں۔
اتحاد کام یابی کا ضامن ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی (اور بہن) کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (متفق علیہ)
کسی مومن کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے یہاں تک کہ اگر وہ آپس میں ملیں تو ایک دوسرے سے منھ پھیر لیں۔ ان میں سے بہتر شخص وہ ہے کہ جو سب سے پہلے کو سلام کرے۔ (بخاری، مسلم، ابوداؤد)
اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور آپس میں تقسیم نہ ہو جاؤ۔ یاد کرو اللہ کی نعمت کہ تم آپس میں دشمن تھے، اس نے تمھارے دلوں کو متحد کر دیا تاکہ اس کے فضل سے تم بھائی بن جاؤ۔ اور تم آگ کی کھائی کے دہانے پر تھے پھر اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اسی طرح اللہ تم پر اپنی آیتیں واضح کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ اور تم میں سے ایک ایسا شخص ہے جو نیکی کی طرف دعوت دیتا ہے، بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کام یاب ہوتے ہیں۔ اور ان لوگوں کی طرح مت بنو جو واضح دلائل سامنے آنے کے بعد بٹ گئے تھے۔ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے (قرآن 3: 103-106)
امریکہ میں ہونے والی اسلامی کانفرنسوں میں مسلمانوں کے وسیع تر اتحاد کی ضرورت ایسا موضوع ہے جو بار بار اٹھایا جاتا ہے، جن میں عام طور پر اس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ تارکین وطن مسلمانوں کو قومی و نسلی عصبیتوں سے اوپر اٹھ کر بھائی چارے اور باہمی تعاون میں یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ کمیونٹی میں نسلی عصبیت کے مسئلے کو کم گردانا جائے لیکن یہ مسئلہ اتنا شدید نہیں جتنا میں نے برج پورٹ، کنیکٹیکٹ میں اپنے وطن کے ماحول میں دیکھا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مختلف تارکین وطن گروہوں کے درمیان جو بھی دوری ہے وہ امریکی نژاد مسلمانوں کی مسجد کلچر سے دوری کے مسئلے کے مقابلے میں بہت معمولی ہے۔
مسلمانوں کے اتحاد کا کوئی بھی پروگرام جو غیر تارکین وطن کی اجنبیت کےمسئلے کو حل نہ کرتا ہو، امریکہ میں مسلمانوں کے مستقبل کے لیے غیر اہم ہے۔ ایک مؤثر اور بامعنی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش کرنے سے پہلے، ان مقامی امریکی نژاد مسلمانوں کے کچھ اہم احساسات کا جائزہ لینا مفید ہوگا جو مسجد سے الگ رہتے ہیں۔
امریکہ میں پلے بڑھے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ، چاہے وہ کسی بھی جنس سے تعلق رکھتے ہوں، مسجد کلچر میں خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا ہے، جسے بہت سے لوگ انتہائی توہین آمیز سمجھتے ہیں۔ خواتین کو الگ تھلگ رکھنے کا عمل خاص طور پر تکلیف دہ ہے۔ دیگر عام شکایات یہ ہیں کہ خواتین کو باجماعت نماز میں شرکت سے روکا جاتا ہے، معاشرے میں ان کی کوئی خود مختار آواز نہیں ہے، انھیں قیادت کے عہدوں سے محروم رکھا جاتا ہے، اور بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹو کمیٹیوں میں عہدوں پر آنے نہیں دیا جاتا۔ نو مسلم خواتین بتاتی ہیں کہ ان کی مذہبی کمینوٹیوں میں ان کی قدر و منزلت نہیں کی جاتی، انھیں حاشیے پر ڈالا جاتا ہے اور بعض اوقات اہانت آمیز رویہ روا رکھا جاتا ہے۔ بہت سی بہنیں احتجاج کرتی ہیں کہ ان کے ساتھ مسجد میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے حالاں کہ وہ اپنے ہی ملک میں ہیں۔
دوسری جنریشن کے ایک بڑے حصے کے لیے مسجد اور مرکزی دھارے کی فکر کے درمیان واضح تفاوت ایک اور بنیادی مسئلہ ہے۔ بہت سے لوگ مسلم کمیونٹی کو انتہا پسند روایت پسندی، کورانہ تقلید (conformism) اور مطلق العنانی پر زور دینے اور گفتار و افکار کو شدید طور پر محدود کرنے کے ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بڑے معاشرے کو عقلیت پسندی، انفرادیت، جدت طرازی، ناقدانہ سوچ اور آزادی اظہار کا پرجوش دفاع کرنے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ دوسری جنریشن کے زیادہ تر اہم سوالات پر مسجد میں گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے نوجوان حدیث کی کلاسیکی جرح و تعدیل کی افادیت پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ روایتی مسلم تھیالوجی، کم از کم جیسی مسجد میں پیش کی جاتی ہے، ان مذہبی تضادات کو حل کرنے میں ناکام ہے جو مغربی فکر کا مرکز ہیں اور جن کا وہ اکثر غیر مسلموں کے ساتھ بات چیت میں سامنا کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کے یہاں اسلامی قانون پر اعتماد کی کمی ہے اور وہ اس کی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جدید تحقیقی طریقوں کو شامل کرتے ہوئے وہ کلاسیکی اسلامی مضامین کے احیا کا اس بنیاد پر مطالبہ کرتے ہیں کہ کوئی بھی سائنس اسلاف کے نتائج پر بلا سوال اٹھائے بھروسا نہیں کر سکتی۔ مساجد کے ادارے مجموعی طور پر ان خطوط پر کسی بھی تجویز کی مخالفت کرتے ہیں۔ کمیونی کیشن کی یہ سنگین ناکامی تب اور بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے جب مسجد کلچر اس بات سے سرے سے انکار کرتا ہے کہ دوسری جنریشن کا کمیونٹی سے بڑے پیمانے پر انخلا کسی تشویش کا سبب ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکی مسلم کمیونٹی کا وہ طبقہ جو الگ تھلگ ہونے والے مسلم نوجوانوں اور نومسلموں تک پہنچنے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے اور اس سمت میں کچھ پیش رفت کرتا دکھائی دیتا ہے، باقی کمیونٹی نے اسے بڑی حد تک نظر انداز کر رکھاہے۔ اگرچہ اپنے سیاہ فام امریکی بھائیوں اور بہنوں سے تارکین وطن کے اجتناب کی وجوہات اور سفید فام امریکی مسلمانوں کے بارے میں ان کی جانب داری کا تعلق حقیقی نسل پرستی سے زیادہ کلچرل عوامل سے ہوسکتا ہے، لیکن اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ بالآخر کمیونٹی میں حقیقی نسلی تناؤ پیدا کرسکتا ہے۔ چوں کہ زیادہ تر سیاہ فام امریکی مساجد مقامی ادارے ہیں، ان میں سے زیادہ تر میں صرف ان روایتی مسلم عقائد اور طور طریقوں کو قبول کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جو مذہب کے ذریعے ثابت کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح یہاں ایک بار پھر افریقی امریکی برادری نے مذہب کو کلچر سے الگ کرنے کی جستجو میں پیش قدمی کی ہے اور اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ بہت سے غیر سیاہ فام نومسلم اور مسلمان تارکین وطن کے بہت سے بچے افریقی امریکی مساجد میں زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں۔
درج بالا خدشات صرف مقامی مسلمانوں کے کسی ایک ذیلی گروپ سے تعلق نہیں رکھتے، اگرچہ بعض دوسروں کے مقابلے میں ان کا زیادہ شدت سے تجربہ کرتے ہیں، اور بہت سارے تارکین وطن بھی یہی احساسات رکھتے ہیں، خاص طور پر وہ جو کچھ عرصے سے امریکہ میں رہ رہے ہیں۔ تاہم، دو پریشان کن تجربات ایسے ہیں جو اب تک صرف نومسلموں نے مجھے بتائے ہیں۔ پہلا تجربہ وہ چیز ہے جسے ایک فون کال میں ایک نومسلم نے”پوسٹر بوائے (یا گرل) سنڈروم”کہا۔ اس میں مسلم کمیونٹی میں قبولیت حاصل کرنے کی خواہش کی وجہ سے نومسلم کمیونٹی کی توقعات کے مطابق خود کو دوبارہ تخلیق کرنا ضروری سمجھتے ہیں، ان ثقافتی طور پر مسلمہ رویوں اور طور طریقوں کو اپناتے ہیں جو ان کی پرورش اور سابقہ شخصیت کے لیے اجنبی ہیں اور صرف اسلام سے کسی طرح جوڑ دیے گئے ہیں۔ اس “ذات کے نقصان”کا احساس اکثر آخر کار ارتداد کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے[3]۔ ایک اور دشواری جو بہت سے نومسلموں کو درپیش ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ شاید اب کسی بھی کمیونٹی سے تعلق نہیں رکھتے، جہاں وہ خود کو سماجی مرکزی دھارے سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں اور پھر بھی مسلم کمیونٹی میں مکمل طور پر قبول نہیں کیے جاتے، اکثر اس وجہ سے کہ وہ یہ قبول کرنے سے قاصر رہتے ہیں کہ کچھ گہری مسلم روایات حقیقت میں “اسلامی”ہیں۔ واضح طور پر، یہ دونوں شرائط ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ مشکوک مسلم “ایمانیات”اور “رسو میات”کے سامنے بے سوچے سمجھے سپرانداز ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جب کہ دوسرا مسئلہ ایسا کرنے سے انکار کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ پہلے مسئلے سے بچا جا سکتا ہے اور دوسرے کو کسی حد تک اعتدال میں رکھا جا سکتا ہے، اگر نومسلم مسلسل یہ حقیقت ذہن میں تازہ رکھے کہ اسلام صرف خدا کے سامنے خود سپردگی کا تقاضا کرتا ہے، بھلے ہی اس کی وجہ سے مقامی مسلم اسٹیبلشمنٹ سے اس کا اختلاف ہوجائے۔(جاری)
[1]اس موضوع پر ميںنے ’ايون اينجلز آسک ‘( Even Angels Ask) ميں تفصيل سے روشني ڈالي ہے، ص 191-212
[2]يہ تينوں سرکردہ شخصيات فلسطيني حقوق کي مويد ہيں اور اسرائيل کي غاصبانہ و مجرمانہ کارروائيوں کے خلاف سرگرم ہيں۔
[3]اس موضوع پر، ميں اس کتاب کے مطالعے کي سفارش کرتا ہوں : جے لن جونز، Believing as Ourselves، امانا پبلي کيشنز، بيلٹسويل، 2002
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024